Wednesday, 1 November 2017

لڑکا ہوں مگر مجھے بچپن سے لڑکے پسند ہیں


لڑکا ہوں مگر مجھے بچپن سے لڑکے پسند ہیں

 سوال:

السلام علیکم. بہت ہمت کرکے یہ سوال پوچھ رہا ہوں. میں چوبیس برس کا ایک لڑکا ہوں لیکن مجھے بچپن سے لڑکے ہی پسند ہیں. مجھے لڑکیوں سے ذرا بھی جنسی لگاؤ محسوس نہیں ہوتا بلکہ خود اپنا ظاہر اور باطن لڑکی جیسا محسوس ہوتا ہے. میں نے نارمل ہونے کی بہت کوشش کی مگر میری دلچسپی مردوں ہی کی جانب ہوتی ہے. شرمندگی سے بتا رہا ہوں کہ ایک بار ہم جنسی کا ارتکاب بھی کیا ہے. اسلام میرے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کیا اس گندے عمل کے بعد بھی میں مسلمان کہلاسکتا ہوں؟ کیا ہم جنسی کی کوئی گنجائش ہے؟ کیا میں سیکس چینج آپریشن کروا سکتا ہوں؟ میری شادی کی عمر ہے، کیا میں شادی کرسکتا ہوں؟ مجھے خود سے نفرت ہوتی ہے، میں خود کو کیسے بدل سکتا ہوں؟
.
جواب:
وعلیکم السلام. سب سے پہلے تو مبارکباد قبول کریں کہ آپ میں یہ احساس موجود ہے کہ یہ عمل یا رجحان غلط ہے اور آپ کو اپنی تصحیح کرنی ہے. یہ آپ کے رب کا آپ پر احسان ہے کہ اس نے آپ کو اس احساس سے مزین رکھا ہے. یقین کیجیئے بیشمار افراد ایسے ہیں جو بڑی بڑی برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں مگر ساری زندگی اس کی سنگینی کا احساس ہی نہیں کرتے یا اسے جسٹیفائی کرتے رہتے ہیں اور یوں ہی مرجاتے ہیں. میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ ایک مسلسل کرب سے گزر رہے ہیں اور اس سچویشن سے نکلنا آپ کے لئے نہایت کٹھن ہے. میں عالم دین نہیں ہوں بلکہ دین کا ایک معمولی طالبعلم ہوں. لہٰذا ایک طالبعلم اور آپ کے خیر خواہ کی حیثیت سے کچھ گزارشات اپنی ناقص سمجھ کے مطابق لکھے دیتا ہوں.
.
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ آپ الحمدللہ مسلم ہیں. کسی شیطان کو یہ نہ بتانے دیجیئے کہ آپ مسلم نہیں. لہٰذا ذکر، عبادت اور دین کے دیگر شعائر کا اسی طرح بھرپور اہتمام کیجیئے جیسے کے ایک مسلم کو کرنا چاہیئے. جس طرح سود، زنا سمیت دیگر کبیرہ گناہوں کا مرتکب انسان غیرمسلم نہیں ہوتا. ٹھیک اسی طرح ہم جنسی جیسے کریہہ عمل کے ارتکاب سے آپ غیر مسلم نہیں ہوجاتے. البتہ یہ ایک بہت بہت بڑا گناہ ہے. ایک ایسا غلیظ گناہ جس سے فوری توبہ لازمی ہے. آپ کے ساتھ تو بچپن سے جسمانی و نفسیاتی طور پر یہ رجحان غیر اختیاری طور پر چمٹے رہے ہیں. ورنہ ایسے بھی ہیں جو مذہبی چوغہ پہن کر بچوں سے ہم جنسی کربیٹھتے ہیں. لہٰذا اس گندے عمل سے توبہ کی فکر ضرور کیجیئے مگر اسے دین چھوڑنے کا سبب نہ بننے دیجیئے.
.
ہم جنسی کے اس رجحان کی دو ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں. پہلی نفسیاتی اور دوسری جسمانی. بہت سے اہل علم کے مطابق اصل وجہ تمام یا اکثر کیسز میں صرف نفسیاتی ہی ہوا کرتی ہے مگر اس وقت ہم دونوں زاویوں سے بات کو دیکھ لیتے ہیں. اگر وجہ جسمانی ہے جیسے آپ کے جنسی اعضاء میں کوئی نقص ہے یعنی کچھ زنانہ اور کچھ مردانہ ہے تو ایسے میں آپ کو فوری طور پر میڈیکل ایکسپرٹس سے رجوع کرنا چاہیئے. ایسی صورت میں سیکس چینج آپریشن کیا جاسکتا ہے تاکہ کسی ایک جنس کا تعین ہوسکے. یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی بچہ جینیٹک ڈیزیز یا معذوری کے ساتھ پیدا ہو اور جسے آپریشن سے ٹھیک کیا جائے. ایسی انتہائی صورت میں علماء کی ایک جماعت اس کی اجازت دیتی ہے اور دوسری مخالفت کرتی ہے. میں خود اجازت کا قائل ہوں. باقی مزید تحقیق کی جاسکتی ہے.
.
لیکن اگر مسئلہ دوسرا ہو یعنی وجہ جسمانی بلکل نہ ہو بلکہ فقط نفسیاتی ہو تو ایسے میں توبہ اور تزکیئے ہی کو راستہ بنانا ہوگا. اس عمل سے آئندہ بچنے کو یقینی بنائیں. خدا نہ کرے کہ بہت کوشش کے بعد بھی یہ گناہ کبیرہ سرزد ہوجائے تو اس پر پشیمان رہیں. ہم جنسی کو کبھی جسٹیفائی نہ کریں. اس کا اعلان نہ کرتے پھریں بلکہ اسے ایک کریہہ گناہ جان کر اسے چھوڑنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں. یاد رکھیں کہ اپنے گناہ پر بناء اشد ضرورت گواہ نہ کیجیئے. اسی میں عافیت ہے کہ گناہ بندے اور اسکے رب کے درمیان ہی رہے. پھر گناہ کا اعلان سرکشی اور تکبر کی علامت ہے جو بارگاہ الہی میں آخری درجے کا جرم ہے. میں سمجھتا ہوں کہ جنسی میلانات انسان میں بہت شدید ہوا کرتے ہیں. بالخصوص عمر کے اس حصے میں جس میں آپ ہیں. مگر ان میلانات سے بھی زیادہ طاقتور آپ کا وہ ارادہ و اختیار ہے جو رب نے فطرت میں ودیعت کررکھا ہے. ایسے بھی بیشمار لوگ ہیں جو ساری عمر شادی نہیں کرتے. آپ بھی اس وقت تک شادی نہ کیجیئے جب تک خود کو نارمل محسوس نہ کرنے لگیں. ایسی حالت میں کسی لڑکی سے شادی کرنا اسکی زندگی تباہ کردینے کے مصداق ہوگا. ایک مثال لیجیئے کہ آپ کے کسی ہم عمر دوست کو اپنی والدہ کے ساتھ ایک گھر میں تیس چالیس سال کیلئے قید کردیا جاتا ہے. کیا ایسی صورت میں اس مرد کا معاز اللہ ثم معاز اللہ اپنی والدہ سے جنسی تعلق پیدا کرلینا درست قرار پائے گا؟ ظاہر ہے کہ نہیں. ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ اس لڑکے میں جنسی میلان شدید ہے اسلئے کوئی حرج نہیں. ہم اسے یہی نصیحت کریں گے کہ وہ اسے اپنے نفس کا امتحان سمجھ کر صبر کرے. ٹھیک اسی طرح آپ کو بھی ایک امتحان کا سامنا ہے جو مشکل ضرور ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں ہے. بحیثیت مسلمان آپ یہ خوب جانتے ہیں کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے جہاں کبھی بیماری سے، کبھی غربت سے اور کبھی مختلف میلانات سے آزمایا جاتا ہے. اس ضمن میں کسی نفسیاتی ماہر یا ھپناسس ایکسپرٹ سے کچھ کونسلنگ سیشن لینا بھی آپ کی اس اندرونی جنگ میں ان شاء اللہ معاون ثابت ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے اپنے امتحان میں سرخروئی نصیب فرمائے آمین.
.
====عظیم نامہ====

.
(اس سوال کو راقم نے ماضی میں پوچھے کئی سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے خود مرتب کیا ہے)

No comments:

Post a Comment