نوجوان کون سا کیرئیر اختیار کریں؟
نوجوان طلباء و طالبات کو اکثر یہ مرحلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ پہلے تعلیم اور بعد میں ذریعہ معاش کیلئے کونسی فیلڈ یا سبجیکٹس کا انتخاب کریں. اس کا ایک سادہ سا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ اس فیلڈ یا ڈگری کا انتخاب کرو جس جانب تمہارا رجحان زیادہ ہے یا جس کیلئے تم اپنے آپ میں صلاحیتوں کو موجود پاتے ہو. یہ جواب اپنی اصل میں نہ صرف درست ہے بلکہ سلیم العقلی پر مبنی ہے. اگر فی الواقع کوئی اس نصیحت سے استفادہ کرسکے تو یہی بہترین ہے. مگر مسلہ یہ ہے کہ بہت سے نوجوانوں کیلئے ایسا کرنا دو بڑی وجوہات کی بناء پر ممکن نہیں ہوتا. پہلی وجہ یہ کہ کئی بار ملک عزیز میں اس فیلڈ کی ڈگری یا نوکریاں ہی موجود نہیں ہوتی جس جانب فرد کا رجحان ہو. دوسری وجہ یہ کہ بہت سے طلباء و طالبات کوشش کے باوجود بھی خود میں موجود رجحان یا صلاحیتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور بلآخر وقت کی قلت کے سبب کوئی بھی میسر آپشن بناء سوچے سمجھے اختیار کربیٹھتے ہیں. اسلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اردگرد موجود مختلف فیلڈز کا تجزیہ کرکے جانیں کہ وہ کون کون سی فیلڈز ہیں؟ جن میں نوکریاں کثرت سے موجود ہیں اور جنہیں اپنا کر ایک بہتر مستقبل کی امید کی جاسکتی ہے. ظاہر ہے کہ رازق صرف اللہ پاک کی ذات ہے اور وہ کسی کو کسی بھی فیلڈ میں ترقی کی اونچائیوں تک پہنچا سکتے ہیں. مگر اس دارالاسباب میں تدبیر کا اختیار کرنا تو بہرحال ضروری ہے. کچھ فیلڈز ایسی ہیں جن میں ڈگریاں لینے کے باوجود اکثریت یا تو بے روزگار رہتی ہے یا پھر بہت کم معاوضے پر کام کرکے گزارا کرتی ہے. مثال کے طور پر اکثر طالبعلموں کو 'ایم بی اے' کی ڈگری بہت لبھاتی ہے. اس ڈگری کا نام سنتے ہی ان کے سامنے سوٹ ٹائی میں تیار ایک کامیاب بزنس مین یا باوقار مینجر کا نقشہ ابھر آتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ 'ایم بی اے' کے ڈگری یافتہ افراد میں بے روزگاری شدید ہے. اتنا مقابلہ ہے جیسے ہر دوسرے پتھر کے نیچے سے ایک 'ایم بی اے' نکل رہا ہو. اگر آپ 'لمز' یا ' آئی بی اے' جیسے نمائندہ تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں لے سکتے تو راقم کا مشورہ یہی ہے کہ اس آپشن کو اختیار نہ کریں.
.
اسی طرح ایک مفروضہ یہ مقبول ہے کہ چارٹر اکاؤنٹینسی یعنی 'سی اے' یا پھر 'اے سی سی اے' کرنے والا زندگی میں سب سے زیادہ کامیاب رہتا ہے. اول تو یہ سچ نہیں لیکن اگر مان بھی لیں تو اکاؤنٹینسی کی ان سرٹیفکیشنز کو کرتے کرتے بہت سے طالبعلم ادھیڑ عمر ہوجاتے ہیں مگر سخت محنت کے باوجود پاس نہیں کرپاتے. سچ پوچھیئے تو سب سے زیادہ ترس مجھے ان ہی پر آتا ہے. کیا فائدہ ایسے آپشن کو اختیار کرنے کا جس میں اتنا زیادہ رسک ہو؟ اسی طرح دنیا بھر میں وکالت یعنی 'ایل ایل بی' کی ڈگری ضرور معتبر ہے مگر وطن عزیز میں جو اس کا حال ہے وہ آپ خود جاکر ملاحظہ کرسکتے ہیں. میڈیکل فیلڈ جیسے 'ایم بی بی ایس' سے لے کر 'ایچ آر' اور 'ٹیلی کمیونیکیشن' کی ڈگریوں تک بہت سے ایسے آپشن موجود ہیں جنہیں آپ اختیار کرسکتے ہیں اور جن میں بکثرت نوکریاں دستیاب ہیں. میں خود ایک 'آئی ٹی پروفیشنل' ہوں جس نے انجینئرنگ اور ماسٹرز دونوں 'انفارمیشن سسٹمز' میں کیا ہے. ابتداء میں جب اسے اختیار کیا تو کچھ خاص سوچا سمجھا نہ تھا مگر اب جو ایک زمانہ اس میں گزار لیا ہے اور اس کا دیگر فیلڈز کی نوکریوں سے تقابل کرکے دیکھ لیا ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کثرت روزگار کے حوالے سے شائد یہ سب سے بہترین آپشن ہے. پاکستان سے لے مڈل ایسٹ تک، سعودیہ سے لے کر آسٹریلیا تک اور یورپ سے لے کر امریکہ تک ہر جگہ 'آئی ٹی' کی نوکریوں کی بھرمار ہے. میرے دوست جو اس فیلڈ سے وابستہ ہیں وہ پوری دنیا میں جہاں بھی آباد ہیں برسر روزگار ہیں اور اچھا کما رہے ہیں. نوکریوں کی کثرت کی وجہ یہ ہے کہ 'آئی ٹی' خود تو ایک فیلڈ ہے ہی مگر ساتھ ہی یہ ہر فیلڈ کی سپورٹنگ فیلڈ بھی ہے. لہٰذا میڈیکل سے لے کر ریٹیل تک اور اسپیس انجینئرنگ سے لے کر پیٹرولیم تک کوئی فیلڈ ایسی نہیں ہے جس کا 'آئی ٹی' ڈیپارٹمنٹ نہ ہو. پھر آپ کی 'آئی ٹی' کا تجربہ اور تعلیم یا سرٹیفکیشن ساری دنیا یورپ و امریکہ سمیت قبول کرتی ہے۔ یہ نہیں کہ جیسے ایک ملک کے وکیل یا ڈاکٹر کو دوسرے ملک میں دھتکار دیا جاتا ہے۔ ایک اور فائدہ اس فیلڈ کا یہ ہے کہ اس کے اپنے اندر بہت سارے ضمنی آپشن موجود ہیں جیسے ڈیٹابیس، نیٹوورکنگ، پروگرامنگ، ڈیزائننگ وغیرہ. آپ کسی بھی ضمنی آپشن کو اپنے ذوق کے مطابق اختیار کرکے اسکی نمائندہ ٹیکنالوجیز میں مہارت حاصل کرکے اسکی عموما سستی انٹرنیشنل سرٹفکشنز کرلیں. ان شاء اللہ روزگار نہ صرف میسر ہوگا بلکہ جتنی جتنی مہارت اور علم میں وسعت ہوگی اتنی تنخواہ میں اضافہ ہوتا جائے گا.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment