Monday, 23 April 2018

ملالہ یوسفزئی



ملالہ یوسفزئی - ملک دوست یا امریکی ایجنٹ؟ 



کسی کو پسند ہو یا ناپسند ہو - ملالہ یوسفزئی آج ایک ایسا نام ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت بنا نظر آتا ہے. میں جانتا ہوں کہ حملے کے بعد مغرب میں اس کی غیر معمولی پذیرائی، نوبل پرائز برائے امن اور فنڈز کے نام پر ملنے والی غیرمعمولی مراعات - ایک عام پاکستانی کو اس شبہ میں مبتلا کردیتی ہے کہ شائد ملالہ مغرب کی کسی ممکنہ سازش کا کردار ہے. مگر اس حقیقت کا بھی انکار ممکن نہیں کہ اس پر دہشت گردوں کی جانب سے فی الواقع شدید جان لیوا حملہ ہوا تھا اور یہ بھی کہ تب سے لے کر آج تک اس نے ہمیشہ دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کا ایک مثبت سافٹ امیج پیش کیا ہے. یہ کہنا کہ فلاں فلاں بچوں پر بھی تو حملہ ہوا تھا ، انہیں کیوں نہ بین الاقوامی پزیرائی ملی؟ - یہ ایک بچکانہ اعتراض ہے. ملالہ میں فطری طور پر اظہار کی ایسی صلاحیتں موجود نظر آتی ہیں جو اسے اپنے ہم عمر بچوں سے ممتاز کردیتی ہیں. پھر اسے حالات و واقعات میسر آئے جس سے دنیا کی توجہ اس کی جانب زیادہ مبذول ہوگئی. مغربی حکومتوں نے یقیناً اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور ملالہ کے کیس کو سامنے رکھ کر طالبان جنگجوؤں سے نفرت کو فروغ دیا. یہ مغرب کی 'وار اگینسٹ ٹیرر رزم' کے پروپیگنڈے میں معاون تھا. لیکن اس شاطرانہ چال کو بنیاد بناکر ملالہ کو غدار یا ملک دشمن سمجھنا شائد درست نہیں. ملالہ کے کردار سے کبھی ہمیں پاکستان دشمنی محسوس نہیں ہوتی. پاکستان کے نام پر گرتے اسکے بے ساختہ آنسو اسے ملک سے والہانہ لگاؤ کی خبر دیتے ہیں. انہیں ڈرامہ کہہ کر سازش کی بو محسوس کرتے رہنا عقلمندی نہیں. دانشمندی یہ ہے کہ ہم ملالہ پر لعنت ملامت کرنے کی بجائے، اس کی آواز کو عالمی سطح پر پاکستان کے حق میں استعمال کریں. میرا کہنا یہ نہیں ہے کہ اسے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیں لیکن اسے ایک 'ایمبیسڈر' کے طور پر دنیا میں پیش کرکے ہم پاکستان کا بہتر امیج قائم کرسکتے ہیں.
.
ملالہ پر دوسرا بڑا شک اس کے مذہبی رجحان پر ہے. اس کے چند بیانات جو اس نے برقع اور داڑھی کے متعلق دیئے ہیں قابل اعتراض ہیں. مگر اگر اتنا کہنا ہی آپ کو مذہب بیزار قرار دیتا ہے تو آدھی فیس بک پر یہی فرد جرم عائد کرنی ہوگی. یہاں دانشوری کی آڑ میں برقعے اور داڑھی دونوں پر آئے دن اعتراضات کئے جاتے ہیں. یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک موقف کے مطابق ملالہ نے ایسا کوئی بیان دیا ہی نہیں تھا. اس موقف کے مطابق بی بی سی اردو پر ”گل مکئی کی ڈائری“ جو شائع کی گئی اس میں ایسا کوئی ذکر نہ تھا. بعد میں ایک ویب سائٹ نے اسے تحریف کر کے اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا اور اس میں داڑھی اور برقعے کے خلاف الفاظ شامل کیے گئے۔ (واللہ اعلم بلصواب) مگر چلیں ہم کچھ وقت کیلئے یہ مان لیتے ہیں کہ اس نے ایسی سخت بات کہی ہوگی. تب بھی پھر یہاں دو باتیں اور قابل غور ہے. پہلی بات یہ کہ خود ملالہ کا اپنا رہن سہن ایک سادہ مسلم لڑکی کا ہے جو نماز پڑھتی ہے، روزہ کا اہتمام کرتی ہے، دوپٹہ سر پر رکھتی ہے وغیرہ. دوسری بات یہ کہ وہ اب جا کر صرف بیس سال کی ہوئی ہے. جس وقت اس نے یہ بیان دیئے اس وقت اسکی عمر اور کئی سال کم ہوگی. اتنی کم عمری میں اس کے کسی بیان کو متنازعہ بنا کر گرفت کرنا شائد ٹھیک نہیں. ہم اسے پارسا سمجھنے کو نہیں کہہ رہے مگر اتنا تو کیجیئے کہ اسے ایک پاکستانی، ایک مسلم کی صورت میں قبول کرلیں؟ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم نے دو نوبل پرائز حاصل کیئے ہیں. پہلا ڈاکٹر عبدالسلام اور دوسرا ملالہ یوسفزئی. ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی کہہ کر ہم نے آج تک قبول نہ کیا حالانکہ وہ ایک پاکستانی تو تھے. دوسرا آج ملالہ سامنے ہے، جسے ہماری اکثریت ایجنٹ کہہ کر دھتکار رہی ہے. 
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: راقم یہ بات جانتا ہے کہ اس پوسٹ سے ایک بڑی تعداد اختلاف کرے گی. ممکن ہے ہم سے منسوب توقعات کو بھی ٹھیس پہنچے. مگر یہ ایک فرد کی رائے ہے جسے آپ اپنی سمجھ سے قبول یا مسترد کرسکتے ہیں)

عافیہ صدیقی



عافیہ صدیقی - بے حس قوم کی ایک بدقسمت بیٹی 



.
ڈاکٹر عافیہ صدیقی - وطن عزیز کی وہ بدقسمت بیٹی ہے جس کے ساتھ ظلم کا ایسا پہاڑ توڑا گیا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے. عافیہ صدیقی شہر قائد کراچی میں پیدا ہوئی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ چلی گئی. آپ نے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی. عافیہ کا رجحان اسلامی تھا جس میں قران حکیم کی تعلیم سے لے کر مختلف چیرٹی آرگنایزشن سے وابستگی شامل تھی. ٢٠٠١ میں نائن ایلیون (٩/١١) کا سانحہ پیش آیا تو امریکی خفیہ ایجنسیاں اس پلان کے ذمہ داران کو ڈھونڈھنے میں لگ گئیں. ڈاکٹر عافیہ کی پی ایچ ڈی ڈگری ٢٠٠٢ میں اختتام پذیر ہوئی تو وہ واپس کراچی آگئی. واپسی کے فوری بعد ہی آپ کی اپنے شوہر ڈاکٹر امجد خان سے طلاق ہوگئی. اس صدمے سے آپ کے والد کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ چل بسے. یہ عافیہ کیلئے ایک سخت وقت تھا اور وہ ڈپریشن میں تھیں. دوسری طرف امریکہ نے نائن ایلیون کے ذمہ داران میں سے سات مطلوب افراد کی فہرست اور پھر تصاویر جاری کیں جو ان کے بقول اس سارے پلان کے فائنانسراور ماسٹر مائنڈ تھے. ان میں سے ایک نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا بھی تھا. کچھ امریکی جرنلسٹ یہ بھی کہتے ہیں کہ القاعدہ کا مرکزی رہنما شیخ خالد محمود جو کراچی سے ان دنوں گرفتار ہوا تھا، اس نے ڈاکٹر عافیہ کا نام بتایا. گو اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیا گیا کہ واقعی شیخ خالد نے ایسا کچھ کہا تھا یا نہیں؟. امریکہ کے بقول نائن الیون کی فنڈنگ لائبیریا، افریقہ سے ہیروں کی اسمگلنگ کے ذریعے کی گئی تھی جس کا مرکزی کردار عافیہ تھی جو یہ ہیرے وہاں سےامریکہ لے کر آئی. ان ہی سخت حالات میں ڈاکٹر عافیہ ٢٠٠٣ میں اپنے تین بچوں سمیت جن کی عمریں بلترتیب چھ سال، چار سال اور چھ ماہ تھی .. انہیں لے کر کراچی سے اسلام آباد روانہ ہوئیں. رستے میں انہیں نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا. انہیں اغوا کرکے افغانستان کی بگرام جیل میں منتقل کردیا گیا جہاں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا. ایک اطلاع کے مطابق، عافیہ کے بقول انہیں ان پانچ سالوں میں مختلف جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا جہاں انہیں انسانیت سوز تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا. بگرام جیل سے نکلنے والے ایک قیدی نے بھی اس کی گواہی دی کہ جیل کی خاموش فضاؤں میں ایک پاکستانی خاتون کی آہیں اور چیخیں گونجتی رہتی تھیں. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس تشدد سے ان کا ذہنی توازن بھی متاثر ہوگیا. ٢٠٠٩ میں ان کے ایک اغوا شدہ بیٹے کو واپس گھر بھیج دیا گیا. ٢٠١٠ کو ان کی اغوا شدہ بیٹی کو کچھ نامعلوم افراد اسکی خالہ فوزیہ صدیقی کے گھر کے باہر چھوڑ گئے اور سب سے چھوٹا بیٹا آج تک لاپتہ ہے.
.
٢٠٠٨ میں ایک نومسلم برطانوی جرنلسٹ 'ایون ریڈلی' نے عافیہ کے حق میں ایک زبردست تحریک برپا کی جس سے امریکی انتظامیہ عافیہ کی گرفتاری کو بتانے پر مجبور ہوگئی. 'ایون ریڈلی' نے یہ بھی بتایا کہ اسے بگرام جیل سے نکلے قیدیوں کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو چھ امریکی سپاہیوں نے گینگ ریپ یعنی اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا ہے. امریکی فورسز کی جانب سے عافیہ کی گرفتاری کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ اسے غزنی کے علاقے سے اس حالت میں گرفتار کیا گیا ہے کہ اسکے پاس بم بنانے کی کتابیں اور مواد موجود تھا. ساتھ ہی اسکے اپنے ہاتھ سے تحریر شدہ نوٹ بھی تھا جس میں ان کیمکلز کے نام وغیرہ تھے. ٢٠٠٩ میں جب پاکستانی حکومتی وفد نے ان سے ملاقات کی تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بتایا کہ یہ سراسر جھوٹ اور ڈرامہ تھا. بچے پر تشدد کا کہہ کر ان سے نوٹ بھی زبردستی لکھوایا گیا. ایک اور بڑا الزام ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر یہ لگا کہ انہوں نے دوران قید ایک پستول سے امریکی فوجیوں پر جان لیوا حملہ کیا جس میں نشانہ خطا ہوگیا اور فوجیوں کے جوابی فائر سے وہ خود زخمی ہوگئیں. پاکستانی سینیٹر طلحہ نے جب عافیہ سے ملاقات کی تو انھی معلوم ہوا کہ عافیہ کے بقول یہ بھی سب جھوٹ ہے. وہ پردے کے پیچھے بیہوشی سے واپس ہوش میں آئی تو انہیں آوازیں سنائی دی. انہوں نے پردہ اٹھایا تو وہاں امریکی فوجی موجود تھے جنہوں نے ایکدم گھبرا کر فائرنگ کردی. عافیہ کولگا کہ یہ ان کا آخری وقت ہے مگر بیہوش ہونے سے قبل انہیں جو آوازیں انہیں امریکی فوجیوں کی سنائی دی تو وہ کہہ رہے تھے کہ یہ ہم سے کیا ہوگیا؟ اس سے تو ہماری نوکری چلی جائے گی. مقام واردات سے نہ پستول پر عافیہ کے فنگر پرنٹس ملے، نہ ہی کپڑوں پر بارود اور نہ ہی گولی کا کوئی نشان. سینیٹر طلحہ کے بقول اس ملاقات کے وقت بھی ڈاکٹر عافیہ شدید زخمی تھیں اور ان کا گردہ متاثر ہوا تھا. 
.
عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی اور جرنلسٹ 'ایون ریڈلی' کی انتھک کوششوں کے بعد بلآخر ان کا مقدمہ امریکی عدالت میں پیش ہوا جہاں بناء کسی ٹھوس ثبوت انہیں ٨٦ (چھیاسی) سال کی سزا سنائی گئی. یہ بھی عجب تماشہ ہے کہ فردجرم میں دہشت گردی کی معاونت یا بم بنانے والے کمکلز کیساتھ گرفتاری کا زکر ہی نہیں بلکہ سزا دوران قید فوجیوں پر جان لیوا ناکام حملہ کرنے کی پاداش میں دی گئی۔ حالات، واقعات، شواہد، گواہ سب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بیگناہی کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. اس کیس میں تین ممالک شامل ہیں اور تینوں مجرم ہیں. سب سے پہلا مجرم پاکستان جسکے حکمرانوں نے اپنی بیٹی عافیہ کو اغیار کے حوالے کر دیا. حالانکہ اگر اس پر کوئی الزام تھا بھی یا کوئی جرم ہوا بھی تھا تو مقدمہ پاکستان میں چلنا چاہیئے تھا. حکومتوں نے وعدوں کے نام پر ڈھکوسلے دیئے اور عافیہ کی واپسی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی. دوسرا مجرم افغانستان ہے جس کی جیلوں میں ظلم کی بدترین تاریخ مرتب ہوئی اور اس نے جانتے بوجھتے کچھ نہ کیا. اور تیسرا مجرم ہے امریکہ. جس نے پہلے ایک غلط الزام میں گرفتار کیا اور پھر مظالم و زیادتیوں کا ایک ایسا سلسلہ جاری کیا کہ اب عافیہ کی رہائی اسکے جنگی جرائم کا پردہ چاک کرسکتی ہے. ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مجرم مجھ سمیت ہم سب ہیں. آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری اور اذیت کو پورے پندرہ سال پورے ہونے جارہے ہیں. روز قیامت اگر ہماری اس بہن، ہماری اس ماں، ہماری اس بیٹی نے ہمیں بھی خاموش رہنے کا الزام دیا تو سوچیں ہم رب العزت کیا کہیں گے؟
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: فراہم کردہ معلومات مختلف ذرائع ، تحریروں، ویڈیوز سے حاصل کی گئی ہیں اور تفصیل میں غلطی کا امکان بہرحال موجود ہے)

آیات متشابہات

\سوال:
آیات متشابہات سے کیا مراد ہے؟ نیز کیا سائنس آیات متشابہات کو آیات محکمات میں تبدیل کرسکتی ہے؟
.
جواب:
آیات متشابہات کے ضمن میں اہل علم کے بہت سے اقوال موجود ہیں. جس قول کو ہم زیادہ صائب پاتے ہیں وہ ہم آپ کو یہاں بیان کردیتے ہیں. پہلے تو یہ سمجھ لیجیئے کہ سورہ آل عمران کی ساتویں آیت کے مطابق قرآن حکیم اپنی آیات کو دو حصوں میں منقسم کرتا ہے. پہلا حصہ وہ ہے جسے 'محکمات' کہا جاتا ہے. گویا وہ آیات جو اپنے متن اور معنوں میں واضح ہے جیسے حلال و حرام کی تفریق وغیرہ. ان ہی آیات کو قران مجید نے 'ام الکتاب' یعنی اصل کتاب کی جڑ قرار دیا ہے. دوسرے حصہ کو قران حکیم 'متشابہات' قرار دیتا ہے. گویا وہ آیات جو تشبیہات کے اسلوب میں ہیں یا جو امور غیب سے متعلق ہیں یا جن کا احاطہ موجود انسانی ادراک کرنے سے قاصر ہے یا جن کے معنی آج ہم سے مخفی ہیں. دھیان رہے کہ ان آیات متشابہات کے معنی جاننے یا نہ جاننے پر انسان کی نجات موقوف نہیں ہے. نجات یا دینوی تقاضوں سے متعلق پوری بات آیات محکمات کے ذریعے قاری بھرپور طور پر جان لیتا ہے. اسی لئے محکمات کو چھوڑ کر آیات متشابہات کے پیچھے لگے رہنے والے افراد کو سورہ آل عمران میں فتنہ انگیز اور روحانی بیمار قرار دیا ہے. 
.
ہماری سمجھ میں آیات متشابہات کو بھی مزید دو حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا جاسکتا ہے. پہلا حصہ وہ آیات جو ان امور غیب سے متعلق ہیں جن کا جان لینا انسانی ادراک کے بس میں ہی نہیں. جیسے عرش کی حقیقت یا روح کو جاننا وغیرہ. یہ وہ امور ہیں جو راقم کے نزدیک کبھی انسانی علم کے احاطے میں نہیں آسکتے اور انہیں کماحقہ جاننے کیلئے ہمیں روز حشر کا انتظار کرنا ہوگا. آیات متشابہات کا دوسرا حصہ ان آیات پر مشتمل نظر آتا ہے جو ایک زمانے میں تو متشابہہ ہوں مگر موجود زمانے یا مستقبل میں ان کے معنی توفیق ربانی سے انسانی علم کا حصہ بن جائیں. جیسے انسان کی جسدی تخلیق کے مراحل یا زمین و آسمان کی تخلیق سے متعلق آیات کی درست تر تفسیر وغیرہ. جیسے ایک صحابی کا قول ہے جن کا نام ہماری یاداشت سے فی الوقت محو ہے کہ 'قران حکیم ہر دور میں اپنی جدید تفسیر فراہم کرتا ہے'. اس قول سے قطعی مراد یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ ہر دور میں دین تبدیل ہوجاتا ہے. بلکہ اس سے مراد ہمارے نزدیک یہ ہے کہ انسانی علم کی ترقی آیات قرانی کی تصدیق و توثیق کرتی نظر آتی ہیں اور انسانی ذہن کو ان آیات کے مفاہیم کو بھی سمجھنے میں مدد دیتی ہیں جو ایک زمانے تک متشابہات یا اختلاف رائے کا سبب رہی ہوں. مثال کے طور پر سورہ الانبیاء کی ٣٠ آیت میں بیان ہوتا ہے ’’اَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا‘‘ ... ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا ‘‘- اب اس آیت کی جو تفہیم انسانی علم میں بگ بینگ جیسے نظریات کے سبب اسکی ہے، وہ اس سے قبل ممکن نہیں تھی. 
.
یہاں یہ دھیان رہے کہ جیسے ہم نے تحریر کی ابتداء میں ہی عرض کی کہ متشابہات کے ضمن میں اہل علم کے مختلف اقوال رائج ہیں لہٰذا ہماری اس سمجھ کو مجموعی سمجھ پر محمول نہ کیا جائے. بہت سے صاحبان علم کے نزدیک جن آیات کی تشریح انسانی ادراک میں کسی زمانے میں بھی آسکیں ، وہ آیات متشابہات میں شمار ہی نہیں ہوتی. ان کے نزدیک امور غیب کے وہی معاملات آیات متشابہات کہلاتے ہیں جن کا اجمالی ذکر ہم نے اپر متشابہات کی پہلی قسم میں کیا ہے. ایک اور نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ نہ تو قران حکیم سائنس کی کتاب ہے اور نہ ہی آیات متشابہات میں سے کسی آیت کے متعین معنی ہم آج مقرر کر سکتے ہیں. ہاں کل اگر انسانی علوم کی ترقی اور شعور کے ارتقاء سے کسی متشابہہ آیت کو سمجھ لینے کے بہتر مواقع پیدا ہوجاتے ہیں، تو یہ الگ بات ہے اور ایک مومن کیلئے عطا خداوندی ہے. 
.
====عظیم نامہ====
.
('وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وه تواس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حاﻻنکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان ﻻچکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔' سورہ آل عمران آیت 7)

قندوز

قندوز 


لب بھی خاموش ہیں، ہر زباں بے صدا
کیا حسین آگئے ؟ کیوں ہے یہ کربلا ؟
.
آج ہے میرا گھر .. کل کوئی اور ہے
مسئلہ دوستو .. قابل غور ہے 
.
امن و انصاف کا بے سبب شور ہے
بن گیا ہے وہ منصف، جو خود چور ہے
.
قندوز افغانستان میں آج ایک بار پھر انسانیت کا نوحہ پڑھا گیا. تاریخ میں مسلمانوں کی بے بسی، کم ہمتی، نقاہیت اتفاق کا ایک اور خون آلود باب رقم ہوا. مغرب کے خود ساختہ انسانیت کے دوہرے معیار کو چشم فلک نے پھر مشاہدہ کیا. ان افغان نونہالوں کی گوری رنگت بھی انہیں گوروں کے حقوق نہ دلاسکی. شائد اسلئے کہ وہ مسلمان تھے اور مسلمان کا خون آج محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً پانی سے زیادہ سستا ہے. جس طرح چیونٹیوں کے کچلے جانے پر کوئی واویلہ نہیں کرتا، کسی کا دل رنجیدہ نہیں ہوتا ویسے ہی آج ہم مسلمان حشرات الارض کی مانند ہیں. جو روز کبھی اغیار کے بوٹوں تلے اور کبھی اپنے منافق استعمار کے تسلط کے نیچے کچلے جاتے ہیں. کس کس کو روئیں؟ شام ؟ برما ؟ کشمیر ؟ افغانستان ؟ پاکستان ؟ عراق ؟ فلسطین ؟ لیبیا ؟ میانمار ؟ ... اور کیا ہمارا کام بس رونا ہے ؟ جھولی بھر بھر کے بددعائیں دینا ہے ؟ ابو داؤد کی یہ حدیث پڑھیئے: ... ”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ وقت قریب آتا ہے، جب تمام کافر قومیں تمہارے مٹانے کے لئے مل کر سازشیں کریں گی ... اور ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا کھانے والے ... لذیذ کھانے کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا؟ فرمایا: نہیں! بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت ہوگے، البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہوگے، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دیں گے، اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دیں گے، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔“
.
آج یہی حال ہے اس امت مسلمہ کا ... اب امت نظر نہیں آتی بلکہ گروہ در گروہ تقسیم دیکھائی دیتی ہے. اللہ کی قسم اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اس مسلسل پستی سے نکلنے کا رستہ کیا ہے تو میرا جواب تین باتوں پر بلترتیب عمل کرنا ہوگا. سب سے پہلے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنا، اس کے بعد اتحاد بین المسلمین اور پھر قیام خلافت. جب تک مسلمان ممالک مل کر یورپی یونین یا اقوام متحدہ کی طرز پر ایک جھنڈے کے نیچے اپنا کوئی موثر اتحاد قائم نہیں کرلیتے تب تک ایک کے بعد ایک یونہی روندے جاتے رہیں گے. جیسا کہ اقبال نے کہا تھا .. ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات !
.
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گِر کر نہ ابھرنا دیکھے
.
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
.
====عظیم نامہ====

کیا اللہ، اسکی کتاب اور اسکے رسول سچے ہیں؟



کیا اللہ، اسکی کتاب اور اسکے رسول سچے ہیں؟



.
اللہ اور اسکے دین کی سچی معرفت اسی کو ملنا ممکن ہے جس کیلئے تصور خدا فقط آبائی نہ ہو بلکہ ایک شعوری دریافت ہو. شکوک کی گھاٹی سے گزر کر ہی ایمان و یقین کی منزل ملا کرتی ہے. سوال پوچھنا ہر باشعور انسان کا حق ہے. مگر انسان کا یہ علمی سفر اگر مرحلہ وار نہ ہو یا درست ترتیب میں نہ ہو تو سالک بھول بھلیوں میں الجھ کر کبھی منزل کا نشان نہیں ڈھونڈھ پاتا. ایک ملحد جو خدا کے وجود ہی کے بارے میں مشکوک ہے. اسکے لئے پہلا اور واحد سوال یہ ہونا چاہیئے کہ 'کیا خدا ہے؟' .. جب تک اس سوال کا شافی جواب اسے حاصل نہ ہو دیگر سوالات میں الجھے رہنا وقت کا زیاں ہے. گویا ایک ملحد خدا کے وجود کو ہی نہیں مانتا اور آپ اسے سمجھانے لگیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک کیا تھی؟ تو یہ ایک بیکار کوشش ہے. ہمارے نزدیک کسی محقق کیلئے بلترتیب تین سوالات سب سے اہم ہیں. 
.
١. کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟
٢. کیا قران حکیم اسی خالق کا کلام ہے؟
٣. کیا رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس خالق کے رسول ہیں؟
.
ان کا جواب اسے حاصل ہوجائے تو دیگر سوالات کا جواب بھی یا تو اسے خود بخود حاصل ہوجاتا ہے اور اگر وقتی طور پر نہ بھی ہو تو اسے یہ اطمینان نصیب ہوجاتا ہے کہ جواب موجود ضرور ہیں. بس ابھی اس کے علم میں نہیں ہے. اب ان میں سے ہر سوال کے جواب کو دس مختلف زاویوں سے راقم بیان کرسکتا ہے مگر اسکے لئے تو ایک ضحیم کتاب درکار ہوگی. ہم یہاں ان سوالات کے جوابات تمام موجود امکانات کا جائزہ لے کر ان میں سے بہترین امکان کا انتخاب کرکے دیں گے. قارئین میں سے جنہوں نے بھی ڈگری لیول تک تعلیم حاصل کی ہے، وہ جانتے ہیں کہ امتحانات میں 'ایم-سی-کیوز' کے طرز پر سوالات پوچھ جاتے ہیں. اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ہر سوال کے نیچے تین یا چار آپشنز رکھے جاتے ہیں. جن میں سے فقط ایک درست ہوتا ہے اور باقی غلط. اگر سوال کا جواب آپ کو معلوم ہو تو آپ فوری جواب دے دیتے ہیں مگر اگر معلوم نہ ہو تو آپ موجود چاروں امکانات کو بغور دیکھتے ہیں. پھر ان میں سے ایک کے بعد ایک کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا آپشن جواب نہیں ہوسکتا. یوں آخر میں آپ کے پاس ایک ایسا آپشن رہ جاتا ہے جس کے بارے میں آپ کو اطمینان ہوتا ہے کہ جواب یہی ہوگا. کم از کم غالب ترین امکان آپ کو وہی نظر آتا ہے. آج کل کوئز شوز میں بھی لوگوں سے اسکرین پر اسی طرح سے سوالات اور اس سے متعلق ممکنہ جوابات پوچھ جاتے ہیں. چلیئے پہلے سوال سے آغاز کرتے ہیں: 
.
١. کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟
======================
.
"کیا یہ بغیر کسی چیز کے از خود پیدا ہوگئے ہیں ؟ یا کیا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں ؟ یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کردیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین کرنے والے نہیں ہیں" 
.
سورہ الطور کی مندرجہ بالا آیات میں اللہ پاک انسان کو تخلیق کے عمل کے آغاز پر غور کرنے کی دعوت فکر دے رہے ہیں. اگر کوئی بھی شے وجود رکھتی ہے تو اس کے نقطہ آغاز کو سمجھنے کے لئے چار توجیہات پیش کی جاسکتی ہیں:
.
پہلی یہ کہ وہ شے یا انسان خود بخود کسی بھی پیش تر چیز کے بغیر وجود میں آگیا ہو. یہ ظاھر ہے کہ ناممکن ہے. ہم جانتے ہیں کہ 'کچھ نہیں' سے 'کچھ نہیں' تخلیق ہوسکتا. کچھ تخلیق ہونے کے لئے لازم ہے کہ اس سے پہلے کچھ ہو. لہٰذا یہ توجیہہ فضول اور باطل ثابت ہوتی ہے 
.
دوسری توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس شے یا اس انسان نے خود اپنے آپ کو تخلیق کرلیا ہو. یہ بات بھی سراسر احمقانہ اور تجربہ کے خلاف ہے. ہم جانتے ہیں کہ نہ تو انسان خود اپنے آپ کو اپنے ہاتھ سے بناتا ہے اور نہ ہی کائنات کی دیگر مخلوقات اپنے آپ کو ازخود ڈیزائن کرتی ہیں. ہر معلول کو ایک پیشتر اور بیرونی علت کی حاجت لازمی ہوتی ہے. چنانچہ یہ توجیہہ بھی مسمار ہوجاتی ہے 
.
تیسری توجیہہ یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ کیونکہ انسان اس معلوم کائنات میں سب سے زیادہ ذہین اور باشعور نظر آتا ہے لہٰذا وہ اپنے وجود کی توجیہہ نہ بھی کرسکتا ہو تب بھی بقیہ کائنات کا خالق وہ خود ہو. ظاہر ہے کہ انسان بخوبی واقف ہے کہ ان عظیم سیاروں، ستاروں، کہکشاؤں، سمندروں، پہاڑوں وغیرہ میں سے کسی کا بھی وہ خالق نہیں ہے. اسلئے ایسی غیر حقیقی وجہ کو زبان پر لانا بھی اس کے لئے ناممکنات میں سے ہے 
.
جب یہ تینوں توجیہات عقلی، عملی، علمی، تجرباتی اور ہر دوسرے ممکنہ زاویئے سے فاسد قرار پاتی ہیں تو صرف ایک اور توجیہ باقی بچتی ہے جو سب سے زیادہ قرین قیاس ہے اور جسے تسلیم کرنے میں انسانی فہم حق بجانب ہے. وہ چوتھی اور آخری توجیہہ یہ ہے کہ انسان اور اس پر ہیبت کائنات کی تخلیق کے پیچھے 'کوئی' ہے جو خود تخلیق ہونے سے آزاد ہے. جو زمان و مکان کی پابندیوں سے مارواء ہے، جس کے بارے میں انسانی علم نہایت محدود ہے. مگر جس کا ہونا اس کائنات کے ہونے اور ہمارے اپنے وجود کے ہونے سے صریح طور پر ثابت ہے. اتنے صاف صاف قرائن ہونے کے باوجود اگر کوئی انسان اس واحد قابل قبول توجیہہ یعنی ایک 'برتر وجود' کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کا شمار ان احمقوں میں ہوگا جو علمی حقیقتوں کو بھی ماننے کیلئے دیکھنے کی شرط لگاتے ہیں اور دلیل سمجھنے پر اکتفاء نہیں کرتے.
.
(نوٹ: اس سوال کا جواب کہ اگر کائنات کو خالق نے بنایا ہے تو خالق کو کس نے بنایا ہے؟ ہم اپنی ایک دوسری پوسٹ میں دے چکے ہیں)
.
٢. کیا قران حکیم اسی خالق کا کلام ہے؟
========================
.
اس سوال کے ضمن میں بھی چار امکانات پیدا ہوتے ہیں. پہلا امکان یہ کہ قران مجید کسی عجمی یعنی غیرعربی نے لکھا ہے. دوسرا امکان یہ کہ قران مجید کسی عربی نے لکھا ہے. تیسرا امکان یہ کہ قران مجید رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سے تحریر کیا ہے (معاذ اللہ). اور چوتھا یعنی آخری امکان یہ کہ قران مجید خالق کائنات کا اتارا ہوا ہے. پہلے امکان کا جائزہ لیجیئے تو یہ ایک نہایت کمزور ترین اور لغو امکان ہے کہ قران کریم جیسی فصیح و بلیغ عربی کتاب عرب معاشرے میں کسی غیر عربی نے لکھی ہو. آج تک لسانیات کے غیر مسلم ماہرین تک بھی قران کی فصاحت و بلاغت اور اس کے ادبی حسن کے قائل ہیں. دوسرا امکان یعنی یہ کہ قران حکیم کو کسی عرب انسان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھوایا (معاذ اللہ). اس امکان کی حیثیت بھی ایک خود ساختہ اور کمزور 'سازشی تھیوری' سے زیادہ معلوم نہیں ہوتی. وہ عرب کون تھا؟ کب لکھواتا یا پڑھواتا تھا؟ کس سے لکھواتا تھا؟ کہاں لکھواتا تھا؟ یہ سب سوالات تشنہ ہی رہ جاتے ہیں. دھیان رہے کہ قران مجید کا نزول تیئیس برس تک ہوتا رہا اور اس میں اس دوران ہونے والے واقعات کو موضوع بنایا گیا ہے. لہٰذا کسی کا یہ الزام کہ غار حرا میں ایسا ہوا ہوگا، ایک بے بنیاد اور بے ثبوت بات ہے. 
.
تیسرا امکان یہ تھا کہ یہ کتاب خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریر کی (معاذ اللہ). اس اعتراض یا امکان کے ابطال کیلئے اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے. ملاحظہ ہو: "اس سے پہلے تو آّپ کوئ کتاب پڑھتے نہ تھے اورنہ کسی کتاب کواپنے ھاتھ سے لکھتے تھے" العنکبوت ( 48 ) ۔ گویا قران کے بیان سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ اس سے پہلے پڑھتے تھے اور نہ لکھتے تھے. مکہ جیسے چھوٹے سی بستی میں موجود تمام مشرکین میں سے کسی نے اس اس دعویٰ کو چیلنج نہیں کیا. گویا اس بات کی صداقت تسلیم کی. اس دور میں ادب و شاعری اپنے عروج پر تھی. ایسے میں ایک امی ہوتے ہوئے اور ایک ایسا انسان ہوتے ہوئے جس نے چالیس برس کی عمر تک کبھی کوئی شعر نہیں کہا. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اچانک قران کی تلاوت کرنے لگتے ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ یہ کلام اللہ ہے اور اس کا یہ چیلنج ہے کہ تم سب شاعر و ادیب مل کر بھی اس کی مثال نہیں پیدا کرسکتے یہاں تک کہ ایک چھوٹی سی سورہ بھی اس پائے کی تخلیق نہیں کرسکتے. یہ کوئی معمولی چیلنج تھا؟ ملاحظہ کیجیئے: "اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو۔" سورۃ نمبر:4، النسآء، آیت نمبر82. اس کے بعد چوتھا امکان ہی قوی ترین باقی رہتا ہے کہ قران مجید فی الواقع من جانب اللہ ہے. ایک اور دعویٰ کے طور پر اس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری رب کریم نے خود لی اور آج چودہ پندرہ سو سال بعد بھی قران حکیم لفظ با لفظ محفوظ ہے. اسی طرح لغوی، معنوی، تاریخی، سائنسی اور بیشمار قران ایسے ہیں جو قاری کو اس کے الہامی ہونے کا یقین دلادیتے ہیں. 
.
٣. کیا رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس خالق کے رسول ہیں؟
=========================================
.
جب یہ ثابت ہوگیا کہ قران حکیم من جانب اللہ ہے تو لامحالہ یہ امر بھی ثابت ہوگیا کہ اس کتاب کو لانے والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے دعویٰ نبوت میں سچے ہیں. لیکن پھر بھی ہم تشفی قلب کیلئے اس سوال سے منسلک چھ امکانات کا جائزہ لے لیتے ہیں. پہلا امکان یہ کہ آپ نے دعویٰ نبوت مال کمانے کی خاطر کیا. اس امکان کو ہر غیر جانبدار محقق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ ترین زندگی دیکھ کر پل میں مسترد کردے گا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانستہ اپنے لئے فقر کا انتخاب کیا اور فقر بھی ایسا کہ کئی کئی روز کا فاقہ سہا کرتے تھے لہٰذا یہ سوچنا بھی فضول ہے کہ دعویٰ نبوت مال کمانے کے سبب تھا معاذ اللہ. دوسرا امکان یہ کہ دعویٰ نبوت حکومت حاصل کرنے کیلئے کیا گیا. یہ بھی تاریخی طور پر ایک فاسد امکان ہے. تیئیس برس کی انتھک کوشش اور قربانی میں آپ نے کبھی حق بات پر کمپرومائز کرکے اقتدار قبول نہ کیا. ورنہ مکی دور میں ہی سرداران مکہ نے آپ کو سرداری، دولت، عورت سمیت ہر طرح کی پیشکش کی جس کا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تاریخی الفاظ میں دیا تھا کہ ”اللہ کی قسم! وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا کا حکم اس کی مخلوق کو نہ پہنچاؤں، میں ہرگز اس کے لئے اۤمادہ نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں۔". 
.
تیسرا امکان یہ کہ دعویٰ نبوت کیلئے دانستہ جھوٹ بولا (معاذ اللہ). یہ بات تمام مسلم و غیر مسلم تاریخ دانوں نے تسلیم کی ہے کہ نبوت سے قبل چالیس برس تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ایسا صاف اور مثالی تھا کہ قبائل مکہ آپ کو صادق اور امین کے خطاب سے پکارا کرتے تھے. چالیس برس کی پختہ عمر تک ہر چھوٹی سے چھوٹی بات تک پر سچ کا خیال رکھنے والا انسان اچانک دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بولنے لگے کہ وہ رسول اللہ اہے جبکہ وہ رسول نہ ہو. ایسا ممکن نہیں. چوتھا امکان یہ کہ آپ کو معاذ اللہ کوئی ذہنی عارضہ تھا. یہ امکان بھی عجیب تر ہے کہ آپ کی سلیم العقلی، سلیم المزاجی، ذہانت، معاملہ فہمی اور قائدانہ صلاحیت کے معترف تو دشمنان اسلام بھی ہیں. ان گنت واقعات ایسے ہیں جن سے آپ کے ذہنی صحتمند ہونے کی قوی دلیل ملتی ہے. مثال کے طور پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کی وفات ہوئی تو اتفاق سے اسی روز سورج گرہن بھی ہوگیا. مومنین کی جماعت میں یہ بات ہونے لگی کہ سورج کو گرہن اسی سوگ میں لگا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوری تصحیح کی کہ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی قدرت کے مظاہر میں سے ہے. پانچواں امکان یہ ہے کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الہام و وحی شیاطین کی جانب سے تھی. یہ امکان اپنی اصل کے اعتبار سے ہی غلط محسوس ہوتا ہے. گویا وہ کتاب جس کا ہر صفحہ انسانی تذکیر اور اللہ سے مضبوطی تعلق کی بات کرتا ہے. جس کا آغاز ہی شیطان کو مردود رجیم کہہ کر اور رب کو رحمٰن کہہ کر ہوتا ہے. اس وحی الہی کو شیاطین سے منسوب کرنا فقط جسارت ہے. چھٹا اور آخری امکان یہی بچتا ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس دعویٰ رسالت میں سو فیصد سچے تھے اور ان پر وحی من جانب اللہ ہی ہوا کرتی تھی.
.
====عظیم نامہ====

کوشش تو کیجیئے


کوشش تو کیجیئے ؟


.
اگر آپ نماز بلکل نہیں پڑھ پاتے تو کم از کم ایک وقت کی نماز کی پابندی کرلیجیئے 
اگر آپ پوری نمازیں نہیں پڑھ پاتے تو کم از کم فرائض و وتر کا اہتمام کرلیجیئے 
اگر نماز جماعت سے نہیں پڑھتے تو کم از کم ایک نماز تو مسجد میں جماعت سے ادا کیجیئے 
.
کوشش تو کیجیئے؟ 
سفر اگر ہزار میل کا بھی ہو تو شروع ایک قدم سے ہوتا ہے 
پھر آپ کا معاملہ اس رحمٰن سے ہے جو اعمال کا دارومدار نیتوں پر رکھتا ہے 
نیت تو کیجیئے .. 
کوشش تو کیجیئے رب کی جانب بڑھنے کی؟ 
کیا معلوم یہ نیت کب عمل میں ڈھل جائے؟
ورنہ نیک نیت پر ہی بخش دے تو کونسی حیرت؟ وہ معاف کرتا بھی ہے اور معاف کرنے کو پسند بھی کرتا ہے.
کیا آپ نے نہیں سنا کہ آپ ایک قدم اسکی جانب جاتے ہیں تو وہ دس قدم آپ کی طرف آتا ہے؟
اور آپ چل کے جاتے ہیں تو وہ دوڑ کر آپ کی ہدایت کا اہتمام کرتا ہے؟
نہیں جانتے کیا کہ رب نے اپنی رحمت کو اپنے غضب پر غالب کردیا ہے؟
مگر کوشش تو کیجیئے ؟
.
====عظیم نامہ====

اسلام تلوار کے زور پر یا امن کا دین؟


اسلام تلوار کے زور پر یا امن کا دین؟



.
بحیثیت مسلمان ہم سب واقف ہیں کہ دین اسلام .. سلامتی کا دین ہے. مگر اس سلامتی سے مراد یہ قطعی نہیں ہے کہ وہ ظالم کو آہنی ہاتھ سے نہ روکے، سرکش کو سزا نہ دے یا جبر و استبداد کا آگے بڑھ کر خاتمہ نہ کردے. اسلام کی سلامتی دراصل انصاف کے قیام سے پروان چڑھتی ہے. گویا اسلام اپنی اصل میں عدل و انصاف کا دین ہے اور یہی عدل اسے فرد و معاشرے کیلئے امن کا مظہر بناتا ہے. اسلام جب فرد کو مخاطب کرتا ہے تو" لا إِکْراهَ فِی الدِّینِ" کا اصول دیتا ہے یعنی دین میں کوئی جبر نہیں. اس آیت سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی بھی فرد کو زور زبردستی سے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے. البتہ اسلام جب بطور نظام اپنا ظہور کرتا ہے تو پھر کسی بھی دوسرے زندہ فلسفے کی طرح وہ اپنا پھیلاؤ چاہتا ہے. کیپیٹلزم ہو، کمیونزم ہو، امپیریلزم ہو یا کوئی اور نظام ، تاریخ شاہد ہے کہ اس نے خود کو مخصوص سرحد میں محدود نہ رکھا بلکہ ممکنہ حد تک اپنے پھیلاؤ کی ہر کوشش کی. اسلام بھی اس ضمن میں کوئی استثنیٰ نہیں. گو مختلف وقت اور حالات میں اس پھیلاؤ کے مختلف طریق ہو سکتے ہیں. البتہ دعوت دین ہر حالت یا دور میں جاری رہتی ہے. اسلام نے جہاں ایک جانب ہمیں درگزر و رحمدلی کی ترغیب دی، بے گناہ کے قتل کو انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا. وہاں ساتھ ہی اس نے ہماری یہ تربیت بھی کی کہ اپنے ہتھیار اور گھوڑے بھی تیار رکھو.
.
جس زمانے میں حکومتیں مال و طاقت اور اپنے فلسفہ حکومت کے پھیلاؤ کیلئے مقابل کو صرف روندنا جانتی تھیں. اس وقت اسلام نے آکر عدل و انصاف اور نظام اسلامی کے قیام کیلئے جنگ کے علاوہ دعوت و جزیہ میں سے بھی چننے کا اختیار دیا. یہاں یہ بھی دھیان میں رہے کہ قبول اسلام کی دعوت کے آپشن سے مراد یہ نہیں تھی کہ لوگوں کو طاقت کے زور پر کلمہ پڑھوا دیا جائے بلکہ اس سے مراد نظام خلافت کو بطور حکومتی نظم قبول کرنا تھا. تاریخ میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب غیر مسلم حکمران کو اس کی حکمرانی کا اختیار واپس دے دیا گیا کہ اس نے اسلام کو بطور نظام قبول کرلیا تھا یا جزیہ دینے پر رضامندی ظاہر کردی تھی.اسی طرح پہلی اسلامی ریاست مدینہ ہو یا پھر مسلم اسپین. دونوں ریاستوں میں غیر مسلم آبادی کی اکثریت تھی اور مسلمان اقلیت میں. مگر نظام و قانون اسلام ہی کا رائج تھا. اسی بناء پر اقلیت ہونے کے باوجود انہیں آج بھی تاریخ میں مسلم ریاستیں کہا جاتا ہے. 
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: پوسٹ لکھتے ہوئے ہم نے اس حقیقت کو پیش نظر رکھا ہے کہ علماء اور عوام کی عظیم ترین اکثریت اسلام کو ایک نظام زندگی تسلیم کرتی ہے. ہمارے مخاطب وہی ہیں. وہ احباب جو اسلام کو ایک نظام نہیں تسلیم کرتے، ان سے ہماری درخواست ہے کہ وہ یہاں اس کے نظام ہونے نہ ہونے کی بحث سے گریز کریں. اس بحث پر دونوں موقف کی جانب سے کتابوں کی کتابیں موجود ہیں. جن میں انہوں نے اپنا استدلال تفصیل سے پیش کیا ہے. پھر وہ چاہے اکابر علماء کی جانب سے نظام اسلامی کا بیان ہو یا پھر مولانا مودودی و ڈاکٹر اسرار کا لٹریچر. اسی طرح اس مقدمے کے رد میں مولانا اصلاحی، غامدی صاحب اور مولانا وحید الدین خاں صاحب کی تصانیف بھی باآسانی دستیاب ہیں. ان دونوں مقابل موقف کو پڑھ کر قارئین اپنی رائے تشکیل دے سکتے ہیں)