مرد کیلئے خاتون کی فیس بک شناخت
جب دین میں مخالف جنس کی کسی بھی درجے میں مشابہت اختیار کرنا حرام ہے تو پھر کسی مرد کیلئے خاتون کی فیس بک شناخت بنالینا کیسے جائز ہوگیا؟
.
ایک وقت تھا جب جعلی آئی ڈی بنانا کسی شہوت پرست کا ہی کام سمجھا جاتا تھا مگر اب حال یہ ہے کہ بیشمار لمبی داڑھی والے صاحبان فیس بک پر "مما پاپا کی لاڈلی" بنے بیٹھے ہیں. طرہ یہ ہے کہ اس برقی جنسی تبدیلی کو مذہبی جواز دے کر طرح طرح کی تاویلیں بھی گھڑ لیتے ہیں. جیسے خواتین کی شناخت سے شائع کردہ دینی پوسٹوں کو لوگ زیادہ لائیک کرتے ہیں اور اس طرح دین کا پیغام زیادہ پھیلتا ہے. بہت معزرت کیساتھ مگر پھر ایک نیم برہنہ تصویر بھی لگا لیجیئے ، اس سے اور بھی لوگ آپ کی 'مذہبی' پوسٹیں لائیک کریں گے. ایک اور جواز یہ دیا جاتا ہے کہ ہم فلاں فلاں وجہ سے اپنی حقیقی شناخت نہیں بتاسکتے، اسلئے ایسی آئی ڈی بنانی پڑتی ہے. جناب اگر یہ بات ہے تو اپنا پروفائل نام 'طالب حق' یا 'طالب علم' یا اسی کے مساوی کوئی اور نام رکھ لیجیئے. اس کے لئے آپ کو شبانہ یا رقیہ بننے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں.
.
عرض اتنی ہے کہ آپ بصد شوق اپنی تسکین کے لئے مخالف جنس کی آئی ڈی بنائیں اور جھوٹ کے داعی بن کر خوش ہوں مگر اسے دین، تبلیغ یا مصلحت کا نام لے کر جواز نہ دیں. آپ میں اور کسی 'بوبی ڈارلنگ' میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، بس اتنا ہی کہ وہ سامنے ساڑھی پہن لیتے ہیں اور آپ انٹرنیٹ پر. پھر امکان تو یہ بھی ہے کہ برقی عورت بننے کے شوقین حقیقی زندگی میں بھی بناؤ سنگھار کرکے اور گھاگھرا چولی پہن کر آئینہ میں خود پر فدا بھی ہوتے ہوں؟
.
====عظیم نامہ====
.
نوٹ: ان روایتی گھسے پٹے جملوں سے گریز کریں، جن میں کہا جاتا ہے کہ 'لگتا ہے آپ کو کسی نے لڑکی بن کر دھوکہ دیا ہے'. میں خواتین سے کس اسلوب میں بات کرتا ہوں؟ اسکی گواہی آپ میرے پروفائل میں موجود کسی بھی خاتون سے لے لیجیئے. اس تحریر کو لکھنے کا مقصد فقط ایک غلط روش کی بیخ کنی ہے. ہم سب جانتے ہیں کہ اسطرح کی جعلی آئی ڈیز بنانا مذموم عمل ہے اور آج فیس بک پر بدقسمتی سے عام ہے
No comments:
Post a Comment