Sunday, 14 January 2018

کچھ یادگار ھوٹنگ



کچھ یادگار ھوٹنگ


۔
تقریری مقابلوں میں مقرر کو جہاں اعتماد، دلائل، حسن بیان، منظر نگاری، رد دلیل وغیرہ کا سہارا لینا ہوتا ہے۔ وہاں اس کا سامنا حاظرین کی سفاک ھوٹنگ یعنی جملے کسنے سے بھی ہوتا ہے۔ ایسی ہی چند ھوٹنگ کی یاد آپ کی حسن سماعت کی نظر کررہا ہوں۔
۔
پاکستان ایئر فورس رسالپور اکیڈمی کے زیر اہتمام سالانہ تقریری مقابلے کو بجا طور پر پاکستان کا نمایاں ترین مقابلہ سمجھا جاتا ہے۔ راقم نے بطور مقرر تین سال لگاتار اس میں شرکت و کامیابی حاصل کی ہے۔ ایئر فورس کے کیڈٹس صرف پیشہ وارانہ مہارت ہی کا شاہکار نہیں بلکہ تفریح، حاضر جوابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ تقریری مقابلے میں انتظامیہ کی جانب سے ھوٹنگ یعنی جملے کسنا ممنوع ہوتا ہے۔ مگر وہ کیڈٹس ہی کیا جو کوئی رستہ ڈھونڈ نہ نکالیں؟ لہذا کیڈٹس کا ھوٹنگ کیلئے طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ آڈیٹویم کی پچھلی نشستوں پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ دوران تقریر جب مقرر کی نظر ان کی جانب جاتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اچانک ایک کیڈٹ کھڑا ہوکر اپنی گود میں کسی بچے کو فرضی طور پر جھولا دے رہا ہے۔ پھر ایک جھٹکے سے وہ گود کے اس فرضی بچے کو ہوا میں اچھال کر اپر دیکھنے لگتا ہے۔ کچھ اور کیڈٹ بھی کھڑے ہوکر تشویش سے دیکھتے ہیں اور اس فرضی بچے کو کیچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیچ چھوٹ جاتا ہے اور یہ سب کیڈٹ بناء آواز نکالے رونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں اور مقرر کی طرف دہایاں دیتے ہوئے ماتم کرنے لگتے ہیں۔ یہ ساری واردات نہایت خاموشی سے منظم ترین انداز میں ہوتی ہے۔ بڑے بڑے مقرر اس اچھوتی ھوٹنگ کو دیکھ کر اور کنفیوز ہوکر تقریر بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح اچانک ایک پوری لائن کیڈٹ کی کھڑی ہوکر بناء آواز مارچ کرتی ہوئی پیچھے آجاتی ہے اور پیچھے والی لائن آگے آجاتی ہے۔ یہ ایسا عجیب منظر ہوتا ہے جس کے اثر کو الفاظ میں ڈھالنا شائد ممکن نہیں۔ 
۔
ایک اور یاد 'جنگ اخبار' کے زیراہتمام مباحثے کی ہے جو شیریٹن ہوٹل کراچی میں ہوا تھا۔ اس میں بہترین ھوٹنگ کرنے والے کو پرائز دینے کا اعلان کردیا گیا تھا۔ لہذا ہر سامع بہترین جملے کسنے میں مشغول تھا۔ ایسے میں مہمان خصوصی کو اسٹیج پر بلایا گیاجو ایک نجی ایئر لائن کے مالک بھی تھے۔ ان کا سر بالوں سے بلکل بے نیاز تھا۔ گویا عامیانہ الفاظ میں وہ رچ کے ٹکلو تھے۔ اسٹیج کے پیچھے اور اپر دیوقامت آئینے نصب تھے۔ ساتھ ہی اسٹیج پر سرچ لائٹ کیساتھ باقی سب لائٹیں ہلکی روشنی دے رہی تھیں۔ اب جب یہ مہمان خصوصی اسٹیج پر تشریف لائے تو سارے آئینوں میں ان کا گنجا ٹکلو سر پوری آب و تاب سے چمکتا دمکتا نظر آیا۔ اچانک خاموشی میں پیچھے سے ایک آواز گونجی ۔۔ "ارے جیسے چاند نکل آیا !" ۔۔ پورے ھال میں یہ سنتے ہی ایک گھمسان کا قہقہہ پڑا۔ سب لوٹ پوٹ ہوگئے۔ جس لڑکے نے جملہ کسا تھا اسے انعام دیا گیا حالانکہ یہ ھوٹنگ کسی مقرر کی بجائے بیچارے مہمان خصوصی پر تھی۔
۔
اسی طرح غالبا بحریہ یونیورسٹی یا ڈی ایچ اے کالج کا کوئی تقریری مقابلہ ہورہا تھا۔ میرے برابر میں ایک لڑکی مقررہ آکر بیٹھ گئی۔ یہ لڑکی ایک معروف ٹی وی ماڈل بھی تھی۔ جس کا نام ہم دانستہ نہیں درج کررہے۔ ان دنوں اس کا ایک اشتہار ٹی وی پر مقبول ہورہا تھا جس میں وہ یہ جملہ کہتی تھی ۔۔ "میں حیران رہ گئی" ۔۔ یہ لڑکی اپنی تقریر کے بارے میں کافی پرامید تھی اور مجھے اپنے پوائنٹس بتا کر مشورہ لے رہی تھی۔ مجھے بھرپور امید تھی کہ وہ ایک بہترین تقریر کرنے جارہی ہے۔ کچھ دیر بعد اس ماڈل مقررہ کا نام پکارا گیا۔ آڈیئنس اسے پہچان گئی اور سب نے یک زبان ہوکر نعرہ مارا ۔۔ "میں حیران رہ گئی" ۔۔ تقریر کرتے ہوئے وہ بولی ۔۔ صدر عالی وقار ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ میرا آج کا موضوع ہے ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ میں یہ بتانا چاہتی ہوں ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ آج ملک کے حالات دیکھ کر ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ غرض اس لڑکی کی تقریر کو سب آڈیئنس نے مل کر دوبھر کردیا اور اسے اسٹیج سے سوری کہہ کر اترنا پڑا۔ ججز تک اپنی ہنسی نہیں روک پارہے تھے۔ یہ لڑکی واپس آکر میرے برابر بیٹھ گئی۔ نہ وہ کچھ کہہ رہی تھی نہ مجھ میں پوچھنے کی ہمت تھی۔ کچھ دیر بعد بالآخر میں نے دبی آواز میں ہمدردی سے پوچھا "تم ٹھیک ہو؟" ۔۔۔ اس نے ناراض نظروں سے مجھے دیکھا اور ہاتھ ہلا کر کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "میں حیران رہ گئی !!" 
۔
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment