اللہ کو دیکھنا
دمکتا چہرہ، لبوں پر چسپاں ہلکی مسکراہٹ، سوچتی ہوئی آنکھیں، سیاہ چھوٹی داڑھی اور گہرا سکون. یہ اس نوجوان کا مختصر سراپا تھا. جب بھی اسے دیکھتا تو دل میں گفتگو کی شدید خواہش پیدا ہوتی مگر وہ دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا، اس لئے چاہ کر بھی بات رسمی سلام علیک سے آگے نہ بڑھتی. مگر پھر ایک روز نماز جمعہ کیلئے مسجد کی جانب ساتھ نکلے تو باقاعدہ بات چیت کا آغاز ہوگیا. معلوم ہوا کہ یہ نوجوان انگلینڈ میں ہی پیدا ہوا ہے اور یہیں پلابڑھا ہے. اردو بمشکل سمجھ پاتا ہے. گھر میں کوئی خاص اسلامی ماحول نہیں ملا مگر پھر بھی اسے اسلام سے بے پناہ لگاؤ ہوگیا ہے. کالج کے سارے دوست انجینئر، ڈاکٹر، سائنٹسٹ، بزنس میں بننا چاہتے ہیں مگر یہ پڑھائی میں بہترین ہونے کے باوجود مسجد کا امام بننا چاہتا ہے اور اسی غرض سے ایک اسلامی کورس بھی کر رہا ہے. اس کی اس خواہش سے گھر والے ناخوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ بھی دیگر بچوں کی طرح کوئی ایسا پیشہ اپنائے جس سے اس کی آمدن مظبوط ہوسکے. میں نے اسے کریدتے ہوئے کہا کہ تمہاری خواہش تو بہت نیک ہے مگر تم دین کی خدمت دوسرے پیشوں کو اختیار کرکے بھی کرسکتے ہو، کیوں ضروری ہے کہ تم امام ہی بنو؟ اس نے سمجھایا کہ عظیم بھائی انگلینڈ میں ایسے اماموں کی اشد ضرورت ہے جو یہاں کے ماحول ہی میں پلے بڑھے ہوں، انگریزی جانتے ہوں، قانون سے واقف ہوں، جدید تعلیم سے آراستہ ہوں اور نوجوان نسل کو درپیش چلینجز سے پوری طرح آگاہ ہوں. اس وقت یہ حال ہے کہ اکثر امام پاکستان، بنگلہ دیش یا عرب وغیرہ سے آتے ہیں. جدید فلسفوں سے آگاہی تو دور ان میں سے اکثر تو انگریزی بھی نہیں بول سکتے. نتیجہ یہ ہے کہ میرے ہم عمر اسلام سے دور ہورہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایک بھرپور عالم بننا چاہتا ہے جو نوجوانوں کے اشکال دور کرسکے. یہ باتیں اس نے ایسے اعتماد اور ٹہراؤ سے کہیں کہ میرا دل اس کی خوبصورت سوچ پر جھوم اٹھا.
.
بے تکلفی بڑھی تو ایک اور موقع پر اس سے نماز کی کیفیت پر بات ہونے لگی. اس نے بتایا کہ عظیم بھائی پچھلے اعتکاف کے بعد سے اب میں جب بھی نماز پڑھتا ہوں تو الحمدللہ اکثر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ پاک کو دیکھ رہا ہوں. میں نے اس کی تصحیح کرتے ہوئے کہا "تمہارا مطلب ہے کہ اللہ پاک تمھیں دیکھ رہے ہیں؟" اس نے نفی میں سر ہلا کر تردید کی اور پھر دہرایا کہ جیسے میں اللہ پاک کو دیکھ رہا ہوں. میرے ذہن میں درجہ احسان والی حدیث گونجی مگر ساتھ ہی اس کی الگ تفسیر بھی یاد آئی. میں نے پریشانی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے احتجاج کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اللہ پاک کی تو کوئی مثال نہیں، انہیں اس مادی آنکھ سے دیکھا جا ہی نہیں سکتا اور جو بھی تصور کرو گے وہ محض ایک خیال ہی ہوگا حقیقت نہیں. اس نے سادگی اور کامل اعتماد سے کہا کہ یہ سب تو مجھے نہیں معلوم مگر یہ میری کیفیت ہے کہ میں اللہ کو نماز کے دوران دیکھتا ہوں. میں اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں اور نہ ہی میں نظر اٹھا کر اللہ پاک کو پوری طرح آنکھ بھر کر دیکھ پاتا ہوں. بس ایک نور ہے، ایک جلال ہے جو میرے سامنے ہوتا ہے مگر میں ادب و خوف سے نظر اپر نہیں کرپاتا، بس روتا جاتا ہوں. یہ بات بیان کرتے ہوئے مجھے اس کا چہرہ مسرت و کرب سے ٹوٹتا محسوس ہوا. میں اپنے اس نوجوان دوست کے لہجے میں چھپی صداقت کو چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا تھا. کیسے کیسے پاکیزہ نفوس ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں مگر ہم اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے انہیں دیکھنے اور سیکھنے سے محروم رہتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment