Tuesday, 21 February 2017

برائے مہربانی انتظار فرمایئے


برائے مہربانی انتظار فرمایئے 



.
 انسان میں حقیقی سکون اور عاجزی ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ایسا انسان الجھے بناء انتظار کرسکتا ہے. سکون سے عاری یا خود پسند انسان پر انتظار پہاڑ بن کر گزرتا ہے. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ راقم انتظار کا نام لے کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی ترغیب نہیں دے رہا، نہ ہی یہ کہہ رہا ہے کہ اپنے مقصد کو کم وقت میں حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اسکی مراد وہ مواقع ہیں جب انسان کے پاس انتظار کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہوا کرتا. 
.
 دیہات میں بسنے والے لوگ عمومی طور پر زیادہ پرسکون ہوتے ہیں لہٰذا اگر انہیں کسی آفس یا قطار میں دو چار گھنٹے انتظار کرنا پڑجائے تب بھی وہ پورے سکون سے یہ وقت بناء شکایت گزار لیتے ہیں. اس کے برعکس اگر آپ کسی پڑھے لکھے شہری کو بیس پچیس منٹ بھی انتظار کا کہہ دیں تو اس کے پورے وجود پر بے چینی سوار ہوجاتی ہے اور وہ ہر دوسرے منٹ گھڑی تکتا رہتا ہے. اسے لگتا ہے کہ یہ انتظار اس کی جان لے رہا ہے یا اسے ایسا کرنا اپنی بے عزتی محسوس ہوتا ہے یا پھر اسے گمان ہوتا ہے کہ اس انتظار کی وجہ سے اس کے فلاں فلاں کام نہ ہو پائیں گے. حقیقت یہ ہے کہ اکثر وہ اس دیہاتی سے زیادہ مصروف نہیں ہوتا جو کھیتوں میں ھل جوتتا ہے یا سخت مزدوری کرتا ہے. اس کیلئے مال کا حصول بھی اصولی طور پر اتنا ضروری نہیں ہونا چاہیئے جتنا کے ایک غریب یا مفلس دیہاتی کیلئے. مگر چونکہ یہ شہری مادیت کا شکار ہوتا ہے، سکون سے خالی ہوتا ہے اسلئے یہ سکون سے ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتا، خود سے مخاطب نہیں ہوسکتا، اپنی ذات میں جھانک نہیں سکتا، خاموشی کو سن نہیں سکتا، توجہ کا ارتکاز نہیں کرسکتا اور انتظار میں صبر و شکر سے نہیں رہ سکتا. 
.
 ====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment