Sunday, 26 February 2017

ہمیشہ رہنے والی کامیابی


ہمیشہ رہنے والی کامیابی



ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان وغیرہ بننے میں ایک طالبعلم سخت اور طویل سفر سے گزرتا ہے. مال خرچ کرتا ہے، آنسو بہاتا ہے، راتوں کو جاگتا ہے، خواہشات کو ترک کرتا ہے. پھر کہیں جاکر کم و بیش اٹھارہ سے بیس سال بعد وہ اپنی من پسند ڈگری حاصل کرپاتا ہے اور اپنا من چاہا کیرئیر بنا پاتا ہے. اس کٹھن سفر میں کئی بار اس پر مایوسی بھی طاری ہوتی ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے کہ میں مزید پڑھنا نہیں چاہتا لیکن ایک بار جو اسے اپنی منزل بہترین جاب یا ڈگری کی صورت میں مل جائے تو راستے کی تمام مشکلات اور تمام شکوے بھلا دیتا ہے. اپنی کی گئی اس سالوں کی محنت پر وہ مسرور ہوتا ہے، فخر کرتا ہے، اپنی اولاد کو یہی کرنے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ مجبور کرتا ہے اور کبھی یہ سوچ کر افسوس بھی کرتا ہے کہ کاش اگر اس دوران زیادہ محنت کرلیتا تو شائد آج اور بھی اونچے مقام پر پہنچا ہوتا. 
.
 کیسی عجیب بات ہے؟ کہ ساٹھ ستر سال کی اس مختصر سی عمر کیلئے ایک انسان آدھی زندگی اپنی باقی 'ممکنہ' آدھی زندگی کو سنوارنے کیلئے دن رات جان مارتا ہے. اس ساری محنت و اذیت کو نہ صرف وہ گوارہ کرتا ہے بلکہ اسے عین عقلمندی بھی مانتا ہے مگر جب بات اخروی حیات کی ہو تو ہمت چھوڑ دیتا ہے. اسے اپنی اس مختصر زندگی میں ہمیشہ رہنے والی زندگی کی کاوش بھاری محسوس ہونے لگتی ہے. حالانکہ اسے سوچنا چاہیئے کہ ایک بار جو اسے اپنی منزل رضائے الہی اور جنت کی صورت میں حاصل ہوگئی، منزل پر پہنچ گیا تو اس راستے یعنی زندگی میں برداشت کی گئی ہر تکلیف اسے پھول محسوس ہوگی اور کوئی شکوہ باقی نہ رہے گا. اسے سمجھنا چاہیئے کہ اگر مال خرچ کرنا ہے، محنت کرنی ہے، آنسو بہانے ہیں، راتوں کو جاگنا ہے، خواہشات کو ترک کرنا ہے تو اس عارضی کامیابی سے بیشمار گنا زیادہ حقدار وہ ہمیشہ رہنے والی کامیابی ہے جسے کبھی زوال نہیں. 
.
 ====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment