Wednesday, 9 January 2019

ہاتھ نہیں دھوتے

ہاتھ نہیں دھوتے


ہمارے ایک شکی فلسفی دوست کا کہنا ہے کہ:
آپ سب درحقیقت اپنے ہاتھ نہیں دھوتے
بلکہ دونوں ہاتھ ایک دوسرے کو دھوتے ہیں
آپ سب تو بس کسی ٹھرکی کی مانند انہیں گھورتے رہتے ہیں

فقط دروازہ

فقط دروازہ


انسان کیلئے کسی بھی شے کا علم یا کسی بھی شخص کی محبت منزل نہیں. فقط دروازہ ہے. اور دروازے کا کام یا تو راستہ دینا ہوتا ہے یا پھر راستہ روکنا. اب یہ ہمیں خود دیکھنا ہے کہ کسی کی محبت نے ہمارا راستہ روک تو نہیں دیا؟ اس خاکی جسم کے پنجر میں جکڑی انسان کی یہ روح اپنے اس بنانے والے سے ملنے کو بیتاب ہے. مومن کی ترجیح اول، مومن کی حتمی منزل صرف خدا ہے. یہ خود سے خودی اور خودی سے خدا کا سفر ہے. کسی بھی شے کا علم اگر اس شے کے صانع تک نہیں پہنچاتا تو وہ حقیقی علم نہیں بلکہ اس شے پر انسانی نظریات کا غاصبانہ قبضہ ہے. کسی بھی مخلوق کی محبت اگر اس کے خالق تک آپ کو نہیں لے جاتی تو وہ حقیقی محبت نہیں بلکہ ایک نادیدہ حجاب ہے.
.
====عظیم نامہ====

عقل نامہ

عقل نامہ

.
عقل بلاشبہ انسان کو ملی ایک بہت بڑی نعمت ہے. مگر اس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنا تسلط چاہتی ہے. اپنے بنائے ہوئے معیارات کے تحت اپنے اطراف پر جائز یا ناجائز قبضہ کرتی ہے. یہ اپنے فکری محلات تعمیر کرتی ہے مگر جلد ان سے بور ہوجاتی ہے. پھر وہ انہیں خود مسمار کرتی ہے اور پھر دوبارہ تعمیر کرتی ہے. تعمیر و مسماری کا یہ سلسلہ رکتا نہیں بلکہ مسلسل جاری رہتا ہے. اس روش سے اس کا شعوری ارتقاء ضرور ہوتا ہے. ایک پرلطف علمی چسکا بھی اسے میسر رہتا ہے. مگر حتمیت و قطعیت تک اس کی رسائی کبھی نہیں ہوپاتی. جو کل عقلی تھا وہ آج غیر عقلی ہوگیا. جو آج عقلی ہے، بہت ممکن کے کل غیر عقلی کہلائے گا. اسکے باوجود عقل اپنی اجارہ داری چاہتی ہے مگر اس حکومت کے قیام کیلئے اسے ان حواس خمسہ پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے جو اپنی اصل میں کئی نقائص رکھتے ہیں. وہ دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے یا سونگھنے سے حقیقت کا ادراک کرنا چاہتی ہے. مگر ان حواس سے اسے جزوی ادراک ہی نصیب ہوسکتا ہے، "كُل" کو جاننے سے وہ محروم ہی رہتی ہے. اس موقع پر اسے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے. مگر عقل بھوکی مرجاتی ہے، کسی سے مدد نہیں لیتی. عقل کا ہدف چیزوں کو فتح کرنا ہے، ان پر اپنا جھنڈا لہرانا ہے. اپنے وجود کی تذکیر و تطہیر، اپنی کردار سازی اس کا مقصد نہیں. عقل مخلوق ہے مگر یہ خالق بننا چاہتی ہے. یہ اول تو کسی خالق کو ماننا نہیں چاہتی اور اگر مان بھی لے تو اپنی شرائط پر تسلیم کرتی ہے. عقل محدود ہے مگر یہ اپنے عجز اپنی حدود کو پہچاننے کے باوجود اس کا ڈھٹائی سے انکار کردیتی ہے. بلکہ وہ لامحدود کو اپنے محدود میں مقید کرنا چاہتی ہے. لہٰذا اب وہ ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے، اندازے لگاتی ہے اور اسی پر مصر رہتی ہے.
.
عقل کی اہمیت کا انکار ہرگز نہیں. عقل وہ نماندہ وصف ہے جو انسان کی بڑی پہچان ہے. بے عقلی تو بڑی شرمندگی کی بات ہے. مگر عقل کا خود پسند ہو کر اپنی حدود کا اعتراف نہ کرنا ازخود حماقت ہے. گویا عقل یہ نہیں کہ آپ سب جان لیں بلکہ عقل یہ بھی ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ آپ کیا نہیں جان سکتے؟ عقل کی سب سے بڑی خواہش خود بادشاہ بن جانا ہے. مگر اس کی حقیقی حیثیت وزیر کی ہے. جب تک عقل وزیر بن کر وحی اور فطری داعیات سے رہنمائی نہیں لے گی تب تک بینائی سے محروم رہے گی. عقل کی مثال ان آنکھوں کی سی ہے جن سے ہم سب کچھ دیکھتے ہیں. مگر اگر ایک شخص آنکھیں رکھ کر بھی بینائی سے محروم ہو تو پھر وہ دیکھ نہیں سکتا. اسی طرح اگر کوئی شخص آنکھیں اور بینائی دونوں رکھتا ہو مگر اس کے ارد گرد گھٹاٹوپ اندھیرا چھا جائے تو یہ بینائی و آنکھیں بھی اسے حقیقت نہیں دیکھا سکتی. گویا جب تک انسان کے اندر بینائی کی روشنی اور باہر ماحول کی روشنی یکجا نہ ہو تب تک اسکی آنکھوں کو "بصارت" حاصل نہیں ہو سکتی. یہ اندر کی روشنی وہ فطری داعیات ہے جو انسان کے اندر خدا نے الہام کردیئے ہیں اور باہر خارج کی روشنی درحقیقت اس وحی کا نور ہے جسے ہم تک پیغمبروں کے ذریعے منتقل کیا گیا ہے. عقل اسی وقت "بصیرت" بنے گی جب وہ ان دونوں کی چھتری تلے کام کرے. وگرنہ عقل پرستی کا یہ بت جعلی خدا بن کر آپ پر مسلط ہوجائے گا.
.
”کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمّہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سُنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گُزرے۔”
(قرآن44 ,25:43)

.
====عظیم نامہ====

سوال جواب


سوال جواب


سوال ١: رسول اللہ محبوب خدا اور وجہ تخلیق کائنات تھے۔ علم کا شہر تھے۔ ان کے پاس زیادہ علم تھا یا جبرئیل کے پاس؟

جواب: قران حکیم نے اسے موضوع ہی نہیں بنایا. نہ ہی بنانے کی ضرورت تھی. اس پر نہ ہماری آخرت کا مدار ہے اور نہ ہی دین کا کوئی حکم اس پر منحصر ہے. تخلیق کائنات قران حکیم کے بقول خلیفہ الارض اور جنات کے امتحان کیلئے برپا ہوئی جو درحقیقت اس ابدی کائنات کا فقط ضمیمہ ہے جہاں داخلہ اس عارضی کائنات کے امتحان میں کامیابی یا ناکامی کی صورت میں ہوگا.

سوال ٢: مجھے یقین ہے کہ رسول اللہ کے پاس زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ جبرئیل سے افضل تھے؟

جواب: قران حکیم میں افضلیت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے. اللہ پاک نے درجات ضرور بنائے ہیں مگر ہمیں یہ ہدایت کردی ہے کہ ہم نبیوں میں بھی فرق نہ کریں. کئی احادیث مبارکہ بھی ایسی موجود ہیں جن میں کسی ایسے تقابل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا. صحیح بخاری کی ایک حدیث کچھ یوں ہے لَا تُخَيِّرُوا بَيْنَ الْأَنْبِيَاءِ (انبیاء کو ایک دوسرے سے بہتر نہ بناؤ) یا اسی طرح صحیح بخاری کی ایک اور حدیث ہے لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى (کوئی بندہ میرے بارے میں یہ نہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں)

سوال ٣: پھر جبرئیل رسول اللہ کو کیا پڑھانے آتا تھا؟ جو ہستی مادی کائنات کی تشکیل سے پہلے وجود رکھتی تھی، کیا اسے علم نہیں دیا گیا تھا؟

جواب: جبرئیل علیہ السلام اللہ سے پیغام پاکر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتقل فرماتے اور وہ اس امت کو. یہ اللہ رب العزت پر ہے کہ وہ علم کا کون سا حصہ کسے کس وقت عطا کرے؟ علم کی بہت سی جہتیں ایسی بھی ممکن ہیں جو صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی ہوں اور جبرئیل علیہ السلام اس سے محروم ہوں. افضلیت کا پیمانہ اللہ پاک کے نزدیک کیا ہے؟ وہ وہی جانتا ہے. میرا رب ہی العلیم ہے اور وہ ہی یہ بھی بہتر جاننے والا ہے کہ کب کسے کتنا دیا جائے؟. قران حکیم کے بقول تو مادی کائنات کی تشکیل سے پہلے ہم سب ہی 'روحانی' وجود رکھتے تھے. عہد الست اسی کی روداد ہے. مگر آج ہماری جسمانی یادداشت اس کا مکمل ادراک نہیں رکھتی. صرف احساس رکھتی ہے. لہٰذا ایسی کسی بات کو دلیل بنا کر یہ استفسار عبث ہے. خاص کر تب جب قران حکیم نے خود بتادیا ہے کہ وحی کے ذرائع کیا ہیں؟

سوال 4: بعض تاریخ دانوں کے مطابق حضرت موسیٰ ساڑھے تین ہزار سال پہلے (پندرہ سو سال قبل مسیح) تشریف لائے تھے۔(جدید تاریخ داں کہتے ہیں کہ موسیٰ محض ایک کردار تھا، کوئی حقیقی شخصیت نہیں)حضرت داؤد نے ایک ہزار سال قبل مسیح اسرائیل پر حکمرانی کی۔ حضرت عیسیٰ اور رسول پاک کی حیات طیبہ کا دور ہمیں معلوم ہے۔سادہ سا سوال ہے کہ چاروں الہامی کتب فقط بائیس سو سال کے عرصے میں کیوں نازل کردی گئیں؟
یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ ارتقا کی تاریخ بیان کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہوموسیپئنز یا ماڈرن ہیومن یا موجودہ انسانی نسل کی عمر ڈیڑھ سے دو لاکھ سال کے درمیان ہے۔ مان لیتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ سال تک انسان کے پاس شعور نہیں تھا اس لیے اس کے باشعور ہونے کا انتظار کیا گیا۔لیکن انسانی شعور کو حقیقی ترقی تو گزشتہ سو سال میں ملی ہے۔پھر الہامی کتابوں کو ایک مخصوص مختصر مدت میں بھیجنے کا کوئی خاص سبب؟

جواب: گویا مسئلہ تاریخ دانوں کے متفرق اور بدلتے نتائج کا نہیں ہے. بلکہ سوال آپ کا سادہ سا اتنا ہے کہ " چاروں الہامی کتب فقط بائیس سو سال کے عرصے میں کیوں نازل کردی گئیں؟"
قران واشگاف الفاظ میں متعدد مقامات پر یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے رسول بھیجے. مثال کے طور پر سوره نحل میں کہا گیا کہ "اور ہم نے ہر قوم میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ کی ہی عبادت کرو.." یا پھر سوره ابراہیم میں ارشاد ہے کہ "اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا .." .. غور کیجیے ، اگر صرف عربی زبان یا جزیرہ العرب میں ہی رسولوں کو بھیجنا مقصود ہوتا تو کبھی یہ الفاظ نہیں کہے جاتے کہ 'اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا' . گویا یہ ان چار کتابوں کے علاوہ بھی مختلف ادوار میں مختلف اقوام کی زبان میں صحائف نازل ہوتے رہے ہیں.

قران جہاں رہتی دنیا کے لئے ہدایت ہے وہاں یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسکی براہ راست مخاطب عرب میں بسنے والی وہ اقوام ہیں جو دور نزول میں موجود تھی. لہٰذا یہ بات نہایت سادہ، عقلی اور سمجھ میں آنے والی ہے کہ قران میں صرف ان چند انبیاء کا تفصیلی ذکر ہوا ہے جن سے عرب کسی نہ کسی حوالے سے آگاہ تھے. وگرنہ قران میں کئی ایسے پیغمبروں کے نام مذکور ہیں جنکا علاقہ، قوم یا ملک نہیں بیان کیا گیا جیسے حضرت نوح علیہ السلام یا حضرت آدم علیہ السلام وغیرہ. ایک مشہور حدیث کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں بھیجے گئے، جن میں سے صرف چند کا ذکر قران میں موجود ہے. یہ سوچنا بھی سراسر حماقت ہے کہ یہ ایک لاکھ سے زائد پیغمبر صرف عرب ہی میں آتے رہے.
مسلم محققین نے ہر دور میں تحقیق کر کے مختلف مشہور اشخاص کے پیغمبر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے. مثال کے طور پر کچھ تحقیق نگاروں نے عبادات اور تعلیمات کا تقابلی جائزہ لے کر 'زرتشت' کو پیغمبر کہا ہے جو ملک ایران میں آے تھے. اسی طرح مولانا شمس نوید عثمانی نے اپنی گراں قدر تصنیف میں ہندوؤں کے ویدوں کو پرکھہ کر بہت سے علمی ثبوت فراہم کئے ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ ہندودھرم یا قوم دراصل نوح علیہ السلام کی امّت ہیں. ان کےابتدائی صحائف میں ایک عظیم شخصیت کا ذکر آتا ہے جس کا نام 'مانو' ہے ، سنسکرت کے اعتبار سے دراصل یہ نام 'مہا نوح' بنتا ہے یعنی 'عظیم نوح' ! .. یہی نہیں بلکے مہا نوح سے وابستہ ایک پورا واقعہ بھی درج ہے جو ایک عذاب والے سیلاب کے آنے اور کشتی می سوار ہونے کی پوری روداد بیان کرتا ہے. بہرحال یہ تحقیقات چونکہ قران اور تاریخ میں واضح انداز میں موجود نہیں ہیں اس لئے تحقیق کی بنیاد پر صرف علمی قیاس قایم کیا جاسکتا ہے. انہیں حتمی درجہ دینا ممکن نہیں ہے مگر یہ تحقیقات بلند آواز میں اعلان کر رہی ہیں کہ الله عزوجل نے ہر امّت میں ہدایت کے لئے اپنے نبی بھیجے. اب اس باشعور انسان کا آغاز جو انسانیت کا جوہر رکھتا ہو، اسکی عمر اس کائنات میں جتنی بھی رہی ہو. قران مجید کے مطابق ان میں پیغمبر بھیجے جاتے رہے.
.
====عظیم نامہ====

تین توجیہات جو ملحدین پر شدید گراں

   تین توجیہات جو ملحدین پر شدید گراں

دین کی جانب سے پیش کی جانے والی تین توجیہات ایسی ہیں جو ملحدین پر شدید گراں گزرتی ہیں. گفتگو کے دوران ان توجیہات کو سن کر ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ انہیں کس طرح بدل ڈالیں؟ مگر انکے لئے مصیبت یہ ہے کہ مومن ان توجیہات کو پیش کرنے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹتا. مومنین کی جانب سے پیش کردہ وہ تین توجہات درج ذیل ہیں:
.
١. پہلی توجیہہ کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے. گویا جب انہیں سمجھاتا جاتا ہے کہ اس دنیا میں موجود یا ہم پر وارد ہونے والی پریشانیاں، بیماریاں، اذیتیں، نعمتیں سب ہمارا امتحان لینے کے واسطے ہیں. یہ دیکھنے کیلئے ہیں کہ ہم نعمت یا مصیبت میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں؟ تو ملحدین اس پر خوب کروٹیں بدلتے ہیں. چاہتے ہیں کہ آپ یہ توجیہہ نہ دیں بلکہ کوئی اور وجہ ڈھونڈھ کر لائیں.
.
٢. دوسری توجیہہ کہ اصل اجر آخرت کی ابدی حیات میں ملے گا اور ہم میں سے ہر ایک اپنے ہر عمل کے بارے میں جواب دہ ہوگا. ملحد ایک لمحے کو خدا کو ماننے کیلئے تیار ہوسکتا ہے مگر کسی ایسے خدا کے تصور کو ماننے سے اسے سخت الجھن ہے جو اس سے اسکے اعمال کا حساب لے. جو سزا و جزا کیلئے جنت و جہنم میں داخل کرے. جب آپ اس دنیا میں ہونے والی زیادتی، ظلم اور بھوک کا بدلہ و انصاف جنت و جہنم سے منسلک کرکے بتاتے ہیں تو ملحدین سخت بے چین ہوتے ہیں، چاہتے ہیں کہ آپ یہ توجیہہ نہ دیں بلکہ کوئی ایسا جواب بتائیں جس سے اسی دنیا میں مکمل انصاف ہونا ثابت ہوجائے.
.
٣. تیسری توجیہہ کہ خدا ایک غیر مادی وجود ہے، جو زمان و مکان سے آزاد ہے اور جس پر اس مادی دنیا کے قوانین کا اطلاق ہرگز نہیں ہوتا. ملحدین مادی علوم بشمول سائنس کے حوالے سے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کائنات کی ابتداء سے لے کر وجود انسان تک کوئی بھی مادی وجود خود بخود بناء بنانے والے کے وجود نہیں پاسکتا. اب جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ بنانے والا خدا ہے تو اٹھلا کر پوچھتے ہیں کہ پھر خدا کو کس نے بنایا؟ ہم انہیں بتاتے ہیں کہ خدا تو اپنی تعریف میں کہتے ہی اسے ہیں جسے کسی نے نہ بنایا ہو اور جو ان مادی قوانین کی بندش سے آزاد ہو، جن کے پابند تمام مادی مخلوقات ہیں. اب یہ بات ملحدین سے ہضم نہیں ہوتی. چاہتے ہیں کہ آپ یہ توجیہہ نہ دیں بلکہ خدا کو بھی ایک مادی وجود مانیں اور اس پر مادی قوانین اپلائی یعنی منطبق کریں.
.
ان تین پیش کردہ توجیہات کو قبول کرنا ملحدین پر سخت گراں گزرتا ہے. ان کی خواہش ہوتی ہے کہ مذہبی طبقہ ان توجیہات سے برطرف ہوجائے. مگر خواہش کرتے ہوئے وہ دانستہ یا نادانستہ یہ فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ ان توجیہات کو بنانے والا کوئی ذاکر نائیک یا عظیم عثمانی نہیں ہے، جو ان کی خواہش کے احترام میں اسے بدل ڈالے. بلکہ یہی دین کا وہ مقدمہ ہے جو قران حکیم میں درج ہے. بلکہ یوں کہیئے کہ جو تمام الہامی صحائف میں بلاتفریق موجود ہے. یہی وہ دنیا، آخرت اور خدا کی ہستی کا تعارف ہے جو رب نے ہمیشہ اپنے انبیاء کے ذریعے ہم تک منتقل کیا ہے. اب یہ توجیہات آپ کی طبیعت ناگفتہ پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزریں؟ یا آپ کی سمجھ عالیشان سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں؟ ہم اسے نہیں بدلیں گے اور نہ ہی بدل سکتے ہیں. ہم نے کسی فلسفی کی مانند خدا کا تصور اپنے ذہن سے نہیں تراشا ہے بلکہ ہم نے تصور خدا اس خدا کے بھیجے ہوئے کلام ہی سے لیا ہے. دوسرے الفاظ میں اگر آپ اپنی خواہشات کے مطابق کسی ' ٹیلر میڈ' خدا کے تصور کے متمنی ہیں تو معذرت ہم آپ کی احقر درجے میں بھی مدد نہیں کرسکتے.
.
====عظیم نامہ====

تاریخ انسانی ایک کونسپریسی تھیوری

تاریخ انسانی ایک کونسپریسی تھیوری


بدھ مت مذہب کے بانی 'گوتم بدھا' کا نام کسی کیلئے اجنبی نہیں ہے. آپ سے منسوب اقوال حکمت کا ایک خزانہ معلوم ہوتے ہیں اور ساری دنیا میں لوگ ان سے سبق اخذ کرتے ہیں. مگر آپ کو جان کر شائد حیرت ہو کہ کچھ محققین کا یہ دعویٰ ہے کہ گوتم بدھا نام کا کوئی انسان تاریخ میں موجود نہیں رہا اور ان سے منسوب تعلیمات و اقوال یا احوال زندگی لوگوں نے خود گھڑ لئے ہیں. ان سے منسوب باتیں یا کتب فی الواقع ان ہی کی ہیں؟ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں. کچھ کا کہنا یہ بھی ہے کہ گوتم بدھا دراصل ایک بااثر انسان تھا، جس کی موت کے بعد ذہین افراد کی ایک پوری کونسل نے اسے لیجنڈ بنانے کیلئے یہ سارا ڈھونگ رچایا.
.
سقراط کا نام غالباً فلسفے کی دنیا کا سب سے معتبر نام ہے. مگر کیا آپ جانتے ہیں؟ کہ فلسفے اور تاریخ کے کچھ استادوں کا یہ کہنا ہے کہ سقراط نام کا کوئی آدمی تاریخ میں نہیں رہا یا اگر تھا بھی تو کوئی قابل ذکر انسان نہیں رہا. ان محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ تو درحقیقت افلاطون نامی فلسفی نے ایک فرضی کردار گھڑ لیا اور اس کردار کا نام سقراط رکھ دیا. تاکہ سقراط کے نام سے منسوب کرکے وہ ان باتوں کا بیان کرسکے جو اسکے اپنے دور میں اسکے اپنے نام سے کہنا مشکل تھیں. یاد رہے کہ سقراط کی اکثر تعلیمات ہمیں افلاطون ہی کے ذریعے منتقل ہوئی ہیں.
.
موسیٰ علیہ السلام یہودیت، عیسائییت اور اسلام تینوں نمائندہ مذاہب کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں. جن کا تفصیلی ذکر ان مذاہب کے صحائف میں موجود ہے. مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ آثار قدیمہ اور تاریخ کے کچھ ماہرین ایسے بھی ہیں جن کے بقول موسیٰ علیہ السلام کا تاریخ میں کوئی نام و نشان نہیں. گویا وہ ایک فرضی کردار ہیں جو یہودیت کے مشائخ نے گھڑ کر لوگوں کو سنادیا تاکہ ان پر حکومت کرسکیں.
.
عیسیٰ علیہ السلام کی عالی مرتبت شخصیت سے کون واقف نہیں؟ اسلام ہو یا عیسائییت - سب کے سب یسوع مسیح کو مانتے ہیں اور ان کے واقعات و اقوال سے بہرہ یاب ہوتے ہیں. مگر عجیب بات یہ ہے کہ کچھ تاریخ دانوں اور محققین کے حساب سے عیسیٰ علیہ السلام کا کردار انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے. اس نام کا کوئی شخص سرے سے موجود ہی نہ تھا اور اگر تھا بھی تو وہ ایک عام سا آدمی تھا. نبوت وغیرہ سے کوسوں دور. ان احباب کی جانب سے عیسیٰ علیہ السلام کے فرضی ہونے کا پرچار پورے زور و شور سے کیا جاتا ہے. انٹرنیٹ پر آپ کو ان گنت مقالے، مکالمے اور کانفرنسز کی رودادیں باآسانی دستیاب ہیں.
.
نبی کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم وہ واحد نبی ہیں جو معلوم تاریخ میں آئے. جن کی موجودگی و تعلیمات کی تفصیل ابتداء سے لکھی ہوئی بھی موجود ہے اور لاکھوں افراد کی گواہی کی صورت میں بھی دستیاب ہے. مگر کیا آپ جانتے ہیں؟ کہ کچھ تاریخ دان محققین کے نزدیک محمد بن عبداللہ نام کی کوئی شخصیت تاریخ میں کبھی موجود ہی نہیں تھی اور یہ سب کی سب تعلیمات کچھ لوگوں نے اقتدار کیلئے لکھی ہیں؟ اگر یقین نہ آئے تو معروف بیسٹ سیلر مصنف 'رابرٹ اسپنسر' کی کتاب ملاحظہ فرمائیں. عنوان ہے "کیا محمد کا وجود تھا؟" (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
.
ایسی ہی اور بہت سی مثالیں موجود ہیں. عزیزان من ! تاریخ انسانی سے سیکھنے کی اہمیت اپنی جگہ ایک حقیقت ہے. ہم سب کو تاریخ کو پڑھنا اور سیکھنا چاہیئے مگر ان تاریخ دانوں یا 'محققین' کی ادائیں بھی خوب ہیں. اگر ان سب کے نتائج کو آپ بیک وقت تسلیم کرلیں تو یقین کیجیئے یہ پوری تاریخ انسانی ایک 'کونسپریسی تھیوری' بن کر رہ جائے. یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کسی معروف ترین تاریخی شخصیت کے وجود کا انکار کرنا اور اس انکار کیلئے استدلال پیش کرنا. آپ کو آپ کے ناظرین و قارئین میں نہایت تیزی سے مقبول کردیتا ہے. بالخصوص اگر اس شخصیت کی کوئی نسبت مذہب سے جڑتی ہو تو سمجھیئے ہر طرف آگ لگ جانی ہے اور آپ کا مثبت یا منفی ڈنکا بج جانا ہے. اب ظاہر ہے وہ تاریخی شخصیت اپنے دفاع کیلئے خود تو آنے سے رہی کہ آپ کو آکر بتائے کہ وہ کس دور میں، کس جگہ پر، کن افراد کے مابین موجود تھی؟ موجود آثار میں سے کون سے اس کی یادگار ہیں؟ وغیرہ. لہٰذا آج ان ہستیوں کے رخصت ہونے کے سینکڑوں ہزاروں سال بعد کچھ محققین جو علمی موشگافیاں کرتے ہیں، انہیں ایک عامی نہ رد کر پاتا ہے نہ قبول. جبکہ دیگر محققین ایسے بھی موجود ہوتے ہیں جو اسی روایتی سمجھ کے اثبات میں اپنی رائے دیا کرتے ہیں. ایسے میں اس مبہم تاریخ کو بنیاد بنا کر کسی مذہبی یا غیر مذہبی شخص کا مکمل انکار کردینا، سمجھ سے بالاتر ہے.
.
یقین کیجیئے کچھ منچلے تو اس حد تک جانے کی بھی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں کہ سکندر اعظم (الیگزینڈر دی گریٹ) جس نے آدھی دنیا فتح کی، اسے بھی کسی صورت فرضی کردار بنا چھوڑیں. یہی ماجرا سائرس دی گریٹ کے بارے میں بھی ہے. جتنے پرانے دور کی شخصیت ہوتی ہے، اتنا ہی اس کا انکار پیش کرنا آسان ہوجاتا ہے. اگر آپ کے پاس ایک اچھی سی ڈگری ہے تو بس ایک مقالہ یا کتاب لکھ دو کہ تاریخی آثار ہمیں اس شخصیت کے نہیں لگتے یا ہمیں ثابت نہیں ہوتے اور یہ کہ اس شخصیت سے منسوب تعلیمات، حالات و واقعات بعد کے لوگوں کی سازش ہے. بس ہوگیا کام. اب ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہوتی رہے گی اور آپ کی کتاب خوب بکے گی. یہ سوچے بغیر کہ اگر یہ معروف کردار کسی سپرمین، اسپائیڈر مین کی طرح نقلی و فرضی تھے تو ان کے ادوار میں موجود یا ان کے زمانے کے نزدیک ہزاروں لاکھوں لوگ کیا اتنے احمق و لاچار تھے کہ انہوں نے اس جھوٹ پر کوئی کھلا یا چھپا احتجاج نہ کیا؟ ہمیں کوئی ایک بیان یا احتجاج یا گروہ ایسا نہیں ملتا جس نے سقراط سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی بھی تاریخی شخصیت کو فریب قرار دیا ہو. اس کے برعکس ان کی موجودگی کے اثبات کی ان گنت گواہیاں ہمیں لوگوں کی زبانی منتقل ہوتی آئی ہیں.
.
====عظیم نامہ====

حضرت میں غلط دور میں پیدا ہوگیا

حضرت میں غلط دور میں پیدا ہوگیا


غالب کے دو اشعار سنا کر وہ صاحب تاسف کیساتھ مخاطب ہوئے کہ حضرت میں غلط دور میں پیدا ہوگیا ہوں. مجھے تو غالب و میر کے دور میں ہی پیدا ہونا چاہیئے تھا.
.
ہم نے عرض کیا کہ مانا وہ دور اردو ادب کی ترقی کا تھا اور آج کا دور اردو کی تنزلی و پستی کا. مگر غالب کو بھی ان کے اپنے دور میں نہیں پہچانا گیا اور شائد ہم بھی آج اپنے غالب و میر کو نہیں پہچانتے. جس تعصب و ناقدری کا شکار غالب اپنے دور میں ہوئے اسی اذیت و گمنامی کی چکی میں آج کا غالب بھی پس رہا ہے. کیا معلوم اگلی صدیوں میں آنے والا کوئی ادب پسند شخص یونہی یوسفی کے اقتباس سنا کر اور فراز و فیض کی شاعری پیش کرکے پھر یہ آہ بھرے کہ حضرت میں غلط دور میں پیدا ہوگیا ہوں.
.
====عظیم نامہ====

گناہ ٹیکس اور میرا پرانا خواب


گناہ ٹیکس اور میرا پرانا خواب

۔
سگریٹ پینا گناہ ہے یا نہیں؟ یہ آج ہمارا موضوع نہیں مگر اس بحث نے مجھے اپنا ایک سالوں پرانا خواب ضرور یاد دلا دیا ہے۔ خواب ہر عام و خاص انسان دیکھتا ہے اور بحیثیت مسلم ہم واقف ہیں کہ بعض اوقات ان خوابوں میں دیکھنے والے کی ذات کیلئے کوئی تنبیہہ یا پیغام چھپا ہوتا ہے۔ یہ خواب میں نے انگلینڈ بسنے کے بعد ابتدائی سالوں میں دیکھا تھا۔ دیکھتا ہوں کہ ۔۔۔
۔
میں ایک سڑک پر چل رہا ہوں، میں نے کسی شال میں کچھ چھپا رکھا ہے اور کچھ تاریک سائے دبے پائوں میرا پیچھا کررہے ہیں۔ شال میں چھپی شے کسی نومولود بچے جیسی محسوس ہورہی ہے مگر میں خود نہیں جانتا کہ میں نے چھپا کیا رکھا ہے؟ اور یہ گھناونے سائے مجھے کیوں پکڑنا چاہتے ہیں؟ ان سایوں کی آہٹ بھانپ کر میں تیز قدموں سے چلنے لگتا ہوں مگر وہ سائے بھی میرے تعاقب میں اپنی رفتار بڑھا دیتے ہیں۔ اب میں گھبرا کر بھاگتا ہوں، وہ بھی میرے پیچھے بھاگتے ہیں۔ میں سرپٹ دوڑتا ہوں مگر وہ مجھے دبوچنے کے لئے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ اچانک مجھے سامنے ایک چلتی ہوئی بس نظر آتی ہے تو میں تیزی سے اس کے جنگلے پر چڑھ جاتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ بچت ہوگئی۔ مگر پیچھے دیکھ کر اوسان خطا ہوجاتے ہیں کہ ان سایوں کی رفتار تو بس سے بھی زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ اب دل میں خیال ابھرتا ہے کہ جب تک میں وہ چیز نہ پھینک دوں گا جسے میں اب تک چھپائے بیٹھا ہوں تب تک یہ سائے مجھے نہیں بخشیں گے۔ بالآخر میں ایک زور سے اس شال کو ہوا میں جھاڑ دیتا ہوں۔ ارے مگر یہ کیا ؟ اس میں سے تو "بینسن اینڈ ھیجز" کے دو ڈنڈے (پیکٹ) نکل کر زمین پر جاگرتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ میں نے کبھی زندگی میں سگریٹ نہیں پی مگر ان دنوں جب بھی پاکستان جاتا تھا تو "بینسن اینڈ ھیجز" کے دو ڈنڈے خرید لاتا تھا اور پھر انگلینڈ میں انہیں مہنگے داموں فروخت کردیتا تھا۔ اس سے خاصی بچت ہوجاتی تھی اور یہ طریقہ یہاں عام ہے۔ خیر خواب کی جانب واپس آتے ہیں، میں ایک لمحے کیلئے زمین پر کراس کی صورت پڑے بینسن کے ان سنہرے پیکٹس کو گھورتا ہوں اور پھر مطمئن ہوجاتا ہوں۔ وہ سائے تھم جاتے ہیں۔ بس کی رفتار مدھم ہونے لگتی ہے اور پھر ایک مسجد کے سامنے رک جاتی ہے۔
۔
احساس ہوتا ہے کہ جماعت کھڑی ہونے والی ہے اور بس سے سب لوگ ادائیگی کیلئے جارہے ہیں۔ میں بھی پرسکون ہوکر مسجد میں داخل ہوجاتا ہوں۔ صفوں کو چیرتا ہوا پہلی صف میں جاپہنچتا ہوں۔ دائیں بائیں دیکھتا ہوں تو نہایت نیک صورت پروقار لوگ موجود ہیں۔ میں خوش ہوتا ہوں مگر اچانک امام جماعت میرے پاس آتے ہیں اور پیار سے کہتے ہیں کہ بیٹا ابھی تمہاری جگہ یہاں نہیں ہے اور وہ مجھے پچھلی و آخری صفوں میں کھڑا کردیتے ہیں۔ میں ایک بار پھر اپنے دائیں بائیں دیکھتا ہوں تو پہلی صف جیسے باوقار لوگ تو نہیں پاتا مگر بھلے انسان نظر آتے ہیں۔ پھر نماز جماعت کیساتھ ہوتی ہے، میں ادائیگی شروع کرتا ہوں یا شائد مکمل کرتا ہوں اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
۔
اس خواب میں مجھے اپنی ذات کیلئےکئی پیغامات ملے مگر ان میں سے ایک بڑا پیغام ان سگریٹ کے پیکٹس کے حوالے سے بھی تھا۔ گویا یہ مجھے تنبیہہ لگی کہ میں ان کو پاکستان سے لاکر بیچنے کا کام بند کردوں۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے پھر یہ کام کبھی نہیں کیا۔
۔
====عظیم نامہ====
۔

(نوٹ: سچے جھوٹے خواب ہم سب انسانوں کو آتے ہیں۔ ان کی حیثیت نہ شرعی حجت کی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی فضیلت کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ البتہ اس میں پنہاں پیغام بعض اوقات دیکھنے والے کی 'اپنی' ذات کیلئے سمجھ کا نیا دروازہ کھول دیتے ہیں)

کیا ہوا جو آج سائنس کے پاس جواب نہیں

کیا ہوا جو آج سائنس کے پاس جواب نہیں ؟


کچھ منکرین خدا جب تخلیق کائنات کی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں پیش کرپاتے تو جھنجھلا کر کہتے ہیں کہ کیا ہوا جو آج سائنس کے پاس جواب نہیں ہے؟ مگر کل ضرور ہوگا. جیسے فلاں اور فلاں بات کا جواب گزرے کل میں نہیں تھا مگر آج سائنس کے پاس ہے. گویا ان عقلمندوں کے بقول کل سائنس یہ بھی بتائے گی کہ کائنات کو یا انسان کو کس نے بنایا؟ اور کیوں بنایا؟ حالانکہ ایسا دعویٰ سراسر خود کو اور دوسرے کو دھوکہ دینے کے مصداق ہے. یہ سائنس کا "ڈومین" ہے ہی نہیں کہ وہ کون؟ اور کیوں؟ کی توجیہہ بیان کرسکے. نہ ہی وہ اس سمت میں کام کررہی ہے. مذہب کے علاوہ اگر کوئی ان سوالات کو کھوجنے کی سعی کرتا ہے تو وہ فلسفہ ہے سائنس نہیں. سائنس کا فوکس صرف اس حد تک محدود ہے کہ وہ پہلے سے موجود مادی اصولوں کو دریافت کرے اور ان کی بنیاد پر ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرے کہ کائنات کیسے بنی؟ یا انسان کیسے اور کتنے مراحل سے گزرا؟ وہ قطعی یہ نہیں بتاسکتی کہ کائنات یا انسان کو بنانے والا کون ہے؟ کس نے بنایا؟ کیوں بنایا؟ - وہ صرف ان سوالوں سے یہ کہہ کر فرار اختیار کرسکتی ہے کہ شائد یہ سب بناء بنانے والے کے بن گیا ہو؟ یا پھر درخت، پھل، دریا، سمندر، جنگل، مٹی، سورج، چاند، آنکھیں، ناک، کان، دل، گردے، دماغ ان سب کا تو متعین مقصد ہو مگر ان سب میں شاہکار تخلیق انسان کا کوئی مقصد نہ ہو. وہ اپنے نت نئے رنگ برنگے مقصد کو خود ایجاد کرتا ہو. الغرض سائنس نہ آج کیوں؟ اور کون؟ کا جواب دیتی ہے اور نہ ہی ہزار سال بعد کبھی اس کا جواب دے سکتی ہے. سائنس سے اسکے دائرے سے باہر کی امید رکھنا ایسا ہی غیر منطقی ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ کل شعراء اور مصور مریخ پر جانے والی سواری بنالیں گے یا کوانٹم مکینکس کے کچھ نئے اصول دریافت کریں گے.
.
====عظیم نامہ====

"پی ڈی ایف"


"پی ڈی ایف"


مان لیا کہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور جدت کو اپنانا وقت کے ساتھ چلنے کیلئے شائد لازمی ہے۔ مگر سچ پوچھیئے تو "پی ڈی ایف" کو کتاب کا متبادل بنادینا ہمارے ذوق کو کبھی گوارا نہیں ہوا۔ یہ درست ہے کہ پی ڈی ایف نے پڑھنے والو کیلئے مطالعہ مفت بنا چھوڑا ہے۔ مگر سارے جہاں میں خرچہ کرنے والے کی بھی ایک کتاب خریدتے ہوئے جان نکلنا؟ سمجھ سے باہر ہے۔
۔
صاحبو کتاب پڑھنا فقط کوئی میکانکی عمل یا ذہنی ورزش تو نہیں؟ یہ تو ایک ایسا حسین جذباتی تعلق ہے جو پڑھنے والے کو ایک نئے احساس سے روشناس کراتا ہے۔ اس کا ہاتھ محبت سے تھام کر اسے ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ کبھی کرسی پر بیٹھ کر، کبھی صوفے پر کسی تکیئے سے ٹیک لگا کر، کبھی بستر پر دراز ہوکر کتاب کو پڑھتے پڑھتے خیالات کی نگری میں چپکے سے داخل ہوجانا، کتاب کے کرداروں کو اپنے ذہن میں خود ایک تصویر عطا کرنا۔ یہ سب کیسا دلفریب ہے؟ پینسل سے منتخب جملوں پر نشان لگانا، مختصر نوٹس بنانا، یونہی پڑھتے ہوئے کبھی اونگھ جانا، صفحات کا لمس انگلیوں سے محسوس کرنا اور پرانے کاغذ کی بھینی خوشبو کا احساس ۔ یہ سب کسی 'پی ڈی ایف' سے کیونکر حاصل ہوسکتا ہے؟ کتاب کا پیغام پی ڈی ایف کے ذریعے شائد حاصل تو ہوسکتا ہے مگر جذب ہرگز نہیں ہوسکتا۔
۔
====عظیم نامہ====

اپنی بیوی کے سامنے

اپنی بیوی کے سامنے


یہ حقیقت ہے کہ مرد چاہے کتنا ہی لمبا چوڑا اور طاقتور کیوں نہ ہو؟ اگر شریف ہے تو جلد یا بدیر اپنی بیوی کے سامنے دب ہی جاتا ہے. اس میں نہ مہاجر، سندھی، پنجابی، بلوچی، پٹھان کی تخصیص ہے اور نہ ہی پاکستانی، امریکی، جاپانی یا یورپی کی. عورت کی اپنی ہی لاجک ہوتی ہے، جس کا عمومی لاجک سے دور دور تک کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا. ایک شریف مرد بہت جلد یہ جان جاتا ہے کہ وہ کتنا بڑا علامہ ہی کیوں نہ ہو؟ بحث کرکے اپنی بیوی سے کبھی نہیں جیت سکتا. انگلینڈ آکر مجھے دیوقامت افریقی مردوں سے یہ امید تھی کہ ان مسٹنڈوں کے سامنے ان کی بیویاں سنبھل کر رہتی ہونگی. مگر جب ان کی سیاہ فام عورتوں کو دیکھا تو الامان الحفیظ ! .. سات فٹ کا کسرتی افریقی مرد اپنی بیوی کے سامنے ایسے منمنا رہا ہوتا ہے کہ کیا کوئی بکری کا میمنا خونخوار بھیڑیئے کے سامنے منمناتا ہوگا؟ اور ان کی عورتیں ایسی بلند کرخت آواز میں ان کی خبر لیتی ہیں جیسے کوئی سخت مزاج پرنسپل اپنے اسکول کے نالائق ترین طالبعلم کے کان کھینچ رہی ہو. 😂🤣
.
====عظیم نامہ====

مجھے کام بتاؤ ! میں کیا کروں؟ میں کس کو کھاؤں؟


مجھے کام بتاؤ ! میں کیا کروں؟ میں کس کو کھاؤں؟

.
اپنا کھانا مکمل ختم کرنا بھی سنت ہے اور پیٹ میں کچھ خالی جگہ چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔ ہمارے ماحول میں ہم سب کا زور اس پہلی سنت پر ہی رہتا ہے اور دوسری سنت ہم میں سے اکثر کیلئے اجنبی ہے۔ یہ تو درست ہے کہ کھانا پلیٹ میں نکالنا ہی اتنا چاہیئے جتنا ہم باآسانی ختم کرسکیں۔ مگر کبھی کبھار ایسا ہوجاتا ہے کہ کوئی دوسرا ہماری پلیٹ بھر کر لادیتا ہے یا میزبان کچھ کباب وغیرہ زبردستی پلیٹ نیں ڈال دیتا ہے یا کسی ریسٹورنٹ میں توقع سے زیادہ کھانا آرڈر ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں بچپن سے سنت کا کہہ کر ایسی تربیت دی گئی ہے کہ اگر پیٹ پھٹنے کو بھی آرہا ہو تب بھی ہم باقی کھانے کو حلق میں ٹھونس ٹھونس کر نگل لیتے ہیں۔ اگر پلیٹ پوری نہ ہو پائے تو والدین یا بڑوں کی جانب سے صومالیہ یا تھر وغیرہ کے قحط زدہ بچوں کی مثال دے کر شرمندہ کیا جاتا ہے کہ اپنا کھانا ختم کرو۔ (جیسے ہمارے زیادہ کھالینے سے ان کے پیٹ بھر جائیں گے؟) ہمارے نزدیک یہ اپروچ درست نہیں بلکہ اس دوسری اہم تر سنت کا خون ہے، جسکے مطابق ہمیں پیٹ کو خوراک سے لبالب نہیں بھرنا بلکہ بھوک کا ایک حصہ باقی رہنے دینا ہے۔ ایسی غیر متوقع صورت میں جب پیٹ بھرنے کے بعد بھی کھانا موجود ہو تو بہتر ہے کہ اسے پیک کروا کر گھر لے جائیں یا کسی ضرورتمند کو دے دیں یا پھر اسے کسی ایسے مقام پر ڈال دیں جہاں وہ جانوروں یا کیڑوں کی خوراک بن سکے. اگر بالفرض ایسی کوئی بھی صورت ممکن نہ ہو اور تھوڑا کھانا بحالت مجبوری بچ رہا ہو تو ہمارے نزدیک خوراک کو زبردستی حلق تک لاد لینے سے اس کا چھوڑ دینا افضل ہے. بس آئندہ کیلئے شرمندگی کے ساتھ، ایسی صورتحال سے اجتناب کی نیت کرلی جائے.
.
دھیان رہے ہمارا مقصد کھانا چھوڑنے یا ضرورت سے زیادہ پلیٹ بھر لینے کی حوصلہ افزائی قطعی نہیں بلکہ دو سنتوں کے مابین توازن برقرار رکھنے کا ہے. ایسی صورت سے بچنے کیلئے ایک فیصلہ جو میں نے حال ہی میں اپنایا وہ یہ ہے کہ اب میں برگر وغیرہ کے ساتھ چپس آرڈر نہیں کرتا. کیونکہ ایک سے زائد بار ایسا ہوا کہ میرا پیٹ اتنا بھر گیا کہ چپس ختم کرنا نہایت دشوار لگنے لگا. اسی طرح کے اقدام اپنے انفرادی تجربات کی روشنی میں ہم سب کرسکتے ہیں. اسی حوالے سے ایک لطیفہ یاد آگیا. کسی نے واقعہ سنایا کہ ایک شادی میں کسی مولوی صاحب نے بہت سا کھانا پلیٹ میں چھوڑ دیا
اب لوگ کہاں باز آتے ہیں ؟ فوری ٹوک دیا کہ ... 'مولانا پلیٹ صاف کرنا "سنت" ہے' ..
مولوی صاحب نے بیچارگی سے توند پر ہاتھ پھیرا اور لاچارگی سے منمنا کر بولے ... 'مگر جان بچانا "فرض" ہے'
.
====عظیم نامہ=====

حلال کو حرام بنا دینا

حلال کو حرام بنا دینا


جس قدر ہولناک جرم کسی حرام کو حلال قرار دینا ہے اتنا ہی خبیث جرم کسی حلال کو حرام بنا دینا بھی ہے۔ افسوس کہ کچھ نام نہاد متقی حضرات کا بس نہیں چلتا کہ وہ انڈے کو بھی یہ کہہ کر حرام کردیں کہ یہ گستاخ دار الکفر کی مرغی سے برآمد ہوا ہے۔ چوبیس گھنٹے ان کا کام یہی ہے کہ یہ مباحات میں بھی حرام کا حکم لگاتے رہیں۔ ٹیلی اسکوپ لے کر ہر کمپنی، چاکلیٹ اور مشروب کا پوسٹ مارٹم فرماتے ہیں اور بناء کسی ٹھوس ثبوت کے، لوگوں میں مختلف اشیاء کے حرام ہونے کا انکشاف کرتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک فیصد لوگ بھی ایسے دستیاب نہیں ہوتے جو ان اشیاء کے حرام ہونے کو عدالت میں ثابت کرسکیں۔ انہیں تو چاہیئے کہ اگر یہ اپنے دعووں میں سچے ہیں تو عدالت جائیں، ثبوت فراہم کریں، میڈیا کوریج حاصل کریں تاکہ ایسے کسی ممکنہ دھوکے پر روک لگ سکے؟ مگر نہیں ! یہ ایسا نہیں کرتے۔ ان کا طریقہ واردات تو بس سوشل میڈیا پر گمنام پوسٹ بنا کر یا وہڈیو ریکارڈ کرکے پتلی گلی سے نکل لینا ہے۔ دور خلافت میں اگر کوئی ایسی بے پرکی اڑاتا یا ایسی حدیث سناتا جس کے اثبات میں تین گواہ موجود نہیں تو اسے کوڑے لگائے جاتے تھے۔ اب حال یہ ہے کہ خود ساختہ محقق بن کر بناء ٹھوس ثبوت کے چیزوں کو مزے سے حرام قرار دے ڈالتے ہیں اور اس کریہہ عمل کو دین کی خدمت سمجھنے کی خوش فہمی بھی پال لیتے ہیں۔
۔
====عظیم نامہ====

بسنت

بسنت

علاقائی ثقافت اور ثقافتی تہوار کسی بھی ملک کا حسن ہوا کرتے ہیں. اسی ثقافتی حسن کی کشش لوگوں کو مختلف ممالک گھومنے پر مجبور کرتی ہے. بعض اوقات ان کی جڑیں کسی مذہب سے جا جڑتی ہیں اور کبھی یہ ہر مذہب سے ماوراء ہوا کرتی ہیں. "بسنت" ایک ایسی ہی ثقافتی روایت ہے جسے زبردستی مذہب سے نتھی کرنا یا مذہب کے خلاف بتانا ہماری احقر رائے میں درست نہیں. البتہ اس بات کے ہم پرزور حامی ہیں کہ بسنت کے دوران حکومتی سطح پر ہر طرح کی حفاظتی تدابیر اپنائی جائیں، مہلک اشیاء جیسے کانچ کے مانجھوں پر پابندی لگائی جائے، رہائشی گنجان علاقوں سے باہر اس کا اہتمام ہو اور قانونی خلاف ورزی کرنے والو کو گرفتار کیا جائے. ہر بسنت کو کئی افسوسناک حادثے دیکھنے میں آتے ہیں، ٹھیک ویسے ہی جیسے بقرعید پر بہت سے حادثوں میں لوگ زخمی ہوتے ہیں بلکہ جان سے بھی چلے جاتے ہیں. ان افسوسناک حادثوں کو بنیاد بنا کر مکمل پابندی لگا دینا شائد درست اپروچ نہیں. اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ آخری درجے میں حفاظتی تدابیر اپنائی جائیں تاکہ ایسے حادثے نہ ہو یا کم سے کم ہوں.
.
====عظیم نامہ====

اگر اللہ سب کو دولتمند بنادیتا تو

اگر اللہ سب کو دولتمند بنادیتا تو


سوال:
کسی نے سوال کیا ہے کہ اگر اللہ سب کو دولتمند بنا دیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟ اس سوال کا کیا جواب دیا جائے؟
۔
جواب:
سوال یہاں تک ہی کیوں محدود ہو کہ اگر اللہ سب کو دولتمند بنادیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟
یہ کیوں نہیں کہ
اگر اللہ سب کو صحتمند بنادیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟
اگر اللہ سب کو حسین و جمیل بنادیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟
اگر اللہ سب کو طاقتور بنادیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟
اگر اللہ سب کو صاحب اقتدار بنادیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟
وغیرہ وغیرہ ؟
.
میرے رفیق دراصل سوال خزانے میں کمی یا اضافے کا ہے ہی نہیں. سوال ہے اس 'امتحان' کے اصول کا جس کے تحت یہ دنیا کی بساط بچھائی گئی ہے. انسانی رویوں کا امتحان اسی وقت ممکن ہے جب ایک کشمکش بپا ہو. جب کسی کو دے کر آزمایا جائے اور کسی سے لے کر آزمایا جائے. کسی وقت عطا کرکے آزمایا جائے اور کسی وقت چھین کر آزمایا جائے. کس کو کس سے نوازنا ہے؟ اور کس کو کس سے محروم کرنا ہے؟ کس کو کتنا دینا ہے؟ اور کس کو بالکل نہیں دینا ہے؟ اس کا فیصلہ اسی دانشمند پر چھوڑنا درست ہے کہ جس کی دانش اس پورے کائناتی گرینڈ پلان کے پیچھے ہے. ہم سب اس تصویر کائنات کے معمولی پکسل ہیں. پوری تصویر تو اسی بزرگ و برتر کے سامنے ہے جو المصور ہے. ہمیں فقط اپنے رویئے کو اپنے موجود حالات کی مناسبت سے بہترین بنانا ہے. اگر سب ہی امیر ہوتے تو یہ کیسے دیکھا جاتا کہ کون غریب کا سہارا بنتا ہے؟ کون غریب کا استحصال کرتا ہے؟ اور کون غربت میں بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتا؟ .. اگر سب ہی صاحب اقتدار ہوتے تو یہ کیسے دیکھا جاتا کہ کون اپنے ماتحت سے کیسے پیش آتا ہے؟ کون رحم و انصاف کا حامل بنتا ہے؟ اور کون ظالم کہلاتا ہے؟ .. باقی ہمیں بتادیا گیا ہے کہ روز حشر کسی سے احقر ترین درجے میں بھی ناانصافی نہیں ہوگی. گویا ہر شخص سے حساب اس کی موجود صلاحیتوں اور مواقع کی مناسبت سے لیا جائے گا.
.
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَO
.
’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں‘‘۔ (البقرة،2: 155)

.
ایک بار پھر بتا دوں کہ یہ دنیا 'انصاف' کے اصول پر نہیں بنائی گئی ... 'امتحان' کے اصول پر بنائی گئی ہے. اس دنیا میں مکمل انصاف کا تصور بھی ناممکن ہے. یہاں تو مشاہدہ یہ ہے کہ ظالم طاقت و اقتدار کے نشے میں چور رہتا ہے اور مظلوم، استبداد کی چکی میں پستا ہی جاتا ہے. یہاں اکثر حرام کھانے والا عیاشیوں کا مزہ لوٹتا ہے اور محنت کش پر زندگی کی بنیادی ضروریات بھی تنگ ہو جاتی ہیں. کتنے ہی مجرم، فسادی اور قاتل کسی عدالت کی پکڑ میں نہیں آتے. ایک مثال لیں، اگر ایک بوڑھا شخص کسی نوجوان کو قتل کردیتا ہے اور مان لیں کہ وہ پکڑا بھی جاتا ہے. عدالت اسے اسکی جرم کی بنیاد پر سزاۓ موت بھی نافز کردیتی ہے. اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ انصاف ہے ؟ کہنے کو تو قاتل کو قتل کے بدلے میں قتل کردیا گیا ؟ مگر کیا یہی انصاف کی مکمل صورت ہے ؟ قاتل تو ایک بوڑھا شخص تھا ، جو اپنی زندگی گزار چکا تھا. جبکہ مقتول ایک نوجوان تھا ، اسکی پوری زندگی اسکے سامنے تھی. ممکن ہے کہ اسکی اچانک موت سے اسکی بیوی بے گھر ہوجاۓ ، اسکے یتیم بچے باپ کا سایہ نہ ہونے سے آوارگی اختیار کرلیں. کیا یہی حقیقی انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں. یہی وہ صورتحال ہے جو انسان میں یہ فطری و عقلی تقاضا پیدا کرتی ہے کہ کوئی ایسی دنیا و عدالت برپا ہو جہاں انصاف اپنے اکمل ترین درجے میں حاصل ہو. جہاں بد کو اسکی بدی کا اور نیک کو اسکی نیکی کا پورا پورا بدلہ مل سکے. دین اسی عدالت کی خبر 'روز حساب' کے نام سے دیتا ہے اور اسی دنیا کی بشارت جنت و دوزخ سے دیتا ہے.
.
ایک آخری زاویہ یہ بھی دیکھ لیجیئے کہ یہ کائنات مجموعہ اضداد ہے. یہاں ہر شے کا وجود اسکی ضد سے ہے. اگر تاریکی نہ ہو تو روشنی کا کیا تصور؟ اگر تکلیف نہ ہو تو راحت کے کیا معنی؟ اگر بدصورتی نہ ہو تو خوبصورتی کو کون سراہے گا؟ اگر بیماری کا وجود نہ ہو تو صحت کو نعمت کون تسلیم کرے گا؟ اور اگر موت ہی نہ ائے تو زندگی کی تمنا کسے ہوگی؟ .. ہر چیز کا وجود اسکی ضد سے منسلک ہے. اگر اس دنیا میں ضد موجود نہ ہو تو آپ کو یہ دولت، طاقت، صحت وغیرہ نعمت ہوکر بھی نعمت محسوس نہ ہوں.
۔
====عظیم نامہ====
۔
(نوٹ: یہ بھی دھیان رہے کہ شرعی اعتبار سے اس دارالاسباب میں ہر ایک کوشش کا مکلف ہے۔ گویا فراخی رزق کی کوشش کیئے بناء غربت سے نکلنے کی امید اتنی ہی غلط ہے۔ جتنی بناء دوا لیئے کینسر یا دیگر مہلک بیماری کے دور ہوجانے کی تمنا
)

'میٹا فزکس' یعنی 'مابعد الطبیعات' علم کیا ہے؟

'میٹا فزکس' یعنی 'مابعد الطبیعات' علم کیا ہے؟

.
اس عنوان پر قلم کشائی سے قبل ہماری دانست میں کچھ تمہید لکھنا بہتر ہے. بحیثیت مسلمان ہم سب قران حکیم کو اللہ رب العزت کا کلام مانتے ہیں. قران مجید میں سورہ الفاتحہ درحقیقت دعا ہے اور پھر سورہ البقرہ سے لے کر سورہ الناس تک سارا کا سارا قران اس دعا کا جواب ہے. گویا سورہ الفاتحہ میں ہم 'ہدایت' کا سیدھا راستہ مانگتے ہیں اور سورہ البقرہ کے آغاز ہی میں یہ بتادیا جاتا ہے کہ یہ قران ہر صاحب تقویٰ یعنی متقین کیلئے ہدایت ہے. پھر اسکے فوری بعد ان متقین کے ایمانی خواص بتائے جاتے ہیں. کیسی عجیب بات ہے؟ کہ سب سے پہلا 'آرٹیکل آف فیتھ' یعنی پہلا ایمانی تقاضہ یہ نہیں بتایا گیا کہ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں یا رسولوں پر ایمان لاتے ہیں یا کتابوں پر ایمان لاتے ہیں یا آخرت پر ایمان لاتے ہیں یا فرشتوں اور تقدیر پر ایمان لاتے ہیں. بلکہ کہا گیا کہ الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَيۡبِ - "جو 'غیب' پر ایمان لاتے ہیں". گویا آسان الفاظ میں جو سب سے پہلا تقاضہ قران حکیم ہدایت دینے کیلئے اپنے قاری سے کرتا ہے، وہ یہ کہ وہ تسلیم کرے کہ اسکے موجود جسمانی حسی ادراک سے پرے بھی کچھ غیبی حقیقتیں موجود ہیں یا موجود ہوسکتی ہیں. دھیان رہے کہ غیب پر ایمان سے مراد ہے بناء دیکھے ایمان لانا، بناء سمجھے لانا ایمان لانا ہرگز نہیں. ایمان بالغیب اس یقین کا نام ہے جو مشاہدے یا حسی ادراک کے زریعے نہیں بلکہ غوروفکر کے نتیجے میں جڑ پکڑتا ہے. یہ حاضر سے غائب کو جاننا ہے، یہ معلوم سے نامعلوم کو محسوس کرنے کا سفر ہے. سالک دلائل کا تقابلی موازنہ کرکے ، ایک شعوری ارتقاء کے زریعے کسی شے کے بارے میں علمی راۓ قائم کرتا ہے. یہ راۓ کیونکہ استدلال و تدبر کا نتیجہ ہوتی ہے اسلئے سالک کو ایک خاص قلبی و ذہنی سکون فراہم کرتی ہے. آسان الفاظ میں کہیں تو صاحب ایمان اس پر پوری طرح قائل ہوجاتا ہے. قران حکیم اپنی اصطلاح میں اس علمی نتیجے سے حاصل کردہ یقین کو 'علم الیقین' کے نام سے موسوم کرتا ہے. اب دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اسکا عمل بھی اسکے ایمان کا عکس بن جاۓ ورنہ ایسا ایمان ہوکر بھی کوئی حقیقی معنی نہیں رکھتا . اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ایمان دار کہلاتا ہے اور نہیں کرتا تو بے ایمان قرار پاتا ہے.
.
اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب، یعنی 'میٹا فزکس' یا 'مابعد الطبیعات' کا علم ہے کیا؟ - 'میٹا فزکس' دراصل فلسفہ کی ایک اہم ترین شاخ ہے اور جو ان سوالات و حقائق پر غور کرتی ہے، جن کے شافی جوابات دینے سے فزکس یعنی طبیعاتی علوم قاصر رہے ہیں. کائنات کا اولین محرک کیا تھا؟ موت کے بعد شعور کا کیا معاملہ ہے؟ وقت کی کیا حقیقت ہے؟ زمان و مکان میں اصل ربط کیا ہے؟ ذہن کیا ہے؟ ذہن اور دماغ میں کیا فرق ہے؟ ذہن اور جسم کا رشتہ کیا ہے؟ اس کائنات کا مقصد کیا ہے؟ یہ اور اس جیسے ان گنت موضوعات ایسے ہیں کہ جن کے جواب دینے سے یا تو سائنس بالکل عاجز نظر آتی ہے کہ یہ اسکے ڈومین یعنی دائرے سے ہی باہر ہیں یا پھر ایسے جوابات دیتی ہے جو کسی طور بھی شافی نہیں مانے جاسکتے. یہ اور بات کہ مادیت پسندی کے اس سیلاب میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو خود کو اسی محدود حسی ادراک یا 'امپیریکل ایویڈنس' تک کے خول میں قید رکھنا پسند کرتی ہے. ان کے نزدیک انسان یا کائنات کا کوئی متعین مقصد نہیں. ان کی ذہانت کے پیچھے کوئی ذہانت بطور خالق نہیں. باپ کی شفقت سے لے کر ماں کی ممتا تک بس ایک 'کیمکل کمپوزیشن' سے زیادہ کچھ نہیں. پچھلی صدیوں میں فزیکل سائنسز کے ذریعے ہونے والی غیر معمولی ترقی نے ان کے لہجوں میں ایک خاص طرح کی رعونت پیدا کردی ہے، جو ہر اس علم یا کوشش پر استہزاء کا رویہ اپناتی ہے جو سائنس کے موجود اصولوں سے باہر یا مختلف ہو. اس علمی تکبر پر خود کچھ سائنسدان جیسے 'مشیو کاکو' آواز اٹھا رہے ہیں. ان کے مطابق سائنسی حلقوں پر آج کل ایک ایسی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں موجود سائنسی اصولوں کو چیلنج کرنا یا اس سے مختلف کچھ اور امکانات کو ماننا گالی بنا دیا گیا ہے.
.
فلسفے کے علاوہ 'میٹا فزکس' یا 'مابعد الطبیعات' سے وابستہ ان ہی موضوعات کو مذہب بھی مخاطب بناتا ہے. مذہب فلسفے کے برعکس جوابات کی بنیاد متفرق بدلتی انسانی عقول کے برعکس وحی پر رکھتا ہے. وہ اس کائنات کے خالق کا تعارف فراہم کرتا ہے، اس کائنات کی مقصدیت بتاتا ہے، انسانی نفس کی تفصیل فراہم کرتا ہے، غیبی حقائق جیسے ملائکہ یا حیات بعد الموت وغیرہ سے پردہ اٹھاتا ہے. ہم جانتے ہیں کہ رب نے ایک ہی دین ہمیشہ جاری کیا مگر انسانی اختلاف نے بہت سے نئے مذاہب کو جنم دے دیا. گو ہر تحقیق کرنے والا یہ جان لیتا ہے کہ ان تمام مذاہب کا فراہم کردہ مقدمہ اور مابعد الطبیعات سے متعلق جوابات مکمل تو نہیں مگر معمولی فرق کیساتھ بڑی حد تک آپس میں مماثلت رکھتے ہیں. جو اسی حقیقت کا مظہر ہے کہ اپنی اصل میں یہ ایک ہی مشترک الہامی پیغام ہے. جیسا مضمون کے آغاز میں ہم نے بیان کیا کہ بطور مسلمان ہم غیب پر ایمان رکھتے ہیں. گویا جب بعد از تحقیق جب دلائل و براہین سے ہم پر یہ ثابت ہوگیا کہ قران حکیم انسانی تحریر نہیں بلکہ الہامی کلام ہے، تب اس میں موجود غیبی خبروں کو ہم نے تسلیم کرلیا ہے. قران مجید میں جابجا انسانی حواسوں پر محیط 'ادراک' کو محدود بتا کر غیبی خبر دی گئی ہے. جیسے سورہ القدر میں جب شب قدر کی غیبی قوت کا بیان ہوا تو قاری سے استفسار ہوا کہ وَمَآ اَدْرَاكَ مَا لَيْلَـةُ الْقَدْرِ - اور تمہیں کیا ادراک کہ شب قدر کیا ہے؟ ... اسی طرح روز قیامت کے وقت القارعہ کا بیان ہوا تو کہا گیا وَمَآ اَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ - اور تمہیں کیا ادراک کہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے؟ ... دوسرے الفاظ میں جگہ جگہ غیب کی خبر دیتے ہوئے سمجھایا گیا ہے کہ ہمارا حسی ادراک ان کی تفصیل جاننے سے قاصر ہے.
.
====عظیم نامہ====

خام خیالی


خام خیالی

یہ محض خام خیالی ہے کہ اگر فلاں ملحد فلاں فلاں غیبی حقیقت سامنے دیکھ لے یا سن لے تو وہ ایمان لے آئے گا. حقیقت یہ ہے کہ جو شخص علمی دلائل سے خالق کو نہیں پہچانتا، اپنی فطرت و وجدان میں رب کا سراغ نہیں پاتا وہ کسی معجزاتی حقیقت کو بھی دیکھ کر کبھی حق تسلیم نہیں کرسکتا. انکار کرنے والے کیلئے وجود خدا کا کوئی ثبوت نہیں اور ماننے والے کیلئے یہ پوری کائنات اپنے خالق کی موجودگی و عظمت پر شاہد ہے.
.
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے

.
آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ایک ملحد کو خدا کی آواز سنائی دے جو اسے بتائے کہ میں تمہارا خدا ہوں، مجھ پر ایمان لے آؤ تو کیا وہ واقعی ایمان لے آئے گا؟ .. ہر گز نہیں ! بلکہ وہ اسے اپنا دماغی خلل تصور کرے گا اور اسی پر اصرار کرتا رہے گا. آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ایک کٹر ملحد کو فرشتے یا جنات نظر آجائیں تو وہ ایمان لے آئے گا؟ قطعی نہیں ! بلکہ وہ اسے 'ھلوسنیشن' یعنی تصوراتی دھوکے سے تعبیر کرے گا. آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ایک پکا ملحد کسی پیر فقیر کو ہوا میں اڑتا یا پانی پر چلتا دیکھے تو ایمان لے آئے گا؟ بالکل نہیں ! بلکہ وہ اسے کرتب یا 'ہیپناٹزم' قرار دے دے گا.
.
یہ ایمان لانے کا 'احسان' اسی وقت کرسکتے ہیں جب خدا اپنی بادشاہی سمیت سارے غیب کے پردے چاک کرکے اس پوری خلق انسانی کو نظر آنے لگے. مگر اگر سب سامنے آنے کے بعد ہی ماننا ہے تو پھر کاہےکا امتحان؟ جیسے محاورہ ہے کہ 'آمد آفتاب - دلیل آفتاب' یعنی سورج کا طلوع ہونا سورج کے ہونے پر دلیل ہوتا ہے. ظاہر ہے جب سورج کو سب نے دیکھ لیا تو کون ہے جو سورج کے ہونے کا انکار کرے گا؟ مگر حضرت اس میں آپ کا کیا کمال ہوا ؟ اگر خدا کو اپنا وجود یونہی منوانا ہوتا اور اپنی اطاعت انسانیت سے یونہی کروانی ہوتی تو پھر اس دنیا میں امتحان کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا. تقاضہ تو یہ ہے کہ جیسے تصویر کو دیکھ کر مصور کو جان لیتے ہو، دھواں دیکھ کر آگ لگنے کا یقین کرلیتے ہو، مکان دیکھ کر معمار کو سوچ لیتے ہو - ویسے ہی اس پر ہیبت کائنات کو اور اس بے جان مادے سے اٹھنے والے اپنے باشعور وجود کو دیکھ کر خالق بزرگ و برتر خدائے رب العزت کو پہچان جاؤ. اور اگر پھر بھی یہ چاروں اطراف بکھری ان گنت نشانیاں تمہیں اپنے رب کا سراغ نہیں دیتی؟ تم پھر بھی ہٹ دھرمی سے یہ پکارتے رہتے ہو کہ مجھے خدا کا ثبوت حاصل نہیں تو پھر ڈوبے رہو اسی الحاد و شکوک کی دلدل میں اور انتظار کرو اپنی موت کا یا پھر ہمارے بقول اس روز جزاء کا جب ہر انسان اپنے کیئے کا بدلہ پائے گا.
.
".... اور اگر اللہ چاہتا تو ضرور تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ اس کے ذریعہ جو اس نے تمہیں دیا تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔ پس تم نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کا لَوٹ کر جانا ہے۔ پس وہ تمہیں ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کرے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔" (سورہ المائدہ ٤٨)

.
====عظیم نامہ====

نیت

نیت


امت مسلمہ کے دو ممتاز ترین محدثین امام بخاری اور امام مسلم نے اپنے اپنے پیش کردہ احادیث کے مجموعہ میں اس مقبول حدیث کو شامل کیا ہے کہ "إنَّما الأَعمالُ بالنِّيَّات" - یعنی اعمال کا دارومدار نیت پر ہے.
.
یوں تو پوری نماز میں ہی توجہ اور خشوع ہونا چاہیئے مگر کم از کم نماز کی ابتداء کرتے ہوئے اسکی نیت پر خاص دھیان دیا کیجیئے. مشاہدہ ہے کہ لوگ نیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے. حالانکہ یہی وہ مقام ہے جہاں کم از کم آپ سچے دل سے ایک لمحے کو ہی سہی، یہ سوچ سکتے ہیں کہ میں اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں. نماز کا آغاز کرنے میں جلدی نہ کیجیئے بلکہ رک کر کچھ لمحہ سوچیئے کہ آپ کس کے دربار میں حاضری دینے جارہے ہیں؟
.
نیت اپنی اصل میں دل کے ارادے کا نام ہے. اس ارادے کو آپ چاہیں تو الفاظ کا قالب بھی عطا کرسکتے ہیں مگر کسی خاص جملے کی ادائیگی نیت کرتے ہوئے لازمی نہیں ہے. اگر کچھ مخصوص الفاظ ادا کرنے سے آپ کو توجہ اور ارتکاز حاصل ہوتا ہے تو ضرور ادا کرلیجیئے، اس میں کوئی حرج نہیں. البتہ راقم کا تجربہ یہ ہے کہ کچھ رٹے رٹائے جملے نیت کیلئے ادا کرنے کی بجائے اپنے الفاظ میں جذبات کو ڈھال لینا زیادہ موثر ہوتا ہے. جیسے مثال کے طور پر کوئی سندھی بھائی یوں بول پڑے کہ 'مولا سائیں آپ کا شکریہ جو آپ نے مجھے عصر کی اس چار رکعات نماز کی قبلہ رخ توفیق دی'. گو جیسا عرض کیا کہ نمازی نیت کرتے ہوئے کوئی ایک لفظ بھی نہ بولے یا مختصر سا بولے تب بھی مکمل جائز ہے. قران و حدیث میں نیت کیلئے کوئی مخصوص الفاظ متعین نہیں کیئے گئے ہیں. لہٰذا الفاظ کی ادائیگی نیت کی شرط نہیں.
.
====عظیم نامہ====

خدائے رحمٰن کے بندے

کیا آپ جانتے ہیں کہ کلام الہی کے مطابق خدائے رحمٰن کے بندے کون ہیں؟

.
رحمٰن کے (سچے) بندے وه ہیں جوزمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔
.
اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کوسلام۔
.
اور جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔
.
اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے واﻻ ہے.
.
اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔
.
اورجو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اورنہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا،
.
قیامت کے روز اس کے عذاب میں درجہ بدرجہ اضافہ کیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔
.
الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔
.
جو شخص توبہ کرکے نیک عمل اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔
.
(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔
.
اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوجائے تو وقار کے ساتھ گزرجاتے ہیں۔
.
اور جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے ہوکر نہیں گرتے۔
.
اور جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘۔
.
یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے۔ آداب وتسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا۔
.
وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام۔
.
(الفرقان 25: 63-76)

موثر اظہار


موثر اظہار


نومولود بچے اردو، انگریزی یا دیگر کسی زبان سے واقف نہیں ہوتے۔ لہذا اپنی ضروریات بیان کرنے کیلئے جبلی طور پر وہ روتے یا مختلف آوازیں نکالتے ہیں۔ جنہیں دیکھ یا سن کر والدین اندازہ لگاتے ہیں کہ اس وقت بچے کا رونا کس ضرورت کے تحت ہے؟ جب یہ بچہ کچھ بڑا ہوجاتا ہے، تب یہ مشاہدہ ہے کہ بولنے پر کسی حد تک قدرت رکھنے کے باوجود کئی بار وہ اپنی بات یا جذبات بیان نہیں کرپاتا۔ کبھی اسے اظہار کیلئے الفاظ ہی نہیں مل پاتے اور کبھی وہ ان الفاظ کو اس طرح ترتیب نہیں دے پاتا جو اس کا مدعا سامع کو سمجھا سکے۔ یہی بچہ جب لڑکپن تک پہنچتا ہے تب اسے بنیادی الفاظ حاصل ہوتے ہیں جن کے زریعے وہ اپنی ضروریات کا بیان کامیابی سے کرپاتا ہے۔ البتہ اب اسے اپنے خیالات و احساسات کو الفاظ کا قالب دینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس موقع پر پھر ایک بار اسے بیچارگی کا سامنا ہوتا ہے۔ گویا اس پر منکشف ہوتا ہے کہ مکالمے اور دلائل کے موثر اظہار کیلئے صرف بنیادی الفاظ پر عبور کافی نہیں۔ بلکہ الفاظ کا زخیرہ درکار ہے۔ اسی کشمکش میں بالآخر وہ بچپن و لڑکپن سے ہوتا ہوا فکری بلوغت کی عمر کو پالیتا ہے۔ مگر یہاں تک پہنچ کر بھی انسانوں کی اکثریت کو اظہار کیلئے زبان پر وہ قدرت و وسعت حاصل نہیں ہوا کرتی جو ان کے خیالات کا بہترین ابلاغ کرپائے۔ گویا وہ بہترین سوچنے والا دماغ رکھنے کے باوجود اپنی فکر و رائے کو احسن انداز میں لوگوں تک منتقل نہیں کرپاتے۔ ایسے میں جب انسانوں میں ہی کسی دوسرے کو موثر اظہار کرتا سنتے ہیں تو حیرت و مرعوبیت سے پکار اٹھتے ہیں کہ یہی بات تو جانے کب سے میرے قلب و ذہن میں نقش تھی؟
۔
دراصل مدلل گفتگو کیلئے فقط تفکر و تدبر کافی نہیں ہے۔ بلکہ زبان پر مہارت بھی درکار ہے۔ یہ اظہار اتنا ہی زیادہ پراثر اور اسلوب اتنا ہی زیادہ دلنشین ہوتا جاتا ہے جتنا انسان لسانیات و ادب میں ماہر ہوتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبی و غیرمذہبی اہل علم جنہیں اپنے افکار لوگوں تک پہنچانے ہوں۔ ادب و شاعری سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ وگرنہ علمیت کے باوجود اکثر اپنی بات یا تو پہنچا نہیں پاتے یا اگر پہنچا بھی دیں تو کلام میں وہ اثر انگیزی نہیں لا پاتے جو قاری یا سامع کی توجہ اپنی گرفت میں لے سکے۔ لہذا اگر آپ کو لگتا ہے کہ بہترین سوچ اور تدبر و تفکر کی صلاحیت رکھنے کے باوجود آپ اپنا موقف منوانے یا موثر انداز میں پہنچانے سے قاصر رہتے ہیں۔ تو قوی امکان ہے کہ آپ الفاظ کا وہ ذخیرہ نہیں رکھتے اور ان ادبی رموز سے نہیں واقف جو اعلی سطح کے اظہار کیلئے لازمی ہے۔ ادبی کتب کا مطالعہ اور ان کے خوبصورت اسلوب کو سمجھنے کی کوشش آج بھی آپ میں اظہار کی صلاحیت کو چار چاند لگاسکتی ہے۔
۔
====عظیم نامہ====

روحانی تجربہ


روحانی تجربہ

.
یوں تو روحانیت کے مسافر کو غیبی دنیا کے کچھ کمالات حاصل ہوجانا یا مختلف روحانی وارداتوں کا تجربہ ہو جانا کوئی اجنبی بات نہیں ہے. مگر آج ہمارا موضوع وہ خاص نفسی تجربہ ہے جو اس راہ کے بیشمار مسافروں میں قدر مشترک بن کر رہا ہے. پھر چاہے وہ مسلم صوفی ہوں، ہندو سادھو ہوں، عیسائی مسٹک ہوں، یہودی کبلھا ماہرین ہوں، بدھ مت کے بھکشو ہوں یا پھر دور جدید کے اسپریچولسٹ ہوں. سب کے سب اس تجربے کو اپنے روحانی سفر میں اہم ترین مقام کے طور پر دیکھتے ہیں. ان سب کے نزدیک یہ تجربہ ان کے سالوں پر محیط مراقبوں، مجاہدوں اور ریاضتوں کا حاصل ہے. اس تجربے میں انہیں حقیقت کا وہ ادراک حاصل ہوجاتا ہے جس کے وہ متلاشی رہے. صوفیاء کے یہاں اس کشف یا تجربے کو 'فنا فی الوجو'د کے عقیدے سے منسلک کیا جاتا ہے. بدھ مت کے پیرو اسے 'نروان' کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں، ہندو یوگی اسے کبھی 'موکشا' اور کبھی 'تیسری آنکھ' کا کھل جانا پکارتے ہیں. مغرب میں مراقبوں یعنی میڈی ٹیشن سے اس کیفیت کا تجربہ مختلف ناموں جیسے 'یونٹی' وغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے. گویا نام مختلف ہیں. مراقبوں اور ریاضتوں کے انداز جدا ہیں. مگر نتیجہ وہی ایک تجربہ ہے جو بلاتفریق سالک کو حاصل ہوجاتا ہے. اس روحانی واردات کو علامہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ خطبات میں 'مذہبی تجربے' کے نام سے بیان کیا ہے. گو راقم کے نزدیک اسے 'نفسی تجربہ' کہنا زیادہ مناسب ہے. ہم یہاں کوشش کریں گے کہ ان نکات کو لکھ دیں جسکی گواہی اس تجربے کے حاملین دیا کرتے ہیں.
.
١. . تجربے میں شاہد اور مشاہدے کا فرق اوجھل ہوجاتا ہے. گویا جو دیکھ رہا ہے اور جسے دیکھا جارہا ہے، ان دونوں میں امتیاز باقی نہیں رہتا. بقول شاعر
یہاں ہونا .... نہ ہونا ہے
اور نہ ہونا، عین ہونا ہے !

.
٢. زمان و مکان کا فرق مٹ کر 'حقیقت' کا کلی ادراک ہوتا ہے. وہ شعور جو آج تک حقیقت کو 'جزو جزو' کرکے سمجھتا اور دیکھتا آیا تھا. اچانک حقیقت کو مربوط 'کل' کی صورت میں مشاہدہ کرلیتا ہے. اپنے وجود سمیت سارے جزو اس ایک کل میں ایسے ضم ہوجاتے ہیں کہ تفریق کرنا ممکن نہیں رہتا. گویا ہر طرح کی دوئی ماند پڑ کر ایک برتر واحد میں گھل جاتی ہے. بقول شاعر
وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست !
مجھے اتنا بتادیں، 'میں' کہاں ہوں؟
.

٣. انسانی ذہن کی ساخت ایسی ہے کہ دوئی برقرار رکھے بغیر وہ حق بیان نہیں کرسکتا. اس دوئی کے مٹ جانے سے حقیقت کا جو روپ سامنے آتا ہے. وہ ہر اعتبار سے اتنا منفرد اور اجنبی ہوتا ہے کہ تجربہ کرنے والا خود کو اسکے بیان سے عاجز و قاصر پاتا ہے. جس کی مثل شعور نے پہلے دیکھی ہی نہ ہو اور جس کی تفصیل کو کبھی الفاظ کی پوشاک ملی ہی نہ ہو. اس تجربے کو بیان کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس شخص کو شہد کا ذائقہ سمجھایا جائے جس نے کبھی کوئی مٹھاس نہ چکھی ہو. گویا اس تجربے کا شافی ابلاغ ممکن نہیں ہوتا اور جس کا ابلاغ ممکن نہ ہو اس کا ادراک بھی کبھی اجتماعی قبولیت حاصل نہیں کرپاتا. مستقبل میں بھی اگر اسے سمجھنے کا کوئی مبہم سا امکان ہوسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ انسانی نفس کی پنہاں حقیقتوں کے بیان کیلئے کوئی ایسا ذریعہ علم میسر آجائے جس طرح کا علم 'میتھمیٹکس' یعنی حساب کی صورت میں فزیکل سائنسز کو حاصل ہوگیا. یوں وہ ان تجربات کو بھی 'ایکویشن' کی صورت میں بیان کرنے پر قادر ہوسکے جنہیں فقط لفظ سے سمجھنا محال تھا.
.
٤. یہ تجربہ بھلے درجہ ابلاغ کے تقاضے پورے نہ کرسکے مگر اپنے شاہد و ناظر کو اپنی حقانیت کے بارے میں آخری درجے پر اطمینان دے دیتا ہے. گویا تجربہ کرنے والے کو یہ اشکال لاحق نہیں ہوتا کہ وہ کسی نفسی و ذہنی دھوکے کا شکار ہوا ہے. بلکہ وہ اسے حقیقت کے جوہر کے طور پر قبول کرتا ہے اور اسے شعور کی اس پرت سے متعلق کرتا ہے جس کا کھلنا ارتکاز و مجاہدات سے ممکن ہے. دھیان رہے کہ یہ نفسی تجربہ فقط روایتی مذہبی اذہان کو ہی پیش نہیں آیا ہے بلکہ دیگر نامور شخصیات بھی اس کی شہادت دیتی رہی ہیں. جیسے دور حاضر میں رجنیش اور سدھ گرو جیسے غیر مذہبی اسپرچولسٹ یا پھر 'جم کیری' اور 'عرفان خان' جیسے نامور اداکار. قارئین کیلئے شائد یہ بات بھی دلچسپ ہو کہ علامہ اقبال کی طرح مولانا وحید الدین خان بھی اپنے ایسے ہی تجربے کو بیان کر چکے ہیں.
.
====عظیم نامہ====