Friday, 5 August 2016

کراچی سے جب پہلی بار لندن پہنچا تو اپنی مدد آپ کے تحت پہلے ہی روز مرکزی شہر کا نظام سمجھنے کیلئے سفر پر نکل پڑا. یہ شہر واقعی بہت خوبصورت تھا اور میرے لئے دلچسپی و حیرت کا بہت سا سامان رکھتا تھا. میں کبھی صاف ستھری چمکتی سڑکوں کو خوشی سے دیکھتا تو کبھی جدید اندرون زمین ٹرینوں کو دیکھ کر حیران ہوتا. کبھی میری نظر پرانے طرز پر بنی نہایت حسین عمارتوں پر مرکوز ہوتی تو کبھی ہر دوسرے کونے پر موجود کرتب دکھاتے فنکاروں کو دیکھتا رہتا. کبھی دنیا بھر کی اقوام کے چہرے ساتھ دیکھ کر عجیب سا لگتا تو کبھی بناء شرم کھلے عام بوس و کنار ہوتا دیکھ کر حیرت ہوتی. سارا دن یونہی شہر گھومتا رہا اور شہر کا نظام و مزاج سمجھتا رہا. ڈھلتی شام گھر واپسی کی تو ایک سرسبز میدان سے گزرنا پڑا. وہاں دیکھا کہ اونچے اونچے قد کے بہت سے سیاہ فام لڑکے باسکٹ بال کورٹ میں کھیل رہے ہیں. کچھ انگریز لڑکیاں ان کی ہمت بڑھا رہی ہیں. یہ منظر مجھے بلکل کسی ہالی وڈ موووی کا عکس محسوس ہوا. میرے قدم رک گئے اور میں بھی دلچسپی سے ان کا یہ کھیل ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا. ان میں سے کچھ نے آپس میں سرگوشی کی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا، سب نے مجھے چاروں اطراف سے گھیر لیا. صاف ظاہر تھا کہ ان کے ارادے نیک نہیں ہیں. ان ہی لڑکوں میں سے ایک عجیب سی ٹیڑھی چال چلتا ہوا لڑکا جو شائد ان کا سرغنہ تھا ، میرے بلکل سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور غصہ سے مخاطب ہوا
.
'او مظبوط لڑکے مجھ سے لڑو'
.
میرا حلیہ اسوقت ٹھیک ویسا ہی مزاحیہ تھا جیسا اکثر نئے آنے والو کا یہاں ہوا کرتا ہے. کونے سے مانگ نکال کر بال بنے ہوئے، ہاتھ میں بیگ اور جسم پر صدر بازار سے خریدی ہوئی ایک لمبی سی چمڑے کی کالی جیکٹ پہنی ہوئی. میں نے ہکلاتے ہوئے اس لڑکے کو جواب دیا کہ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا. یہ سن کر اس نے نفی میں سر ہلایا اور پھر دہرایا 'لڑکے مجھ سے لڑو'. مجھے رضا مند نہ پاکر اس نے اچانک ایک گھونسہ چہرے پر دے مارا. میں چکرا کر کئی قدم پیچھے چلا گیا. اب اس نے بلکل باکسنگ کا سا انداز بنا کر مجھے پھر للکارا 'لڑکے مجھ سے لڑو'. میں نے اسے سمجھانا چاہا کہ دیکھو میرا تم لوگو سے کوئی جھگڑا نہیں مجھے جانے دو. مگر نہیں بھئی، حضرت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پہلے سے زیادہ شدید مکا دے مارا ، میں اب ایک گھٹنے پر زمین پر بیٹھا تھا. اس نے تیسری بار للکارا تو وہ سارے وعدے جو والدین سے کر کے آیا تھا کہ کسی سے بھی بلخصوص کالوں سے لڑائی نہ کروں گا جو جھگڑوں کیلئے دنیا بھر میں بدنام ہیں. وہ سب ایک لمحے کیلئے ذہن سے محو ہوگیا اور میں نے بھناتے ہوئے پوری قوت سے مقابل کے پیٹ میں گھونسا رسید کردیا. آپ سوچ سکتے ہیں کہ دو گھونسے کھانے کے بعد جب ہم نے یعنی چھ فٹ ایک انچ کے انسان نے جوابی گھونسا مارا ہوگا تو وہ کیسا شدید ہوگا؟ جلدی سے کھڑا ہوا کہ اب بتاتا ہوں اس 'بگ بوائے' کو کہ کراچی کی لڑائی کہتے کسے ہیں؟ مگر یہ کیا جناب؟ یہ صاحب تو کچھ زیادہ ہی نازک مزاج نکلے، پیٹ پکڑے زمین پر آٹھ کا ہندسہ بنے پڑے تھے. اس کے ساتھیوں نے جب یہ دیکھا تو سب ایک ساتھ مجھ پر کود پڑے. اب ظاہر ہے ہم رجنی کانت تو تھے نہیں جو دس گیارہ لوگوں کو اکیلے بھگت لیتے. خوب پٹائی ہوئی، ہم نے بھی دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھایا اور خاموشی سے ان کا پنچنگ بیگ بنے رہے. جب مار مار کر تھک گئے تو میرا بٹوہ نکالا اور اس میں موجود رقم جیب میں رکھ لی. اب اتنی جسمانی تکلیف میں بھی ہمیں یہ تکلیف زیادہ ہونے لگو کہ یار عظیم پہلے ہی روز پیسے چھین لئے. ایک ایک پاونڈ سو سو روپے بن کر ذہن میں نظر آیا. 

No comments:

Post a Comment