ابتداء تخلیق کی توجیحات
"کیا یہ بغیر کسی چیز کے از خود پیدا ہوگئے ہیں ؟ یا کیا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں ؟ یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کردیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین کرنے والے نہیں ہیں"
.
سورہ الطور کی مندرجہ بالا آیات میں اللہ پاک انسان کو تخلیق کے عمل کے آغاز پر غور کرنے کی دعوت فکر دے رہے ہیں. اگر کوئی بھی شے وجود رکھتی ہے تو اس کے نقطہ آغاز کو سمجھنے کے لئے چار توجیہات پیش کی جاسکتی ہیں:
.
پہلی یہ کہ وہ شے یا انسان خود بخود کسی بھی پیش تر چیز کے بغیر وجود میں آگیا ہو. یہ ظاھر ہے کہ ناممکن ہے. ہم جانتے ہیں کہ 'کچھ نہیں' سے 'کچھ نہیں' تخلیق ہوسکتا. کچھ تخلیق ہونے کے لئے لازم ہے کہ اس سے پہلے کچھ ہو. لہٰذا یہ توجیہہ فضول اور باطل ثابت ہوتی ہے
.
دوسری توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس شے یا اس انسان نے خود اپنے آپ کو تخلیق کرلیا ہو. یہ بات بھی سراسر احمقانہ اور تجربہ کے خلاف ہے. ہم جانتے ہیں کہ نہ تو انسان خود اپنے آپ کو اپنے ہاتھ سے بناتا ہے اور نہ ہی کائنات کی دیگر مخلوقات اپنے آپ کو ازخود ڈیزائن کرتی ہیں. ہر معلول کو ایک پیشتر اور بیرونی علت کی حاجت لازمی ہوتی ہے. چنانچہ یہ توجیہہ بھی مسمار ہوجاتی ہے
.
تیسری توجیہہ یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ کیونکہ انسان اس معلوم کائنات میں سب سے زیادہ زہین اور باشعور نظر آتا ہے لہٰذا وہ اپنے وجود کی توجیہہ نہ بھی کرسکتا ہو تب بھی بقیہ کائنات کا خالق وہ خود ہو. ظاہر ہے کہ انسان بخوبی واقف ہے کہ ان عظیم سیاروں، ستاروں، کہکشاؤں، سمندروں، پہاڑوں وغیرہ میں سے کسی کا بھی وہ خالق نہیں ہے. اسلئے ایسی غیر حقیقی وجہ کو زبان پر لانا بھی اس کے لئے ناممکنات میں سے ہے
.
جب یہ تینوں توجیہات عقلی، عملی، علمی، تجرباتی اور ہر دوسرے ممکنہ زاویئے سے فاسد قرار پاتی ہیں تو صرف ایک اور توجیہ باقی بچتی ہے جو سب سے زیادہ قرین قیاس ہے اور جسے تسلیم کرنے میں انسانی فہم حق بجانب ہے. وہ چوتھی اور آخری توجیہہ یہ ہے کہ انسان اور اس پر ہیبت کائنات کی تخلیق کے پیچھے 'کوئی' ہے جو خود تخلیق ہونے سے آزاد ہے. جو زمان و مکان کی پابندیوں سے مارواء ہے، جس کے بارے میں انسانی علم نہایت محدود ہے. مگر جس کا ہونا اس کائنات کے ہونے اور ہمارے اپنے وجود کے ہونے سے صریح طور پر ثابت ہے. اتنے صاف صاف قرائن ہونے کے باوجود اگر کوئی انسان اس واحد قابل قبول توجیہہ یعنی ایک 'برتر وجود' کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کا شمار ان احمقوں میں ہوگا جو علمی حقیقتوں کو بھی ماننے کیلئے دیکھنے کی شرط لگاتے ہیں اور دلیل سمجھنے پر اکتفاء نہیں کرتے
.
====عظیم نامہ=====
No comments:
Post a Comment