Thursday, 25 August 2016

بردباری کی نقاب


بردباری کی نقاب




جب گھر کا کوئی لاڈلا بیٹا تعلیم، نوکری یا کسی مجبوری کی وجہ سے اپنا آبائی گھر چھوڑ کر پردیس میں جابستا ہے تو یہ ہجرت اس شخص کے اپنے لئے اور اس کے تمام گھر والو کیلئے سالہا سال ایک اذیت ناک امتحان بنی رہتی ہے. والدین کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص اسی ملک سے آیا ہے جہاں ان کا لاڈلا مقیم ہے تو فوری اس سے وہاں درپیش مشکلات کے حوالے سے سوالات کرنے لگتے ہیں اور اگر کہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جو ان کے بیٹے کو وہاں جانتا بھی ہو تو پھر ان کا بس نہیں چلتا کہ اس آنے والے کے چہرے میں ہی اپنی اولاد کو کھوج نکالیں. میرے ایک قریبی دوست کے والد خاصے سخت مزاج اور خاموش طبع انسان تھے. میرے اس دوست کی گفتگو اس حقیقت کی عکاس تھی کہ وہ اپنے والد سے شدید محبت کرتا ہے اور اسے احساس ہے کہ اس کے والد بھی اسے اتنا ہی چاہتے ہیں. مگر ان کے مزاج کی سختی و خاموشی محبت کے اظہار پر 'تکلف' کا نادیدہ پردہ تانے رکھتی تھی. جب یہ دوست انگلینڈ آیا تو ایک عرصہ اسے پاکستان واپس جانے کا موقع نہیں مل سکا. اس دوران مجھے ملک جانے کا موقع حاصل ہوگیا اور میں اس کے دیئے کچھ تحائف لیکر اس کے گھر جاپہنچا. میرے لئے چائے بسکٹ اور کئی دیگر نعمتیں میز پر سجا دی گئیں. چھوٹے بہن بھائی اور والدہ نے گھیرا ڈال لیا اور دلچسپی سے دوست کے حالات و واقعات سننے لگے. میں بھی خوب مزے سے سناتا رہا، اتنے میں ان کے والد بھی آگئے اور سنجیدگی سے سامنے کے صوفے پر براجمان ہوگئے. میں نے پوری سچائی سے محسوس کیا کہ جب میں ان کے بیٹے کا ذکر کرتا ہوں تو ان کی آنکھیں چمکنے لگتی ہیں مگر وہ زبردستی اپنے چہرے پر سنجیدگی سجائے ہوئے ہیں. میں نے اچانک گفتگو کو بیچ میں روک کر انتہائی بے تکلفی سے ان کو مخاطب کیا اور کہا انکل سب سے زیادہ یاد وہ آپ ہی کو کرتا ہے، ہر وقت آپ کی باتیں اور تعریفیں کرکر کے دماغ کھا جاتا ہے. ساتھ ہی ایک دو واقعات جو ان سے متعلق میں دوست کے ذریعے جان پایا تھا بتا دیئے. اب ایک عجیب پرلطف منظر سامنے تھا. والد کا چہرہ شفقت پدری سے دمکنے لگا تھا، آنکھوں میں شائد چھپی جھلملاہٹ تھی اور لبوں پر مسکراہٹ آنے کو بیقرار. مگر وہ ساتھ ہی اپنی پوری قوت خود سے جنگ میں صرف کررہے تھے کہ یہ جذبات بے لگام نہ ہونے پائیں. نتیجے میں ان کا چہرہ کبھی پھول سا کھلنے لگتا تو کبھی اس پر ایک مصنوعی سنجیدگی کی نقاب چڑھ جاتی. 
.
ہم انسانوں کا بالعموم اور مردوں کا بالخصوص معاملہ عجیب ہے. حالات و واقعات کے زیر اثر ہم اکثر وہ نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں جو شائد ہم نہیں ہیں. ہمیں اپنے جذبات کے اظہار سے بھی خوف آنے لگتا ہے کہ کہیں ہماری اتنی مشقت سے چڑھائی بردباری کی نقاب نہ اتر جائے. یہ جھوٹ ہے کہ صرف منافق کے دو چہرے ہوتے ہیں بلکہ سچے کھرے انسانوں کی بھی اکثریت طرح طرح کے نقاب چہرے پر سجائے رکھتی ہے اور جسے اتار پھینکنا ایک وقت کے بعد ناممکن سا ہوجاتا ہے. میں ذاتی طور پر ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جو بے پناہ محبت کے باوجود اپنے والد کو سینے سے نہیں لگا سکتے. جو اپنے سگے بھائی کو بوسہ نہیں دے سکتے. جو اپنی والدہ کے قدموں کو نہیں تھام سکتے اور جو اپنی بیوی سے اظہار محبت نہیں کرسکتے. ہمیں اپنی ان شخصی کمزوریوں کا ادرک کرنا چاہیئے کہ تشخیص آدھا علاج ہے اور پھر نفس پر پاؤں رکھ کر ایسی نفسیاتی رکاوٹوں کو گرا دینے کی سعی کرنی چاہیئے. میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے سگے محبت کرنے والو کو سینے سے لگالینے میں جو سکون ہے وہ کسی مراقبے یا مجاہدے سے ممکن نہیں.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment