Sunday, 12 November 2017

ارتقاء




جاننا چاہیئے کہ ہم حاملین قران ایک ایسے خدا کو ماننے والے ہیں جو جہاں الخالق ہے (ایک تخلیق سے دوسری تخلیق کرنے والا) وہاں وہ الفاطر بھی ہے (بناء کسی موجود مثال کے بنانے والا). جو جہاں البدیع ہے (بناء کسی شے کے وجود بخشنے والا) وہاں وہ الباری بھی ہے (آغاز کرنے والا). گویا ہم صرف اس پر اکتفاء نہیں کرتے کہ کائنات کو بنانے والا ایک رب ہے بلکہ ہم اس رب کی لامحدود قوت کے قائل ہیں. ہم یہ مانتے ہیں کہ تخلیق کیلئے وہ رب چاہے تو کسی ایک طریق کو اپنائے، چاہے تو کسی دوسرے طریق کو اپنالے، چاہے تو کسی کے ذریعے تخلیق کا کام لے اور چاہے تو بناء ذریعے تخلیق کردے. آج جب معروف ملحد سائنسدان 'پروفیسر لارنس کراس' اپنی کتاب 'یونیورس فرام نتھنگ' میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات 'کچھ نہیں' سے وجود میں آگئی تو تمام ناقدین نفی میں مسکرانے لگتے ہیں. مگر بحیثیت مسلم ہم سب اس کے قائل ہے کہ ہمارے رب نے کائنات کو عدم (کچھ نہیں) سے وجود بخشا ہے. ہمارا رب وہ ہے جو 'کن فیکون' سے بھی چیزوں کو وجود میں لاتا ہے اور ارتقائی سفر سے گزار کر بھی چیزوں کو روپ دیتا ہے. وہ عموم میں ماں باپ کے زریعے اولاد کو دنیا میں لاتا ہے. مگر اگر چاہے تو عیسیٰ علیہ السلام کو بناء باپ کے پیدا فرمادیتا ہے اور آدم علیہ السلام کو ماں باپ دونوں کے بناء وجود بخش دیتا ہے. وہی تو ہے جو اپنے اذن سے عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں مٹی کے پرندوں کو زندہ فرما دیتا ہے. ابراہیم علیہ السلام کے لئے ذبح شدہ پرندوں کے اعضاء جوڑ کر انہیں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اصحاب الکہف کو موت نما نیند سے سینکڑوں سال تک سلا کر جگا دیتا ہے. اس تمام تمہید کو بیان کرنے کا فقط یہی مقصد ہے کہ ہم مسلمانوں کیلئے اہم یہ ہے کہ اس کائنات کو ، مخلوقات کو اور بلخصوص ہم انسانوں کو رب کریم نے پیدا فرمایا ہے. اب انہوں نے تخلیق کرنے کا جو بھی طریق ابتداء میں اختیار کیا ہو، یہ جاننا ہمارے ایمان سے متعلق نہیں ہے بلکہ ایک ضمنی و ظنی موضوع ہے. جب یہ واضح ہوگیا تو ان شاء اللہ اب ہم اپنے موضوع کی جانب آتے ہوئے ان ممکنہ طریقوں کو جاننے کی کوشش کریں گے جو مختلف مسلم اہل علم 'تخلیق انسان' کے متعلق اختیار کیئے ہیں. 

No comments:

Post a Comment