Tuesday, 30 January 2018

موت سے بھی بھیانک 

موت سے بھی بھیانک
==============
.
امریکہ ہو یا پھر یورپ کا کوئی بھی ملک ہو، آپ کو سڑکوں پر بیشمار مفلوک الحال افراد اذیت کی تصویر بنے نظر آئیں گے . بال بکھرے ہوئے، جسم سے بدبو کے بھبھکے اٹھتے ہوئے، چہرے پر کئی طرح کے زخم، دانتوں میں کیڑے پڑے ہوئے، موٹا گندہ سا لباس پہنے ہر آتے جاتے سے بھیک مانگنا اور رات میں سڑک کے کسی کونے کھدرے میں شدید سردی میں سوجانا. انہیں مغرب میں 'ہوم لیس' یعنی بے گھر افراد کے نام سے پکارا جاتا ہے. ان کی اکثریت وہ ہے جو کسی حادثے یا صدمے کے سبب اپنی زندگی کا مقصد کھو بیٹھے ہیں. کسی کا محبوب اسے دغا دے گیا، کسی کی اولاد حادثے میں مر گئی، کسی کو اپنے احساس جرم نے جکڑ لیا، کچھ شراب کے عادی ہوگئے، کچھ منشیات کے، کچھ دونوں کے اور کچھ بناء کسی لت کے یونہی حسرت و یاس میں ڈوبے ہوئے ہیں. دوست، عزیز، گھر والے سب ان سے منہ موڑ چکے ہیں. آتے جاتے لوگ انہیں دھتکارتے ہیں، ان سے گھن محسوس کرتے ہیں. جیسے یہ انسان نہیں بلکہ زمین پر بکھری غلاظت ہوں. جون ایلیاء کا ایک جملہ کسی اور کے لئے سچ ہو نہ ہو، ان کی حالت کا عکاس ضرور محسوس ہوتا ہے "تمہارے ہونے کی اب محض ایک ہی دلیل رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ تم جگہ گھیرتے ہو۔" ان کی زندگی رنگ اور مقصدیت دونوں ہی سے خالی ہے. یہ بس سانس لیتے ہیں اس لئے جی رہے ہیں. ورنہ حقیقت میں تو یہ اپنی ہی لاش اپنے کاندھوں پر لادے ہوئے ہیں. ان کی ویران آنکھوں میں چھپے کرب کو کوئی مہذب انسان کیوں محسوس کرے؟ ہم مہذب انسانوں  کے نفس کی تسکین کے لئے تو شائد یہی بہت ہے کہ ان بیکار لوگوں کی جانب چند سکے اچھال دیں  یا اپنا بچا ہوا سینڈوچ انہیں دان کرکے اپنی نیکی پر مسرور رہیں. کسی شریف آدمی کو کیا پڑی ہے کہ وہ یہ جانے کہ ایسا کیا ہوا؟ جو ایک ہنستا مسکراتا انسان اجڑ گیا. ایسا ویران ہوا جیسے کبھی آباد ہی نہ تھا؟ کوئی کیوں ان میں سے کسی کا ہاتھ تھامے ؟ گلے لگائے ! نہیں نہیں ... ہم کسی نشئی، کسی ہیروینچی، کسی پلید جسم کو کیونکر توقیر دیں گے؟ ..... حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں. 😢
.
وہ انگریز نوجوان میری ٹیم میں کام کرتا تھا. اکیس بائیس برس کا خوبرو اور کھلنڈرا سا لڑکا .. جسے بات بے بات ہنسی آتی رہتی تھی. ایک روز ... نوکری سے نکال دیا گیا کیونکہ کسی دوست نے اسے منشیات لا کر دے دی تھیں جنہیں پیتا ہوا وہ پکڑا گیا. وہ چلا گیا اور پھر سالوں نہ نظر آیا. لیکن اس دن جب میں سردی میں سکڑتا گھر کی جانب تیز قدم بڑھا رہا تھا تو کسی نے فریاد کی کہ 'کیا آپ مجھے پلیز ایک پاؤنڈ دے سکتے ہیں؟' .. پلٹ کر دیکھا تو دل کو گھونسا لگا کہ وہی حسین نوجوان اب کسی مرجھائے ہوئے پھول کی مانند بھیک مانگ رہا تھا. اسکی ناک سے خون رس رہا تھا. وہ مجھے نہیں پہچانا مگر میری روح کو چھلنی کرگیا. کیوں ہمیں ان سسکتے ہوئے لوگوں کی فکر نہیں؟ کیا ایک اچھی زندگی پر اور رب العزت پر معاذ اللہ میرا یا آپ کا یا متمول افراد کا کاپی رائٹ ہے؟ کیا یہ اللہ کے بندے نہیں؟ کیا یہ بیمار نہیں؟ کیا یہ میری توجہ، میری محبت، میری مدد کے انتہائی مستحق نہیں؟ یا پھر میں نمازیں پڑھ کر یا  چندے دے کر یا چیریٹی کر کے یا دعوت دین دے کر مطمئن رہوں؟ .. آپ احباب کا نہیں معلوم مگر میرا ضمیر مجھے کوس رہا ہے. پاکستان یا انڈیا میں تو ان مظلوموں کے حالات اور بھی خستہ ہیں. اکثر لوگ صرف انہیں دھتکارتے ہیں، کام نہ کرنے کا طعنہ دیتے ہیں، ان کا مزاق اڑتے ہیں. ان کے علاج یا انہیں اس لت سے نکالنے کا بہت ہی کم لوگ سوچتے ہیں. ضروری ہے کہ میں اور آپ ان کیلئے جو ممکن ہو کریں. اور کچھ نہیں تو کم از کم انہیں کسی عزت دار انسان جیسی  عزت و محبت ضرور دیں. لوگ بحث کرتے ہیں کہ سزائے موت ایک ظالمانہ سزا ہے جسے ختم کردینا چاہیئے. میں سوچتا ہوں کہ پھانسی پر جھول کر ایک بار مر جانے والا انسان اس انسان سے کتنا زیادہ خوش قسمت ہے جو پل پل ہزار موتیں مر رہا ہے؟ جو کسی بند جیل کی تنگ کوٹھری میں عمر قید بھگت رہا ہے یا جو اس کھلی فضاء میں بھی گھٹ گھٹ کر سانس لے رہا ہے.
.
کوئی فریاد ترے دل میں دبی ہو جیسے
تو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے
.
جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے
جان باقی ہے مگر سانس رکی ہو جیسے
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment