احمد شیخ صاحب سے ایک ملاقات

میرا مکمل حلقہ احباب اور میرے تمام قارئین اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ میں کسی بھی ایسی بات پر قلم اٹھانے سے گریز کرتا ہوں جو تفرقے کا سبب بنے یا جو کسی شخصیت کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہو. غالباً یہی وجہ رہی جو آج تک میں نے اس ملاقات کا ذکر اپنی کسی تحریر یا محفل میں نہیں کیا. مگر آج سوشل پر ان کے ایک کلپ کی وجہ سے کچھ اردگرد ایسا منظر نامہ بن گیا ہے کہ مجھے اس کو بیان کرنے پر شرح صدر حاصل ہوگئی ہے. یہ آج سے کوئی چار سال قبل کی بات ہے جب میں انگلینڈ سے کراچی چھٹیاں گزارنے گیا تھا. حسب عادت میں نے یہ چاہا کہ اس بار بھی کچھ اہل علم سے استفادہ ممکن ہوسکے. تحقیق کی تو 'محمد شیخ' صاحب کا نام سامنے آیا. میرے لئے یہ خبر انتہائی حیرت انگیز اور پرمسرت تھی کہ محمد شیخ صاحب کا نام دنیا بھر کے پانچ سو سب سے زیادہ اثر انگیز ترین مسلمانوں میں شامل کیا گیا تھا. دوسرے مذہبی اسکالرز جن کا نام اس فہرست میں آیا تھا میں ان سب سے واقف تھا جیسے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب وغیرہ. مگر محمد شیخ صاحب کا نام میرے لئے اجنبی تھا. انٹرنیٹ پر کھوجا تو معلوم ہوا کہ آپ کی شہرت دوسرے ممالک بلخصوص آسٹریلیا میں شائد پاکستان سے بھی زیادہ ہے. ویب سائٹس پر آپ کی تصاویر شیخ احمد دیدات کے ساتھ موجود تھیں. میں یہ جان کر مزید مرعوب ہوا کہ آپ پاکستان میں شیخ دیدات کے واحد شاگرد ہیں. اس پر طرہ یہ کہ آپ میرے آبائی شہر یعنی کراچی ہی کے رہائشی ہیں. اپنی نالائقی کو خوب کوسا کہ اتنی اہم شخصیت میرے اپنے شہر میں موجود رہی اور میں نالائق ملنا تو دور، ان کے تعارف سے بھی انجان رہا. رابطے کیلئے ہاتھ پاؤں چلائے تو ایک نزدیکی عزیز سے جو محمد شیخ صاحب کے براہ راست شاگرد بھی تھے، ان کا پتہ معلوم ہوگیا. طارق روڈ اور 'پی ای سی ایچ ایس' کے نزدیک اس پتے پر جاپہنچا تو یہ ایک بند بنگلہ نما گھر تھا. گھنٹی بجائی تو اندر سے ایک ادھیڑ عمر صاحب برآمد ہوئے. میں نے ادب سے ان سے درخواست کی کہ میں لندن سے کراچی آیا ہوں اور 'محمد شیخ' صاحب سے سیکھنے کا متمنی ہوں. ان صاحب نے مجھے شکی نگاہوں سے گھورا اور انتظار کا کہہ کر اندر چلے گئے. مجھے لگا کہ شیخ سے اجازت لینے گئے ہیں مگر کچھ دیر بعد وہ مجھے اندر دروازے کے بلکل سامنے ایک چھوٹے سے آفس نما کمرے میں لے گئے. وہاں انہوں نے مجھ سے فارم بھروایا اور اتنے سوال کیئے کہ لگا میں دہشت گردی کے کیس میں پکڑا گیا ہوں اور آئی ایس آئی کے افسر کو جوابات سے مطمئن کرنا چاہتا ہوں. آخر میں ان صاحب نے میرا فون نمبر لیا اور کہنے لگے کہ جب شیخ کے پاس وقت ہوگا تو ہم آپ کو ملاقات کا فون کردیں گے. یہ پورا ماجرا اتنے عجیب اور روکھے انداز میں پیش آیا تھا کہ میری طبیعت مکدر ہوکر رہ گئی. بعد میں جب مجھے ملاقات کیلئے فون کیا تو میں نے ناراضگی سے از خود منع کردیا. دوسری بار فون آیا تو خود کو سمجھایا اور بروز جمعہ ملاقات کا وقت طے کرلیا.
.
مقررہ روز میں اپنے ایک قریبی دوست کے ساتھ جو کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر ہے، ان کے بنگلے دوبارہ جا پہنچا. اس بار دوست کا بھی استفساری پوسٹ مارٹم ہوا جسے اس نے پاس کرلیا. بلاخر ہمیں اندر داخلہ مل گیا. دیوار پر ایک دیو قامت تصویر آویزاں تھیں جس میں شیخ کعبہ کی جانب ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے. دوسری تصاویر میں شیخ دیدات کے ساتھ والی تصویر پہلے ہی میری توجہ کا مرکز تھی. تصاویر کی اس انداز میں موجودگی دل کو کچھ بھائی نہیں. تصنع بناوٹ سی محسوس ہوئی مگر یہ میرا داخلی احساس تھا جو فقط بدگمانی اور بلکل غلط بھی ہوسکتا ہے. اب ہم ایک ایسے ہال نما کمرے میں داخل ہوئے جو آڈیٹوریم کا منظر پیش کرتا تھا. اسی طرح کرسیاں اور سامنے ایک اسٹیج. اس بنگلے سے دو تین گھر کے فاصلے پر منہاج القران والو کی ایک مرکزی مسجد موجود ہے جسکی لائبریری میں کچھ وقت میں نے گزارا تھا. میرا احساس تھا کہ اب یہاں موجود سب لوگ مسجد جمعہ کیلئے جائیں گے مگر ایسا نہ ہوا. اسکے برعکس وہاں ہی جماعت کرائی گئی. امامت شیخ صاحب نہیں کر رہے تھے مگر دوسری تیسری صف میں بقیہ نمازیوں کے ساتھ انہوں نے نماز ادا کی. یہ پہلی جھلک تھی جو شیخ کی میں نے دیکھی. نماز ختم ہوئی تو لوگ چھٹنے لگے. یہاں تک کے درجن بھر کے قریب رہ گئے اور دیواروں سے لگ کر بیٹھ گئے. کچھ دیر بعد محمد شیخ صاحب تشریف لائے. سفید کرتا، لمبا چوڑا قد، متناسب داڑھی، صاف رنگت اور گرجدار آواز. بلاشبہ شیخ کی شخصیت مجھے جاذب محسوس ہوئی. آپ مجھ سے بہت گرمجوشی سے ملے اور نیچے ہی بلکل میرے سامنے بیٹھ گئے. اس انداز میں کہ آپ کچھ اپر بیٹھے تھے اور میں تھوڑا نیچے. آپ نے کرتے سے ایک چھوٹا مائیک بھی لگا رکھا تھا جس سے آپ کی آواز مزید گرجدار محسوس ہو. دیواروں سے لگے شاگرد اب متوجہ تھے. آپ مجھے گولی کا نشان دیکھاتے ہوئے بتانے لگے کہ کچھ سال قبل ان پر ایک جان لیوا حملہ ہوا تھا جس میں انہیں ٹھوڑی سے گردن میں گولی لگی. میں نے افسوس کا اظہار کیا. اب شیخ صاحب نے میرا تعارف اور میری آمد کا مقصد دریافت کیا. میں نے سچائی سے بتایا کہ میں قران حکیم کے ایک ابتدائی طالبعلم کی حیثیت سے آپ سے سیکھنے آیا ہوں. ساتھ ہی انہیں سالوں پر محیط انگلینڈ میں اپنی دعوتی سرگرمیوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا. اس دوران شیخ مجھے پوری دلچسپی سے سنتے رہے اور بیچ بیچ میں سوالات پوچھتے رہے. میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ مجھے شیخ سے کوئی مکالمہ یا مباحثہ کرنا ہے. بلکہ میں تو ان سے صرف سیکھنے کا متمنی تھا. لہٰذا وہ جو پوچھتے رہے، ہم سادگی سے بتاتے رہے. بات ختم ہوئی تو آپ مخاطب ہوئے. کہنے لگے کہ قران حکیم کا میرا مطالعہ، تقابل ادیان کیلئے صحائف کا میرا جائزہ اور دعوتی سرگرمیوں میں ملحدین یا عیسائیوں سے میرا مکالمہ سب بیکار رہا. ظاہر ہے ایسا سن کر میرے دل کو رنج پہنچا مگر ظاہر نہ ہونے دیا. انداز تخاطب سے یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ کسی شفیق استاد کی طرح میری رہنمائی نہیں کررہے بلکہ مجھے نیچا دیکھانے کی سعی کررہے ہیں. وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میری سمجھ کتنی غلط اور ان کی کتنی درست ہے. نہ چاہتے ہوئے بھی میں مجھے ایک ایسی پوزیشن پر لایا جارہا تھا جہاں میں اپنا دفاع کروں یا حملہ کردوں. قران حکیم کے ترجمے کے حوالے سے مترجمین پر استہزائی جملے کستے محسوس ہوئے کہ وہ کس درجے غلط مترجم ہیں. دعوتی حوالے سے کہنے لگے کہ مجھے کوئی ایک دلیل دو وجود خدا کی جسے کوئی جھٹلا نہ سکے. ماننے پر مجبور ہوجائے. میں نے انہیں بتایا کہ ایسے بہت سے مظبوط دلائل ہیں جو دیئے جاتے ہیں اور چند ان کے گوش گزار کیئے مگر نہیں وہ سننے کے موڈ میں نہیں تھے. رد کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اب وہ ایک ایسی دلیل دیں گے جس کے بارے میں ان کا چیلنج ہے کہ کوئی رد نہیں کر سکتا. میں نے پوچھا کہ بتایئے تو کہنے لگے کہ قران اللہ رب العزت کی 'فرسٹ ہینڈ اسپیچ' ہے اور کسی کتاب میں ایسا نہیں ہے. ان کے بقول یہ دلیل ایسی تھی کہ کوئی ملحد یا غیر مسلم اس کا سامنا نہیں کرسکتا. ظاہر ہے مجھے یہ کوئی قوی دلیل نہیں لگی مگر ان کا اونچی آواز میں جوش اور جذبہ دیکھ کر میں نے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی.
.
میں نے ان سے شیخ احمد دیدات کے بارے میں پوچھا اور ان کے دلائل کا ذکر کیا تو یہ جان کر مجھے مایوسی ہوئی کہ احمد شیخ صاحب نے ان کا کسی بڑے یا اچھے صاحب علم کے طور پر ذکر نہیں کیا. یوں لگتا تھا کہ انہیں صرف اپنی ذاتی سمجھ ہی معتبر لگتی ہے جو احمد دیدات صاحب کی سمجھ سے کوسوں دور ہے. مجھے یہ بات عجیب لگ رہی تھی کہ آپ اپنی تصویر شیخ احمد دیدات کے ساتھ لگوائیں. آپ کا تعارف انٹرنیٹ پر احمد دیدات صاحب کے شاگرد کے طور پر ہو مگر حقیقت میں آپ ان کا عزت سے نام لے کر تعریف بھی نہ کرسکیں. باتوں میں یہ بھی ذکر آیا کہ 'الرحمٰن الرحیم' چینل کے مالک 'بابر چودھری صاحب' بھی ان ہی کے ساتھ ہوتے تھے. ان کا ذکر بھی احمد شیخ صاحب نے کچھ اس منفی انداز میں کیا کہ لگے بابر صاحب نے ان ہی سے سیکھا اور پھر اپنا الگ سیٹ ایپ کرلیا. مجھے اب تک اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ حدیث کے منکر ہیں اور قران حکیم کی ایک جداگانہ تفسیر کرتے ہیں. بہت امکان ہے کہ بابر چودھری صاحب نے اسی وجہ سے ان سے اپنی راہ جدا کی ہو اللہ اعلم بلصواب. میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ غلام احمد پرویز صاحب کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اور ان کی موجود تنظیم 'طلوع اسلام' کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ بتانے لگے کہ لاہور سے طلوع اسلام کے موجودہ منتظم صاحب ان سے ملنے آئے تھے اور وہ چاہتے ہیں کہ احمد شیخ صاحب انہیں جوائن کرکے سربراہی سنبھال لیں. اس کا جواب انہوں نے نفی میں انہیں دیا اور کہا کہ طلوع اسلام کیوں نہ انہیں جوائن کرلے؟ اب میرا ان سے باقاعدہ مکالمہ ہوا جس میں ستر فیصد سے زیادہ اختلاف تھا. گو یہ مکالمہ میں نے خوبی سے کرلیا مگر چار بڑی وجوہات ایسی تھیں جن سے مجھے یہ ڈھائی تین گھنٹے کی نشست نبھانا بہت کٹھن محسوس ہوا.
.
١. میں نے مکالمے کی نیت سے کوئی تیاری نہیں کر رکھی تھی اور یہ سب کچھ ایک اچانک کاروائی تھی.
٢. مکالمہ آخر کس کس بات پر ہو؟ یہاں کوئی ایک بات اختلافی نہ تھی بلکہ اختلافات کا جم غفیر تھا. رسول، وحی، کتاب، سنت، امت، روح، جبرائیل ... غرض ایک طویل فہرست تھی جن کے بارے میں آپ کی سمجھ پورے عالم اسلام کی چودہ سو سالہ سمجھ سے مختلف تھی.
٣. میرا بیانیہ چونکہ امت کا متفقہ بیانیہ ہے لہٰذا وہ تو میرے بیانیئے سے آگاہ تھے مگر میں ان کے بیانیئے کو پہلی بار سن رہا تھا.
٤. وہ آواز اونچی کرکے، مائیک سے مدد لے کر، غصیلا انداز دیکھا کر مخاطب کو ہراساں Bully کرنا خوب جانتے ہیں. اس کے لئے ان کے وہ موجود شاگرد بھی کام آتے ہیں جو دیواروں سے لگے ان کے پوچھنے پر رٹے رٹائے جملے دہرا کر ان کے کہے میں وزن پیدا کرتے ہیں. گویا ان ہی کیلئے موافق ماحول ہے اور ان ہی کے خود ساختہ اصول ہیں. 'اسپیکر' بھی وہ ہیں اور 'ماڈریٹر' بھی وہی ہیں.
.
پرویز صاحب، نیاز فتح پوری، قمر الزمان، ڈاکٹر شبیر وغیرہ کا طریقہ واردات یہ رہا ہے کہ وہ احادیث کو چھوڑ کر لغت سے تفسیر کرتے ہیں اور جہاں کوئی بات ان کی ناقص سمجھ کے خلاف ہو تو اسے اصطلاحی معنوں کی پوشاک پہنا دیتے ہیں. ان کے برعکس محمد شیخ صاحب اصطلاحی معنوں میں نہیں جاتے اور نہ ہی احادیث، سنت، اقوال صحابہ کو دیکھتے ہیں. بلکہ ان کا سارا دارومدار لغت ہی پر مبنی رہتا ہے. وہ ان اصطلاحات اور ناموں کا بھی لغوی ترجمہ کرنے پر اصرار کرتے ہیں جو ہمیشہ سے مسلمانوں، اہل کتاب اور غیر مسلم مورخین میں معروف رہی ہیں. جس سے پھر وہ وہ معنی برآمد کرتے ہیں جن کا معمولی ذکر بھی آپ کو کسی اہل علم کے یہاں نہیں ملتا. یہاں تک کے منکرین حدیث کے یہاں بھی نہیں. میں نے جب انہیں مجبور کیا کہ وہ کسی اہل علم کا نام لیں جنہیں وہ صحیح اہل علم اور حق پر مانتے ہیں تو کچھ ایسا جملہ عرض کیا کہ 'اگر دنیا میں آج آپ کو کہیں حق ملے گا تو اسی چھت کے نیچے ملے گا.' رخصت کا وقت آپہنچا تو ایک شدید ذہنی تھکن اور کوفت تھی. محمد شیخ صاحب بھی شائد یہ دیکھ کر مایوس تھے کہ میں واضح انداز میں اب بھی ان ہی نتائج پر قائم تھا جو ملاقات کی ابتداء میں تھے. ان کی کوشش تھی کہ وہ میرے ساتھ آئے دوست کو قائل کرلیں لیکن وہ بھی میرے پیش کردہ استدلال کو درست مان رہا تھا. آخر میں ہم نے اجازت لی تو شیخ نے مجھے کچھ کتب اور ایک عربی لغت بطور تحفہ دی جسے میں نے بخوشی قبول کرلیا. شدید اختلافات کے باوجود بھی مجھے کوئی اختلاف ایسا محسوس نہیں ہوا جو بنیادی ایمانیات کا انکار کرتا ہو یا عبادات کی نفی میں ہو. جو بہرحال غنیمت ہے. وگرنہ اسی ملک میں ایسے صاحبان کی کمی نہیں رہی جو نماز، روزے سے لے کر عقیدہ آخرت تک کا انکار قران مجید کا نام لے کر کرتے رہے ہیں.
.
====عظیم نامہ====
.
(یہ سالوں پرانی ملاقات کا احوال ہے لہٰذا قوی امکان ہے کہ اس میں کچھ باتیں کم زیادہ ہو گئی ہوں. گو راقم نے پوری کوشش کی ہے کہ کوئی اضافہ نہ ہو)
No comments:
Post a Comment