Monday, 5 June 2017

ایجوکیشنل اور جاب کیرئیر



ایجوکیشنل اور جاب کیرئیر


اپنے ایجوکیشنل اور جاب کیرئیر کے متعلق زندگی میں ہر شخص کئی اہم فیصلے کیا کرتا ہے. یہ فیصلے اگر جلد بازی اور حماقت پر مبنی ہوں یا دور اندیشی سے خالی ہوں تو عمر بھر کا پچھتاوہ بن کر رہ جاتے ہیں. گویا دیگر عوامل کے ساتھ راقم کی دانست میں اس امر کا دھیان رکھنا بھی نہایت اہم ہے کہ عمر کے کس حصے میں آپ کون سا فیصلہ کرنے جارہے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں ہر عمر کے کچھ تقاضے اور کچھ قیود ہوا کرتی ہیں. انہیں نظر انداز کر کے کوئی اقدام کرنا اکثر عقلمندی ثابت نہیں ہوتا. کون سے عمر کے حصے میں کون سے فیصلے کیئے جاسکتے ہیں؟ اس ضمن میں ظاہر ہے کہ نہ ہی کوئی حتمی بات کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی قطعی فارمولہ تیار ہوسکتا ہے. البتہ تجربہ اور مشاہدے کی بنیاد پر کچھ محتاط اندازے ضرور قائم ہوسکتے ہیں، کچھ گزارشات ضرور رکھی جاسکتی ہیں. اسی بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمارا خیال کچھ یوں ہے 

.
 کم و بیش پچیس برس تک کی عمر تعلیم حاصل کرنے کیلئے ہے. ساتھ ہی کچھ پارٹ ٹائم کام بھی کیا جائے جو اپنی حقیقت میں حاصل کردہ تعلیم ہی کے اردگرد گھومتا ہو. اس دور میں کسی بھی کاروبار یا نوکری کی حیثیت ثانوی رہنی چاہیئے اور مرکزی حیثیت زندگی میں بہترین تعلیم و تربیت کا حصول ہونا چاہیئے. 
.
 کم و بیش پچیس سے تیس برس کی عمر بے خوفی سے تجربات کی ہے. ان پانچ برسوں میں آپ بڑے بڑے تجربے کر سکتے ہیں. جیسے اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جانا یا ایک کیرئیر چھوڑ کر دوسرے بلکل نئے کیرئیر میں چلے جانا وغیرہ
.
 کم و بیش تیس سے چالیس کی عمر محتاط طریق سے راستہ بنانے کی ہے. اس میں بڑے تجربات کے آپ شائد متحمل نہ ہوسکیں مگر وہ چھوٹے تجربات جو کیرئیر میں معاون ثابت ہوسکتے ہوں، انہیں اختیار کرسکتے ہیں. جیسے ایک ہی کیرئیر میں رہتے ہوئے تگڑی تنخواہ کیلئے کمپنیاں بدلتے رہنا یا ایک ہی کمپنی میں سیکھنے کیلئے رول اور ڈیپارٹمنٹ بدل لینا یا پھر جاب کے ساتھ ایسے کورسز کرنا جو ترقی کی راہ ہموار کرسکیں 
.
 کم و بیش چالیس برس کی عمر سے لے کر ریٹائرمنٹ تک آپ کو اب ایک ایسی پوزیشن پر ہونا چاہیئے، جس پر قائم رہتے ہوئے آپ آھستہ آھستہ خودرو پودے کی طرح ترقی کرتے رہیں. اس عمر میں بڑے تجربات کرنا اپنی زندگی سے جوا کھیلنے کے مترادف ہے، جس میں کبھی کامیابی اور اکثر مات ہوتی ہے. 
.
 جیسے پہلے ہی عرض کیا کہ یہ فقط محتاط اندازے ہیں کوئی حتمی فارمولہ نہیں. مگر شائد انہیں دھیان میں رکھ کر انسان اپنے کیرئیر میں جذبات کو کسی حد تک عقل کی لگام ڈال سکتا ہے. ایسے افراد کی کمی نہیں جو ایک مناسب نوکری اور زندگی ہونے کے باوجود چالیس پینتالیس برس کی عمر میں قسمت آزمانے یورپ آجاتے ہیں اور خود کو برباد کرلیتے ہیں. 
.
 ====عظیم نامہ====

Saturday, 3 June 2017

انگریزی


انگریزی 


انگریزی زبان سیکھنا آج وقت کی ضرورت ہے. کسی کو یہ حقیقت پسند آئے یا نہ آئے لیکن انگریزی آج غالب تہذیب کی زبان ہے اور اس اعتبار سے پوری دنیا کی مشترکہ زبان بن چکی ہے. بہت سے ممالک کے تعلیمی نظام اسی زبان میں موجود ہیں. باقی وہ ممالک جن کے تعلیمی نظام ان کی اپنی زبان میں ہیں وہ بھی انگریزی زبان کو سیکنڈ لینگویج کے طور پر سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں. انٹرنیٹ پر یوٹیوب، گوگل، وکی پیڈیا، ای بکس وغیرہ کی صورت میں جو جدید علوم کا ایک سیلاب برپا ہے، اس کا بیشتر حصہ انگریزی زبان میں ہی ہے. لہٰذا راقم کی رائے میں اپنی مادری زبان کے بعد اس زبان میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش ہم سب کو کرنی چاہیئے. سوال یہ ہے کہ انگریزی سیکھی کیسے جائے؟ جان لیں کہ اردو ہو، عربی یا پھر انگریزی ... زبان کوئی بھی ہو ! مسلسل مشق کا تقاضہ کرتی ہے. ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ تین ماہ کا کوئی کریش کورس کریں اور کسی زبان کے ماہر ہو جائیں. یہ بھی یاد رہے کہ اگر آپ زبان سیکھنے کے بعد اس میں مسلسل بول چال چھوڑ دیں گے تو سال دو سال میں پھر سے زیرو ہوجائیں گے. راقم کی نظر میں چار ایسے طریق ہیں جنہیں اپنا کر آپ انگریزی زبان سیکھ سکتے ہیں.
١. انگریزی کے بنیادی قوائد یعنی گرامر سے آگہی پیدا کیجیئے. بہت زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں. اکثر لوگ اس میں فیوچر ٹینس، پاسٹ ٹینس وغیرہ میں پھنس کر رہ جاتے ہیں. صرف عام گرامر جان لیں جیسے ہیو، ہیز، ہیڈ کا استعمال اور اسے یاد رکھیں. باقی گرامر کی سمجھ وقت کے ساتھ ساتھ خود آتی جائے گی.
.
٢. انگریزی کی کسی ایسی گروپ کلاس کو جوائن کرلیجیئے جہاں سارا زور انگریزی بولنے پر ہو. گروپ میں آپ سمیت سب مختلف موضوعات پر انگریزی میں گفتگو کرتے ہوں. یہ کلاس ہفتے میں دو سے تین دن ہو تو مناسب ہے. ایسی پرائیویٹ کلاسز پورے پاکستان میں ہوتی ہیں.
.
٣. اپنی ووکیبلری یعنی الفاظ کا ذخیرہ بڑھائیں. روز پانچ سے دس اچھی انگریزی کے الفاظ حفظ کرنا شروع کردیں. اسی طرح کچھ عمدہ انگریزی جملوں کا بھی رٹا لگا لیں، جو اکثر استعمال ہوسکتے ہوں. 
.
٤. انگریزی خبریں یا ڈاکیومنٹریز بغور سنیں، دیکھیں اور پڑھیں. ان میں اکثر اچھی قوائد والی انگریزی بولی جاتی ہے اور 'سلینگ ورڈز' یعنی بازاری زبان سے پرہیز کیا جاتا ہے.
.
ان چاروں باتوں کے اہتمام کے ساتھ کوشش کریں کہ چیزوں کو اردو کی بجائے انگریزی میں سوچ سکیں. یہ مکمل طور پر ممکن نہیں ہے مگر جزوی طور پر اسکی پریکٹس آپ کو اعتماد دے گی. تلفظ پر ضرور دھیان دیں مگر انگریزوں جیسا ایکسنٹ بنانے کی کوشش نہ کریں. اگر آپ بولتے ہوئے ایکسنٹ بنانے کی کوشش کریں گے تو آپ کا دھیان جملے پر نہیں رہ سکے گا. نتیجہ یہ کہ آپ ہکلاتے رہ جائیں گے.  سمجھ لیں کہ آپ نے صرف انگریزی بولنی ہے. چاہے ایکسنٹ بیکار ہو، الفاظ کی ترتیب غلط ہو یا گرامر کی بہت سی غلطیاں ہوں. ڈھیٹ بن کر بس بولتے رہیں. میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ کچھ ہی مہینوں میں یہ خامیاں آپ خود ہی غیرمحسوس انداز میں دور کرتے چلے جائیں گے. ایک بار جب انگریزی بولنے لگیں تب بھی انگریزی کی کلاس جانا ترک نہ کریں. البتہ اب ہفتے میں تین دن کی بجائے، دس دن میں ایک بار چلے جائیں یا پھر کوئی اور ایسا انتظام کریں جہاں آپ انگریزی زبان بولنے والو سے ساتھ گفتگو کرسکیں.
.
====عظیم نامہ====

وہ انگریز لیڈی


وہ انگریز لیڈی



میرے لئے وہ لمحہ انتہائی مسرت و خوش نصیبی کا ہوتا ہے جب میں راہ چلتے کسی بزرگ کو یا معذور کو مدد کا متقاضی پاتا ہوں اور رب تعالی یہ سنہری موقع مجھ جیسے گنہگار بلکہ مجرم کو عنایت کردیتے ہیں۔ پھر وہ کسی کا سامان اٹھانا ہو، کسی کو لفٹ دینی ہو، کسی کے گمشدہ بچے کو ڈھونڈنا ہو یا پھر کسی کو پتہ تلاش کرنے میں مدد دینی ہو۔ مجھے وہ عمل بخشش کی ایک امید کی صورت نظر آتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کچھ روز قبل پیش آیا جب میں اپنی زوجہ کے ساتھ ایک شاپنگ مال میں خریداری کررہا تھا۔ ہم دونوں ہنسی مذاق کررہے تھے جب ہماری نظر ایک نہایت بوڑھی انگریز عورت پر پڑی۔ خوبصورت بناو سنگھار کیساتھ یہ خاتون (انگریز لیڈی) ایک بینچ پر براجمان تھی اور اب اس کیلئے بناء سہارے کھڑے ہونا محال ہورہا تھا۔ وہ لاچارگی سے لوگو کو دیکھ رہی تھی مگر شائد شرم کے سبب کسی کو مخاطب نہیں کرپارہی تھی۔
۔
 مجھے جیسے ہی اسکی مشکل کا احساس ہوا تو مدد کو لپکا۔ مسکرا کر اسے ہیلو کیا اور سہارا دینے کیلئے ہاتھ بڑھا دیا۔ اس نے بھی مخصوص انداز میں پرتپاک جواب دیا لیکن اسکی نظر میرے بجائے میری زوجہ پر ٹکی ہوئی تھی۔ میں اس سے بات کرتا مگر جواب وہ میری بیگم کو دیتی۔ میرا ہاتھ چھوڑ کر اس نے میری بیوی کا ہاتھ تھام لیا اور مجھے قریب قریب نظرانداز کرکے وہ اسی سے انتہائی محبت سے باتیں کرنے لگی۔ میں تھوڑا سا حیران تھا لیکن پھر اس نے میری بیوی کو انتہائی جوش سے بتایا کہ اسکی بھی ایک بیٹی ہے جو کم و بیش اسی عمر کی ہے۔ وہ کچھ مہینوں میں مجھے فون کرتی ہے۔ کبھی گھر بھی آتی ہے اور کرسمس یا مدرز ڈے پر تحفہ بھی دیتی ہے۔ پھر وہ ایک لمحے کو چپ ہوگئی۔ زیر لب بڑبڑائی ۔۔ 'مگر اس بار نہ اس نے فون کیا نہ وہ آئی۔' یہ جملہ کہتے جو کرب اس بزرگ خاتون کے لہجے میں تھا، اس نے جیسے یکلخت دل چیر دیا۔ وہ رخصت ہوتے ہوئے ہمیں دعائیں دے رہی تھی۔ God bless you. مگر مجھے چپ سی لگ گئی تھی۔ کن انکھیوں سے زوجہ کو دیکھا تو اسکی آنکھیں بھی نمناک تھیں۔ سوچتا ہوں کہ انسانیت کی تذلیل میں ایک کریہہ ترین پہلو یہی ہے کہ انگلینڈ جیسے ممالک میں اولاد اپنے والدین سے ان کے بڑھاپے میں بڑی حد تک قطع تعلق کرلیتی ہے۔ وطن عزیز میں بیشمار اخلاقی برائیوں کے باوجود الحمدللہ اس ضمن میں معاملہ بہت بہتر ہے اور چند بیغیرتوں کے سوا عوام کی اکثریت اپنے والدین کے بڑھاپے کا خوشی خوشی سہارا بنتی ہے۔ الحمدللہ۔
۔
 ====عظیم نامہ====

دور کے ڈھول سہانے


دور کے ڈھول سہانے



"دور کے ڈھول سہانے" - یہ محاورہ اکثر آپ نے سنا ہوگا مگر جہاں یہ ضروری نہیں کہ دور کے ڈھول واقعی سہانے نکلیں، وہاں یہ بھی لازمی نہیں کہ قریب کے ڈھول دور کے ڈھول سے بہتر ہی ہوں. فکر معاش سے لے کر بہتر تعلیم تک اگر ایک انسان شدید دشواریوں کا شکار ہو تو اپنے آبائی ملک سے نکل کر کسی دوسرے ملک میں اپنی قسمت آزمانا اتنا معیوب نہیں جتنا اکثر اسے بیان کیا جاتا ہے. لیکن اپنا دیس چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانا ایک بہت بڑا قدم ہے جو بناء سوچے سمجھے اٹھاناحماقت ہے. سب سے پہلے جائزہ لیں کہ وہ کون سا ملک ہے؟ جس نے غیر ملکی محنت کشوں کیلئے دروازے کھول رکھے ہیں یعنی حکومت نے امیگریشن پالیسی نرم کررکھی ہے. کسی بھی یورپی یا غیر یورپی ملک جانے سے قبل اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کو ایسا ویزہ حاصل ہو جس میں نوکری و کاروبار کرنے پر کوئی بندش نہ ہو. پھر چاہے وہ امیگریشن ہو یا ورکنگ ویزہ. ساتھ ہی کم از کم اتنا پیسہ پاس ہو کہ تین ماہ بناء نوکری کیئے روٹی مکان چل سکے. ایک بہت بڑی بیوقوفی لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ وزٹ ویزہ پر کسی ملک جاتے ہیں اور وہاں غیرقانونی طور پر سلپ ہو جاتے ہیں. ایسا وہ یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ کچھ وقت میں ان کی زندگی سدھر جائے گی مگر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایسے افراد میں کم از کم اسی نوے فیصد لوگ برباد ہوجاتے ہیں. راقم کے نزدیک وزٹ ویزہ پر جانا یا غیر قانونی طور پر رہنے کا فیصلہ کرنا خودکشی کے مترادف ہے. ہر وقت ایسے افراد کے سر پر خوف کی تلوار لٹکتی رہتی ہے. پہلے کوئی جاب نہیں دیتا، پھر چھپ کر کوئی نہایت کم پیسوں پر دن رات سخت ترین کام کرواتا ہے. اسی طرح کچھ لوگ یہ سوچ کر وزٹ ویزہ لیتے ہیں کہ اس یورپی ملک میں اسائلم یعنی قانونی پناہ حاصل کرلیں گے. اسکے لئے وہ جھوٹا قانونی کیس تیار کرتے ہیں جس میں ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ملک میں انہیں فلاں فلاں وجہ سے جان کا خطرہ ہے. اس میں کامیابی کا تناسب محتاط اندازے کے مطابق چالیس سے پچاس فیصد ہوگا. لیکن اسے حاصل کرتے کرتے اور زندگی کو ڈگر پر لاتے لاتے کم سے کم دس بارہ سال لگ جاتے ہیں. اس دوران بہت سو کے ماں باپ اپنی اولاد کی صورت کو ترستے ہوئے اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں اور یہ اس وجہ سے جنازے تک میں نہیں جاپاتے کہ پھر اسائلم نہیں مل سکے گا. راقم کی رائے میں ایسے ویزے پر یا کیریئر بنانے پر لعنت بھیجنی چاہیئے اور اسے صرف انتہائی حقیقی مجبوری میں اختیار کرنا چاہیئے.

.
 اگر آپ تعلیم کیلئے جانا چاہتے ہیں یا اپنی اولاد کو بھیجنا چاہتے ہیں تو ہمارا مشورہ ہے کہ اسے 'اے لیول' یا ' پہلی ڈگری کیلئے نہ بھیجیں. اسوقت عمر کچی ہوتی ہے اور اخلاقی طور پر بھٹکنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے. ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کیلئے جانا زیادہ مناسب ہے. گو یہ راقم کا احساس ہے کوئی حتمی اصول نہیں. اگر آپ کا تعلق متوسط طبقے سے ہے تو شائد نمائندہ یونیورسٹیوں کی فیس آپ افورڈ نہ کرسکیں. یورپی ممالک جیسے انگلینڈ میں آپ کسی بھی نسبتاً کم فیس والی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتے ہیں، اس سے آپ کا کیرئیر ان شاء اللہ کوئی خاص متاثر نہیں ہوگا. نمائندہ یونیورسٹیوں کی اہمیت اپنی جگہ مگر کسی بھی یونیورسٹی کی ڈگری آپ کے پاس ہے تو کمپنیاں آپ کو نوکری کیلئے قبول کرنے کو تیار ہونگی. چھوٹے چھوٹے کالجوں میں داخلہ لینے سے گریز کریں. بیشمار کالج ایسے ہیں جنہیں حکومت نے جعلسازی کی بنیاد پر بند کر دیا. البتہ چند ایک ایسے نمایاں کالج بھی موجود ہیں جن کی فیس یونیورسٹی سے کم ہوتی ہے مگر ان کی ڈگری کسی یونیورسٹی ہی کی جانب سے دی جاتی ہے. کون سی یونیورسٹی مناسب ہوگی؟ اور اسٹوڈنٹ ویزہ کیسے مل سکے گا؟ اسکے لئے آپ کو خود تحقیق کرنا ہوگی. گوگل بابا پر ہر معلومات میسر ہے، یونیورسٹی کو فون کرکے بھی پوچھا جاسکتا ہے. اسی طرح پورے پاکستان میں بیشمار کنسلٹنٹس بیٹھے ہوئے ہیں جو آپ کو معلومات دے سکتے ہیں. مگر دھیان رہے کہ ان میں ایک سے ایک مکار بھی موجود ہے. اگر آپ ان سے یہ بھی پوچھ لیں کہ بھیا ایف سولہ طیارہ مل سکتا ہے؟ تب بھی شائد نہ کہنے کے بجائے پوچھیں کہ کتنے چاہیے؟ اسکے باوجود بھی ان سے آپ کو قیمتی معلومات حاصل ہوسکتی ہیں. جس ملک میں آپ جا رہے ہیں وہاں کی زبان آنا ضروری ہے لہٰذا آنے سے پہلے ہی زبان سیکھنے میں خوب محنت کریں. اگر آپ کا کوئی جاننے والا پہلے سے اس ملک میں موجود ہے جہاں آپ جارہے ہیں تو اس سے مشورہ کرنا یا کوئی ممکنہ ابتدائی مدد لینا اچھی بات ہے مگر کبھی بھی اس پر تکیہ نہ کریں اور متبادل راستے سوچ کر رکھیں. لوگوں کا وقت پڑنے پر آنکھیں بدل لینا کوئی نئی بات نہیں ہے. اسی ملک کا انتخاب کریں جو آپ کو تعلیم کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دیتا ہو تاکہ آپ فیس کے پیسے ساتھ ساتھ جوڑ سکیں.
.
 ====عظیم نامہ====

تجربہ کے بغیر نوکری


تجربہ کے بغیر نوکری



'نوکری تجربہ کے بغیر نہیں مل سکتی لیکن تجربہ نوکری کے بغیر نہیں مل سکتا' 
.
 اکثر نوجوان اپنی پہلی نوکری ڈھونڈھتے وقت اسی عجیب منطق سے تنگ رہتے ہیں. کمپنیاں انہیں تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے نوکری نہیں دیتی اور نوجوان یہ دہائی دیتا رہ جاتا ہے کہ اگر سب یہی کہہ کر نوکری نہیں دیں گے تو مجھے تجربہ ملے گا کیسے؟ .. آپ نے کسی بھی فیلڈ میں ڈگری مکمل کی ہو، یاد رکھیں جب آپ یونیورسٹی سے نکل کر عملی دنیا میں اتریں گے تو آپ اکیلے نہیں ہونگے بلکہ آپ ہی جیسے یا شائد آپ سے بہتر ہزاروں دوسرے نوجوان بھی متفرق یونیورسٹیوں سے پاس آؤٹ ہو کر آپ کے مقابلے میں موجود ہونگے. مارکیٹ میں اگر نوکریاں پچاس ہیں تو ان نوکریوں کے لئے انٹرویوز کے طالب سینکڑوں میں ہوں گے. گویا ایک انار سو بیمار والا ماجرا نظر آئے گا. ایسے میں نوکری کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے. اس پر بہت سی کمپنیوں کی یہ نرالی منطق کہ آپ کو نوکری اسلئے نہیں مل سکتی کیونکہ آپ کے پاس تجربہ نہیں ہے. چند کمپنیاں ہی ایسی ہوں گی جو بناء تجربے کے افراد کو یعنی 'فریش پاس آؤٹس' کو ایک مناسب تنخواہ پر رکھنے کو تیار ہوں. ظاہر ہے ان تھوڑی نوکریوں پر مقابلے کا جو عالم ہوگا، اس کا اندازہ آپ کرسکتے ہیں. سفارش یا رشوت سے ان پوزیشنوں کو ہتھیانے والے بھی جابجا موجود ہونگے. ایسے میں جاب کے متلاشی نوجوانوں پر مایوسی و غصہ طاری ہوجانا فطری بات ہے. 
.
 اس صورتحال سے ایک نوجوان کیسے بچے اور کیسے کامیاب ہو؟ ضروری ہے کہ نوجوان اپنی ڈگری مکمل کرنے کے دوران دو باتوں کا لازمی اہتمام کریں. پہلا یہ کے اپنی فیلڈ سے متعلق ایسے اضافی کورسز بھی ساتھ ساتھ کریں جن کی مارکیٹ میں مانگ ہو. جیسے آئی ٹی کی ڈگری کا طالبعلم ساتھ ساتھ کسی 'کمپیوٹر لینگویج' کی انٹرنیشنل سرٹیفکیشن بھی پاس کرلے یا 'ایم بی اے' کا طالبعلم فائنانس کا مختصر کورس کرلے. دوسرا اس بات کو یقینی بنائے کہ ڈگری کے ساتھ ساتھ ایک، دو سال پارٹ ٹائم 'انٹرن شپ' (بناء معاوضہ نوکری) کرتا رہے. کوشش سے ایسی انٹرن شپس مل جاتی ہیں جو آپ کو معمولی سے پیسے دے کر رکھ لیتی ہیں جس سے سفر کا کرایہ وغیرہ پورا ہوجاتا ہے. انٹرن شپ کیلئے کمپنی جتنی بڑی ہو اتنا اچھا ہے مگر اگر بڑی نہ بھی ہو تب بھی ضرور اختیار کرلیں. اضافی کورسز اور انٹرن شپ سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ ڈگری کے بعد انٹرویوز دیتے ہوئے سب سے زیادہ نمایاں ہوجائیں گے لہٰذا آپ کیلئے من پسند جاب کا حصول آسان ہو جائے گا. پھر اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اگر آپ نے انٹرن شپ دل لگا کر کی اور اپنی صلاحیت ان پر ثابت کردی تو وہی کمپنی آپ کو جاب آفر کردے. ایسا ہونا بہت عام ہے اور اس میں کمپنی کا اپنا فائدہ ہے کہ ایک ایسا ملازم ہاتھ آجاتا ہے جو پہلے ہی اس مخصوص ملازمت میں ماہر ہے. ممکن ہے کہ کسی قاری کو ڈگری کے ساتھ ساتھ اضافی کورس کرنا اور پارٹ ٹائم نوکری کرنا ناممکن محسوس ہو مگر نہیں یہ بلکل ممکن ہے اور بہت سے عقلمند طالبعلم یہی کیا کرتے ہیں. گو اس میں محنت زیادہ ہے مگر اسی لئے تو کہتے ہیں کہ محنت رنگ ضرور لاتی ہے. 
.
 ====عظیم نامہ====

کاروبار یا نوکری؟


کاروبار یا نوکری؟



ہم میں شائد ہی کوئی ایسا ہو جس کے دل میں کاروبار یعنی بزنس کرنے کی خواہش نے کبھی کروٹ نہ لی ہو. دوسرے کی ملازمت چھوڑ کر اپنا کاروبار کرنے کا آئیڈیا ہمیشہ مسحور کن محسوس ہوتا ہے. ہمیں بچپن سے اس طرح کے جملے بھی سننے کو ملتے ہیں کہ 'نوکری میں کچھ نہیں رکھا. مال بنانا ہے تو اپنا کاروبار ہی کرنا ہوگا'. یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ 'کاروبار کرنا سنت ہے.' حالانکہ ملازمت کرنا بھی سنت سے ثابت ہے. بہرحال ہمارا مقصد یہاں مذہبی بحث نہیں ہے بلکہ کچھ حقائق کو آپ کے سامنے رکھنا ہے. اسی طرح یہ مفروضہ بھی عام ہے کہ نوکری میں شدید محنت ہے جبکہ کاروبار میں آپ بادشاہ کی طرح رہتے ہیں. اگر تناسب کا جائزہ لیں تو منکشف ہوگا کہ یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے بلکہ اکثر کیسز میں کاروبار کرنے والا زیادہ کڑی محنت کرتا ہے. اسے لگے بندھے اوقات نہیں بلکہ بزنس بڑھانے کیلئے دن رات ایک کرنے ہوتے ہیں. اپنے کاروبار میں چھٹی لینا اسکے لئے ایک مشن بن جاتا ہے. 
.
 کیا آپ جانتے ہیں کہ مغربی ممالک کے اعداد و شمار کے مطابق پچاس فیصد بزنس پہلے ہی سال میں نقصان اٹھا کر فیل ہوجاتے ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ نوے سے پچانوے فیصد بزنس پانچ سالوں میں برباد ہوجاتے ہیں؟ گویا یہ امکان کہ آپ کا بزنس ایک سال بعد بھی قائم رہے گا صرف پچاس فیصد ہے اور آپ کا بزنس پانچ سال بعد بھی قائم رہے، اس کا امکان مشکل سے پانچ آٹھ فیصد ہے. دھچکہ لگا؟ یقین نہیں آرہا؟ تحقیق کرکے دیکھ لیجیئے. انٹرنیٹ پر یہ اعداد و شمار متعدد ممالک کے حوالے سے دستیاب ہیں. دھیان رہے کہ ان میں سے ہر ایک بزنس مین یہی سوچ کر اپنا بزنس کرتا ہے کہ اسکے پاس بہترین آئیڈیا اور صلاحیت موجود ہے. دھیان رہے کہ ان ممالک میں بزنس کو لاحق خطرات بھی نسبتاً کم ہیں اور کامیابی کیلئے گورنمنٹ کی سطح پر سپورٹ بھی زیادہ ہے. پاکستان میں بزنس کی کامیابی یا ناکامی کا کیا تناسب ہے؟ اس کے بارے میں حتمی رائے نہیں دی جاسکتی. جو سروے کیا گیا ہے اسمیں کامیابی کا تناسب کافی زیادہ بتایا گیا ہے مگر اس سروے کی صحت مشکوک محسوس ہوتی ہے اور وہ صرف زبانی جمع خرچ کی بنیاد پر ہے. عقلمندی یہی ہے کہ ان ممالک کے سروے کو دیکھا جائے جہاں مظبوط تحقیقی معیارات اپنائے گئے ہیں. 
 سوال یہ ہے کہ اتنا رسک دیکھ کر کیا بزنس نہ کیا جائے؟ میرا جواب ہوگا کہ ضرور کیا جائے مگر بہت احتیاط سے. راقم کی نظر میں کامیاب بزنس کیلئے عقلمندی یہ ہے کہ آپ دو میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کریں. پہلا آپشن ہے کسی کامیاب بزنس کی فرنچائز برانچ کھول لینا. کیا آپ جانتے ہیں کہ فرنچائز بزنس میں کامیابی کا تناسب پہلے سال میں نوے فیصد سے زیادہ اور پانچ سالوں میں پچاسی فیصد سے زیادہ ہے؟ پاکستان میں میک ڈونلڈ سے لے کر چکن کاٹیج تک بہت سی فرنچائزز دستیاب ہیں. اس میں کچھ زیادہ اور کچھ کم مہنگی ہیں، تحقیق آپ خود کرسکتے ہیں. اگر مناسب سرمایہ موجود ہے تو کچھ سالوں کیلئے فرنچائز خرید لیں. اسکے بعد بھلے اس چلتی ہوئی فرنچائز برانچ کو زیادہ داموں میں کسی دوسرے کو فروخت کردیں اور اسی فیلڈ میں اپنی نئی دکان کم سرمایہ سے کھول لیں. اب آپ کو مارکیٹ کے چیلنجز سے مکمل آگاہی ہوگی لہٰذا کامیابی قدم چومے گی. دوسرا آپشن یہ ہے کہ اگر فرنچائز نہیں تو کسی چلتے ہوئے بزنس/ دکان/ ریسٹورنٹ کو خرید لیں. تین سال کے اکاؤنٹس کم از کم آپ کے سامنے ہوں جس میں اس بزنس کی فروخت اور منافع درج ہوتا ہے. ایسا بزنس خریدنے میں آپ کو نئے بزنس کے مقابلے میں بیس فیصد تک زیادہ پیسہ دینا ہوگا مگر کامیاب ہونے کا امکان انتہائی قوی ہوگا. یہ بھی احسن ہے کہ خریدنے سے پہلے تین سے چھ ماہ کچھ وقت روز مالک کے ساتھ اسی بزنس میں فری گزاریں تاکہ ہر سطح کو قریب سے جان سکیں. ان دونوں آپشنز میں سے کسی ایک کو بھی اپنانے کا سرمایہ اگر آپ کے پاس نہیں ہے تو پہلے نوکری، انویسٹمنٹ یا کچھ بیچ کر سرمایہ جمع کریں پھر بزنس کا سوچیں. 
.
 ====عظیم نامہ====

نوجوان کون سا کیرئیر اختیار کریں؟


نوجوان کون سا کیرئیر اختیار کریں؟



نوجوان طلباء و طالبات کو اکثر یہ مرحلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ پہلے تعلیم اور بعد میں ذریعہ معاش کیلئے کونسی فیلڈ یا سبجیکٹس کا انتخاب کریں. اس کا ایک سادہ سا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ اس فیلڈ یا ڈگری کا انتخاب کرو جس جانب تمہارا رجحان زیادہ ہے یا جس کیلئے تم اپنے آپ میں صلاحیتوں کو موجود پاتے ہو. یہ جواب اپنی اصل میں نہ صرف درست ہے بلکہ سلیم العقلی پر مبنی ہے. اگر فی الواقع کوئی اس نصیحت سے استفادہ کرسکے تو یہی بہترین ہے. مگر مسلہ یہ ہے کہ بہت سے نوجوانوں کیلئے ایسا کرنا دو بڑی وجوہات کی بناء پر ممکن نہیں ہوتا. پہلی وجہ یہ کہ کئی بار ملک عزیز میں اس فیلڈ کی ڈگری یا نوکریاں ہی موجود نہیں ہوتی جس جانب فرد کا رجحان ہو. دوسری وجہ یہ کہ بہت سے طلباء و طالبات کوشش کے باوجود بھی خود میں موجود رجحان یا صلاحیتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور بلآخر وقت کی قلت کے سبب کوئی بھی میسر آپشن بناء سوچے سمجھے اختیار کربیٹھتے ہیں. اسلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اردگرد موجود مختلف فیلڈز کا تجزیہ کرکے جانیں کہ وہ کون کون سی فیلڈز ہیں؟ جن میں نوکریاں کثرت سے موجود ہیں اور جنہیں اپنا کر ایک بہتر مستقبل کی امید کی جاسکتی ہے. ظاہر ہے کہ رازق صرف اللہ پاک کی ذات ہے اور وہ کسی کو کسی بھی فیلڈ میں ترقی کی اونچائیوں تک پہنچا سکتے ہیں. مگر اس دارالاسباب میں تدبیر کا اختیار کرنا تو بہرحال ضروری ہے. کچھ فیلڈز ایسی ہیں جن میں ڈگریاں لینے کے باوجود اکثریت یا تو بے روزگار رہتی ہے یا پھر بہت کم معاوضے پر کام کرکے گزارا کرتی ہے. مثال کے طور پر اکثر طالبعلموں کو 'ایم بی اے' کی ڈگری بہت لبھاتی ہے. اس ڈگری کا نام سنتے ہی ان کے سامنے سوٹ ٹائی میں تیار ایک کامیاب بزنس مین یا باوقار مینجر کا نقشہ ابھر آتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ 'ایم بی اے' کے ڈگری یافتہ افراد میں بے روزگاری شدید ہے. اتنا مقابلہ ہے جیسے ہر دوسرے پتھر کے نیچے سے ایک 'ایم بی اے' نکل رہا ہو. اگر آپ 'لمز' یا ' آئی بی اے' جیسے نمائندہ تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں لے سکتے تو راقم کا مشورہ یہی ہے کہ اس آپشن کو اختیار نہ کریں.
.
 اسی طرح ایک مفروضہ یہ مقبول ہے کہ چارٹر اکاؤنٹینسی یعنی 'سی اے' یا پھر 'اے سی سی اے' کرنے والا زندگی میں سب سے زیادہ کامیاب رہتا ہے. اول تو یہ سچ نہیں لیکن اگر مان بھی لیں تو اکاؤنٹینسی کی ان سرٹیفکیشنز کو کرتے کرتے بہت سے طالبعلم ادھیڑ عمر ہوجاتے ہیں مگر سخت محنت کے باوجود پاس نہیں کرپاتے. سچ پوچھیئے تو سب سے زیادہ ترس مجھے ان ہی پر آتا ہے. کیا فائدہ ایسے آپشن کو اختیار کرنے کا جس میں اتنا زیادہ رسک ہو؟ اسی طرح دنیا بھر میں وکالت یعنی 'ایل ایل بی' کی ڈگری ضرور معتبر ہے مگر وطن عزیز میں جو اس کا حال ہے وہ آپ خود جاکر ملاحظہ کرسکتے ہیں. میڈیکل فیلڈ جیسے 'ایم بی بی ایس' سے لے کر 'ایچ آر' اور 'ٹیلی کمیونیکیشن' کی ڈگریوں تک بہت سے ایسے آپشن موجود ہیں جنہیں آپ اختیار کرسکتے ہیں اور جن میں بکثرت نوکریاں دستیاب ہیں. میں خود ایک 'آئی ٹی پروفیشنل' ہوں جس نے انجینئرنگ اور ماسٹرز دونوں 'انفارمیشن سسٹمز' میں کیا ہے. ابتداء میں جب اسے اختیار کیا تو کچھ خاص سوچا سمجھا نہ تھا مگر اب جو ایک زمانہ اس میں گزار لیا ہے اور اس کا دیگر فیلڈز کی نوکریوں سے تقابل کرکے دیکھ لیا ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کثرت روزگار کے حوالے سے شائد یہ سب سے بہترین آپشن ہے. پاکستان سے لے مڈل ایسٹ تک، سعودیہ سے لے کر آسٹریلیا تک اور یورپ سے لے کر امریکہ تک ہر جگہ 'آئی ٹی' کی نوکریوں کی بھرمار ہے. میرے دوست جو اس فیلڈ سے وابستہ ہیں وہ پوری دنیا میں جہاں بھی آباد ہیں برسر روزگار ہیں اور اچھا کما رہے ہیں. نوکریوں کی کثرت کی وجہ یہ ہے کہ 'آئی ٹی' خود تو ایک فیلڈ ہے ہی مگر ساتھ ہی یہ ہر فیلڈ کی سپورٹنگ فیلڈ بھی ہے. لہٰذا میڈیکل سے لے کر ریٹیل تک اور اسپیس انجینئرنگ سے لے کر پیٹرولیم تک کوئی فیلڈ ایسی نہیں ہے جس کا 'آئی ٹی' ڈیپارٹمنٹ نہ ہو. پھر آپ کی 'آئی ٹی' کا تجربہ اور تعلیم یا سرٹیفکیشن ساری دنیا یورپ و امریکہ سمیت قبول کرتی ہے۔ یہ نہیں کہ جیسے ایک ملک کے وکیل یا ڈاکٹر کو دوسرے ملک میں دھتکار دیا جاتا ہے۔ ایک اور فائدہ اس فیلڈ کا یہ ہے کہ اس کے اپنے اندر بہت سارے ضمنی آپشن موجود ہیں جیسے ڈیٹابیس، نیٹوورکنگ، پروگرامنگ، ڈیزائننگ وغیرہ. آپ کسی بھی ضمنی آپشن کو اپنے ذوق کے مطابق اختیار کرکے اسکی نمائندہ ٹیکنالوجیز میں مہارت حاصل کرکے اسکی عموما سستی انٹرنیشنل سرٹفکشنز کرلیں. ان شاء اللہ روزگار نہ صرف میسر ہوگا بلکہ جتنی جتنی مہارت اور علم میں وسعت ہوگی اتنی تنخواہ میں اضافہ ہوتا جائے گا. 
.
 ====عظیم نامہ====