دور کے ڈھول سہانے
"دور کے ڈھول سہانے" - یہ محاورہ اکثر آپ نے سنا ہوگا مگر جہاں یہ ضروری نہیں کہ دور کے ڈھول واقعی سہانے نکلیں، وہاں یہ بھی لازمی نہیں کہ قریب کے ڈھول دور کے ڈھول سے بہتر ہی ہوں. فکر معاش سے لے کر بہتر تعلیم تک اگر ایک انسان شدید دشواریوں کا شکار ہو تو اپنے آبائی ملک سے نکل کر کسی دوسرے ملک میں اپنی قسمت آزمانا اتنا معیوب نہیں جتنا اکثر اسے بیان کیا جاتا ہے. لیکن اپنا دیس چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانا ایک بہت بڑا قدم ہے جو بناء سوچے سمجھے اٹھاناحماقت ہے. سب سے پہلے جائزہ لیں کہ وہ کون سا ملک ہے؟ جس نے غیر ملکی محنت کشوں کیلئے دروازے کھول رکھے ہیں یعنی حکومت نے امیگریشن پالیسی نرم کررکھی ہے. کسی بھی یورپی یا غیر یورپی ملک جانے سے قبل اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کو ایسا ویزہ حاصل ہو جس میں نوکری و کاروبار کرنے پر کوئی بندش نہ ہو. پھر چاہے وہ امیگریشن ہو یا ورکنگ ویزہ. ساتھ ہی کم از کم اتنا پیسہ پاس ہو کہ تین ماہ بناء نوکری کیئے روٹی مکان چل سکے. ایک بہت بڑی بیوقوفی لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ وزٹ ویزہ پر کسی ملک جاتے ہیں اور وہاں غیرقانونی طور پر سلپ ہو جاتے ہیں. ایسا وہ یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ کچھ وقت میں ان کی زندگی سدھر جائے گی مگر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایسے افراد میں کم از کم اسی نوے فیصد لوگ برباد ہوجاتے ہیں. راقم کے نزدیک وزٹ ویزہ پر جانا یا غیر قانونی طور پر رہنے کا فیصلہ کرنا خودکشی کے مترادف ہے. ہر وقت ایسے افراد کے سر پر خوف کی تلوار لٹکتی رہتی ہے. پہلے کوئی جاب نہیں دیتا، پھر چھپ کر کوئی نہایت کم پیسوں پر دن رات سخت ترین کام کرواتا ہے. اسی طرح کچھ لوگ یہ سوچ کر وزٹ ویزہ لیتے ہیں کہ اس یورپی ملک میں اسائلم یعنی قانونی پناہ حاصل کرلیں گے. اسکے لئے وہ جھوٹا قانونی کیس تیار کرتے ہیں جس میں ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ملک میں انہیں فلاں فلاں وجہ سے جان کا خطرہ ہے. اس میں کامیابی کا تناسب محتاط اندازے کے مطابق چالیس سے پچاس فیصد ہوگا. لیکن اسے حاصل کرتے کرتے اور زندگی کو ڈگر پر لاتے لاتے کم سے کم دس بارہ سال لگ جاتے ہیں. اس دوران بہت سو کے ماں باپ اپنی اولاد کی صورت کو ترستے ہوئے اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں اور یہ اس وجہ سے جنازے تک میں نہیں جاپاتے کہ پھر اسائلم نہیں مل سکے گا. راقم کی رائے میں ایسے ویزے پر یا کیریئر بنانے پر لعنت بھیجنی چاہیئے اور اسے صرف انتہائی حقیقی مجبوری میں اختیار کرنا چاہیئے.
.
اگر آپ تعلیم کیلئے جانا چاہتے ہیں یا اپنی اولاد کو بھیجنا چاہتے ہیں تو ہمارا مشورہ ہے کہ اسے 'اے لیول' یا ' پہلی ڈگری کیلئے نہ بھیجیں. اسوقت عمر کچی ہوتی ہے اور اخلاقی طور پر بھٹکنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے. ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کیلئے جانا زیادہ مناسب ہے. گو یہ راقم کا احساس ہے کوئی حتمی اصول نہیں. اگر آپ کا تعلق متوسط طبقے سے ہے تو شائد نمائندہ یونیورسٹیوں کی فیس آپ افورڈ نہ کرسکیں. یورپی ممالک جیسے انگلینڈ میں آپ کسی بھی نسبتاً کم فیس والی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتے ہیں، اس سے آپ کا کیرئیر ان شاء اللہ کوئی خاص متاثر نہیں ہوگا. نمائندہ یونیورسٹیوں کی اہمیت اپنی جگہ مگر کسی بھی یونیورسٹی کی ڈگری آپ کے پاس ہے تو کمپنیاں آپ کو نوکری کیلئے قبول کرنے کو تیار ہونگی. چھوٹے چھوٹے کالجوں میں داخلہ لینے سے گریز کریں. بیشمار کالج ایسے ہیں جنہیں حکومت نے جعلسازی کی بنیاد پر بند کر دیا. البتہ چند ایک ایسے نمایاں کالج بھی موجود ہیں جن کی فیس یونیورسٹی سے کم ہوتی ہے مگر ان کی ڈگری کسی یونیورسٹی ہی کی جانب سے دی جاتی ہے. کون سی یونیورسٹی مناسب ہوگی؟ اور اسٹوڈنٹ ویزہ کیسے مل سکے گا؟ اسکے لئے آپ کو خود تحقیق کرنا ہوگی. گوگل بابا پر ہر معلومات میسر ہے، یونیورسٹی کو فون کرکے بھی پوچھا جاسکتا ہے. اسی طرح پورے پاکستان میں بیشمار کنسلٹنٹس بیٹھے ہوئے ہیں جو آپ کو معلومات دے سکتے ہیں. مگر دھیان رہے کہ ان میں ایک سے ایک مکار بھی موجود ہے. اگر آپ ان سے یہ بھی پوچھ لیں کہ بھیا ایف سولہ طیارہ مل سکتا ہے؟ تب بھی شائد نہ کہنے کے بجائے پوچھیں کہ کتنے چاہیے؟ اسکے باوجود بھی ان سے آپ کو قیمتی معلومات حاصل ہوسکتی ہیں. جس ملک میں آپ جا رہے ہیں وہاں کی زبان آنا ضروری ہے لہٰذا آنے سے پہلے ہی زبان سیکھنے میں خوب محنت کریں. اگر آپ کا کوئی جاننے والا پہلے سے اس ملک میں موجود ہے جہاں آپ جارہے ہیں تو اس سے مشورہ کرنا یا کوئی ممکنہ ابتدائی مدد لینا اچھی بات ہے مگر کبھی بھی اس پر تکیہ نہ کریں اور متبادل راستے سوچ کر رکھیں. لوگوں کا وقت پڑنے پر آنکھیں بدل لینا کوئی نئی بات نہیں ہے. اسی ملک کا انتخاب کریں جو آپ کو تعلیم کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دیتا ہو تاکہ آپ فیس کے پیسے ساتھ ساتھ جوڑ سکیں.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment