Sunday, 5 November 2017

سورہ الفیل اور ہاتھی


سورہ الفیل اور ہاتھی


سوال:
سورہ الفیل میں جو ہاتھی والو کا ذکر ہوا ہے، وہ صحرا میں کیسے رہ سکے؟ صحرا کا موسم ہاتھوں کیلئے موافق نہیں ہے؟ پھر ہاتھی یمن سے مکہ سینکڑوں میل کا فاصلہ کیسے طے کرپائے؟ ہاتھیوں کیلئے اتنے پانی کا بندوبست کیسے کیا گیا؟
.
جواب:
یہ سوال نیا نہیں ہے اور ملحدین کی جانب سے دیگر اعتراضات کی طرح ماضی میں کیا جاتا رہا ہے۔ یقین نہ آئے تو گوگل کرکے دیکھ لیجیئے۔ چنانچہ اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہمیں یہ جاننے میں دلچسپی ضرور ہوگی کہ پوچھنے والا کوئی مسلم ہے یا ملحد؟ اگر ملحد ہے تو اس سوال کا جواب دینا کوئی خاص سودمند ثابت نہیں ہوگا. وجہ یہ ہے کہ جب تک اس سے بنیادی سوالات جیسے وجود خدا اور رسالت پر اتفاق نہیں ہوگا تب تک اس طرح کے سوالات ختم نہ ہونگے. ایک سوال کا جواب ملے گا تو وہ دوسرا پوچھے گا اور دوسرے کا جواب دو گے تو وہ تیسرے پر چھلانگ لگا دے گا. گویا جب تک ترتیب سے پہلے بنیادی سوالات کے جوابات اسے حاصل نہیں ہوں گے تب تک اس کا دماغ نت نئے سوالات اور الجھنیں تراشتا ہی رہے گا. لیکن اگر پوچھنے والا ملحد نہیں مسلم ہے تب ہمیں اعتماد ہے کہ پوچھتے وقت اس کا مقصد فقط قرانی آیات پر تفکر و تدبر ہے. ایسے میں اسے اس واقعہ کے سچ ہونے میں ذرا بھی شائبہ نہ ہوگا. ہم یہاں یہ تصور کررہے ہیں کہ پوچھنے والا ایک مسلم ہے اور یہی ملحوظ رکھتے ہوئے کچھ گزارشات پیش کیئے دیتے ہیں. 
.
تمہید میں دو باتیں بتانا بھی ضروری ہیں. پہلی بات یہ کہ سورہ الفیل میں جس واقعہ کا ذکر ہوا ہے وہ عرب دنیا میں نزول قران سے قبل معروف تھا. اس کی دلیل کسی تاریخی کتاب سے بھی زیادہ یہ بنتی ہے کہ وہ مشرکین مکہ یا اہل کتاب جنہوں نے معمولی سے معمولی بات پر بھی شدید الزامات لگائے، رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم، امہات المومنین، صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین کی ہر طرح سے کردار کشی کی، قران حکیم کی مختلف آیات پر جی بھر کے اعتراضات کیئے. انہوں نے اس واقعہ کو نہ جھوٹ کہا نہ جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش کی. ایسا تب ہی ممکن ہے جب وہ اس واقعہ کی صحت کے پہلے ہی قائل ہوں یا ان تک اسکی اطلاع پہلے سے موجود ہوں. زمانہ جاہلیہ کی شاعری میں بھی اس واقعہ کے اشارے موجود ہیں. جیسے ابو قیس سیفی اپنی نظم میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ کیسے خدا نے ابی سینیا کے ہاتھی والے لشکر پر کنکر برسائے اور کیسے ہاتھیوں نے تشدد کے باوجود کعبہ کی طرف پیش قدمی نہیں کی. اس نظم کا انداز، الفاظ، اسلوب اور واقعہ کی تفصیل سب قران حکیم سے کئی حوالوں میں مختلف ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابو قیس کی شاعری قران مجید سے ہٹ کر ہے. چانچہ محققین کے نزدیک غالب امکان یہی ہے کہ اس نظم کا زمانہ قبل از نزول قران ہے.
.
دوسری بات یہ کہ سورہ میں 'ہاتھی والو' کا ذکر ہوا ہے. ان ہاتھیوں کی کیا تعداد تھی؟ یہ نہیں بتایا گیا. جہاں مفسرین بہت سے ہاتھیوں کے اس لشکر میں شامل ہونے کی بات کرتے ہیں. وہاں کئی نمائندہ مفسرین کے نزدیک اس لشکر میں صرف ایک ہاتھی تھا جسے یمن کے ایک ابراہہ نامی بادشاہ نے پکڑوایا اور سدھایا تھا. کہاں سے پکڑوایا تھا؟ اسکی تفصیل نہیں ملتی۔ گویا ہاتھی ایک تھا یا زیادہ دونوں امکانات ہوسکتے ہیں. کیا یمن میں یا یمن کے نزدیکی علاقے میں کبھی ہاتھی موجود تھے؟ یا اسے کسی دور دراز کے علاقے سے پکڑ کر بحری راستے سے یمن منتقل کیا گیا؟ ہم نہیں جانتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہاتھی کو یمن (صنعا) کی بجائے کسی اور علاقے/ ملک میں رکھا گیا ہو جہاں سے حملے کے موقع پر اسے لایا گیا ہو. ماضی میں ایسی کئی مثالیں ہمیں مل جاتی ہیں جب ہاتھی سمیت دیگر جانوروں کو جنگی مقاصد کیلئے کسی ایسے ملک لایا گیا جہاں ان کا پہلے وجود نہ تھا اور جہاں کا موسم ان کیلئے موزوں نہ تھا. ایسے میں ان کی افزائش کیلئے خصوصی انتظامات کیئے جاتے ہیں. یمن یا عرب میں چونکہ ہاتھی لشکروں میں شامل نہیں ہوا کرتے تھے یا کم از کم عام نہ تھے، اس وجہ سے ابراہہ کے لشکر میں ہاتھی کا ہونا ایک غیرمعمولی بات تھی اور اسی لئے لشکر کا نام ہی ہاتھی والا لشکر کہلانے لگا.
.
اب پوچھے جانے والے سوالات کی جانب آتے ہیں. پہلے دو سوالات کو اگر ایک سوال میں جمع کردیا جائے تو پوچھا یہ جارہا ہے کہ ہاتھی چونکہ صحرائی جانور نہیں ہے اسلئے وہ صحرا میں کیسے رہ سکتا ہے؟ اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ پوچھنے والا شائد افریقی نسل کے صحرائی ہاتھیوں سے واقف نہیں ہے. یہ ایشیائی ہاتھی کے مقابل قدرے چھوٹے صحرائی ہاتھی صحرا ہی میں بستے ہیں اور اب ان کی نسل کم سے کم ہوتی جارہی ہے. گو یہ آج بھی چھ سو کے قریب موجود ہیں آج بھی نمیبیا اور مالی کے افریقی ممالک میں یہ صحرا میں رہتے ہیں. گویا کسی خاص نسل کے ہاتھی کا صحرا میں زندہ رہ لینا کوئی انوکھی بات نہیں ہے. ایک اور سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ ہاتھیوں کیلئے اتنے پانی کا بندوبست کیسے کیا گیا؟ اسی افریقی صحرائی ہاتھی ہی کی مثال لے لیجیئے تو یہ قدرتی طور پر تین دن تک بناء پانی پیئے چلنے کی استعداد رکھتا ہے. ساتھ ہی یہ اپنی پیاس اور بھوک ان صحرائی پودوں سے باآسانی پوری کرلیتا ہے جو اپنے اندر قدرتی طور پر لیس دار پانی رکھتے ہیں. ان کی رفتار بھی صحرا کے حساب سے حیرت انگیز طور پر تیز رہتی ہے. یوں تو ان پر بیشمار دستاویزات یا دستاویزی فلمیں موجود ہیں مگر ہم قارئین کی آسانی کیلئے ایک چھوٹا سا ویڈیو کلپ پہلے کمنٹ میں شیئر کررہے ہیں. 
.
آخر میں یہ ضرور سمجھ لیجیئے کہ یہ جواب فقط ایک ممکنہ صورت کی طرف نشاندھی ہے. حقیقت میں ہاتھی ایک تھا یا دس؟ وہ خود چل کر آیا تھا یا بحری جہاز سے؟ اپنی پیاس واقعی صحرائی پودوں سے بجھاتا تھا یا لشکر میں اس کے لئے پانی کا کوئی خاص انتظام تھا؟ اسے ہم میں سے کوئی نہیں جانتا اور ایسے سوالات میں بلاوجہ سر کھپانے کی چنداں کوئی ضرورت بھی نہیں ہے. زمانہ جاہلیہ کی شاعری میں بھی اس واقعہ کے اشارے موجود ہیں. جیسے ابو قیس سیفی اپنی نظم میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ کیسے خدا نے ابی سینیا کے ہاتھی والے لشکر پر کنکر برسائے اور کیسے ہاتھیوں نے تشدد کے باوجود کعبہ کی طرف پیش قدمی نہیں کی. اس نظم کا انداز، الفاظ، اسلوب اور واقعہ کی تفصیل سب قران حکیم سے کئی حوالوں میں مختلف ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابو قیس کی شاعری قران مجید سے ہٹ کر ہے. چانچہ محققین کے نزدیک غالب امکان یہی ہے کہ اس نظم کا زمانہ قبل از نزول قران ہے. کچھ جیالوجسٹ بتاتے ہیں کہ موجودہ یمن اور چودہ سو برس قبل کے یمن کی سرحدوں میں خاصہ فرق تھا. بہت سے علاقے جو پہلے یمن کہلاتے تھے، مختلف جنگی کاروائیوں کے نتیجے میں اب یمن نہیں کہلاتے. محمد العمری جو کنگ سعود یونیورسٹی میں ہیڈ آف جیالوجی ہیں، انہوں نے باقاعدہ اپنی تحقیق میں ابراہہ کے اس ہاتھی والے لشکر کا پورا راستہ ڈھونڈھ کر پیش کرنا چاہا ہے. اس راستے میں مختلف جگہ 'ہمیریا' زبان میں درج نقوش و کلمات ملے ہیں جو انکی تحقیق کو تقویت دیتے ہیں. نجران کے رستے پر ملنے والے نقوش کا ایک نمونہ پہلے کمنٹ کے نیچے دیا جارہا ہے. اب اس تحقیق میں کتنا سچ ہے اور کتنا ابہام؟ اسے کماحقہ جاننے کا دعویٰ راقم نہیں کرسکتا. اسکے لئے اتنا کافی ہے کہ یہ واقعہ دنیا کی سب سے مستند کتاب قران الحکیم میں درج ہے.
.
====عظیم نامہ====

https://www.youtube.com/watch?v=U0v5MIdyxZc

No comments:

Post a Comment