Friday, 31 March 2017

دو تلخ ترین سوالات



دو تلخ ترین سوالات



.
وجود خالق سے لے کر دلائل رسالت تک اور  پیغام دین سے لے وحی الہی کے اثبات تک. مشکل سے مشکل سوال کا شافی جواب الحمدللہ موجود ہے. 
 مگر غیر مسلموں کو دعوت دین کے دوران جو سوال سب سے زیادہ شاق گزرتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر اسلام فی الواقع 'امن' کا دین ہے تو اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ بے امنی کیوں؟ اگر اسلام واقعی ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل کہتا ہے تو پھر کلمہ گو مسلمان اسلام کا نام لے کر معصوم انسانوں پر خودکش حملہ کیسے کردیتے ہیں؟ --
 (میں اس سوال کا بہترین ممکنہ جواب سائل کو دے دیتا ہوں جس سے وہ بڑی حد تک مطمئن بھی ہوجاتا ہے مگر یہ سچ ہے کہ یہ سوال مجھے بحیثیت مسلمان امت ہمیشہ افسردہ ضرور کردیتا ہے)
.
 عبادات سے لے کر معاملات تک ایک مسلمان کے جتنے سوالات ہوسکتے ہیں، ان سب کے بھی الحمدللہ شافی جوابات حاصل ہیں. 
 مگر ایک اعتراض یا سوال جو ہمیشہ میرے دل کو چوٹ پہنچاتا ہے وہ یہ کہ کوئی مدرسہ سے پڑھا ہوا انسان اپنے ذاتی تجربے سے مدارس میں ہونے والے جسمانی یا جنسی تشدد کی داستان بیان کرے. میں اسے سمجھاتا ہوں کہ کچھ واقعات یا ذاتی تجربہ کو بنیاد بنا کر تمام مدارس سے متنفر ہونا کسی صورت درست نہیں ہے --
.
 (اس ضمن میں مخاطب کی تشفی کیلئے جو دلائل ممکن ہیں، میں دیا کرتا ہوں. جس سے اکثر وہ مخاطب کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے مگر یہ سچ ہے کہ کوئی بھی ایسی داستان میرے دل کو زخمی ضرور کردیتی ہے)
.
 غور کریں تو یہ دونوں سوالات دراصل اسلام کی کمزوری نہیں بلکہ ہماری اپنی کمزوری و نالائقی کا شاخسانہ ہیں. جارج برنارڈ شاء نے غالباً اسی لئے کہا تھا کہ "میں نے اسلام سے بہتر کوئی مذہب نہیں دیکھا اور مسلمانوں سے بدتر کوئی قوم نہیں دیکھی". بہت آسان ہے کہ ہم ان تلخ مسائل کو مسائل ماننے سے ہی انکار کردیں اور امت مسلمہ کے مجموعی رویئے یا مدارس پر مسلسل لگتے ان الزامات سے چشم پوشی اختیار کریں. مگر اس سے کیا درپیش مسلہ ختم ہو جائے گا؟ ہمیں کھلے دل سے ان مسائل کو مسائل تسلیم کرنا ہوگا اور اس کیلئے ہر ممکنہ اصلاحات کی سعی کرنا ہوگی. جب کوئی امت مسلمہ کو دہشت گرد یا جنونی کہتا ہے تو دراصل وہ مجھے یعنی عظیم کو گالی دیتا ہے. جب کوئی شخص میرے دینی مدارس پر انگلی اٹھاتا ہے تو درحقیقت وہ میری عصمت دری کرتا ہے. امت مسلمہ صرف داڑھی والے کی نہیں ہے بلکہ ہر کلمہ گو کی ہے. مدارس صرف اس میں پڑھنے والو کے نہیں ہیں بلکہ ہم سب مسلمانوں کے سر کا تاج ہیں. اسکول کالجز میں بھی بہت کچھ غلط ہورہا ہے بلکہ شائد کئی حوالوں سے ان کا حال مدارس سے زیادہ خستہ ہے. مگر یہ اسکول و کالج دین اسلام کے ترجمان نہیں. مدارس ترجمان ہیں. اور جو دین کا ترجمان ہوگا اس کے نقائص کو زمانہ مائیکرواسکوپ لگا کر دیکھے گا. مجھے ڈر ہے کہ میری یہ تحریر بہت سے دوستو کی خفگی و غصہ کا سبب بن سکتی ہے. مگر پھر بھی یہ تحریر دست بدستہ ہاتھ جوڑ کر لکھ رہا ہوں. اس مدہم امید پر کہ اسے مخالف کی تنقید نہیں بلکہ حمایتی کا اصلاحی جذبہ سمجھا جائے گا.
.
 ====عظیم نامہ====

Thursday, 30 March 2017

آپ کون ہیں؟



آپ کون ہیں؟



.
 میرے ایک عزیز جو پاکستان میں مقیم ہیں، انہیں اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کا موقع میسر ہے جسے وہ پوری خوش اسلوبی سے نباہ رہے ہیں. نہ صرف ان کے والدین اس خدمت سے بہت خوش ہیں بلکہ دیگر احباب بھی ان کی اس ضمن میں مثال دیا کرتے ہیں. یہ صاحب بھی اپنے والدین کے ساتھ ساتھ دوسرے بزرگ افراد کی خدمت کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے. کچھ عرصہ قبل مجھ سے کہنے لگے کہ میرا ایک خواب ہے عظیم اور وہ یہ کہ میں پاکستان میں ہی ایک اولڈ ایج ہوم یعنی بوڑھوں کا آسائشوں سے مزین گھر بناؤں. جہاں ان بزرگوں کا خیال رکھ سکوں جو کسی حادثے یا نافرمان اولاد کے سبب تنہا رہ گئے ہیں. بے یار و مددگار ہیں. انہیں ایسی ہی محبت دوں جیسی ایک فرمانبردار اولاد اپنے شفیق والد اور دلعزیز والدہ کو دیا کرتی ہے. یہ کہتے ہوئے ان صاحب کی آواز میں سچائی، لہجے میں درد اور آنکھوں میں ایسا عزم موجزن تھا، جس سے مجھے پوری امید ہے کہ یہ اپنے خواب کو ایک دن ضرور عملی شکل دے پائیں گے. ان شاء اللہ 
.
 برطانیہ میں مقیم میرے ایک دوست جن کی بیٹی کو پیدائشی طور پر ایک جزوی ذہنی بیماری یعنی 'مینٹل ڈس ایبلیٹی' لاحق ہے. اپنی زوجہ کے ساتھ مل کر اس بچی کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں. بہت سی مشکلات کے باوجود وہ روز ایک نئی انرجی کے ساتھ اپنی بیٹی کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں مشغول رہتے ہیں. آج مجھ سے کہنے لگے کہ عظیم میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں تمام 'مینٹل ڈس ایبل' بچوں کیلئے بلعموم اور مسلمان بچوں کیلئے بلخصوص ایک 'کیئر سینٹر' کھولوں گا. جہاں دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ان مسلمان بچوں کو جو ذہنی معذوری یا ڈس ایبیلٹی کے باوجود بڑی حد تک سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، انہیں اسلام کے کچھ آسان بنیادی احکام کی تربیت دی جائے. جیسے نماز پڑھنا یا تلاوت سننا وغیرہ. اسی طرح ان کی اخلاقیات کو بھی دینی تناظر میں بہتر بنایا جائے اور اس کا طریق نہایت آسان و دلپسند اختیار کیا جائے. یہ صاحب اپنے اس نیک ارادے میں اٹل نظر آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں معلومات کے حصول میں ان کا دست بازو بنوں. ان شاء اللہ 
.
 میں خود ایک لمبے عرصے سے انگلینڈ میں مقیم ہوں. مجھے انفرادی طور پر یہاں الحاد سمیت مختلف مذہبی و غیر مذہبی فلسفوں کی ایک یلغار کا سامنا رہا ہے. یہ احساس مجھ میں اور میرے یہاں رہائش پذیر کئی دوستوں میں عرصہ ہوا تقویت پکڑ چکا کہ ہمیں غیرمسلوں کیلئے دین کی ترویج و تبلیغ کا اہتمام کرنا ہے اور ان مسلمان اذہان کو واپس دین سے جوڑنا ہے جو مغربی افکار کے سیلاب میں ارتداد کی سرحد پر جاپہنچے ہیں. لہٰذا تفرقہ سے پاک ہوکر مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے سڑکوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک اور الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک کسی نہ کسی درجے میں ہم دعوت دین کا کام انجام دیتے ہیں. اسلام کی نظریاتی سرحدوں پر ہونے والے الحاد و دیگر فلسفوں کے حملوں کا موثر جواب دیتے ہیں. دین پر لگے الزامات کو اپنی بساط بھر کوشش سے دفاع فراہم کرتے ہیں. اسی حوالے سے ہم کئی اہم پروجیکٹس سے منسلک ہیں اور مستقبل میں انہیں عملی شکل دینے کا خواب رکھتے ہیں. ان شاء اللہ 
.
 مختلف افراد کے ان متفرق ارادوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اس حقیقت کو سمجھیں کہ ہر انسان کچھ مختلف اور مخصوص حالات و واقعات سے گزرتا ہے. جو اس کے قلب و فکر پر کچھ اثرات مرتب کرتے ہیں. یہ حالات کبھی آسانی اور اکثر سختی کے ساتھ انسان کو درپیش آتے ہیں. اعلان نبوت سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام پر وارد ہونے والے سخت ترین حالات و واقعات کو سوچیئے، نبوت سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نامساعد اور دہشت انگیز حالات زندگی پر غور کیجیئے، حضرت یوسف علیہ السلام کے اذیت ناک تربیتی مراحل پر نظر کیجیئے، رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی آمد سے پہلے بچپن کی یتیمی سے لے کر غار حرا تک کے حالات زندگی کا جائزہ لیجیئے. آپ کو اندازہ ہو گا کہ کس طرح ان برگزیدہ ہستیوں کو مختلف مراحل سے گزار کر نبوت کے مشن کے لئے تیار کیا گیا. یہی حال آپ کو صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین اور بزرگان دین کی زندگیوں میں نظر آئے گا. گویا ہر عبداللہ کو حالات و واقعات کی بھٹی سے گزار کر اللہ کے ماسٹر پلان میں تعمیری حصہ بننے کا امیدوار بنایا جاتا ہے. اب بہتراور عقلمند انسان وہ ہے جو نہ صرف ان حالات کا خوبی سے سامنا کرے بلکہ ان حالات سے سیکھ کر معاشرے کے سدھار میں اپنا بھرپور کردار بھی ادا کرے. چنانچہ اپنی زندگی کا جائزہ لیجیئے اور جانیئے کہ آپ کون ہیں؟ اور آپ کس مشن کیلئے موزوں ہیں؟
.
 ====عظیم نامہ====

Tuesday, 28 March 2017

غیرمسلم اذہان

 

غیرمسلم اذہان


غیرمسلم اذہان میں میرے دو پسندیدہ ترین نام جو اب فوت ہوچکے ہیں 
.
١. سقراط (فلسفی)
٢. البرٹ آئن اسٹائن (سائنسدان)
. 
غیرمسلم اذہان میں میرے دو پسندیدہ ترین نام جو ابھی حیات ہیں
.
١. سدھ گرو (یوگی)
٢. مشیو کاکو (سائنسدان) 

.
 ان چاروں کے علمی قد کے بھرپور اعتراف کے ساتھ اور اپنی ناقص العلمی کے مکمل ادراک کے ساتھ مجھے ان سب سے ہی کسی نہ کسی درجے اختلاف ہے. مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رب تعالیٰ نے ان استادوں کو غیر معمولی ذہانت سے نوازا ہے. جس سے نہ صرف یہ اپنے اپنے شعبوں میں بہترین پیش رفت کرپائے بلکہ انسانی زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی ان کی رائے مجھے سوچنے پر مجبور کردیتی ہے. 
.
====عظیم نامہ====

.
 نوٹ: دھیان رہے کہ یہ راقم کا ذاتی احساس ہے، جس سے متفق ہونا قطعی ضروری نہیں. ان چاروں کے کچھ عقائد و نظریات فی الواقع ایسے ہیں جو دین کی رو سے یکسر باطل قرار پاتے ہیں. گو یہ چاروں بھی آپس میں متفق نہیں. ان فاسد نظریات کو بنیاد بناکر، باقی پیش کردہ تحقیقات و خیالات سے گریز ایک طالبعلم کے لئے محرومی ہے. جہاں تک ان چاروں کے اپنے اپنے شعبوں میں بیان کا ذکر ہے تو اسے سننے یا پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن جب بات خدا اور اسکے پیغام کی ہو تو ایک مسلمان کیلئے لازم ہے کہ پہلے قران حکیم کو خوبی سے سمجھے پھر ان سمیت کسی اور مفکر کو پڑھے یا سنے
.

ایاز نظامی

 

 

ایاز نظامی

.
 سوشل میڈیا اور حقیقی دنیا میں اب تک میں کتنے ملحدین سے مکالمہ کرچکا ہوں؟ سچ پوچھیئے تو اتنی بڑی تعداد ہے کہ یاد رکھنا ممکن نہیں. یہ اور بات کہ میں کسی بھی ایسے فیس بک گروپ یا پیج کا حصہ بننے کا مخالف رہا ہوں جہاں رب العالمین یا رحمت العالمین کیلئے توہین آمیز الفاظ کا استعمال ہو. انکار خدا سے لے کر انکار رسالت تک جو شکوک و سوالات ہوں، میں ہمیشہ اپنی بساط بھر کوشش سے مسکرا کر ان کا جواب دیتا آیا ہوں. مگر کوئی سوال پوچھنے کی آڑ میں توہین رسالت کرے؟ تحقیق کا نام لے کر غلیظ الفاظ استعمال کرے؟ تو اسے برداشت کرنا میری غیرت ایمانی کی موت ہے. یہ میں ہرگز برداشت نہیں کرتا. میں نے پچھلے دس برسوں میں ان ملحدین کے بہت سے نام نہاد رہنماؤں سے گفتگو کی اور قریب قریب سب کو سطحی سوچ کا حامل پایا. ایک وقت تھا جب میں نے چن چن کر نمائندہ ملحدین لکھاریوں کی پوسٹوں پر ان سے شائستہ انداز میں استدلال سے تنقید کرنا شروع کی. ان ہی دنوں تین چار بار ایسا ہوا کہ جب کوئی مخاطب ملحد دلیل سے بلکل بے بس ہوگیا تو اس نے پوسٹ پر کسی 'ایاز نظامی' کو ٹیگ کیا. اسی طرح اس ایاز نظامی کے ہاتھوں کچھ مسلمان جب پھنستے تو وہ مجھے ٹیگ کرکے اسے جواب دینے پر ابھارتے. یہ میرا اس شخص سے پہلا تعارف تھا. پہلی بار ایک ایسا ملحد سوشل میڈیا پر ملا جو واقعی کسی حد تک دلیل سے بات کرتا اور عام ملحدین کے ٹریڈ مارک گھٹیا لب و لہجے سے اجتناب کرتا. گفتگو پوسٹوں سے نکل کر میسجز پر ہونے لگی. میرے لئے یہ حقیقت صدمہ کا سبب تھی کہ اس نے درس نظامی کے بعد بھی ارتداد کی لعنت کو اپنایا تھا. میری دلی خواہش تھی کہ یہ شخص واپس لوٹ آئے. اس لئے میں نے اسے اسکائپ پر گفتگو کی دعوت دی جو اس نے قبول کرلی. دونوں نے ایک دوسرے کو ایڈ کیا مگر وقت کے فرق کی وجہ سے گفتگو نہ ہو پائی. البتہ اب اس کی سرگرمیوں پر میری نظر تھی اور شائد اسکی مجھ پر؟
.
 کچھ عرصہ گزرا تو احترام کا وہ جذبہ جو میرے دل میں ایاز کیلئے پیدا ہوا تھا دم توڑنے لگا. وجہ یہ تھی کہ مجھے اس کی پالیسی سمجھ آنے لگی. اب میں دیکھ پارہا تھا کہ بھلے دوران مکالمہ یہ گندے الفاظ نہیں لکھتا مگر ایسی گندگی پھیلانے والو کی پشت پر یہی سب سے آگے کھڑا ہے. وہ پیجز جو سراسر توہین اور تخریب پر مبنی ہیں، ان کے چلانے والو میں نہ صرف یہ شامل ہے بلکہ ان کی فکری بنیاد یہی رکھ رہا ہے. میں نے اپنے کچھ دوستوں سے اس کا ذکر کیا اور ایک بار پھر پورا ارادہ کیا کہ اس کی فکر کو باقاعدہ للکارا جائے. گو عربی نہ جاننے یا مقابل سے کم جاننے کی وجہ سے مجھے ایک جھجھک سی ضرور تھی. یہ خواہش عملی جامہ پہنتی، اس سے پہلے ہی وہی کام مولانا مرزا احمد وسیم بیگ کی جانب سے ہوا. جنہوں نے نہ صرف ایاز نظامی سے ایک طویل بہترین مکالمہ کیا بلکہ فی الواقع اس پر دلیل کی برتری ثابت کی. گو ظاہر ہے ایسی بحثوں میں نتیجہ مانتا کوئی فریق نہیں ہے. مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ آج ایاز نظامی کی گرفتاری پر میں دل سے خوش ہوں. حکومتی اداروں کو مبارکباد دیتا ہوں اور خواہش کرتا ہوں کہ ایاز یعنی عبد الوحید جیسے فتنہ پرور افراد کو سخت ترین سزا بذریعہ عدالت دی جائے. میں آپ دوستو سے بھی کہتا ہوں کہ ہم مکالمہ و سوالات کا خیر مقدم کرنے والے لوگ ہیں. لہٰذا کوئی سخت ترین سوال بھی تہذیب سے پوچھا جائے گا تو ہم اس کا علمی جواب دیں گے. اسے دھتکاریں گے نہیں. لیکن کوئی بدبخت سوال یا تحقیق کا راگ آلاپ کر سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم پر زبان دراز کرے (یعنی گالی دے) تو پھر ہم ہر ممکن اقدام کریں گے کہ اسے حوالات تک پہنچایا جائے. اسکے لئے "آئی پیز" ٹریس کرنے سے لے کر جیمز بانڈ بننے تک جو کرنا پڑے، کیا جائے.
.
 ====عظیم نامہ

Tuesday, 21 March 2017

فحش مقرر


فحش مقرر



آج سے کوئی پندرہ سولہ سال قبل پشاور یونیورسٹی میں ایک بہت بڑا تقریری مقابلہ منعقد کیا گیا جس میں سارے پاکستان کے تعلیم اداروں سے مقررین نے شرکت کی.کئی مراحل جیتنے کے بعد آخری یعنی فائنل میں دس بہترین مقررین کو منتخب کیا، جنہیں اسٹیج پر بٹھایا گیا. میں بھی ان مقررین میں سے ایک تھا. صوبہ کےگورنر سامنے مہمان خصوصی تھے. پشاور ہی کے ایک دوسرے تعلیمی ادارے سے منتخب ایک مقرر کو مزاحیہ تقریر کی دعوت دی گئی. ان صاحب کو معلوم نہیں کیا سوجھی؟ کہ انہوں نے اپنی تقریر کو فحش جملے بازی کا نمونہ بنا دیا. جب گھٹیا جملے زیادہ بڑھے تو غیور پٹھان طالبات نے خاموش بائیکاٹ کیا اور آڈیٹوریم چھوڑ کر جانے لگی. انہیں جاتا دیکھ کر ان مقرر صاحب نے ایک انتہائی نامناسب جملہ جو میں یہاں ازراہ شرم نہیں لکھ سکتا دوران تقریر کہہ دیا. اس کا یہ جملہ کہنا تھا کہ پیچھے بیٹھے ناظرین میں سے ایک پٹھان بھائی نے اپنی شال شانے سے ہٹائی جس کے نیچے سے ایک کلاشنکوف برآمد ہوئی جو اس نے اسٹیج پر موجود مقرر پر تان لی. ایک افراتفریح مچ گئی. اسٹیج پر موجود ہم سب مقررین کو موت سامنے نظر آنے لگی کہ اگر اس نے کلاشنکوف کا برسٹ مار دیا تو گولی پتہ پوچھے بناء ہم سب کو لقمہ اجل بنادے گی. میری برابر دائیں بائیں والی کرسیوں پر لاہور اور اسلام آباد کی طالبات مقررہ تھیں جو فوری چیخ مار کر میرے پیچھے چھپ گئیں اور مجھے گولی کھانے کیلئے مزید آگے کردیا. خیر اس لڑکے کو اس کے ساتھیوں نے زبردستی جکڑا. اسی دوران باقی بہت سے پٹھان طالبعلم اسٹیج پر کود کر آگئے اور اس مقرر کو بری طرح سے پٹخ پٹخ کر مارا. 
.
 بڑی مشکل سے پولیس نے اسے چھڑایا اور پنڈال سے باہر لے گئے مگر ہر طرف سے یہ دھمکی دی جارہی تھی کہ اس مقرر کو ہم آج کی تاریخ میں قتل کردیں گے. میں یہ سب منظر بہت قریب سے دیکھ رہا تھا اور ایک شاک کی سی کیفیت میں تھا. میری نظر پشاور کالج کے ان پروفیسر پر پڑی جو مجھ سے بہت شفقت فرماتے تھے اور مجھے بحیثیت مقرر بہت پسند کرتے تھے. بلاشبہ میری نظر میں وہ ایک انتہائی نفیس اور شفیق انسان تھے. میں ان کے پاس پہنچا اور پرتشویش انداز میں انہیں بتایا کہ پروفیسر صاحب یہ اسٹوڈنٹس تو دھمکی دے رہے ہیں کہ آج کی تاریخ میں اس مقرر کو قتل کردیں گے. پروفیسر صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں مجھ سے ایک ایسا جملہ کہا جو آج بھی سماعتوں میں گونج رہا ہے. "عظیم بھائی ! آپ فکر نہ کریں ہم اس مقرر کو زندہ چھوڑیں گے نہیں" . یہ اور ایسے کئی واقعات پشاور کے دو مختلف دوروں میں مجھے پیش آئے جس نے پشاور کی نفسیات کے مثبت و منفی دونوں پہلوؤں کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا. اکثر پہلوؤں سے پشاور کی اخلاقی اقدار پاکستان کے دیگر شہروں کی عمومی نفسیات سے بہت عمدہ اور بلند ہیں. مگر کچھ زاویئے ایسے بھی ہیں جو نہ سمجھ آنے والے ہیں اور شائد قابل اعتراض ہیں. یہ واقعہ اسی دوسرے زاویئے کا ایک ٹریلر ہے.
.
====عظیم نامہ====
.
 (نوٹ: میری آخری اطلاعات تک اس مقرر کو کسی محفوظ مقام بھیج دیا گیا تھا)

دوست سے ہنسی مذاق



دوست سے ہنسی مذاق


اپنے دوست سے ہنسی مذاق کرنا، اسے تنگ کرنا یا کبھی اس کا کسی بات پر مذاق اڑانا دوستی کا حصہ ہے بلکہ کچھ صورتوں میں اس تعلق کی خوبصورتی بھی ہے. لیکن اس بے تکلف رشتے میں بھی یہ احتیاط لازمی ہے کہ کسی صورت مخاطب کا دل نہ دکھے. قریبی ترین دوست کی بھی کبھی کسی ایسی کمی کو نہ اچھالیں جس کے بارے میں وہ غیر معمولی طور پر حساس ہو یا جو اس میں مستقل موجود ہو یا جسے دور کرنا باوجود کوشش اس کے بس میں نہ ہو. جیسے کسی شخص کے چھوٹے قد کا مذاق بنانا یا کسی کی سیاہ رنگت پر ہنسنا یا کسی کے زیادہ وزن پر جملے کسنا وغیرہ. ممکن ہے آپ کا دوست آپ کے سامنے اس مذاق پر ہنس بھی لے مگر قوی امکان ہے کہ ایسی جملے بازی اس کے دل کو چوٹ ضرور پہنچائے گی اور گناہ کا موجب بنے گی. پھر قریبی دوستوں کے مابین تو یہ معاملات کم تر حد میں چل بھی سکتے ہیں، مگر فیس بک کی فرینڈ لسٹ میں شامل افراد سے تو اکثر آپ زندگی میں کبھی نہیں ملے ہوتے. پھر اتنی ہمت کیسے آجاتی ہے؟ کہ کسی لنگوٹی دوست کی طرح ایک شخص کی تصویر پر کمنٹس میں اس کی شکل و صورت کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں، اس کے رنگ پر فقرے کس رہے ہوتے ہیں یا اس کے زیادہ یا کم وزن پر اسکی تذلیل کرہے ہوتے ہیں؟ سورہ الحجرات میں مومنین کو اس ضمن میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں ۔"
.
چاہیئے کہ میں اور آپ اپنا محاسبہ کرلیں کہ  اس آیت کی روشنی میں کہیں ہم فاسق تو نہیں ہیں؟ ظالم تو نہیں ہیں؟
.
 ====عظیم نامہ====

مجرم آپ



مجرم آپ


اگر کوئی لکھاری صرف مایوسی پھیلانے کا عادی ہے اور آپ اسے باقائدگی سے پڑھ رہے ہیں تو مجرم آپ ہیں.


 اگر کوئی لکھاری انبیاء، صحابہ یا اولیاء کے خلاف مغلظات بکنے کا عادی ہے اور آپ اسے اپنی ریڈنگ لسٹ میں رکھے ہوئے ہیں تو مجرم آپ ہیں.
.
 اگر کوئی لکھاری اپنی پوسٹوں سے تفرقہ، نفرت اور اشتعال پھیلاتا ہے اور آپ اسے پھر بھی پڑھتے ہیں تو مجرم آپ ہیں.
.
 اگر کوئی لکھاری سوشل میڈیا پر سرٹیفائد ٹھرکی کے طور پر مقبول ہے اور آپ پھر بھی اس کی پوسٹ کو ضرور دیکھتے ہیں تو مجرم آپ ہیں.
.
 یاد رکھیں کہ آپ ویسے ہی ہیں جیسے لوگو کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں. فیس بک پر موجود ہر اس شخص کو جسے آپ تخریبی سمجھتے ہیں، 'ان فرینڈ' کیجیئے یا اگر اسے فرینڈ لسٹ میں رکھنا ضروری ہے تو اسے 'ان فالو' کردیجیئے تاکہ اس کی پوسٹیں آپ کی فیس بک وال پر نظر نہ آئیں. اسی طرح جن لکھاریوں کی تحریروں سے آپ سیکھتے ہیں یا آپ کو مثبت پیغامات ملتے ہیں انہیں 'سی فرسٹ' پر رکھیئے تاکہ ان ہی کی پوسٹیں آپ کو اپنی وال پر ترجیحی بنیادوں پر حاصل ہوسکیں. 
.
 ====عظیم نامہ====