جشن آزادی مبارک دوستو
چودہ اگست ١٩٤٧ کی وہ سرد رات ..
شمال مشرق کی جانب سے ایک نوجوان .. اپنے چہرے پر میلوں کی مساوت کی تھکاوٹ سجائے ہوئے.....
اور بکسوں کی صورت ہاتھوں میں بار گراں اٹھائے ہوئے..
لڑکھڑاتا ڈگمگاتا .. چلا آرہا ہے ..
.
یہ نوجوان اپنی عمر بھر کی پونجی..
دوست، احباب، عزیز، رشتہ دار ..
سب گنوا چکا ہے ..
.
مگر چہرہ پر عجب سی طمانیت ہے .. لبوں پر مسکراہٹ رقصاں ہے .. اور آنکھیں ہیں کہ شکرانہ خدا سے بھیگی جاتی ہیں.. سرزمین خداداد پر پہنچتے ہی گرتا ہے .. اور سجدہ ریز ہوجاتا ہے ..
.
وقت تھم جاتا ہے .. چاروں اطراف خاموشی چھا جاتی ہے .. مگر چشم فلک کو کوئی اچمبا محسوس نہیں ہوتا ..
کیونکہ اس نے ان دنوں ایسے ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، کروڑوں جیالوں کو ، بچوں کو، بوڑھوں کو، عورتوں کو .. اس سے زیادہ ابتر حالت میں اسی سرزمین پر سجدہ ریز ہوتے دیکھا تھا ..
.
ان تمام کے پاس نہ کھانے کو روٹی تھی، نہ پہننے کو کپڑا، نہ رہنے کو کوئی چھت ..
مگر دل میں اطمینان تھا .. کہ ہاں ! یہی ملک ہمارا سب کچھ ہے اور یہی وطن ہمیں ہمارا سب کچھ دے گا ..
.
آج تشکیل پاکستان کے پورے اڑسٹھ سال بعد ..
جب ہم دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بن چکے ہیں ..
جب ہمارے دفاع و عسکری قوت کو ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا ہے ..
جب ہمیں معدنیات سے مالامال سمجھا جاتا ہے ..
جب ہمارے پاسس بہترین و ذہین اذہان ہیں ...
جب ہماری معیشت کی بحالی کی سینکڑوں صورتیں موجود ہیں ..
.
تب .. دوستو .. تب
.
اٹھارہ کروڑ عوام کی زبان پر ایک ہی گردان جاری ہے ..
"میاں، اس ملک میں کچھ نہیں رکھا ، یہ وطن ہمیں کچھ نہیں دینے کا"
.
چودہ اگست کی اس رات کو ہمارے پاس کچھ نہیں تھا .. مگر سب کچھ تھا ..
اور آج کہنے کو ہمارے پاس بہت کچھ ہے .. لیکن سچ پوچھو تو کچھ بھی نہیں ہے ..
.
ہم نے الله رب العزت کی اس عظیم نعمت کی قدر نہ کی جو ہمیں آزادی کی صورت میں رضا الہی سے حاصل ہوئی .. ہم نے ان قربانیوں کو مدفون کر دیا جو آج بھی کہیں اسی سرزمین کی گود میں دفن ہیں ..
.
ہمارے سامنے آج پھر ایک اور جشن آزادی ہے جو خود غرضی اور استبداد سے کانپ رہا ہے ..
.
آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو ..
ہونٹوں پر وفا کے بول لئے ..
اس جشن میں ، میں بھی شامل ہوں !
نوحوں سے بھرا کشکول لئے ..
.
عظیم نامہ
چودہ اگست ١٩٤٧ کی وہ سرد رات ..
شمال مشرق کی جانب سے ایک نوجوان .. اپنے چہرے پر میلوں کی مساوت کی تھکاوٹ سجائے ہوئے.....
اور بکسوں کی صورت ہاتھوں میں بار گراں اٹھائے ہوئے..
لڑکھڑاتا ڈگمگاتا .. چلا آرہا ہے ..
.
یہ نوجوان اپنی عمر بھر کی پونجی..
دوست، احباب، عزیز، رشتہ دار ..
سب گنوا چکا ہے ..
.
مگر چہرہ پر عجب سی طمانیت ہے .. لبوں پر مسکراہٹ رقصاں ہے .. اور آنکھیں ہیں کہ شکرانہ خدا سے بھیگی جاتی ہیں.. سرزمین خداداد پر پہنچتے ہی گرتا ہے .. اور سجدہ ریز ہوجاتا ہے ..
.
وقت تھم جاتا ہے .. چاروں اطراف خاموشی چھا جاتی ہے .. مگر چشم فلک کو کوئی اچمبا محسوس نہیں ہوتا ..
کیونکہ اس نے ان دنوں ایسے ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، کروڑوں جیالوں کو ، بچوں کو، بوڑھوں کو، عورتوں کو .. اس سے زیادہ ابتر حالت میں اسی سرزمین پر سجدہ ریز ہوتے دیکھا تھا ..
.
ان تمام کے پاس نہ کھانے کو روٹی تھی، نہ پہننے کو کپڑا، نہ رہنے کو کوئی چھت ..
مگر دل میں اطمینان تھا .. کہ ہاں ! یہی ملک ہمارا سب کچھ ہے اور یہی وطن ہمیں ہمارا سب کچھ دے گا ..
.
آج تشکیل پاکستان کے پورے اڑسٹھ سال بعد ..
جب ہم دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بن چکے ہیں ..
جب ہمارے دفاع و عسکری قوت کو ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا ہے ..
جب ہمیں معدنیات سے مالامال سمجھا جاتا ہے ..
جب ہمارے پاسس بہترین و ذہین اذہان ہیں ...
جب ہماری معیشت کی بحالی کی سینکڑوں صورتیں موجود ہیں ..
.
تب .. دوستو .. تب
.
اٹھارہ کروڑ عوام کی زبان پر ایک ہی گردان جاری ہے ..
"میاں، اس ملک میں کچھ نہیں رکھا ، یہ وطن ہمیں کچھ نہیں دینے کا"
.
چودہ اگست کی اس رات کو ہمارے پاس کچھ نہیں تھا .. مگر سب کچھ تھا ..
اور آج کہنے کو ہمارے پاس بہت کچھ ہے .. لیکن سچ پوچھو تو کچھ بھی نہیں ہے ..
.
ہم نے الله رب العزت کی اس عظیم نعمت کی قدر نہ کی جو ہمیں آزادی کی صورت میں رضا الہی سے حاصل ہوئی .. ہم نے ان قربانیوں کو مدفون کر دیا جو آج بھی کہیں اسی سرزمین کی گود میں دفن ہیں ..
.
ہمارے سامنے آج پھر ایک اور جشن آزادی ہے جو خود غرضی اور استبداد سے کانپ رہا ہے ..
.
آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو ..
ہونٹوں پر وفا کے بول لئے ..
اس جشن میں ، میں بھی شامل ہوں !
نوحوں سے بھرا کشکول لئے ..
.
عظیم نامہ
No comments:
Post a Comment