Monday, 18 August 2014

عمران خان اور پاکستانی سیاست


عمران خان اور پاکستانی سیاست




میں مانتا ہوں کہ عمران خان نے پاؤں پر کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑی پر پاؤں مار لیا ہے. میں جانتا ہوں کہ سیاسی بصیرت کے حوالے سے عمران نے غلطی پر غلطی کی ہے. مجھے اعتراف ہے کہ میرے نزدیک وہ پہلے خیبر پختون خواہ میں تبدیلی برپا کریں پھر کسی انقلاب کی بات کریں. لیکن اس سب کے باوجود مجھے بھی ان سیاسی احمقوں میں شامل رکھیں جو آج بھی خان صاحب کو اس ملک کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں. مجھے خان جیسا سیاسی بیوقوف قبول ہے مگر زرداری و شریف جیسے وطن فروش نہیں. مجھے سیاسی پینتروں کا ماہر نہیں چاہیئے بلکہ مخلص و دیانتدار قیادت میرا تقاضا ہے


عمران کے ساتھ اور اردگرد اس وقت یقیناً بہت سے گندے انڈے موجود ہیں مگر عمران ہمیشہ سے ایک ڈکٹیٹر رہا ہے. اسے اسکی سوچ اور نظریہ چلاتا ہے. میرے نزدیک اس ملک کو ایک ڈکٹیٹر ہی چاہیئے. جمہوریت پڑھے لکھے معاشروں میں پھلتی پھولتی ہے ، ہمارے جیسے جاہل اور دیمک زدہ معاشروں میں وہ بدترین آمریت ثابت ہوتی ہے. جب تک اس قوم کی خاطر خواہ تربیت نہیں ہو جاتی تب تک اسے ایک مخلص ڈکٹیٹر کی ضرورت رہے گی. مجھے اعتماد ہے کہ خان صاحب کے ساتھ جو بھی کرپٹ شامل ہے وہ کبھی ویسے کھل کر کرپشن نہیں کر پائے گا جیسے ہماری دیگر نمائندہ سیاسی جماعتوں میں اپنا حق سمجھ کر کر پاتا 

عمران کو سمجھنا پہلےکرکٹ میں بھی مشکل تھا اور آج بھی مشکل ہے. آپ اسے خر کہیں یا درویش. مگر آج بھی جدید ذہن والے اسے طالبان خان کہہ کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور شلوار داڑھی والے اسے ناچ گانے والا زانی کہہ کر طعنے مارتے ہیں. خان کو اسکی فکر نہیں ہوتی کہ کوئی کیا کہتا ہے ؟ وہ بس اپنی دھن کا پکا ہے. جب تعلیم حاصل کی تو آکسفورڈ جیسی یونیورسٹی میں جاپہنچا، جب مغربی چمک دھمک اپنائی تو پوری دنیا کے اخباروں میں شہہ سرخی بنارہا، کرکٹ کھیلی تو اس کھیل کا اونچا ترین لیجنڈ مانا گیا، نمائندگی کی تو کبھی یونائیٹڈ نیشن کا سفیر بنایا گیا تو کبھی یونیورسٹی آف بریڈفور کا چانسلر قرار پایا، فلاحی کام کئے تو پاکستان کا پہلا کینسر ہسپتال بنا ڈالا، تعلیم پھیلانا چاہی تو نمل یونیورسٹی بنادی، سیاست میں آیا تو آج دھاندھلی زدہ الیکشن کے باوجود پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی کا سربراہ بن چکا. اس تمام سفر کی روداد کو پڑھ لیں ، اسے ہمیشہ مجھ جیسوں نے تنقید کا نشانہ بنا کر ہنسی ہی اڑائ ہے. آج بھی وہی کر رہے ہیں. مگر عجب نہیں کہ جلد یا دیر سے خان وہ حاصل کرلے جو اس نے سوچ رکھا ہے. جو یہ سمجھتا ہے کہ عمران شہرت چاہتا ہے تو وہ جان لے کہ جو شہرت عمران کو دنیا بھر میں حاصل ہے اسکا عشر عشیر بھی نواز کے پاس نہیں ہے، جو یہ مانتا ہے کہ وہ اس سب سے پیسہ چاہتا ہے تو وہ جان لے کہ عمران کو پیسے کی نہ پہلے کبھی کمی تھی اور نہ آج ہے، جو یہ سوچتا ہے کہ وہ محض اقتدار کا بھوکا ہے تو وہ پھر جان لے کہ مشرف نے اسے ایک نہیں دو بار وزیر اعظم بنانا چاہا مگر عمران نے اسے ٹھوکر مار دی. خان کو صرف کرسی نہیں وہ اختیار درکار ہے جسکے ذریعے وہ اس پھپھوند زدہ نظام کو مٹا سکے. وہ یہ ٹھان چکا ہے ! وہ یہ ٹھان چکا ہے !


====عظیم نامہ====

اضافی نوٹ

یہ ممی ڈیڈی بچے ان توند نکالے مولویوں سے کہیں بہتر ہیں .. یہ ناچتے ہوئے نوجوان ، ان فتوے باز تکفیریوں سے کہیں اچھے ہیں .. یہ انقلابی بیوقوف ، ان عقلمند تجزیہ کاروں سے کہیں بلند ہیں. میرا دل اور دماغ دونوں عمران کے ساتھ ہے .. گو کے مجھے اندازہ ہے کہ اسے ایک دنیا گالیاں دے رہی ہے ، بیوقوف ضدی بچہ کہہ رہی ہے .. وہ اس نظام کو ٹکریں مار رہا ہے ، وہ ایک بڑی جماعت کھڑی کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے. اسے نظر آرہا ہے کہ اگر اسی نام نہاد لنگڑی لولی جمہوریت پر چلتا رہا تو کبھی بھی یہ زرداری و نواز اسے آنے نہیں دیں گے. یہ ایک نورا کشتی ہے جو سالہا سال سے اس ملک میں جاری ہے، جہاں مقابلہ ہوتا نہیں بلکہ عوام کو دکھایا جاتا ہے. کچھ بھی کہتے رہیں مخالفین .. حقیقت یہ ہے کہ لڑکا کھیل ہی کھیل میں دوسری بڑی جماعت کا سربراہ بن چکا اور آج حکومت کے سر پر خطرہ بنا کھڑا ہے. حقیقت یہ ہے کہ زرداری سے لے کر نواز شریف تک، الطاف حسین سے لے کر فضل الرحمٰن تک، جنگ گروپ سے لے کر افتخار چوہدری تک اور پاک فوج سے لے کر امریکہ بہادر تک سب اس کے خلاف کھڑے ہیں. اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران اتنا بیوقوف ہے کہ اسے یہ نہیں اندازہ کہ اس نے ایک دشمنوں کی فوج کھڑی کرلی ہے تو اسکی عقل کو میرا سلام ہے. آج اگر عمران خالی ہاتھ بھی واپس جاتا ہے تب بھی وہ ایک بہت بڑا مقصد حاصل کر چکا اور وہ یہ کہ اب حکومت خوب آگاہ ہے کہ اسے انصاف کرنا ہوگا ، وہ اپنے ماضی کی طرح معاملات کو گھسیٹ نہیں سکتی. اب ایک ایسی جنونی اپوزیشن کی نظر اس پر ہے جو کسی طرح کے مک مکا سے نہیں مانتی. 
.
عظیم الرحمٰن عثمانی

No comments:

Post a Comment