Sunday, 19 April 2015

حقیقی جنگ



حقیقی جنگ 




لذیذ سے لذیذ پکوان بس زبان پر باقی دو لمحوں کا چٹخارہ ہوتا ہے. ایک بار زبان سے گزر کر پیٹ میں جا پہنچے تو اسکی کیفیت ایک برتن میں پڑے سامان سے زیادہ نہیں ہوتی. کڑوی سے کڑوی دوا بھی زبان پر بس دو لمحوں کی اذیت ہوتی ہے، ایک بار جو پیٹ میں پہنچ جائے تو کسی بے جان برتن میں پڑے سامان سے زیادہ محسوس نہیں ہوتی. اصل اہمیت ، اس خوراک یا دوا کی تاثیر میں مضمر ہوا کرتی ہے جو انسان کی صحت پر اچھے یا برے اثرات مرتب کرتی ہے. اگر انسان محض ایک عقلی وجود کا نام ہوتا جیسا کہ بعض محققین کہتے ہیں تو انسان کچھ کھانے یا نہ کھانے کا فیصلہ ہمیشہ کسی مشینی انداز میں ناپ تول کر ہی کرتا اور اس میں اسے کوئی دقت نہ پیش آتی. مگر چونکہ انسان اپنا ایک نفسی حیوانی و جذباتی وجود بھی رکھتا ہے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر جو خود شوگر کا مریض ہوتا ہے وہ بھی اکثر خود کو میٹھا کھانے سے روک نہیں پاتا. ہمارے باطن میں ان دو وجودوں کے درمیان کی مسلسل کشمکش جاری ہی رہتی ہے. ایک مستقل عدالت ہے جو ہمارے وجود میں برپا رہتی ہے. جہاں استغاثہ اپنے پیش کردہ مقدمہ کا دفاع کرتا ہے اور وکیل صفائی اس مقدمہ کا رد بیان کرتا ہے. قرانی اصطلاح میں یہ نفس امارہ اور نفس لوامہ کی جنگ ہے جو اس دار الامتحان کی حقیقی بنیاد ہے

.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment