دین اور میتھمیٹکس
اگر میں آپ احباب سے پوچھوں کہ 'چھ منفی چار' کتنے ہوتے ہیں؟ تو آپ سب فوری بتادیں گے کہ "دو" ! .. اگر میں آپ سے پوچھوں کہ اچھا 'دو جمع تین' کتنے ہوتے ہیں؟ تو آپ مل کر پکار اٹھیں گے کہ "پانچ" ! .. اگر میں پوچھوں کہ اچھا اچھا یہ بتایئے کہ 'پانچ ضرب تین' کتنے ہوتے ہیں؟ تو آپ سب کا یہی جواب ہوگا کہ "پندرہ" ! .. گویا آپ سب میتھمیٹکس یعنی حساب کے تسلیم شدہ بنیادی اصولوں جیسے منفی، جمع، ضرب وغیرہ سے واقف ہیں. یہی وجہ ہے کہ آپ سب کا ایک ہی جواب ہے. ان ہی اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر میں آپ کو مشکل سے مشکل حساب کا فارمولہ، سوال یا ایکویشن حل کرنے کو دوں تو مجھے اعتماد ہے کہ اگر آپ اصولوں کو ٹھیک سے اپلائی کریں گے تو آپ سب کا نتیجہ ایک سا برآمد ہوگا. یہ ممکن ہے کہ آپ سب ایک دوسرے سے مختلف میتھڈز یا طریق اپنائیں. کسی کا طریق زیادہ آسان، کسی کا مشکل ہو. کسی کا مختصر اور کسی کا طویل ہو مگر نتیجہ پھر بھی آپ سب کا ایک ہی نکلے گا. وجہ؟ وجہ وہی کہ آپ سب اصولوں میں متفق ہیں.
.
دین کے بھی کچھ قطعی یعنی حتمی اصول ہیں دوستو. جنہیں اپنا کر جب محققین یا اہل علم تحقیق کرتے ہیں تو تفصیل میں یا میتھڈ میں تو فرق ہوسکتا ہے مگر آخری نتیجے میں فرق نہیں ہوا کرتا. گویا عقائد میں توحید ہو، آخرت ہو، الہامی کتب ہوں، رسول ہوں، تقدیر ہو یا ملائکہ سب محققین ان کے دین میں ہونے کے قائل ہیں. عبادات میں نماز ہو، روزہ ہو، حج ہو، زکات ہو ہر کوئی نمائندہ مسلک یا فرقہ آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو ان کا انکاری ہو. ان عبادات کی تفصیل کا بھی ایک بڑا حصہ ایسا ہوگا جس میں آپ کو ذرا سا بھی اختلاف نظر نہیں آئے گا جیسے نماز میں نماز کی رکعات، سورہ الفاتحہ کی تلاوت، ہر رکعت میں رکوع، سجدوں وغیرہ کی تعداد، پڑھے جانے والے اذکار پر آپ کو پوری امت کا اتفاق نظر آئے گا. وجہ ؟ وجہ وہی کہ تمام ترمسلکی اختلافات کے باوجود کیونکہ اصولوں پر اتفاق ہے اسلئے پوری امت ان 'قطعی' معاملات میں ایک ہی جگہ پر کھڑی نظر آتی ہے. جن مقامات پر آپ کو علماء میں اختلاف نظر آتا ہے وہ اختلاف بھی ان اصولوں سے ملی اجازت کی بناء پر ہوتا ہے. یہ علمی اختلاف ہے جو ہوتا ہے اور ہوتا رہنا چاہیئے تاکہ جمود طاری نہ ہو. مگر دین کا بنیادی ڈھانچہ چودہ سو سال سے جوں کا توں برقرار ہے. گویا بنیادی عقائد کون کون سے ہیں؟ بنیادی عبادات کون کون سی ہیں؟ بنیادی عبادات کی ادائیگی میں لوازم کون کون سے ہیں؟ اس میں آپ کو کوئی اختلاف نہیں ملے گا.
.
اب ذرا ہماری آغاز میں دی گئی مثال کو ذہن میں رکھیئے اور سوچیئے کہ ایک محقق صاحب اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چھ منفی چار دو نہیں بلکہ تین ہوتے ہیں. دو جمع تین پانچ نہیں بلکہ نو ہوتے ہیں اور پانچ ضرب تین پندرہ نہیں بلکہ سترہ ہوتے ہیں. اب یہ صاحب ظاہر ہے کہ جس بھی فارمولے، سوال یا ایکویشن کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھائیں گے تو ان کا نتیجہ ہمیشہ آپ سب سے مختلف برآمد ہوگا. ٹھیک اسی طرح دین میں بھی ایسے 'محقق' اٹھتے ہیں جن کی ہر کی گئی تحقیق پوری امت سے الگ نتائج برآمد کرتی رہتی ہے. وجہ؟ وجہ وہی کہ ان محقق محترم نے اپنی تحقیق کے اصول ہی الگ اپنا رکھے ہوتے ہیں جسکی وجہ سے وہ قطعی ترین معاملات کو بھی رد کرکے ایسے نتائج پیش کرتے ہیں جو ورطہ حیرت میں مبتلا کردے. حماقت ہماری یہ ہے کہ ہم ان نتائج کے ٹھیک ہونے یا نہ ہونے پر بحث کرنے لگتے ہیں اور یہ دیکھتے ہی نہیں کہ وہ اصول تو غلط نہیں جن پر بنیاد رکھ کر یہ نتائج برآمد ہوئے ہیں؟ عوام تو عوام - علماء بھی اکثر یہی غلطی کررہے ہوتے ہیں. مثال کے طور پر ایک خود ساختہ محقق اجماع صحابہ یا حدیث متواتر کو سرے سے حجت یا اصول دین تسلیم ہی نہیں کرتا اور اس کے نتیجے میں وہ فقط لغت کے ذریعے قران حکیم سے دین کی ایک اچھوتی تفسیر پیش کرنے لگتا ہے. جیسے وہ کہتا ہے کہ بھائی یہ کیا ہندؤں کی طرح متھا ٹیکنے کو تم نے سجدہ سمجھ لیا ہے؟ سجدہ تو بس احکام پر سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے یا یہ کیا تم مشرکین کی طرح قربانی کرکے خون بہاتے ہو؟ قربانی کا مطلب تو بس اپنی خواہشات نفس کی قربانی ہے یا حج تو انٹرنیشنل میٹنگ کا نام تھا، یہ کیا تم نے پتھر کی دیوار کو شیطان بنا کر پتھر مارنا شروع کردیا؟ وغیرہ. اب اگر آپ ان محقق صاحب کے اصولوں کو نظر انداز کرکے ان نتائج پر بحث کرنے لگیں تو کبھی نتیجہ نہیں نکلے گا بلکہ امکان ہے کہ آپ کو شکست فاش ہو. لازمی ہے کہ پہلے ان اصولوں کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہو پھر ان نتائج پر گفتگو کی جائے. اسی طرح ایک شخص ملحد ہے، وجود خدا کا ہی انکاری ہے اور آپ اس سے یہ مکالمہ کرنے لگیں کہ واقعہ معراج کی کیا حقیقت ہے؟ یا معجزات کیسے ممکن ہے؟ تو یہ صرف وقت کا زیاں ہے. لہٰذا دین کے سنجیدہ طالبعلمو اور علماء اکرام سے راقم کی یہی استدعا ہے کہ ہر مکالمے میں اصول دین کو نظر سے اوجھل نہ ہونے دیں.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: راقم کو امید ہے کہ قاری دی گئی مثال کی کھال اتارنے سے زیادہ موجود پیغام کو سمجھنے کی سعی کرے گا)
No comments:
Post a Comment