Monday, 12 June 2017

روزمرہ کے فقہی مسائل


روزمرہ کے فقہی مسائل 


تین گھونٹ میں پانی پینا اکثر صورتوں میں اچھا ہے، مستحب ہے مگر لازمی نہیں. احادیث میں دو یا تین گھونٹ میں پانی پینے کی صراحت آئی ہے. اسی طرح بوقت ضرورت تین سے زائد گھونٹ میں پانی پینا بھی جائز ہے. گو چونکہ تعداد کو وتر کرنا احسن ہے، اسلئے بہتر ہے کہ تین، پانچ یا سات گھونٹوں میں پانی ختم کرلے. اصل ترغیب سکون و اطمینان سے پانی پینے کی ہے اور اصل ممانعت دو باتوں کی ہے، پہلی ایک گھونٹ یا ایک جھٹکے میں پانی پی جانے کی کوشش کرنا اور دوسری پانی کے برتن یا گلاس میں سانس لینا. دوسری ممانعت پر تو علماء کا اتفاق ہے مگر کچھ اہل علم نے پہلی ممانعت کی بھی اجازت دے دی ہے کہ اگر پانی کم ہو اور سکون سے ایک ہی گھونٹ میں پیا جاسکتا ہو تو یہ جائز ہے. مشاہدہ ہے کہ کچھ احباب عام سائز سے بڑے لسی کے گلاس میں بھرے پانی کو بھی زبردستی تین گھونٹوں میں ختم کرنے کی سعی کرتے ہیں اور نتیجے میں سکون سے پانی نہیں پی پاتے..
 عام طریق یہی ہے کہ بیٹھ کر پانی پیا جائے، اسی کی ترغیب دینی چاہیئے مگر اگر کسی وقت بیٹھنے کا موقع نہ مل سکے یا بیٹھنا کھڑے ہونے کے مقابلے میں سکون کے منافی ہو تو کھڑے ہوکر پانی پینا جائز ہے. رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آب زم زم کھڑے ہو کر پیا. کچھ محققین صرف آب زم زم ہی کو کھڑے ہوکر پینا جائز کہتے ہیں. لیکن ہم تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک مستند روایت بھی پہنچی ہے، جس میں آپ نے کھڑے ہو کر پانی پیا اور حاضرین کو بتایا کہ انہوں نے یہ اسلئے کیا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کھڑے ہوکر پانی پی لیا کرتے تھے. حال ہی میں مولانا طارق جمیل صاحب نے وکلاء برادری سے خطاب کرتے ہوئے کھڑے ہوکرپانی پیا اور سامعین کو بتایا کہ ایسا کرنا جائز ہے. مشاہدہ ہے کہ کچھ احباب شدید اذیت میں پنجوں کے بل بیٹھ کر پانی پینے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجے میں پانی سکون سے نہیں پی پاتے.
.
 تمام مسلمانوں کی یہ تربیت ہے کہ پاکی کا خیال رکھنے کیلئے بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں. یہی عمومی سنت ہے. مگر اگر کسی خصوصی صورت میں پاکی کا کھڑے ہو کر حاصل کرنا زیادہ آسان ہو یا بیٹھ کر گندگی آنے کا زیادہ امکان ہو تو ایسے میں کھڑے ہو کر فارغ ہولینا جائز ہے. صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفقہ علیہ حدیث کے مطابق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک بار ایسا ہی کیا. اصل اہتمام گندگی سے بچنا ہے جو ظاہر ہے کہ عمومی صورتحال میں بیٹھ کر زیادہ ممکن ہے. البتہ کبھی کبھی ایسے حالات ہو جاتے ہیں جہاں بیٹھنا ممکن نہیں ہوتا جیسے شدید ضرورت میں کسی غلیظ پبلک ٹوائلٹ میں گندگی سے بچنا صرف کھڑے ہوکر ہی ممکن ہے. ظاہر ہے یہاں مخاطب مرد حضرات ہیں. 
.
 رفع حاجت سے فراغت کے بعد پانی سے طہارت حاصل کرنا احسن ہے اور اسی کا اہتمام رکھنا چاہیئے مگر یہ لازمی نہیں ہے. مثال کے طور پر آپ کسی غیر مسلم ملک میں ہیں یا کسی اور ایسی صورت میں ہیں جہاں پانی کا ٹوائلٹ میں حصول ناممکن یا مشکل ہورہا ہے اور صرف ٹائلٹ ٹشوز موجود ہیں تو ان سے بھی خود کو صاف کیا جاسکتا ہے. یہ ایسا ہی ہے جیسے لوگ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پتھر یا پاک مٹی کے ڈھیلے سے خود کو صاف کرلیا کرتے تھے. آپ اس کے بعد نماز بھی پڑھ سکتے ہیں یا دیگر عبادات بلکل عام حالات کی طرح کرسکتے ہیں. اصل حکم طہارت کا حصول ہے. اگر ایسی صورت درپیش ہو بہتر ہے کہ کم از کم تین بار ٹشوز استعمال کیئے جائیں. گو جیسا درج کیا کہ پانی کا استعمال پاکی کیلئے سب سے بہتر ہے اور ایک مسلم کی طبیعت طہارت کیلئے اسی کو پسند کرتی ہے. 
.
====عظیم نامہ====
.
 (نوٹ: یہ ایک طالبعلم کی ناقص سمجھ ہے جو اس نے احادیث صحیحہ اور علماء کی آراء پر قائم کی ہے. گو اس میں اختلاف کا امکان ہے)

No comments:

Post a Comment