لفظ کی اہمیت
.
لفظ لفظ رٹنے سے آگہی نہیں ملتی
آگ نام رکھنے سے روشنی نہیں ملتی
.
آدمی سے انساں تک ، پہنچو گے تو سمجھو گے
کیوں چراغ کے نیچے روشنی نہیں ملتی ؟
.
دوستو ، الفاظ خالی برتن کی مانند ہوتے ہیں .. انہیں مفہوم ہم عطا کرتے ہیں
.
لب پر آتی ہے بات دل سے حفیظ
دل میں جانے کہاں سے آتی ہے؟
.
لفظ 'کمینہ' ایک گالی شمار کیا جاتا ہے لیکن یہ گالی اسی وقت بنتا ہے جب اس کا مفہوم سننے یا بولنے والے کو معلوم ہو. اگر ایک انسان اس لفظ کے مفہوم ہی سے آشنا نہ ہو تو پھر اس لفظ کا کوئی اثر طبیعت پر محسوس نہیں ہوتا. اسی طرح ممکن ہے کہ ایک لفظ کسی زبان میں گالی ہو مگر وہی لفظ دوسری زبان میں توصیفی کلمہ کی حیثیت رکھتا ہو. چنانچہ جس مفہوم سے آپ کی سماعت آشنا ہوگی ، آپ ویسا ہی تاثر اس لفظ کا خود پر محسوس کرسکیں گے. آپ کو اکثر بداخلاق لوگ اپنے دفاع میں یہ دلیل دیتے نظر آئیں گے کہ 'سچ کڑوا ہوتا ہے' ، کاش کہ انہیں کوئی سمجھا سکے کہ کڑوا اکثر سچ نہیں ہوتا بلکہ آپ کا لہجہ اور الفاظ کا چناؤ کڑوا ہوجاتا ہے. اس کی اعلی ترین مثال رسول عربی صلی الله و الہے وسلم کی ذات مقدس ہے ، جنہوں نے ساری زندگی ببانگ دھل سچ بولا مگر کبھی کڑوا نہ بولا، جب بھی بولا میٹھا بولا.
.
لفظ تاثیر سے بنتے ہیں تلفظ سے نہیں
اہل دل آج بھی ہیں، اہل زباں سے آگے
.
یاد رکھیں کہ ہر وہ لفظ گالی شمار ہوگا جس سے مخاطب کی تحقیر و تذلیل مقصود ہو. اگر آپ ایسا کوئی بھی لفظ ادا کرتے ہیں جس کے زریعے، سننے والے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے، تو امکان ہے کہ اس پر گالی کا اطلاق ہو سکتا ہے. اگر اس تعریف کو سمجھ لیں تو معلوم ہوگا کہ گالی صرف وہ الفاظ نہیں ہیں جنہیں معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے بلکے ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں جنہیں گالی کے طور پر ہم نے خود ایجاد کیا ہے. حد یہ ہے کہ ہم نے مذہبی گالیاں بھی ایجاد کر رکھی ہیں. وہ شیعہ کھٹمل ہے، یہ سنی دشمن اہل بیت ہے .. وہ وہابی نجدی کافر ہے، یہ قبر پرست صوفی ہے .. وہ دیوبند کی گند ہیں ، یہ حلوہ خور بریلوی ہیں ... وہ ہرے طوطے ہیں، یہ یہودی ایجنٹ ہیں. ایک لمبی فہرست ہے گالیوں کی جسے ادا کر کے ہم اپنے مخاطب کی تذلیل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسا کر کے ہم دین کی خدمت کر رہے ہیں. وہ اسلام جس نے کافروں کے جھوٹے خداؤں کو بھی گالی دینے سے روکا تھا ، آج اسکے نام لیوا بڑے فخر سے اپنے کلمہ گو بھائیوں کو مذہبی گالیاں دیتے ہیں.
.
ہر ایک پر لگاتا ہے تو کفر کے فتوے
اسلام تیرے باپ کی جاگیر تو نہیں ؟
.
ایک آخری پہلو یہ بھی غور طلب ہے کہ کسی بھی لفظ کی لغوی تحقیق، اس لفظ میں مضمر کئی راز کھول دیتی ہے، مگر دھیان رہے کہ ایسی کوئی بھی لغوی تحقیق اسی وقت معتبر ہوگی جب پہلے یہ معلوم ہو کہ مذکورہ لفظ مخاطبین کے درمیان کس مفہوم میں رائج رہا ہے. دور حاضر میں کچھ محققین نے یہ روش اپنائی ہے کہ انہوں نے مخاطبین میں رائج مفہوم کو پس پشت رکھ کر قران حکیم کے الفاظ کی لغوی تحقیق شروع کردی. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان حضرات نے دین کی بنیادی اصطلاحات کے وہ وہ معنی اخذ کئے جسے سن کر اہل علم اپنا سر پیٹ لیں.
.
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
.
====عظیم نامہ====