عوام کی عدالت میں
۔
فن خطابت کے بہت سے روپ ہیں جن میں تقریر اور مباحثہ کی اصناف سرفہرست ہیں. پھر تقریر اور مباحثے کی مزید کئی اقسام ہیں، جن کی باریکیوں کو ایک ماہر مقرر یا خطیب سمجھتا ہے. اسی طرح فن خطابت پر مبنی ایک صورت ایسی بھی ہے جس میں 'فرضی عدالت' سجائی جاتی ہے، جہاں عدالت کا اسٹیج سجا کر وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی پیش کردہ مقدمے کی تائید یا مخالفت میں دلائل سے جنگ کرتے ہیں. آخر میں جج جس وکیل یا مقرر کے حق میں فیصلہ دیتا ہے، اسے فاتح تصور کیا جاتا ہے. اسی طرح کی ایک عوامی فرضی عدالت کا 'نیو کراچی' میں اہتمام کیا گیا. جس میں وکیل صفائی کے کردار کیلئے مجھ سے رابطہ کیا گیا. یہ پروگرام ایک چیرٹی آراگنایزشن کی جانب سے عوامی شعور میں اضافے کیلئے ترتیب دیا جارہا تھا. وکیل استغاثہ کا کردار میرا قریبی دوست اور نامور مقرر نبھا رہا تھا. میرے لئے یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا جو بعد میں آخری بھی ثابت ہوا. پروگرام کا بنیادی ڈھانچہ تو طے شدہ تھا مگر دونوں وکلاء (مقررین) کیا استدلال پیش کریں گے؟ اور آخری نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ طے شدہ نہیں تھا. قسمت کی کرنی کچھ یوں ہوئی کہ جس روز پروگرام تھا، اس دن مجھے بخار نے گھیر لیا، گلا ایسا جکڑا کہ بولنے میں تکلیف ہونے لگی. میں نے انتظامیہ کو اپنی حالت بتائی اور چاہا کہ وہ میری جگہ کسی اور کو لے آئیں. ظاہر ہے پورا پروگرام خراب ہوتا نظر آنے لگا. اتنے کم وقت میں کوئی دوست مقرر راضی نہ ہوا لہٰذا مجبوراً مجھ ہی کو جانا پڑا. والدہ نے تھرماس میں نیم گرم نمکین پانی اور ڈسپرین ساتھ دے دی جس سے غرارے کرنے سے میری آواز نکلنے لگتی تھی. پروگرام کا انعقاد کسی آڈیٹوریم کی بجائے کھلے میدان میں کیا گیا تھا اور پنڈال بجا طور پر کسی سیاسی جلسے کا سا منظر پیش کررہا تھا. سامعین کی اکثریت غریب و متوسط عوام کی تھی جو اسے تماشا سمجھ کر غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کررہے تھے. عدالت کا پورا منظر سجایا گیا تھا. پیچھے قائد اعظم کی قدآور تصویر آویزاں تھی، بیچ میں میز پر ایک جانب ٹائپ رائٹر پر لکھا جارہا تھا اور دوسری جانب اردلی آواز لگانے کیلئے متعین تھا. وسط میں بھاری بھرکم جج صاحب عدالتی کوٹ پہنے براجمان تھے. ایک طرف کٹہرا تھا جہاں ایک نوجوان مجرم/ ملزم کھڑا تھا اور دوسری طرف دوسرا کٹہرا تھا جس میں اسی ملزم کے بوڑھے والدین موجود تھے.
۔
مقدمہ بڑا عجیب تھا کہ ایک قتل کے مجرم کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے لیکن اس نے عدالت میں اب یہ اپیل درج کردی ہے کہ مجھے قاتل بنانے کے ذمہ دار میرے اپنے والدین ہیں لہذا انہیں بھی سزا دی جائے۔ جج نے بھاری آواز میں کہا کاروائی شروع کی جائے۔ میرے دوست یعنی وکیل استغاثہ نے پورے زور و شور سے ملزم کا مقدمہ پیش کیا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح والدین نے اس لڑکے کو آٹھویں جماعت کے بعد اسکول سے اٹھا لیا۔ کس طرح باپ نے بیٹے کو تربیت کیلئے وقت نہ دیا اور کس طرح یہ لڑکا آوارہ صحبت میں پڑ کر بلآخر ایک قاتل بن بیٹھا۔ بہت ہی احسن انداز میں استغاثہ نے اپنا مقدمہ قائم کردیا۔ اب میری یعنی وکیل صفائی کی باری تھی۔ میں وکیل کا بہروپ بھرے چپکے چپکے ڈسپرین کے غرارے کرکے اپنا گلا صاف کررہا تھا۔ میں نے استغاثہ کے دلائل کا تیاپانچہ کرنا شروع کیا اور بتایا کہ کیسے اس لڑکے کے مجبور والدین نے اپنی مفلسی کے باوجود اسے اسکول میں داخل کیا۔ کیسے اس کا باپ بنیادی ضروریات کیلئے دن رات مزدوری کرکے اپنی چمڑی جلاتا رہا۔ کیسے اس کی ماں نے لوگوں کے برتن مانجھ مانجھ کر بیٹے کی خواہشیں پوری کی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ کیسےاس لڑکے نے عیاشی و سرکشی کا رویہ اپنایا جبکہ اسی کے دوسرے بہن بھائیوں نے ان ہی حالات میں اپنی ذمہ داری نبھائی۔ وکیل استغاثہ بھی بھرپور دلائل سے میری کاٹ کررہا تھا۔ خوب گھمسان کی جنگ تھی اور فی الواقع یہ طے کرنا مشکل تھا کہ کون زیادہ درست ہے؟ دونوں جانب سے ثبوت پیش کیئے گئے۔ متعلقہ لوگوں سے جرح کی گئی۔ گرما گرمی ہوئی۔ عوام تالیوں سیٹیوں سے ساتھ دے رہی تھی۔
۔
ظاہر ہے کہ یہ حقیقی عدالت نہیں تھی جہاں بات صرف دلائل و ثبوت تک محدود رہے۔ یہ تو عوام کے سامنے فرضی عدالت تھی لہذا لفاظی، جوش بیان، مزاح، تک بندی، شاعری سب کا تڑکا ضروری تھا۔ چنانچہ دونوں وکلاء ایک دوسرے پر جملے بھی چپکا رہے تھے اور نری لفاظی بھی جھاڑ رہے تھے۔ جیسے میں نے کچھ تک بندی یا گردان اس طرح کی جس میں جملوں کا اختتام 'آن' پر ہوتا تھا۔ الفاظ تو اب راقم کو یاد نہیں مگر جیسے 'یہ مقدمہ ظلم کا نشان بن جاتا ہے، یوں مجرم قتل کا سامان بن جاتا ہے اور جھوٹ اپنی حد سے گزرے تو وکیل استغاثہ کا بیان بن جاتا ہے'۔ میری یہ جملے بازی مجمع نے خوب انجوائے کی تو وکیل استغاثہ نے اس کا ترکی با ترکی کچھ یوں جواب دیا ۔۔۔ 'انسان اپنے درجے سے گرے تو حیوان بن جاتا ہے، حیوان اپنے درجے سے گرے تو شیطان بن جاتا ہے مگر جب شیطان بھی اپنی حد سے نکل جائے تو وہ فاضل وکیل عظیم الرحمن بن جاتا ہے' ۔۔۔۔ ان جملوں پر عوام نے خوب شور مچایا تو میں نے آبجیکشن کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ 'جج صاحب وکیل استغاثہ کی سوچ ملاحظہ کیجیئے کہ مجھ پر نقد کرتے یہ بھی نہ سوچا کہ جس کو یہ ملعون شیطان سے جوڑ رہے ہیں اس نام میں ان کے رب کا نام دو بار آتا ہے ۔۔ ایک عظیم کی صورت میں تو دوسرا الرحمن کی صورت میں' ۔۔۔۔ اس بے ساختہ جواب نے عوام کی توپوں کا رخ مقابل کی جانب کردیا۔ اس گرما گرم ماحول میں بھی اس کراری تکرار پر ہم دونوں وکیل ہنسی نہ روک پائے۔ آخر میں جج نے فیصلہ سنایا۔ والدین کے خلاف مقدمہ خارج کرکے انہیں باعزت رہا کردیا گیا جبکہ شواہد دیکھتے ہوئے مجرم کی سزا برقرار رکھی گئی۔
۔
یہ تجربہ جہاں نہایت یادگار ثابت ہوا وہاں اس کی عوامی شعور کے ضمن میں افادیت بھی محسوس ہوئی۔ یہ فی الواقع ایک صحتمند طریق لگا جس سے عوام میں شعور ارتقاء پاسکتا ہے۔ انگلینڈ میں عام شہریوں کو جیوری یعنی ججمنٹ کرنے کیلئے عدالت بلالیتی ہے جہاں کوئی ہفتہ بھر انہیں حقیقی جرائم کے مقدمات کی سنوائی اور فیصلوں کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ اس تجربے سے ان کی سوچ کو جو نئے زاویئے حاصل ہوتے ہیں وہ انہیں ایک بہتر شہری اور ایک بہتر انسان بنادیتے ہیں۔
۔
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment