Saturday, 3 June 2017

کاروبار یا نوکری؟


کاروبار یا نوکری؟



ہم میں شائد ہی کوئی ایسا ہو جس کے دل میں کاروبار یعنی بزنس کرنے کی خواہش نے کبھی کروٹ نہ لی ہو. دوسرے کی ملازمت چھوڑ کر اپنا کاروبار کرنے کا آئیڈیا ہمیشہ مسحور کن محسوس ہوتا ہے. ہمیں بچپن سے اس طرح کے جملے بھی سننے کو ملتے ہیں کہ 'نوکری میں کچھ نہیں رکھا. مال بنانا ہے تو اپنا کاروبار ہی کرنا ہوگا'. یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ 'کاروبار کرنا سنت ہے.' حالانکہ ملازمت کرنا بھی سنت سے ثابت ہے. بہرحال ہمارا مقصد یہاں مذہبی بحث نہیں ہے بلکہ کچھ حقائق کو آپ کے سامنے رکھنا ہے. اسی طرح یہ مفروضہ بھی عام ہے کہ نوکری میں شدید محنت ہے جبکہ کاروبار میں آپ بادشاہ کی طرح رہتے ہیں. اگر تناسب کا جائزہ لیں تو منکشف ہوگا کہ یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے بلکہ اکثر کیسز میں کاروبار کرنے والا زیادہ کڑی محنت کرتا ہے. اسے لگے بندھے اوقات نہیں بلکہ بزنس بڑھانے کیلئے دن رات ایک کرنے ہوتے ہیں. اپنے کاروبار میں چھٹی لینا اسکے لئے ایک مشن بن جاتا ہے. 
.
 کیا آپ جانتے ہیں کہ مغربی ممالک کے اعداد و شمار کے مطابق پچاس فیصد بزنس پہلے ہی سال میں نقصان اٹھا کر فیل ہوجاتے ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ نوے سے پچانوے فیصد بزنس پانچ سالوں میں برباد ہوجاتے ہیں؟ گویا یہ امکان کہ آپ کا بزنس ایک سال بعد بھی قائم رہے گا صرف پچاس فیصد ہے اور آپ کا بزنس پانچ سال بعد بھی قائم رہے، اس کا امکان مشکل سے پانچ آٹھ فیصد ہے. دھچکہ لگا؟ یقین نہیں آرہا؟ تحقیق کرکے دیکھ لیجیئے. انٹرنیٹ پر یہ اعداد و شمار متعدد ممالک کے حوالے سے دستیاب ہیں. دھیان رہے کہ ان میں سے ہر ایک بزنس مین یہی سوچ کر اپنا بزنس کرتا ہے کہ اسکے پاس بہترین آئیڈیا اور صلاحیت موجود ہے. دھیان رہے کہ ان ممالک میں بزنس کو لاحق خطرات بھی نسبتاً کم ہیں اور کامیابی کیلئے گورنمنٹ کی سطح پر سپورٹ بھی زیادہ ہے. پاکستان میں بزنس کی کامیابی یا ناکامی کا کیا تناسب ہے؟ اس کے بارے میں حتمی رائے نہیں دی جاسکتی. جو سروے کیا گیا ہے اسمیں کامیابی کا تناسب کافی زیادہ بتایا گیا ہے مگر اس سروے کی صحت مشکوک محسوس ہوتی ہے اور وہ صرف زبانی جمع خرچ کی بنیاد پر ہے. عقلمندی یہی ہے کہ ان ممالک کے سروے کو دیکھا جائے جہاں مظبوط تحقیقی معیارات اپنائے گئے ہیں. 
 سوال یہ ہے کہ اتنا رسک دیکھ کر کیا بزنس نہ کیا جائے؟ میرا جواب ہوگا کہ ضرور کیا جائے مگر بہت احتیاط سے. راقم کی نظر میں کامیاب بزنس کیلئے عقلمندی یہ ہے کہ آپ دو میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کریں. پہلا آپشن ہے کسی کامیاب بزنس کی فرنچائز برانچ کھول لینا. کیا آپ جانتے ہیں کہ فرنچائز بزنس میں کامیابی کا تناسب پہلے سال میں نوے فیصد سے زیادہ اور پانچ سالوں میں پچاسی فیصد سے زیادہ ہے؟ پاکستان میں میک ڈونلڈ سے لے کر چکن کاٹیج تک بہت سی فرنچائزز دستیاب ہیں. اس میں کچھ زیادہ اور کچھ کم مہنگی ہیں، تحقیق آپ خود کرسکتے ہیں. اگر مناسب سرمایہ موجود ہے تو کچھ سالوں کیلئے فرنچائز خرید لیں. اسکے بعد بھلے اس چلتی ہوئی فرنچائز برانچ کو زیادہ داموں میں کسی دوسرے کو فروخت کردیں اور اسی فیلڈ میں اپنی نئی دکان کم سرمایہ سے کھول لیں. اب آپ کو مارکیٹ کے چیلنجز سے مکمل آگاہی ہوگی لہٰذا کامیابی قدم چومے گی. دوسرا آپشن یہ ہے کہ اگر فرنچائز نہیں تو کسی چلتے ہوئے بزنس/ دکان/ ریسٹورنٹ کو خرید لیں. تین سال کے اکاؤنٹس کم از کم آپ کے سامنے ہوں جس میں اس بزنس کی فروخت اور منافع درج ہوتا ہے. ایسا بزنس خریدنے میں آپ کو نئے بزنس کے مقابلے میں بیس فیصد تک زیادہ پیسہ دینا ہوگا مگر کامیاب ہونے کا امکان انتہائی قوی ہوگا. یہ بھی احسن ہے کہ خریدنے سے پہلے تین سے چھ ماہ کچھ وقت روز مالک کے ساتھ اسی بزنس میں فری گزاریں تاکہ ہر سطح کو قریب سے جان سکیں. ان دونوں آپشنز میں سے کسی ایک کو بھی اپنانے کا سرمایہ اگر آپ کے پاس نہیں ہے تو پہلے نوکری، انویسٹمنٹ یا کچھ بیچ کر سرمایہ جمع کریں پھر بزنس کا سوچیں. 
.
 ====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment