Tuesday, 7 February 2017

بیوٹی اینڈ دی بیسٹ




'بیوٹی اینڈ دی بیسٹ' - Beauty & the Beast 


.
 اس کا تعلق مصر سے تھا اور وہ ہوش اڑا دینے کی حد تک حسین تھی. یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اپنی ماسٹرز کی تعلیم حاصل کررہا تھا اور ایک بہت بڑے ریٹیل اسٹور میں پارٹ ٹائم ملازم تھا. یہ اسٹور لندن بلکہ انگلینڈ کے بدنام ترین علاقے 'ھیکنی' میں واقع تھا، جہاں قتل اور ڈکیتی کی وارداتیں عام ہیں. یہ مصری لڑکی بھی یہاں ملازمت کررہی تھی. اس کے حسن کا یہ عالم تھا کہ میں نے کئی پراعتماد لوگوں کی زبان کو اس کے سامنے لڑکھڑاتے اور ہکلاتے سنا. مینجر ہو یا ملازم، کالا ہو یا گورا، نوجوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت - ہر ایک اس سے گفتگو کا شائق نظر آتا تھا.
.
 اگر ایک طرف یہ لڑکی تھی جس سے لوگ بات کے بہانے ڈھونڈھتے تو وہاں دوسری طرف تھا 'ڈیرن' نامی ایک دیو قامت سیاہ فام جس سے بات کرتے ہوئے لوگوں کی جان نکلتی تھی. اس کا تعلق جمائیکا سے تھا، یہ ایک زبردست باڈی بلڈر اور اس بدنام زمانہ علاقے کا چھٹا ہوا بدمعاش تھا. چہرے پر سفاکی، کرختگی اور چال میں غرور نمایاں تھا. دن یونہی گزر رہے تھے لیکن پھر ایک دن عجیب بات ہوئی. اس حسین لڑکی اور اس بدمعاش لڑکے میں دوستی ہوگئی جو دیکھتے ہی دیکھتے محبت میں ڈھل گئی. سب حیرت زدہ تھے کہ کیسے ایک گڈ گرل اس بیڈ بوائے کے چنگل میں جا پھنسی؟ مگر ابھی اس حیرت کا زور بھی نہ ٹوٹا تھا کہ ایک اور انکشاف ہوا اور وہ یہ کہ دونوں فوری شادی کررہے ہیں. گھر والو کو منالیا گیا ہے اور 'ڈیرن' اس لڑکی سے شادی کیلئے اسلام قبول کررہا ہے. جلد ہی دونوں کی شادی ہو گئی اور ڈیرن مسلمان ہوگیا. اکثر لوگوں کیلئے یہ جوڑی مشھور تصوراتی کہانی 'بیوٹی اینڈ دی بیسٹ' کا عکس تھی. 
.
 ڈیرن نے قبول اسلام سے کچھ پہلے اور کلمہ پڑھنے کے بعد اسلام کا مطالعہ کیا. جس سے اس کی شخصیت میں ایسا حیرت انگیز انقلاب آیا جو ناقابل یقین تھا. وہی شخص جس سے بات کرتے ہوئے جان نکلتی تھی، اب کسی 'میٹھے میٹھے اسلامی بھائی' کی طرح مسکرا مسکرا کر سب سے ملتا. آواز میں دھیما پن آگیا اور لبوں پر ایک مستقل مسکراہٹ سجی رہتی. ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو مگر کم از کم مجھے تو یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ اس کے چہرے پر کرختگی کی جگہ بھی بچوں جیسی معصومیت نے لے لی ہے. پہلی بار میری اور اس کی دوستی ہوئی. اب ہم اکثر باتیں کیا کرتے. ایک بار پوچھنے لگا کہ کیا مجھے کوئی مسلم نام رکھ لینا چاہیئے؟ میں نے اسے بتایا کہ ایسا کرنا اس کے لئے لازمی نہیں مگر مسلم شناخت کے حوالے سے بہتر ہے. میں نے پوچھنے پر یہ بھی کہا کہ میرے نزدیک اسکی شخصیت کو دیکھتے ہوئے 'عمر' ایک موزوں نام ہوگا. ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی کچھ تفصیل بتائی. ایک دن میں اسٹاک روم میں گیا تو دیکھا کہ وہ انتہائی بھاری بھاری سامان اکیلا اٹھا کر لوڈ کر رہا ہے. میں نے گھبرا کر اسے مدد کی پیشکش کی اور اکہا کہ تم یہ دو تین آدمیوں جتنا سامان اکیلے اٹھا کر کیوں خود کو تھکا رہے ہو؟ اس نے چمکتی آنکھوں اور پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ مجھے کہا کہ عظیم تمہیں معلوم ہے ؟ جب میں اللہ اکبر کہتا ہوں تو مجھے یہ سامان بلکل بھی بھاری نہیں لگتا اور نہ ہی مجھے تھکن محسوس ہوتی ہے. یہ کہہ کر وہ پھر کام میں جت گیا اور میں کچھ دیر کھڑا اسے رشک و حیرت سے تکتا رہا. 
.
 چند مہینے مزید گزرے تو مجھے احساس ہوا کہ کچھ دنوں سے وہ اداس اداس اور خاموش نظر آتا ہے. پھر معلوم ہوا کہ اس کے اپنی مصری بیوی سے شدید اختلافات ہو رہے ہیں. میں اس سے تفصیل پوچھنا چاہتا تھا مگر میری ہمت نہیں ہوئی. یہاں تک کے ایک دن میں نے اس سے سرسری سا پوچھ لیا. اس نے دکھ سے کہا کہ اگر آپ خود کو مسلم کہتے ہیں تو پھر لازمی ہے کہ آپ وہ کریں جو ایک مسلم کرتا ہے. میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو اس نے بتایا کہ اس کی بیوی ایک رئیس اور فیشن ایبل مصری گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، جہاں فیشن کے نام پر اسکرٹس سمیت وہی کچھ پہنا جاتا ہے جو غیر مسلم پہنتے ہیں. میں جب اسے روکنا چاہتا ہوں تو وہ مجھ سے ناراض ہوتی ہے. جب اسے نماز یا دیگر باتوں کی تلقین کرتا ہوں تو خفا ہوجاتی ہے. کہتی ہے کہ میں نے تمھیں کلمہ پڑھ کر بس مسلمان ہونے کو کہا تھا لیکن تم تو پورے مولوی بن گئے ہو. اگر ایسے ہی رہنا تھا تو اسلام قبول کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اب علیحدگی کی نوبت آگئی ہے اور وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی .... ڈیرن مجھ سے میری رائے پوچھ رہا تھا اور میرا دماغ اسکی مشکل سن کر سائیں سائیں کررہا تھا. ہمت مجتمع کرکے میں نے اس سے کہا کہ سب سے پہلے تم خود سے یہ سوال کرو کہ آج تم مسلم کیوں ہو؟ کیا اسلئے کہ تم اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے؟ یا اب تم مسلم اسلئے ہو کہ تم نے اسلام کو حق پایا ہے؟ اس نے کچھ سوچا اور دوسری بات کی تائید کی. میں نے کہا پھر اس بات کو یقینی بناؤ کہ اس رشتے کا باقی رہنا یا نہ رہنا تمہارے مسلم ہونے پر اثر انداز کبھی نہ ہوگا. ممکن ہے کہ یہ شادی رب کی جانب سے صرف تمھیں حق تک پہنچانے کا راستہ ہو. رہی بات اس ازدواجی تعلق کی تو تمھیں اس رشتے کو کسی بھی فیصلہ لینے سے پہلے کچھ مزید وقت دینا چاہیئے.
.
 میری نوکری تبدیل ہوگئی اور اس کے بعد ان دنوں کا کیا بنا؟ مجھے معلوم نہ ہوسکا. لیکن اس واقعہ نے مجھے بہت سے اسباق سیکھائے. جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ کسی غیر مسلم یا کسی مجرم کو قابل نفرت نہ سمجھو. حقیر نہ جانو. کیا معلوم کہ اس کا انجام ایمان و عمل کے اس درجے پر ہو جس پر اولیاء بھی رشک کریں؟ 
.
====عظیم نامہ====
.
 (دوستو ! یہ واقعہ دس سال پرانا ہے اور میری یادداشت میں راسخ نہیں ہے. اسلئے اسکے جزیات میں کمی بیشی کا امکان ہے. گو اپنی اصل میں یہ سچ ہے)

No comments:

Post a Comment