سوشل میڈیا اور مسجد کا منبر
فیس بک کی وال ہو یا مسجد کا منبر. دونوں ہی کے مخاطب عام افراد ہوا کرتے ہیں. ہمارے مخاطبین میں اکثریت ان مسلمانوں پر مشتمل ہے جو دین پر چلنا تو چاہتی ہے مگر دنیا کے بکھیڑوں میں پھنس کر فرائض کو بھی پورا نہیں کرپاتی. ضروری ہے کہ واعظ و خطیب ان کا حوصلہ بڑھائیں، ان سے آسان بات کریں، ان کیلئے دین کو مشکل نہ بننے دیں. صحیح بخاری کی حدیث میں الفاظ آئے ہیں 'ان الدین یسرٌ' یعنی دین آسان ہے. مانا کہ مسلمان خوف اور امید دونوں کے درمیان ہوا کرتا ہے مگر یہ کیفیت انسان کے ذاتی احتساب کا نتیجہ ہے. دعوت دین کا طریقہ نہیں ہے. دعوت نبوی ﷺ کا طریق یہی ہے کہ امید کا پہلو خوف سے زیادہ غالب ہو. بخاری و مسلم کی متفقہ علیہ حدیث میں سیدنا انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’دین میں آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور لوگوں کو خوش خبری سناؤ اور زیادہ تر ڈرا ڈرا کر انہیں متنفر نہ کرو۔‘‘ عجیب بات یہ ہے کہ ہماری عوامی محافل میں خطیب اور کتب یا سوشل میڈیا پر لکھاری بزرگان دین کے ایسے معمولات کو سنانے پر زیادہ زور دیتے ہیں. جنہیں سن یا پڑھ کر ایک بے عمل انسان پر دھاک تو بیٹھ جاتی ہے مگر شائد عمل کی ہمت بھی ٹوٹنے لگتی ہے. صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ اجمعین میں بھی کبائر صحابہ کے ان واقعات تک وعظ محدود رہتا ہے جن کے درجے تک پہنچنا بقیہ صحابہ کے لئے بھی ممکن نہ ہوسکا. جیسے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بدر کے وقت تمام گھر کا سامان پیش کردینا. ان واقعات کو بعض اوقات ایسے سنایا جاتا ہے کہ گویا یہی دین کا ایک عام مسلمان سے لازمی تقاضہ ہے.
.
دیکھیں میری بات کو غلط نہ سمجھیں. میں یہ قطعی نہیں کہہ رہا کہ ان واقعات پر یکسر بات نہ ہو. اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے؟کہ صحابہ و صالحین ہمارے رول ماڈل ہیں. کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کم از کم عوامی محافل جیسے خطبہ جمعہ یا سوشل میڈیا پر ان واقعات کے ساتھ مخاطب کو وہ ہمت بھی دیں، جس سے وہ مایوسی سے نکل کر کوشش شروع کرسکے. اسے سمجھائیں کہ دین کے بنیادی تقاضے جن سے اسکی نجات مشروط ہے، وہ بہت آسان ہیں. البتہ ایک مومن ہمیشہ اپنے کردار و عمل کو ہمیشہ بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے. جس کی منتہا کمال انبیاء کے بعد صحابہ ہیں. عوامی پلیٹ فارمز پر دین کی بنیادی باتوں جیسے ارکان اسلام اور اخلاقیات پر زیادہ زور دینا چاہیئے. البتہ وہ محافل یا کلاسز جو دین کے سنجیدہ طالبعلموں اور فرائض پر کاربند مسلمانوں کیلئے منعقد کی جاتی ہیں. ان میں حصول تقویٰ کیلئے ایسے واقعات کے ذریعے ترغیب دینا احسن ہے. عوام و خواص کے مزاج کا یہی وہ فرق ہے جو آپ کو کبائر صحابہ اور سادہ طبعیت بدوؤں میں نظر آتا ہے. ایک جانب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں جو صحابہ میں افضل ترین ہیں. وہ عالم خشیت میں پکارتے ہیں کہ ”کاش میں سرراہ ایک درخت ہوتا، اونٹ گذرتا تو مجھ کو پکڑتا، مارتا، چباتا اور میری تحقیر کرتا اور پھر مینگنی کی صورت میں نکال دیتا۔ یہ سب کچھ ہوتا مگر میں بشر نہ ہوتا“ اور دوسری جانب وہ صحرائی بدو ہے جس ﻧﮯ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺣﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﺣﺴﺎﺏ ﮐﻮﻥ ﻟﮯ ﮔﺎ ؟ ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " ﺍﻟﻠﮧ " ﺑﺪﻭ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺟﮭﻮﻡ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺑﺨﺪﺍ ﺗﺐ ﺗﻮ ﮨﻢ ﻧﺠﺎﺕ ﭘﺎ ﮔﺌﮯ ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ " ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﯾﻢ ﺟﺐ ﻗﺎﺑﻮ ﭘﺎ ﻟﯿﺘﺎ ہے ﺗﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ" ﺑﺪﻭ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻤﻠﮧ ﺩﮨﺮﺍ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ رہے 'ﻗﺪ ﻭﺟﺪ ﺭﺑﮧ..ﻗﺪ ﻭﺟﺪ ﺭﺑﮧ!!' ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﺏ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻟﯿﺎ.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment