Tuesday, 31 May 2016

مخلص یا عقلمند؟


مخلص یا عقلمند؟



آپ کا مخلص اور ایمان دار ہونا آپ کے عقلمند اور درست ہونے کی دلیل نہیں ہے.
۔
آپ بیک وقت نہایت مخلص اور انتہائی احمق ہوسکتے ہیں.
۔
اسی طرح آپ کا پوری ایمان داری سے تحقیق کرنا آپ کے صحیح ہونے کا حتمی ثبوت نہیں ۔
۔
آپ بیک وقت اچھے محقق اور  مکمل غلط ہوسکتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

پرسکون رہنے کا ایک موثر نسخہ


پرسکون رہنے کا ایک موثر نسخہ



اس عارضی دنیا میں پرسکون اور کامیاب رہنے کا ایک موثر نسخہ یہ بھی ہے کہ آپ عملی طور پر بہترین ثمر کی کوشش کریں مگر ساتھ ہی ذہنی طور پر بدترین نتیجے کیلئے تیار بھی رہیں۔ اب اگر نتیجہ بہترین نہ بھی نکلا تو قوی امکان ہے کہ وہ کم ازکم بدترین سے بہتر ہوگا اور اگر فی الواقع بدترین بھی ہوا تو آپ کیلئے صدمے کا سبب نہ بنے گا۔ اب اسی طریق کو ملحوظ رکھ کے بعد از تحقیق دوبارہ بہترین کی کوشش کرلیجیئے۔ کوشش بیشک آپ کے ہاتھوں میں ہے لیکن نتیجہ صرف آپ کے رب کے ہاتھوں میں ہے۔ پس نتیجے کیلئے اسی پر توکل کیجیئے۔ نتیجہ آپ کی مرضی کا نہ بھی ہو تو وہ ان شاء اللہ آپ کی محنت کو ضائع نہ ہونے دے گا۔
۔
====عظیم نامہ====

ایک سطر میں پوچھا گیا سوال


ایک سطر میں پوچھا گیا سوال



اکثر ایک سطر میں پوچھا گیا سوال یا اٹھایا گیا اعتراض اپنے جواب کیلئے ایک لمبے مضمون یا مکالمے کا متقاضی ہوتا ہے. اس امر کا بھی قوی امکان ہے کہ بات سمجھانے کیلئے دوبدو مکالمہ کرنا ضروری ہو . لہٰذا اگر آپ تفصیل طلب سوالات اور اعتراضات کی فہرست فیس بک پر پیش کرنے کے شوقین ہیں اور ان کے جوابات نہ پاکر اس خوشی سے پھول جاتے ہیں کہ شائد آپ کی ان عالی مرتبت باتوں کا مقابل نقطہ نظرکے پاس کوئی شافی جواب سرے سے ہے ہی نہیں تو یہ صریح خام خیالی ہے. جان لیجیئے کہ فیس بک اپنی بات کے اظہار کیلئے جتنی موثر ہے، کسی نتیجہ خیز مکالمے کیلئے اتنی ہی غیر موثر ہے. 
.
====عظیم نامہ====

کعبہ کو مسجد الحرام کیوں کہتے ہیں؟



کعبہ کو مسجد الحرام کیوں کہتے ہیں؟ 



خانہ کعبہ کو مسجد الحرام کیوں کہتے ہیں؟ لفظ حرام تو ہمارے نزدیک اچھا نہیں، اسے خانہ کعبہ کیلئے استعمال کرنے سے جھجھک محسوس ہوتی ہے.
.
جواب: 
یہ جھجھک ہماری عربی زبان سے ناواقفیت کے سبب سے ہے. عربی زبان کے وہ الفاظ جو دیگر زبانوں جیسے اردو میں مستعمل ہوگئے ہیں، وہ کئی بار اپنے حقیقی معنی کھو بیٹھتے ہیں یا اپنی ممکنہ وسعت سے محروم ہوجاتے ہیں یا پھر اس کے ساتھ ایسے تصورات جوڑ دیئے جاتے ہیں جو لفظ کی اصل روح کے خلاف ہوتے ہیں. فقہی اعتبار سے چونکہ حرام ہر اس کام کو کہتے ہیں جس سے دین ہمیں روکتا ہو لہٰذا ایسے افعال کے ساتھ ساتھ لفظ حرام سے بھی ایک غیر محسوس ناپسندیدگی ہم سب مسلمانوں کے اذہان میں گھر کرگئی ہے. حرام کے لغوی معنی “روکنے”کے ہیں. حرام مادہ لفظ حرم سے نکلا ہے جس کے ایک معنی 'مقدس جگہ' کے بھی ہیں. مسجد الحرام چونکہ مقدس ترین جگہ ہے اور اس میں بہت سی حرمتیں بھی مقرر کی گئی ہیں یا یوں کہیئے کہ کئی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جیسے یہاں جنگ کرنا ممنوع ہے. اسی رعایت سے اسے 'مسجد الحرام' یعنی ' حرمت والی مسجد' پکارا جاتا ہے اور اسی بناء پر سال کے چار مہینوں کو اللہ عزوجل نے حرمت والا قرار دیا ہے. اسی طرح حج میں احرام کی حالت میں بھی حاجی پر بہت سی پابندیاں ہوتی ہیں اور اسی لئے اسے 'احرام' کہا جاتا ہے 
.
====عظیم نامہ====

فرض نماز کے وقت دو نمازی


فرض نماز کے وقت دو نمازی



فرض نماز کے وقت دو نمازی ساتھ موجود ہوں اور نماز کیلئے دانستہ جماعت نہ کریں بلکہ اپنی اپنی نماز علیحدہ ادا کرلیں تو یہ بھی ایک طرح کا کفران نعمت ہے. اللہ عزوجل نے انہیں جماعت کی صورت میں ستائیس گنا تک زیادہ ثواب کے حصول کا موقع عطا کیا جو انہوں نے بناء عذر ضائع کردیا. اگر ان کے سامنے ایسا ہی کوئی مالی فائدہ موجود ہوتا تو یہ کبھی اسے ایسے ہاتھ سے نہ جانے دیتے. ان کا دانستہ جماعت کا موقع یوں بناء ملال چھوڑ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ثواب کے حصول کو مال کے حصول سے شاید کمتر جانتے ہیں. یہاں یہ ملحوظ رہے کہ افضل ترین مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ہے، اس کے بعد اگر کسی حقیقی عذر کی وجہ سے مسجد نہ جاسکے تو دو یا دو سے زیادہ افراد کا ایک چھوٹی جماعت کرلینا بہتر ہے اور اس کے بعد آخری درجہ نماز کا انفرادی طور پر ادا کرنا ہے.
.
====عظیم نامہ====

Monday, 23 May 2016

اگر شوہر تھپڑ مار دے




اگر شوہر تھپڑ مار دے 


جب میاں سے کسی بات پر سخت جھگڑا ہو جائے بلکہ تھپڑ شپڑ بھی پڑ جائے اور گھر کا ماحول سخت خراب ہو جائے تو ایسے میں کیا کیا جانا چاہیئے؟
۔
جواب:
۔
اس سوال کا کوئی ایک حتمی جواب راقم کی دانست میں ممکن نہیں۔ کسی بھی دوسری انتہائی صورتحال کی طرح اس معاملے میں بھی حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے گا. غور کیا جائے گا کہ ایسا ناخوشگوار اور برا واقعہ کیوں پیش آیا؟ 
۔
پہلی صورت یہ ہے کہ جس طرح بعض مرد نہایت درشت مزاج ہوا کرتے ہیں، اسی طرح بعض عورتیں بھی اس حد تک بدتمیز اور بد تہذیب ہوتی ہیں کہ شوہر کی زندگی کو آخری درجے میں اجیرن کر چھوڑتی ہیں. ایسے میں بے تحاشہ برداشت کے بعد امکان ہے کہ ایک نفیس انسان بھی اپنا ذہنی توازن عارضی طور پر کھو کر ہاتھ اٹھا بیٹھے. ایسے میں عورت کو دیکھنا چاہیئے کہ جس شوہر نے سالوں کی رفاقت میں کبھی ہاتھ نہ اٹھایا بلکہ اکثر اسے اسکی غلطی کے باوجود مناتا رہا ، تو اب ایسا کیا غیرمعمولی ہوگیا جو یہ سلیم المزاج بھی اتنی مذموم حرکت کربیٹھا؟ اس موقع پر عورت کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے اور اسے اس رشتے کی آخری وارننگ سمجھنا چاہیئے. مرد معافی مانگ لے تو غنیمت سمجھیئے اور معاف کردیجیئے 
۔
اس کے برعکس ایک دوسرا مرد ہے جو کسی کم سنگین بات پر ہاتھ اٹھا بیٹھا ہے تو اس کی خبر لینی چاہیئے. عورت کو اس سے جزوی قطع تعلق یا بڑوں سے شکایت کرنے کا سوچنا چاہیئے. اس مرد کو ہر حال میں یہ شدید احساس دلانا ہوگا کہ اس کا یہ اقدام قطعی طور پر ناقابل قبول ہے اور آئندہ کیلئے یہ مستقل قطع تعلق کا سبب بن سکتا ہے 
۔
ایک تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی مرد فی الواقع وحشی اجڈ ہے اور بیوی کو پیروں کی جوتی سمجھتا ہے. ایسا شخص بلاتامل ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور اسکے سدھرنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے . فوری طور پر ایسے انسان کو اسکی اوقات یاد دلا کر خلع لے لینی چاہیئے. یہ فیصلہ جتنی جلد ہو اتنا ہی بہتر ہے. بچوں کی پیدائش کے بعد معاملات سدھرتے نہیں بلکہ ایک مستقل ٹریپ کی صورت اختیار کرلیتے ہیں.
۔
====عظیم نامہ====
۔
(نوٹ: اس جواب کو محض راقم کی ذاتی ناقص رائے پر محمول کیجیئے۔ اسے شرعی نصوص سے استنباط سمجھنے کی غلطی نہ کیجیئے)

Wednesday, 18 May 2016

مائیکرواسکوپ کے نیچے


مائیکرواسکوپ کے نیچے



جس دن سے آپ نے اپنی زندگی کو دین کے مطابق ڈھالنے کا فیصلہ کرلیا تو سمجھ لیجیئے کہ اسی دن سے آپ مائیکرواسکوپ کے نیچے آگئے. اب ہر ایک آپ کے ہر عمل کا باریکی سے جائزہ لے گا. ممکن ہے کوئی مولوی کہہ کر چھیڑے تو کوئی استہزائی انداز میں صوفی کہہ کر ٹانگ کھینچے. کوئی آپ کی مثبت تبدیلی پر ہنسے تو کسی کو اچانک آپ انتہاپسند نظر آنے لگیں. اگر داڑھی رکھ لی تو ممکن ہے کہ قریبی گھر والے ہی اسے کٹوا دینے پر زور دینے لگیں، اگر کوئی بہن حجاب کرنے لگی تو فوری طور پر اسے اس کے دوسرے گناہ یاد دلا کر منافقت کے طعنے دیئے جائیں گے، اگر دینی محفل میں بیٹھنے لگے تو اسے نوجوانی کا ابال کہہ کر حوصلہ شکنی کی جائے گی، اگر قران حکیم پڑھنے لگے تو کچھ نیم مذہبی لوگ خود قران پڑھنے سے روکیں گے اور اگر شادی شدہ ہے تو ممکن ہے کہ بیوی ہر معمولی غلطی پر آپ کو دین کا طعنہ دے جیسے ' آپ کا سارا دین بس نماز روزے ہی کا ہے؟ ' یا ' سنت سے یہی کچھ سیکھا ہے؟' وغیرہ غرض اپنے پرائے سب جان کو آجائیں گے. 
.
لازمی نہیں کہ ہر کسی کے ساتھ ایسا ہو مگر اکثر ایسا ہوتا ہے. اسلئے اگر آپ کے ساتھ بھی ہو تو جان لیں کہ یہ آپ کا دین کی راہ میں پہلا امتحان ہے. یہ دیکھنے کیلئے کہ آپ کا ارادہ پکا بھی ہے یا نہیں؟ اگر آپ اس مقام پر گھبرا گئے یا ان زیادتیوں کا جواب درشتگی سے دینے لگے تو ناکام ہوجائیں گے. مطلوب یہ ہے کہ آپ سخت بات کا جواب نرمی سے دیں. تنقید کو مسکرا کر سہہ جائیں. بحث مباحثہ کی بجائے خاموشی سے دین پر چلنے کی اپنی کوشش کرتے رہیں. جہاں اس تنقید اور فقروں سے دل زخمی محسوس ہو ، وہاں خود کو یہ یاد دلائیں کہ دین کی راہ میں سختیوں کو سہنا ہی انبیاء و صلحاء کی سنت ہے. حق کی راہ میں مزاحمت نہ آئے ، ایسا ممکن نہیں. اگر مزاحمت نہیں آرہی تو غور کریں کہ کہیں آپ نے باطل سے کوئی 'جنٹل مین ایگریمنٹ' تو نہیں کر رکھا؟
.
====عظیم نامہ=====

دو دوست


دو دوست 



دو دوست ایک خالی دکان میں بیٹھے گپ شپ کررہے تھے. رات گہری ہوئی تو ایک دوست کو کسی ضروری کام کیلئے تھوڑی دیر کو اپنے گھر جانا پڑا. وہ واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ اس کا دوست اسی جگہ بیٹھا زار و قطار رو رہا ہے. گھبرا کے اس نے وجہ دریافت کی تو دوست نے بتایا کہ تمھارے جانے کے فوری بعد ایک خوبصورت عورت یہاں آئی جس نے مجھے اپنی زبان سے زنا کی دعوت دی. مگر میں نے نفس پر قابو پایا اور اسے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ مجھے میرے الله اور اس کے رسول نے بدکاری سے منع کیا ہے. اب میرے یہ آنسو شکر کے آنسو ہیں کہ رب نے مجھے اس مشکل ترین صورتحال میں تمام تر مواقع ہونے کے باوجود ایمان پر قائم رکھا. یہ سن کر پہلا دوست بھی رونے لگا. دوسرے دوست نے استفسار کیا کہ اب تمھارے یہ آنسو کس لئےہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ میرے یہ آنسو بھی شکر کے آنسو ہیں کیونکہ اگر میں تمھاری جگہ ہوتا تو شہوت نفس سے مجبور ہوجاتا اور کبھی خود کو روک نہ پاتا. ضرور اسی لئے میرے رب نے مجھے اس جگہ سے اس وقت تک دور رکھا جب تک گناہ کا امکان تھا. 
.
ان دونوں دوستوں کا رویہ دراصل سچے مومنین کا رویہ ہے. ایک سچا مومن اپنے رب کا ہر حال میں شکر گزار رہتا ہے. وہ راحت اور مشکل دونوں صورتحال میں شکر کے پہلو دیکھ پاتا ہے. وہ شکر کے وقت تو شکر کرتا ہی ہے لیکن صبر کے وقت بھی خود کو شکر سے خالی نہیں پاتا. 
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 17 May 2016

منفی تنقید پر ایک مثبت تنقید


منفی تنقید پر ایک مثبت تنقید 



ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں، ہمارا میڈیا بکا ہوا ہے، ہماری فوج امریکہ کی غلام ہے، ہمارے وکلاء قانون شکن ہیں، ہمارے مولوی تفرقہ پھیلاتے ہیں، ہماری عوام بے ایمان ہے، ہماری کرکٹ ٹیم سٹہ باز ہے، ہمارا کاروباری حلقہ  ناجائز منافع خور ہے، ہمارا ملازمت پیشہ طبقہ کام چور ہے، ہمارے کئی اسکول کالج رشوت لیتے ہیں، ہمارے کئی مدارس میں بچوں کو جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے
.
تو کیا کریں؟ سینہ کوبی کریں؟ ایک دوسرے کے منہ نوچتے رہیں؟ خود کو درست سمجھ کر مقابل کو صلواتیں سنائیں؟ کسی لڑاکا عورت کی طرح ایک دوسرے کو کوسنے دیا کریں؟ یا پھر خودکشی کرلیں؟ ... کیونکہ یہی تو ہم پچھلے بہت سالوں سے تشخیص و اصلاح کے نام پر کررہے ہیں. ہر شخص صرف منفی تنقید اور افکار کا حامل بنا بیٹھا ہے. اس مکھی کی طرح جو صرف گندگی پر ہی بیٹھا کرتی ہے. ہر کوئی کھری کھری سنا رہا ہے. اب تو ہمیں ایک دوسرے کو برہنہ کردینے میں لطف آنے لگا ہے. افسوس یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی اکثر خود ساختہ لکھاری صرف مایوسی کے بیج بوتے نظر آتے ہیں، تنقید برائے تنقید کرتے ہیں. تحریروں سے ایسا معلوم ہوگا کہ شاید وطن کا سارا درد ان ہی کے سینے میں موجزن ہے مگر ذرا نزدیک سے جاکر جائزہ لیں تو شاذ ہی کوئی ایسا ملے جو عملی زندگی میں اس صورتحال کو بہتر بنانے میں کردار ادا کر رہا ہوں. جو کسی اسکول یا فلاحی ادارے سے عملی طور پر منسلک ہو. جو کسی کی تعلیم یا نوکری کا بندوبست کرتا ہو. بلکہ امکان ہے کہ کئی تو ایسے ہوں جو کرپشن کے دست بازو بنے ہوئے ہوں. پھر چاہے وہ ناجائز کنڈا ڈال کر بجلی کی چوری ہو، یا رشوت دے کر کام نکلوانا. میرا ذاتی مشاہدہ تو یہی ہے کہ جو فی الواقع معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرتے ہیں وہ شکایات کا دفتر کھولے نہیں بیٹھے رہتے
.
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات مسائل کی اپنی سنگینی سے زیادہ ان مسائل کو مستقل اچھالتے رہنا مسلہ بن جاتا ہے. میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مسائل کو زیر بحث نہ لائیں. ضرور لائیں مگر اس میں توازن پیدا کریں. جہاں زید حامد کی طرح خوش فہمی کا چیمپئن بننا حماقت ہے وہاں حسن نثار کی طرح مایوسی کا پیغمبر بن جانا بھی دانش کی دلیل نہیں. تنقید ضرور کریں مگر تعریف کے پہلوؤں پر بھی اپنی نظر کرم کیجیئے. مثبت انداز میں تنقید کیجیئے کہ جسے پڑھ کر قاری مایوسی کی دلدل میں نہ جاگرے بلکہ اس میں اپنے سدھار کا جذبہ پیدا ہو. یقین جانیں کہ اسی معاشرے اور اسی ملک میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو مثبت ہے، جسکی تعریف نہ کرکے اور جسے موضوع نہ بناکر ہم ظلم کرتے ہیں. لیکن ہمارے قلم توصیف کرتے ہوئے ٹوٹنے لگتے ہیں، ہماری زبان اس کی تعریف سے دانستہ اجتناب کرتی ہے. اللہ رب العزت نے بھی اپنے بندوں کو جنت اور جہنم دونوں بیان کئے ہیں مگر لگتا ہے ہم صرف جہنم دیکھنا اور دیکھانا چاہتے ہیں. ہماری فوج جب دنیا بھر کی فوجوں میں گولڈ مڈل لیتی ہے تو ہم تعریف کی بجائے ٧١ کی شکست بیان کرنے لگتے ہیں، جب دنیا بھر میں ہماری انٹلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کو اول درجہ دیا جاتا ہے تو توصیف کی بجائے ہمیں ان کی دوسری ناکامیاں نظر آنے لگتی ہیں، ہم دنیا کی ساتویں اور اسلامی ممالک میں پہلی ایٹمی قوت بنتے ہیں تو فخر کی بجائے عبدالقدیر خان کو چوری کا طعنہ دینا شروع ہوجاتے ہیں، ہم میزائل، ٹینک، جہاز، آبدوز سب بنانے لگے ہیں تو خوشی کی بجائے ہمیں جرنیلوں کی کرپشن دکھائی دیتی ہے، ہمارے طالبعلم اپنی ایجادات پر دنیا بھر میں انعامات حاصل کرتے ہیں مگر ہماری گفتگو اور خبروں میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتے، ہمارے کھلاڑی کرکٹ، ہاکی، اسکواش، کبڈی، اسنوکر، باکسنگ، باڈی بلڈنگ سمیت بیشمار کھیلوں میں دنیا بھر میں چیمپین بنتے ہیں مگر ہمارا سارا زور ان کی خامیاں ڈھونڈھنے میں ہی لگ جاتا ہے. ہمارا ملک بہترین ادیب اورشاعروں سے مالامال ہے مگر ہم انہیں سننے کو تیار نہیں ہوتے، ہماری اسی سرزمین پر جید علماء اور محققین زندہ ہیں مگر ہم کچھ رنگ برنگے نیم مولویوں کی خرافات کو اپنی گفتگو کا مرکز بنالیتے ہیں، ہمارا شمار صدقہ و خیرات کرنے والے صف اول کے ممالک میں ہوتا ہے مگر ہم ان لٹیروں کا ذکر کرتے ہیں جو مذہب کی آڑ میں گھناؤنا دھندہ کرتے ہیں. غرض ہمیں مایوسی پھیلانے کی لت سی لگ گئی ہے. ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ ہم میں کچھ خوبیاں بھی ہوسکتی ہیں. 
.
میں پچھلے تیرہ برس سے برطانیہ میں مقیم ہوں جو بجا طور پر ترقی اور انصاف کے حوالے سے پوری دنیا میں مثالی ملک مانا جاتا ہے. میں آپ کو سچائی سے بتاتا ہوں کہ ان کی تمام تر خوبیوں کے باوجود ان میں بیشمار سنجیدہ اور بہت بڑے بڑے مسائل موجود ہیں. یہ اس پر بات کرتے ہیں، تنقید بھی کرتے ہیں مگر ہماری طرح واویلا نہیں کرتے رہتے. اس کے برعکس وہ چھوٹی سے چھوٹی مثبت بات کو بھی کئی گنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کرتے ہیں. وگرنہ ان کے سیاستدان بھی ڈیوڈ کیمرون  سمیت اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں، ان کے پادری بھی بچوں سے زیادتی کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں، ان کے ہاں بھی روزانہ عورتوں کو ریپ کیا جاتا ہے، ان کے اسکولوں میں مہلک نشہ آور ڈرگز باآسانی ملتی ہیں، ان کے جرنلسٹ بھی اکثر پیسہ کھا کر تعریف و تنقید کرتے ہیں، ان کے فوجی بھی طرح طرح کی گندگیاں اور قانون شکنیاں کرتے ہیں، ان کے فٹبال مداحوں پر دیگر ممالک میں 'ہولی گین' یعنی فسادی قرار دے کر پابندی لگا دی جاتی ہے، ان کے ہاں بھی بہت سے کالج یونیورسٹیز جعلی ڈگریاں بنادیتی ہیں، ان کے ہاں بھی دنیا بھر سے 'ہیومن ٹریفکنگ' کے ذریعے جنسی دھندھے کروائے جاتے ہیں...... کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شدت میں کمی ہوسکتی ہے مگر ہر طرح کے خطرناک جرائم اور مسائل یہاں بھی موجود ہیں. یہ ان پر بات ضرور کرتے ہیں مگر اس کا تناسب مثبت باتوں کے ذکر کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے. یہ جانتے ہیں کہ منفی باتوں کا پرچار مزید منفیت کو ہی جنم دے سکتا ہے. مگر چلیں یہ تو پھر دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں سے ہے. آپ پڑوسی ملک بھارت کو دیکھ لیں. کون سا جرم اور مسلہ  ان کے یہاں آپ جیسا یا آپ سے زیادہ نہیں ہے؟ کرپشن ان کے اندر ہے، رشوت ان کے ہاں ہے، دنیا بھر میں سب سے زیادہ عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ اسی ملک میں بنایا جاتا ہے مگر یہ اس کے باوجود پاکستان کے مقابلے میں مثبت باتوں کا ذکر کہیں زیادہ کرتے ہیں. اپنی پولیس کی حوصلہ افزائی کے لئے ڈرامے، فلمیں بناتے ہیں. ہندو مسلم فسادات کی بدترین مثالیں رکھنے کے باوجود، سکھوں کے بد ترین قتل عام کے باوجود یہ خود کو دنیا بھر میں برداشت کا نمونہ بنا کرپیش کرنے میں کامیاب ہیں. ایسا نہیں ہے کہ ان کے مسائل ہم سے چھوٹے ہیں یا ان کے ادارے، فوج، پولیس یا سیاستدان کرپشن میں ملوث نہیں. مگر وہ جہاں ان پر کڑی تنقید کرتے ہیں وہاں زور و شور سے ان کے مثبت پہلو بھی اجاگر کرتے ہیں. ہمیں اسی تنقید و تعریف کے توازن کو سمجھنا ہوگا. مسائل کا رونا اور اخلاص کا ڈھونگ کرنے کی بجائے مجھے اور آپ کو آگے بڑھ کر اپنا اپنا مثبت کردار نبھانا ہے. یاد رکھیں 
.
موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے 
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں، گھر تو آخر اپنا ہے
.
====عظیم نامہ====

Sunday, 15 May 2016

عبادت کا مفہوم


عبادت کا مفہوم 


عبادت لفظ عبد سے نکلا ہے اور عبد کے معنی غلام کے ہیں. اس اعتبار سے عبادت دراصل غلامی کے لغوی معنی خود میں سموئے ہوئے ہے. ضروری ہے کہ پہلے معلوم ہو کہ غلام ہوتا کون ہے؟ جان لیجیئے کہ لفظ غلام اور ملازم یکساں نہیں ہیں. ملازم کسی خاص ملازمت کے لئے مقرر ہوتا ہے، جبکہ غلام ہمہ وقت اپنے مالک کے سامنے ہر قسم کی مشقت اٹھانے کو حاضر ہوتا ہے. جہاں دور حاضر میں مغرب 'آزادی' کو اپنے لئے اثاث کا درجہ دیتا ہے وہاں ایک مسلمان خود کو عبد اللہ یعنی اللہ کا 'غلام' کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے. کلمہ گو افراد میں یہ مغالطہ بھی موجود رہا ہے کہ ان کا ایک گروہ محض پرستش ہی کو عبادت سمجھ بیٹھا ہے جبکہ دوسرا گروہ فقط اطاعت کو عبادت کہہ کر پرستش کے مظاہر یعنی نماز، روزے کا منکر بن جاتا ہے. یہ دونوں انتہائی رویئے ہیں اور دونوں ہی حقیقت کے منافی ہیں. عبادت درحقیقت پرستش اور اطاعت کا مجموعہ ہے. یہ دونوں کے بیک وقت اہتمام کا نام ہے. جہاں ارکان اسلام میں عبادت کا پرستش اور شکر کی صورت میں اظہار ہوتا ہے. وہاں چوبیس گھنٹے کی بقیہ زندگی میں احکام الہی کا عملی مظاہرہ بھی عبادت ہی کا ظہور ہے. عبادت کا ہر وہ تصور ناقص ہے جو ان دونوں لازمی پہلوؤں میں سے کسی بھی ایک کی نفی کرتا ہو. یہ عبادت اور عبد بن کر رہنا ہی انسان و جن کی تخلیق کا مقصد بتایا گیا ہے. چانچہ قران حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اور ہم نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔“( سورہ حشر آیت ۱۹)
.
یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر جن و انس کی تخلیق کا مقصد فقط عبادت ہی تھا تو اسکے لئے ملائکہ پہلے ہی موجود تھے جو پوری طرح فرمانبردار ہیں. پھر کیا ضرورت تھی کہ اس کارخانہ قدرت میں انسانوں یا جنات کو بھیجا جائے؟ جان لیجیئے کہ ہماری تخلیق اس مادی دنیا کیلئے کی ہی نہیں گئی بلکہ اللہ عزوجل نے ہمیں ایک ابدی دنیا کیلئے پیدا کیا ہے جو جنت و جہنم میں تقسیم ہوگی اور جہاں ان دونوں مقامات میں داخلہ میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے گا. اس میرٹ کا حصول اسی دنیا میں اپنائے گئے رویئے کی بنیاد پر ہوگا. اسی نسبت سے اسے دارالامتحان بھی پکارا جاتا ہے. یہ دنیا حد سے حد ایک گزرگاہ ہے، ایک عارضی پڑاؤ ہے، ایک امتحان گاہ ہے جہاں ہمیں ابدی دنیا کیلئے اپنی اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے. صرف ملائکہ، جنات اور انسان ہی نہیں بلکہ تمام جمادات، نباتات، حیوانات، حشرات اور ہر ہر مخلوقات کی تخلیق کا مقصد عبادت ہی ہے. ہر چیز اپنی زبان سے اور اپنی زبان حال سے الله کی تسبیح و عبادت ہی میں مشغول ہے. سورج، چند، ستارے، درخت، پہاڑ سب ایک نظام میں جکڑے اسی عبادت کا شب و روز اظہار کررہے ہیں. آیت مبارکہ میں صرف انسان اور جنات کا ذکر شائد اسی وجہ سے کیا گیا کہ یہی دو مخلوقات ایسی ہیں جنہیں رب العزت نے ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے کہ وہ اس محدود مدت زندگی میں اپنی مرضی سے الله کی عبادت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکیں. دوسرا اہم پیغام اس میں یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ ہماری اصل 'عبد' بن کر رہنا ہے. اگر کوئی بکری یہ کہے کہ میں بکری نہیں گھوڑا ہوں یا کوئی پلیٹ یہ سمجھے کہ میں پلیٹ نہیں چمچہ ہوں تو صرف ان کے کہنے یا سمجھنے سے ان کی حقیقت نہیں بدلے گی. بکری پھر بھی بکری ہی رہے گی اور پلیٹ بہرحال پلیٹ ہی رہے گی. عقلمندی سراب یا دھوکے میں جینا نہیں بلکہ اپنی حقیقت کو تسلیم کرلینے کا نام ہے. کسی بھی تخلیق کی حقیقت و مقصد اس کا بنانے والا ہی سب سے بہتر بتاسکتا ہے. اسی لئے مختلف تخلیق کار مینوفیکچرنگ کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کا مقصد، حقیقت اور استمعال کو تفصیل سے بیان کرتی ہیں. الله رب العزت نے انسان کو تخلیق کیا ہے اور انہوں نے صاف الفاظ میں یہ بتادیا ہے کہ انسان کی حقیقت عبدیت ہے. اسے الله کا عبد بنایا گیا ہے اور اسی رعایت سے اس کا مقصد عبادت یعنی رب کی پرستش و اطاعت کرنا ہے. اگر آج کوئی احمق اپنے عبدالله ہونے کا منکر ہوتا ہے تو لامحالہ انسانی فطرت سے مجبور ہوکر وہ عبادت کے دوسرے بت تراش لے گا. اب چاہے وہ شخصیت پرستی ہو، فرقہ پرستی ہو یا پھر وطن پرستی کا بت ہو. اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے کچھ یوں بیان کیا تھا. 
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
.
عبادت کا ایک اور وسیع تر مفہوم جو راقم سمجھ پایا ہے وہ یہ ہے کہ الله رب العزت نے انسان میں اپنی بہت سی صفات کا محدود عکس انسان میں بھی رکھ رکھا ہے جسے احکام الہی کی روشنی میں نمو دینا بھی عین عبادت ہے. یعنی اللہ العلیم ہیں لیکن تھوڑا سا علم ہم انسانوں کو بھی دیا گیا ہے، الله الحکیم ہے مگر انسانوں میں بھی حکمت کا داعیہ موجود ہے، الله الرحمٰن ہیں مگر رحم کا مادہ انسانوں میں بھی ودیعت کیا گیا ہے. ان صفات میں سے ہر صفت کو قران پاک کی روشنی میں تہذیب کے مراحل سے گزرنا اس خاص صفت الہی میں عبد بن جانے کے مترادف ہے. مثال کے طور پر الرحمٰن کی صفت میں عبد بننے کیلئے جو رویہ اختیار کرنا ہوگا اسکا نقشہ سورہ الفرقان میں کچھ یوں پیش کیا گیا ہے
.
"رحمٰن کے بندے(عِبَادُ الرَّحْمٰنِ) وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے مُنہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے ربّ کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دُعائیں کرتے ہیں کہ”اے ہمارے ربّ، جہنّم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے۔ “ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضُول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہاوٴں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبُود کو نہیں پُکارتے ، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔"  
.
====عظیم نامہ====

Friday, 13 May 2016

کون بہتر ؟


کون بہتر ؟


سوال:
ایک انسان وە ہے جو کچھ نہیں سمجھتا اور ایک وە ہے جو غلط سمجھتا ہے. 
آپ کی نظر میں کون بہتر ہے؟

جواب:
سوال میں ابہام ہے یا یوں کہیئے کہ اس کا اجمال اسے مبہم بنا رہا ہے. جو کچھ نہیں سمجھتا ، اگر اس کا کچھ نہ سمجھنا دماغی عدم توازن، طبعی کمزوری، جبر یا کسی اور شدید حالات کی بناء پر ہے تو وہ معذور شمار ہوگا اور شریعت میں مکلف ہی نہیں لہٰذا اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں تو پھر تقابل بھی نہیں 
.
اگر اس کا کچھ نہ سمجھنا اپنی غفلت، ڈھٹائی اور لاپرواہی کی وجہ سے ہے تو اس سے پورا حساب لیا جائے گا کہ تمھیں فلاں فلاں صلاحیت، قابلیت، طاقت اور موقع حاصل تھا تم نے اسے کیوں ضائع کیا؟ اس صورت میں وہ یقینی طور پر دوسرے شخص سے بدتر ہے جو بعد از تحقیق کوئی نتیجہ قائم کرتا ہے اور وہ غلط نکلتا ہے. 
.
یہ بھی دھیان رہے کہ اگر اخلاص سے تحقیق کی اور نتیجہ غلط نکلا تو بہت امکان ہے کہ اسے اس کے اخلاص کا اجر دیا جائے. جیسے حدیث ہے کہ مجتہد اگر درست اجتہاد کرتا ہے تو دو ثواب ہیں اور اگر غلط اجتہاد کرجائے تب بھی ایک ثواب ہے. راقم کی دانست میں یہی مجتہد والا اصول ہر مخلص محقق پر منطبق ہوسکتا ہے اگر اپنی قابلیت اور حدود سے تجاوز نہ کرے. البتہ اگر یہ غلط نتیجہ اندھی تقلید کی بنیاد پر ہے تو اس شخص کا جائزہ لیا جائے گا کہ اس کیلئے یہ تقلید جائز بھی تھی یا نہیں؟ اگر کے اس شخص کے پاس تحقیقی قابلیت اور ذرائع موجود تھے، سامنے اشکالات بھی تھے اور اس نے محض لاپرواہی کی بنیاد پرتحقیق نہ کی تو پکڑا جائے گا اور اس کا حال بھی ٹھیک ویسا ہی یا شائد اس سے بدتر ہوگا جیسا پہلے شخص کا مواقع و صلاحیت کے باوجود جاہل رہنے کی وجہ سے ہوا تھا.
.
والله اعلم باالصواب

Wednesday, 11 May 2016

بہترین استاد


بہترین استاد


بہترین استاد وہ نہیں جو محض آپ کے سوالات کے شافی جوابات دینے پر قادر ہو بلکہ بہترین استاد تو وہ ہے جو مرشد بن کر آپ کے پوشیدہ روحانی امراض کا معالج بھی بن جائے. جو جہاں آپ کی عقل کو دلائل سے سیراب کرسکے وہاں آپ کے قلب کی تشنگی بھی دور کردے. وہ آپ کی شخصیت میں اتر کر تکبر، حسد، شہوات اور دیگر بیماریوں کی آپ کے سامنے تشخیص بھی کرے اور پھر تربیت سے اس کا شافی علاج بھی فراہم کردے. رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات اور طریق تربیت پر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اکثر سائل کے سوال کا جواب اسکی داخلی حالت و کیفیت کے حساب سے دیا کرتے. یعنی جب نصیحت کرتے تو کسی صحابی کو غصہ پر قابو پانے کی تلقین ہوتی، کسی کو مال خرچ کرنے کی ترغیب ہوتی، کسی کو والدین سے حسن سلوک کی ہدایت کرتے، کسی کو سلام میں پہل کرنے کی تعلیم دیتے تو کسی کو جہاد و قتال پر ابھارتے. الغرض یہ کہ مخاطب جس پہلو سے روحانی کمزوری کا شکار ہوتا ، اسے موضوع بناکر اس پر نصیحت کا مرہم رکھ دیتے. افسوس کہ آج یہ تصور قریب قریب گم ہوکر رہ گیا ہے. اکثر جو روحانی تذکیر کی بات کرتے ہیں وہ جدید اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب نہیں دے پاتے اور جو پرتشفی جوابات دینے پر قادر ہوں وہ روحانی تربیت کے رموز سے خالی نظر آتے ہیں. اگر آج الله پاک نے آپ کو استاد کی مسند پر بیٹھا رکھا ہے تو لازمی ہے کہ آپ اپنے مخاطبین کی اصلاح دونوں پہلوؤں سے کرنا سیکھیں. اگر کسی ایک پہلو میں بھی ٹھیک توجہ نہ دی گئی تو تربیت ادھوری ہی قرار پائے گی. شاگرد کو بھی چاہیئے کہ وہ کسی ایسے استاد کو کھوجنے کی کوشش کرے جو بیک وقت اس کی منطقی الجھنیں بھی سلجھا سکے اور اس کے باطنی وجود کو بھی پاکیزہ کردے. گو ایسے استاد ملنا بہت مشکل ہیں. اگر ایسے استاد کو کوشش کے باوجود نہ ڈھونڈھ پائے تو پھر یہ کوشش کرے کہ دو مختلف استادوں سے اپنے ان دونوں پہلوؤں کو مستحکم کرنے کا اہتمام کرے. 

.
====عظیم نامہ====

ایک بےحس کی دعا


ایک بےحس کی دعا





"آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے" (القران ٤:٧٥) 
.
یا اللہ ہم بے غیرتوں کو غیرت دے دے. یا اللہ ہم بے شرموں کو شرم دے دے. یا الله ہم بے حسوں کو احساس دے دے. یا اللہ ہمارے حکمران فاسق و فاجر ہوگئے. یا الله ہمارے علماء فرقہ پرست ہوگئے. یا الله ہم بھی وہ امت نہ رہے جو ایک دوسرے کا درد محسوس کرسکے. یا الله ہماری شامت اعمال ہم پر کم ہمتی کی صورت مسلط ہو گئی.

اے رب ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق دے. اے مالک ہمیں یہ ہمت دے کہ ہم تیرے دین کے نام پر جمع ہوسکیں. اے رب ہمیں وہ خلافت منہاج النبوہ عطا کر کہ جس کی بشارت آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہے. اے رحمٰن ملک شام کے مسلمانوں کی حفاظت فرما. اے قہاران ظالموں پر اپنا قہر نازل کر جو آج چاروں اطراف مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں. اے منتقم ہمیں ان ظالم حکمرانوں سے نجات عطا کر جو باطل کے دست و بازو ہیں ..... آمین

نیت ثابت تو منزل آسان


نیت ثابت تو منزل آسان 



انہوں نے کہا : امیر کے بچے کو اس کی عیاشیاں دین پہ چلنے نہیں دیتے، اور غریب کے بچے کو اس کی غربت۔۔۔۔۔۔۔۔!
. 
ہم نے عرض کی: آپ ہی کی بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جو دین پر چلنے میں مخلص ہوں ان کے راستے نہ امیری روکتی ہے نہ غریبی حائل ہوتی ہے
. 
نیت ثابت تو منزل آسان 
نیت جھوٹی تو بہانے ہزار !

====عظیم نامہ====

چوری شدہ مرغی


چوری شدہ مرغی



سوال:
عظیم بھائی کیا چوری شدہ مرغی کو ذبح کرتے وقت تکبیر پڑھنا ضروری ہے؟
.
جواب: 
گو آپ کے اس عالی مرتبت سوال کا فوری شرعی جواب تو مجھ کند ذہن کے پاس نہیں ہے مگر راقم کی ناقص رائے میں تکبیر پڑھنا پھر بھی ضروری ہے. تکبیر پڑھ کر ذبح کرنے سے چوری کی ہوئی مرغی آپ کے کھانے کیلئے حلال تو نہ ہوگی مگر اس سے آپ ایک اور اضافی گناہ سے محفوظ ہوجائیں گے. آسان الفاظ میں مرغی چوری کرنا ایک گناہ تھا اور اسے ذبح کئے بناء کھانا گناہ پر گناہ. چوری کرکے کھانا ایک الہامی حکم کی خلاف ورزی تھی اور ذبیحہ کے بناء کسی جانور کو تناول کرنا دوسری الہامی حد کی پامالی تھی. یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے دو چور کسی کا مال چوری کریں، ان میں سے ایک چور اس مال سے حلال مرغی کھائے اور دوسرا خنزیر کا گوشت خرید کر کھانے لگے. ظاہر ہے ایسے میں دوسرا چور قبیح تر جرم کا مرتکب قرار پائے گا.
.
نوٹ: یہ ایک کم علم طالبعلم کی 'ناقص' رائے ہے. حکم شرعی کیلئے کسی فقہ کے ماہر سے رجوع کیجیئے

====عظیم نامہ====

شب معراج


شب معراج



شب معراج میں واقعہ معراج کے ساتھ ساتھ اس جملے پر بھی ذرا غور کیجیئے جسے بطور حدیث کئی اہل علم بیان کرتے آئے ہیں اور جسے کم از کم متن کے اعتبار سے کم و بیش سب تسلیم کرتے ہیں۔ گو اس کے الفاظ کی کوئی حتمی سند زخیرہ احادیث میں ہمیں میسر نہیں۔ 
۔
الفاظ کچھ یوں ہیں کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الصَّلٰوةُ هِيَ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ. ’’نماز ہی مومن کی معراج ہے۔‘‘
( سيوطی، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 313، رقم : 4239)
.
غور کیجیئے کہ اگر واقعہ معراج رب کے سامنے حضوری، کشف المحجوب اور قرب الہی کا بیان ہے تو پھر نماز کو پیر کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج سے تشبیہہ کیوں دی؟ ایسا کیا کریں جو ہماری نماز فی الواقع معراج کی تعریف پر کسی حد تک پوری اتر سکے.

====عظیم نامہ====

حیوانی وجود اور روحانی وجود


حیوانی وجود اور روحانی وجود



جان لیجیئے کہ آپ کی شخصیت دو حقیقتوں کے مرکب سے وجود میں آتی ہے. پہلا آپ کا حیوانی یا جسمانی وجود اور دوسرا آپ کا نورانی یا روحانی وجود. جس طرح اس جسم کی آنکھیں ہیں جس سے آپ دیکھتے ہیں، کان ہیں جس سے آپ سنتے ہیں، ذہن ہے جس سے آپ سوچتے سمجھتے ہیں. ٹھیک اسی طرح آپ کے روحانی وجود کی بھی آنکھیں ہیں جو مشاہدہ کرتی ہیں، کان ہیں جو خبر پاتے ہیں، ذہن ہے جس سے آپ غور و فکر کرتے ہیں. جس طرح آپ کے جسمانی وجود کی خوراک مختلف اجناس کی صورت میں موجود ہیں. اسی طرح آپ کے روحانی وجود کی خوراک ذکر اللہ اور تفکر و تدبر کی صورت موجود ہیں. 
.
====عظیم نامہ====

راستہ اور منزل


راستہ اور منزل

No automatic alt text available.
سوچیئے کہ آپ کو ایک میراتھن ریس یعنی انسانی دوڑ میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے. ایک بہت بڑے انعام کا اعلان کیا جاتا ہے کہ جو جو بھی دوڑ مکمل کرے گا، دی گئی ہدایات پر عمل کرے گا اور راستے میں موجود مختلف مقامات پر نصب جھنڈوں کو اکٹھا کرکے آخری منزل پر پہنچے گا اسے یہ بیش قیمت انعام حاصل ہوجائے گا. 

.
دوڑ کیلئے بچھائے گئے ٹریک کو دونوں اطراف میں خوبصورت پھولوں سے سجا دیا جاتا ہے، دیکھنے میں آسانی کیلئے بہترین برقی قمقموں کا بندوبست ہوتا ہے، دوڑنے کیلئے انتہائی آرام دہ جوتے آپ کو دے دیئے جاتے ہیں. اس کے علاوہ بھی طرح طرح کی آسانیاں اور ہدایات اس راستے میں نصب کی جاتی ہیں. دوڑ کا آغاز ہوتا ہے تو کچھ افراد تو نہایت تیزی و پھرتی سے اپنی منزل کی جانب دوڑ لگادیتے ہیں. یہ عقلمند لوگ راستے میں موجود سہولیات سے حتی المکان استفادہ کرتے ہیں اور انتظامیہ کے اس بہترین انتظام پر دل سے شکر گزار ہوتے ہیں. اس سب کے دوران ان کی نظر اپنے ہدف سے نہیں ہٹتی اور ایک لمحے کو بھی وہ اپنی منزل سے غافل نہیں ہوتے. اس کے برعکس کچھ اور لوگ اس دوڑ میں نہایت احمق ثابت ہوتے ہیں. وہ راستے میں موجود سہولیات کی چمک دمک دیکھ کر اپنی رفتار کم کر دیتے ہیں یا رک کر ان ہی میں کھو جاتے ہیں. کوئی برقی قمقموں کی ساخت پر غور کرنے لگتا ہے. کوئی موجود ہدایات کی حکمت کو بیان کرنے لگتا ہے. کوئی جھمگھٹا لگا کر انتظامات کی تعریف میں مشغول ہوجاتا ہے اور کوئی دوسرے افراد کو اس دوڑ کے جسمانی فوائد گنوانے لگتا ہے. اس صریح حماقت کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ پہلے گروہ کے علاوہ باقی سب افراد منزل پر پہنچنے اور کامیابی کو حاصل کرنے سے محروم رہیں گے. واحد وجہ ناکامی کی یہی ہے کہ انہوں نے منزل کو فراموش کرکے راستے کو ہی اصل سمجھ لیا. 
.
اس دنیا میں ہم مسلمانوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے. ہم میں سے کسی نے نماز روزے کو اصل سمجھ لیا تو کسی نے ذکر کی محفلیں سجانے کو اصل بنا لیا. کسی نے قیام خلافت کو اصل سمجھا تو کسی نے تبلیغ دین کو اصل گردانا. کوئی فن تفسیر کا شیدائی ہوگیا تو کوئی اصول الفقہ سے محبت کربیٹھا. کوئی فن حدیث میں غرق ہوگیا تو کوئی مسائل تصوف کو اپنا دل دے بیٹھا. حقیقت میں ان تمام عبادات و علوم کی حیثیت صرف 'ذریعے' اور 'راستے' کی تھی. 'منزل' تو اپنے رب کی خوشنودی اور اسکے لئے پاکیزہ قلب کا حصول تھا. سوچیئے کہ اگر ان ریاضتوں میں کھوکر اصل منزل سے نظر ہٹ گئی تو یہ کتنی ہولناک ناکامی ہے؟ اگر میری نماز، میرے ذکر، میرے علم، میرے عمل نے میری تہذیب نفس نہ کی اور مجھے خدا سے قلبی تعلق نہ دیا ، اسکی معرفت نہ دی تو پھر میری مثال بھی اسی شخص کی ہوگی جو دوڑ میں منزل بھلا کر رستے کی چمک دھمک میں کھوگیا. 
.
====عظیم نامہ=====

اصل حکم اور اضافی ثواب


اصل حکم اور اضافی ثواب



ایک استاد نے اپنے دو شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ ایک ایک پیالہ پانی کا باہر رکھے مٹکے سے بھر کر لائیں. ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی کہ اس کام میں جو جو قدم تم بڑھاؤ گے تو ہر قدم پر تمہیں اضافی نمبرز سے نوازا جائے گا جو سال کے آخر میں تمہارے مجموعی نتیجے کا حصہ بن جائیں گے. اب یہ غیر معمولی خوشخبری پاکر پہلا شاگرد مٹکے کی جانب خوشی خوشی گیا، پانی پیالے میں بھرا اور اسے سنبھال کر واپس استاد کے پاس لے آیا. نتیجہ یہ کہ استاد نے اسے شاباشی بھی دی اور وعدے کے مطابق اسے ہر قدم پر اضافی نمبرز سے بھی نوازا. دوسرے شاگرد نے چالاکی دیکھانا چاہی اور بجائے اس کے کہ پانی لے کر استاد کے پاس آتا، وہ مٹکے کے ارد گرد چکر لگانے لگا. سارا وقت وہ یہ سوچ کر یہاں وہاں گھومتا رہا کہ میرے ہر ہر قدم پر استاد مجھے اضافی نمبرز دیں گے اور یوں میں کامیاب ہوجاؤں گا. اب بتایئے اس دوسرے شاگرد کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہوگی؟ ظاہر ہے کہ ہر صاحب شعور ایسا منظر دیکھ کر اپنا سر پیٹ لے گا اور اس احمق کو سمجھائے گا کہ ہر قدم پر اضافی نمبرز تمھیں اسی صورت مل سکتے تھے جب تم استاد کا اصل حکم بھی پورا کرتے یعنی مٹکے سے پیالے میں پانی بھر کر واپس استاد کو لاکر دیتے. تم نے اصل مقصد فراموش کردیا اور ضمنی منسلک فضیلت کو اصل سمجھ لیا. لہٰذا تمہارا وقت بھی ضائع ہوا، استاد بھی ناراض ہوئے، تم خود بھی ہلکان ہوئے اور اضافی نمبرز بھی ہاتھ سے گئے. 
.
قران مجید کا اصل مقصد انسان کی ہدایت کا حصول ہے. زندگی فرد اور معاشرے کی سطح پر کیسے گزارنی ہے؟ یہ قران حکیم کا پیغام ہے. یہ دنیا آخرت کی کھیتی کیسے بنے گی؟ قران پاک اس کی تعلیم دیتا ہے. یہ ہدایت اور یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک اس کلام کو سمجھ کر نہ پڑھا جائے. اس پر گہرا تدبر و تفکر نہ ہو. اس کو عمل میں ڈھالنے کی کوشش و سعی نہ ہو. افسوس کے وہ کتاب جس نے زندگی میں انقلاب لانا تھا ، آج مسلمان نے اس کتاب کی بناء سمجھے تلاوت کرکے ثواب کمانے کو اس کا اصل سمجھ لیا. سمجھ کر پڑھنے کی ترغیب دو تو جواب میں کہتے ہیں کہ حدیث پاک میں کہا گیا کہ قران مجید کے ہر ہر حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ہیں. لہٰذا ہم اسے بناء سمجھے بس تلاوت کرتے رہیں گے. افسوس کیسا عجیب استدلال ہے؟ ان کی حالت میں اور اس دوسرے شاگرد کی حالت میں کوئی فرق ہے کیا ؟ جو پانی لانے کے اصل حکم کو بھول کر ہر قدم پر اضافی نمبرز کی فضیلت کو اصل بنا بیٹھا تھا. یہ تو شائد سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص قران مجید کو سمجھنے کی کوشش کرے مگر دوسری زبان میں ہونے کی وجہ سے ایک زمانے تک وہ صحیح سے سمجھ نہ سکے اور اس دوران بناء سمجھے بھی محبت سے تلاوت کرتا رہے تو رب پاک اس کی اخلاص نیت پر اسے ہر ہر حرف پر دس نیکیاں دیں. مگر وہ شخص جو جانتے بوجھتے، عقل و صلاحیت رکھنے کے باوجود قران کو کبھی سمجھ کر پڑھنے کی کوشش ہی نہ کرے تو اس سے بڑی زیادتی کیا ہوگی؟ کسی متکلم کی اس سے زیادہ ناراضگی اور کس بات پر ہوگی کہ سامع یا قاری اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش تک نہ کرے ؟
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 4 May 2016

سلام کی کہانی


سلام کی کہانی
 


.
سلام کے لغوی معنی سلامتی کے ہیں. ہمارے دین اسلام کی بھی لغوی تحقیق دیکھیں تو اس میں لفظ سلم اور سلام دونوں پنہاں نظر آتے ہیں. سلم کے معنی اپنی مرضی کو اللہ رب العزت کی رضا کے سامنے نچھاور کردینا ہے، جب کہ سلام سے مراد جیسے پہلے ہی لکھ دیا سلامتی و سکون کے ہیں. آسان الفاظ میں اسلام کے لغوی معنی 'اپنی مرضی کو الله کی مرضی کے سامنے نچھاور کرکے سلامتی حاصل کرلینا' ہیں. جب ایک بندہ یا ایک معاشرہ اپنی مرضی کو اپنے رب کی مرضی کے سامنے بچھا دیتا ہو تو اس کا لازمی پھل سکون و سلامتی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے. سلم عمل ہے اور سلام اس کا نتیجہ. ہمیں سلم سے سلام کا سفر کرنا ہے. ہمیں مسلم بننا ہے.  
.
شریعت میں خاص تلقین کی گئی ہے کہ ہر مسلم اپنے دوسرے مسلم بھائی سے جب بھی ملے تو اسے سلام کہے اور سننے والا جواب میں ویسے ہی یا بہتر طور پر سلام پیش کرے جیسے السلام و علیکم کا جواب وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کے الفاظ سے دینا. چنانچہ حکم باری تعالیٰ ہے. "جب تمہیں سلام کیاجائے تو تم سلام سے بہتر الفاظ سے جواب دو، یا اسی کے مثل جواب دو۔" (النساء:۸۶) 

غور کیجیئے تو السلام و علیکم کہنا انگریزی کے ہیلو ہائے کہنے کی طرح محض گفتگو کے آغاز کا کلمہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل دعا ہے جس میں آپ اپنے مخاطب کو سکون و سلامتی کی دعا دیتے ہیں. جواب میں آپ کا مخاطب آپ کو مزید بہتر انداز سے سکون و سلامتی کی دعا دیتا ہے. اگر یہ عمل اخلاص و سمجھ کے ساتھ ساتھ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ معاشرہ سکون و سلامتی کا مظہر بن جائے. راقم کی اس تحریر کے قارئین سے استدعا ہے کہ وہ اس عمل کو تجرباتی طور پر کرکے دیکھیں یعنی اگلی بار جب اپنے کسی مسلم بھائی کو سلام کریں تو اس شعور کے ساتھ الفاظ ادا کریں کہ آپ دل سے اسے دعا دے رہے ہیں. انشاللہ اسی فرحت و تسکین کا ظہور ہونے لگے گا جو اکثر قلب سے مانگی دعا کے بعد ہوا کرتا ہے. صحابہ رض کا یہ عمل تھا کہ وہ بازار اسی نیت سے جاتے کہ سب کو سلام کریں گے. وجہ یہی کہ انہیں اس سے پھیلتی ہوئی سلامتی نظر آتی تھی. یوں تو سلام کرنے کی تلقین پر بیشمار احادیث موجود ہیں مگر چند ایک یہاں پیش کئے دیتا ہوں. ترمزی شریف کی وہ حدیث یاد کریں جس میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی الله و الہے وسلم نے فرمایا کہ " تم جنت میں داخل نہ ہوگے جب تک ایمان نہ رکھتے ہو، اور تم ایمان نہیں رکھ سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو. کیا میں تمھیں وہ بات نہ بتاؤں ؟ جسے اگر تم کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے ؟ .. (وہ راز کی بات یہ ہے کہ) آپس میں سلام پھیلاؤ."  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو مسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرتا رہے۔"(ابوداؤد۲/۷۰۷). ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: " کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور جانا پہچانا اورانجان ہر ایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے" (بخاری۲/۹۲۱)۔
.
اصولی طور پر واجب یا فرض کفایہ عمل کا ثواب سنت سے زیادہ ہوا کرتا ہے مگر سلام کے ضمن میں سنت کا ثواب واجب یا فرض کفایہ سے زیادہ ہے. سلام کرنا سنت ہے مگر سلام کا جواب دینا واجب یا فرض کفایہ ہے. فرض کفایہ سے مراد یہ ہے کہ جو اپنی اصل میں سب پر فرض ہو مگر کچھ کے ادا کردینے سے سب کی جانب سے ادا ہو جائے اور کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب کے لئے گناہ قرار پائے. اس کی مثال یوں سمجھیئے کہ آپ کسی محفل میں بیٹھے ہوں اور کوئی نیا آنے والا باآواز بلند سلام کرے. اب کیا پوری محفل میں موجود ہر ہر شخص کو لازمی جواب دینا ہوگا؟ نہیں بلکہ اگر محفل میں سے کچھ لوگ جواب دے دیں تو سلام کا جواب دینے کی ذمہ داری سب کی جانب سے ادا ہو جائے گی. اسی طرح سلام کا بہتر الفاظ سے جواب دینا مستحب ہے. 
.
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم غیر مسلم کو سلام کر سکتے ہیں ؟ یا اس کے سلام کا جواب دے سکتے ہیں؟ اس ضمن میں اہل علم کے درمیان دو آراء موجود ہیں. پہلی رائے کے حساب سے کسی غیر مسلم کو سلام کرنا یا اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا جائز نہیں. وہ اپنی دلیل ان احادیث سے حاصل کرتے ہیں جو ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے. جس میں رسول ص اور صحابہ اکرام رض نے غیر مسلموں کے سلام کا جواب صرف 'وعلیکم' کہہ کر دیا اور ساتھ میں لفظ سلام نہ لگایا. دوسرے رائے سے منسلک محقیقین پہلی رائے کو ایک علمی غلطی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر احادیث کے ذخیرے کو سامنے رکھا جائے تو اس غلطی کا تدارک ہوجاتا ہے. اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری حدیث (١٤/١٤٦) میں بیان ہوئی ہے. جس کے مفہوم کے مطابق ایک بدبخت یہودی نے رسول کریم ص کو "السلام و علیکم" (آپ پر سلامتی ہو) کی جگہ "السّام علیکم" (آپ پر موت ہو) کے الفاظ ادا کئے. ان الفاظ کو بھانپ کر حضرت عائشہ رض نے غصہ سے جواب دیا "بل علیکم ال سام ولعنہ" (نہیں ، تم پر موت اور لعنت ہو). پیغمبر اسلام ص نے حضرت عائشہ رض کو دھیمے سے سمجھایا کہ اللہ رب العزت کو ہر کام میں نرمی پسند ہے. حضرت عائشہ رض نے رسول ص سے جوابی عرض کیا کہ کیا آپ نے سنا نہیں تھا کہ اس یہودی نے آپ کو کیا کہا تھا؟ .. آپ ص نے فرمایا میں نے جواب میں اسی لئے کہا "وعلیکم" (اور تم پر بھی) 
.
مندرجہ بالا حدیث سے صراحت ہو جاتی ہے کہ سلام کے جواب میں سلام کی بجائے صرف وعلیکم کہہ دینا ان غیرمسلموں تک موقوف ہے جو السّام علیکم جیسے فتنہ انگیز الفاظ استعمال کریں. ایک اور حدیث کے مفہوم میں صحابہ رض نے دریافت کیا کہ بعض غیرمسلم سلام کے الفاظ کی بجائے بددعا کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ہم جواب میں کیا کہیں؟ تو آپ ص نے کہا کہ تم جواب میں وعلیکم کہہ لیا کرو. اس کے علاوہ ایک اور حدیث جس میں اہل کتاب سے سلام کی ابتدا کرنے کو منع کیا گیا ہے. دوسری آراء والے علماء کے بقول یہ امر ایک خاص وقت اور واقعہ تک محدود ہے جب بنو قریظہ کے خلاف ان کی حرکات کی پاداش میں مسلمانوں کو کچھ تادیبی احکام دیئے گئے تھے. جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے. قران حکیم نے تو واشگاف الفاظ میں بناء مسلم و غیرمسلم کی تخصیص کے یہ تلقین کی ہے کہ اگر کوئی جاہل تم سے بحث کے درپے ہو تو اس سے الجھنے کی بجائے اسے سلام کہو. لہٰذا سورہ القصص کی 55 آیت میں ارشاد ہے: "اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو ہمارے اعمال اور تم کو تمہارے اعمال۔ السلام و علیکم (تم کو سلام) ۔ ہم جاہلوں کے خواستگار نہیں ہیں" 
اس آیت کے حوالے سے یہ بتانا بھی قابل ذکر ہوگا کہ دور حاضر میں ہم میں سے اکثر اس حکم کا عملی اطلاق یا تو کرتے نہیں یا پھر ایسے انداز میں کرتے ہیں جس سے مخاطب کی تحقیر ہو اور اسے احساس ہو کہ ہم نے اسے جاہل سمجھ کر سلام کیا ہے. جان لیجیئے کہ عربی زبان میں جاہل صرف غیر پڑھے لکھے کو نہیں کہتے بلکہ اسے کہتے ہیں جس کی عقل پر جذبات کا پردہ پڑا ہوا ہو. ایسا شخص ظاہر ہے کہ سکون و سلامتی  سے خود بھی محروم ہوتا ہے اور اپنے ماحول کو بھی تخریب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے. ایک مسلم کا اسے سلام کرنا دراصل اس کے لئے خیر کی دعا ہوتا ہے کہ جس سلامتی سے وہ اس وقت محروم ہے، الله پاک اسے وہ عطا کردیں. دعا ظاہر ہے درد دل کے ساتھ ہی ممکن ہے ، تحقیر و تذلیل کے جذبے کیساتھ نہیں. 
.
====عظیم نامہ====