Tuesday, 21 March 2017

مجرم آپ



مجرم آپ


اگر کوئی لکھاری صرف مایوسی پھیلانے کا عادی ہے اور آپ اسے باقائدگی سے پڑھ رہے ہیں تو مجرم آپ ہیں.


 اگر کوئی لکھاری انبیاء، صحابہ یا اولیاء کے خلاف مغلظات بکنے کا عادی ہے اور آپ اسے اپنی ریڈنگ لسٹ میں رکھے ہوئے ہیں تو مجرم آپ ہیں.
.
 اگر کوئی لکھاری اپنی پوسٹوں سے تفرقہ، نفرت اور اشتعال پھیلاتا ہے اور آپ اسے پھر بھی پڑھتے ہیں تو مجرم آپ ہیں.
.
 اگر کوئی لکھاری سوشل میڈیا پر سرٹیفائد ٹھرکی کے طور پر مقبول ہے اور آپ پھر بھی اس کی پوسٹ کو ضرور دیکھتے ہیں تو مجرم آپ ہیں.
.
 یاد رکھیں کہ آپ ویسے ہی ہیں جیسے لوگو کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں. فیس بک پر موجود ہر اس شخص کو جسے آپ تخریبی سمجھتے ہیں، 'ان فرینڈ' کیجیئے یا اگر اسے فرینڈ لسٹ میں رکھنا ضروری ہے تو اسے 'ان فالو' کردیجیئے تاکہ اس کی پوسٹیں آپ کی فیس بک وال پر نظر نہ آئیں. اسی طرح جن لکھاریوں کی تحریروں سے آپ سیکھتے ہیں یا آپ کو مثبت پیغامات ملتے ہیں انہیں 'سی فرسٹ' پر رکھیئے تاکہ ان ہی کی پوسٹیں آپ کو اپنی وال پر ترجیحی بنیادوں پر حاصل ہوسکیں. 
.
 ====عظیم نامہ====

شدید بخار اور بڑھاپا




شدید بخار اور بڑھاپا



شدید بخار میں جب جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا ہو، مسلسل نقاہت بدن پر طاری ہو اور ذہن بھی ایک نامعلوم سی الجھن کا شکار ہو۔ ایسے میں نماز میں قیام کرنا اور تکلیف سے سجدہ ریز ہونا اپنے بڑھاپے کی یاد دلاتا ہے۔ اگر بڑھاپے تک جیئے تو کیا معلوم ہمارا کیا حشر ہوگا؟ جسم میں اتنی طاقت بھی ہوگی کہ قیام کرسکیں؟ سجدہ ریز ہوسکیں؟ شائد اسی لئے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین کی ہے کہ
۔
 "پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو۔ اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔''
۔
 ====عظیم نامہ====

کراچی میں حقیقی امن کیسے قائم ہو؟



کراچی میں حقیقی امن کیسے قائم ہو؟



.
 یوں تو وطن عزیز کا ہر شہر آج دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے مگر کراچی وہ واحد بدنصیب شہر ہے جو اپنی تمام تر رونق و خوبصورتی کے باوجود خراب سے خراب تر حالات کا شکار رہا ہے. گو ایک عرصے سے میں انگلینڈ میں مقیم ہوں مگر میں نے آنکھ اسی خوبصورت شہر میں کھولی ہے اور اسی میں اپنا بچپن و جوانی گزارے ہیں. مجھے اس شہر کی ہر ہر ادا سے محبت ہے اور میرے سینے میں کراچی دل بن کر دھڑکتا ہے. میں اس شہر کے ساتھ ہنستا اور ساتھ روتا آیا ہوں. لہٰذا میرے اس دعویٰ میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ میں کراچی کے مسائل و مشکلات کا قریبی ادراک رکھتا ہوں. ویسے تو ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کراچی سمیت کسی بھی جگہ کے متعلق اپنا تجزیہ دے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس شہر کے حالات کو سمجھنے کیلئے لازم ہے کہ انسان ایک لمبا عرصہ ان حالات و واقعات کے بیچ رہے جن سے شہر قائد لہو لہو ہے. اس شہر کی غیرمعمولی حیثیت کا اندازہ اس امر سے کیجیئے کہ ایک اعدادوشمار کے مطابق یہ شہر تنہا پورے ملک کا ستر فیصد ریوینیو یعنی آمدنی کما کر دیتا ہے. جب کے دوسرے اعدادوشمار کے مطابق یہ پینتالیس سےپچپن فیصد آمدن مہیا کرتا ہے. مگر بدلے میں بجٹ کے نام پر جو چلڑ اسے دیا جاتا ہے وہ ملک کے اس فائننشیل کیپیٹل سے صریح زیادتی کے مترادف ہے. یہ ثابت کرنے کی کوئی خاص حاجت نہیں ہے کہ صرف اس ایک شہر کے حالات کا قابو آجانا اور ترقی کرنا پورے ملک کی معیشت کو سنبھال سکتا ہے. ایسا نہیں ہے کہ شہر میں امن و امان کیلئے کبھی کوئی اقدامات نہیں کئے گئے مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ اقدامات کبھی بھی کوئی دور رس نتائج نہ حاصل کرسکے بلکہ ان اقدامات کی آڑ میں ایسی ایسی زیادتیاں اور حماقتیں کی گئیں جنہوں نے تعمیر کی بجائے مزید تخریب کو جنم دیا. اس وقت بھی گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے شہر میں شدید فوجی آپریشن جاری ہے. جس کا ہونا خوش آئند ہے مگر کیا اس سے امن کی بحالی کے پائیدار نتائج حاصل ہوسکیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر صاحب ادراک کی نظر میں نفی میں ہے. اس آپریشن کا آنکھوں دیکھا حال میں نومبر ٢٠١٥ میں تحریر کرچکا ہوں جو نیچے پہلے کمنٹ میں ویب لنک کی صورت میں موجود ہے. اس شہر کے حالات قیام پاکستان سے لے کر اب تک اتنے بگڑ چکے ہیں اور مسائل اتنے گنجلک ہوگئے ہیں کہ سلجھانے کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا. بقول شاعر:
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے اُلجھائی ہے
.
 راقم کی احقر رائے میں مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کئے بناء کراچی میں پائیدار امن کا خواب ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں. میں جانتا ہوں کہ ان تجاویز میں بہت سو کی دل آزاری کا سامان بھی ہوسکتا ہے مگر میں دیانتداری سے اپنا احساس درج کررہا ہوں جسے آپ اپنی سمجھ سے رد یا قبول کرسکتے ہیں. امید ہے کہ آپ اسے اپنے بھائی کی رائے ہی سمجھیں گے اور اسے پڑھ کر راقم کی جانب بغض و بدگمانی کا شکار نہ ہونگے.
.
١١. کالج، یونیورسٹیوں سمیت ہر تعلیمی ادارے سے تمام سیاسی سرگرمیوں کا بلاتفریق خاتمہ کردیا جائے. وہ دن ہوا ہوئے جب یہ کہا جاتا تھا کہ طلباء کو سیاسی دھارے میں شامل کرکے پڑھی لکھی قیادت سامنے لائی جائے گی. آج کی حقیقت یہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹیاں اب سیاسی غنڈے پیدا کرنے کی فیکٹریاں ہیں. یہی وہ جگہ ہے جہاں مختلف سیاسی جماعتیں جذباتی نوجوانوں کے اذہان کو اپنے اپنے نظریات کا اسیر کرتی ہیں. اسلحے کا آزادانہ استعمال ہو یا مخالف گروہوں کے افراد پر بدترین تشدد ، تعلیمی اداروں میں جبری داخلے ہوں یا اساتذہ کو زدوکوب کرنا. یہ سب سیاسی جماعتوں کی ایماء پر اکثر تعلیمی اداروں میں جاری ہے. میں نے چونکہ اسی شہر کے اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے انجینئرنگ تک تعلیم لی ہے، اسلئے پوری شدومد سے اس کا گواہ ہوں. میں جانتا ہوں کہ یہی کام کمتر درجے میں دیگر شہروں میں بھی ہورہا ہے مگر کراچی کے تعلیمی اداروں کا جو اس ضمن میں حال ہے وہ تباہ کن ہے.
.
٢٢. غیر سیاسی پولیس کا ایک نیا اور بااختیار ادارہ قائم کیا جائے جس کی تنخواہ و مراعات کم از کم اسلام آباد کی پولیس جتنی ہوں اور جہاں پڑھے لکھے کراچی ہی کے اہلکاروں کو بھرتی کیا جائے. یہ جہاں رشوت و سفارش کے کلچر کو روک لگائے گا اور عوام کا پولیس پر اعتماد بحال کرے گا وہاں بے روزگار پڑھے لکھے نوجوانوں کی محرومی بھی دور کرسکے گا. 
.
٣٣. آئی ایس آئی اور دیگر قانونی اداروں کی مدد سے شہر میں مزید اسلحے کو داخل ہونے سے روکا جائے. مجھے یقین ہے کہ اگر ادارے چاہیں تو اگر مکمل نہیں تو بڑی حد تک اسلحے کی تازہ سپلائی کو روک سکتے ہیں. 
.
٤٤. اعلان کیا جائے کہ ایک ماہ کے اندر تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتیں اپنا اسلحہ جمع کروا دیں ورنہ شدید سزا کا نفاز کیا جائے گا. اس کے نتیجے میں ماضی کی طرح بہت تھوڑا سا اسلحہ جمع کروایا جائے گا اور باقی اسلحہ یہ جماعتیں اپنے پاس ہی کہیں دفنا کر رکھیں گی. مگر اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اسلحہ رکھنے پر ایک اضافی خوف پیدا ہوگا جو کمتر حد میں معاون ہوگا. اس مدت کے بعد اسلحہ رکھنے والو کو پکڑا جائے اور کم از کم آٹھ دس کیسز کو عبرت کی مثال بنادیا جائے. 
.
٥٥. دیگر قومیتوں سے وابستہ دہشت گرد گروہوں کے قابض علاقوں پر سب سے پہلے زبردست آپریشن کیا جائے. جیسے 'کٹی پہاڑی' اور 'الآصف اسکوائر' پٹھان غنڈوں کی آماجگاہیں ہیں. یا 'لیاری' کے وہ بدنام علاقے جو پیپلز پارٹی کے پالے ہوئے بدمعاشوں کی جائے پناہ ہیں. ایسے علاقوں پر آپریشن اسلئے ضروری ہے کہ صرف اسی طرح یہ پیغام پہنچ سکتا ہے کہ یہ آپریشن صرف ایم کیو ایم کیلئے نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بلاتفریق غنڈوں کا صفایا ہے. ایم کیو ایم کو تو ہر کوئی گالی دے لیتا ہے مگر دیگر شہروں میں بسنے والے یہ تصور بھی نہیں کرپاتے کہ دیگر تنظیموں کے غنڈے اور ملٹری ونگ کس درجے کی خباثت پھیلا رہے ہیں. آپ مجھ پر یقین نہ کریں مگر کراچی میں رہنے والے اپنے عزیزوں سے پوچھیں کہ جب ان سے یا ان کے پیاروں سے موبائل، گاڑی، پیسہ وغیرہ چھینا گیا تو چھیننے والا کس قومیت کا تھا؟ مجھے یقین ہے کہ نوے فیصد لوگ آپ کو بتائیں گے کہ وہ پٹھان یا اندرون سندھ کا فرد تھا. میرا یہ یقین اسلئے ہے کہ میں بیشمار افراد سے جو ایم کیو ایم سے منسلک نہیں ہیں، یہی سوال پوچھ چکا ہوں. یہاں ہرگز یہ غلط فہمی نہ پالیں کہ میں ایم کیو ایم کا حامی ہوں. ہرگز نہیں. مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ میں ان کا شدید ناقد ہوں اور ان کے خلاف بھی اسی قوت سے آپریشن کے حق میں ہوں. بتانا صرف اتنا مقصود ہے کہ اس حمام میں ایک نہیں بلکہ سب ننگے ہیں. 
.
٦٦. عوام کی منتخب کردہ جماعتوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہوئے ترقیاتی کاموں میں فری ہینڈ دیا جائے. البتہ کسی بھی جماعت کو نفاز قانون کے عمل میں شریک نہ کیا جائے. 
.
٧٧. مذہبی جماعتوں اور ایسے مدارس و مساجد کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے جو منبر کو نفرت و دہشت گردی کے ترویج کیلئے استعمال کر رہے ہیں. بہتر ہوگا کہ ان کے خلاف چارج شیٹ بمع ٹھوس ثبوتوں کے میڈیا پر دیکھا دی جائے تاکہ ان کا ردعمل عوام کی تائید نہ پاسکے. یہ ثبوت حاصل کرنا نہایت آسان ہیں کہ ان کے زہر آلود بیانات ریکارڈ کئے جاسکتے ہیں اور ان کے مسلح ٹھکانوں سے عام لوگ تک آگاہ ہیں.
.
 یہ وہ چند تجاویز ہیں جو احقر کی سمجھ میں ناگزیر ہیں. ان کے علاوہ بھی بہت سی اہم اصلاحات کی گنجائش ہے مگر طوالت کی وجہ سے اتنے پر ہی اکتفاء کرتا ہوں 
.
 ====عظیم نامہ====

Thursday, 16 March 2017

پرانے و ناپسندیدہ کپڑے خیرات کرنا


پرانے و ناپسندیدہ کپڑے خیرات کرنا 



 سوال
السلام علیکم۔ جناب میں ایک مغربی ملک میں مقیم ہوں۔ حال ہی میں ہم نے جب اپنے گھر کی بڑے پیمانے پر صفائی کا فیصلہ کیا تو یہ بھی چاہا کہ تمام اضافی و ناپسندیدہ کپڑے نکال دیئے جائیں۔ لہذا کپٹروں کا ایک بڑا ڈھیر اکٹھا ہوگیا ہے۔ جن میں وہ کپڑے شامل ہیں جو یا تو ہمیں پسند نہیں یا پھر پرانے یعنی آوٹ آف فیشن ہیں۔ ہم نے ابتدا میں یہ سوچا کہ ان کپڑوں کو دور موجود ایک ایسی مستند چیرٹی آرگنائزیشن تک پہنچا دیں جو دیگر غریب ممالک میں ضرورت مندوں کو یہ پہنچادیتے ہیں۔ لیکن اب دل کو یہ خیال تنگ کررہا ہے کہ اپنے لئے نئے مہنگے کپڑے لینا اور اللہ کی راہ میں پرانے و ناپسندیدہ کپڑے دینا تو شائد بہت غلط ہے۔ اس سے بہتر تو ان کپڑوں کو دیگر غیر ضروری سامان کے ساتھ تلف کردیا جائے۔ آپ کا کیا مشورہ ہے؟
۔
جواب:
 وعلیکم السلام۔ دیکھیئے میرے بھائی۔ شیطان اپنے کام میں بہت ماہر و تجربہ کار ہے۔ وہ غلط فیصلے کو خوشنما بنا کر دیکھاتا ہے اور انسان کو پارسا بن کر غلط بات کی ترغیب دیتا ہے۔ جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ راہ خدا میں پرانا و ناپسندیدہ نہیں بلکہ اچھا اور من پسند مال دینا چاہیئے۔ وہاں دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا میں بیشمار لوگ ایسے ہیں جنہیں سخت سردی میں بھی پہننے کو کپڑے میسر نہیں۔ ایسے میں آپ کا اتنے سارے کپڑوں کو ان تک پہچانے کی بجائے تلف کردینا صریح ظلم ہے۔ چنانچہ بناء تامل ان کپڑوں کو اس قابل بھروسہ فلاحی ادارے تک پہنچائیئے اور بھروسہ رکھیئے کہ ان کپڑوں کو گھر کے کوڑے دان میں باآسانی ڈال دینے کی بجائے، دور قائم اس فلاحی ادارے تک لے جانے کیلئے آپ کو جو سفر کرنا ہوگا یا مشقت اٹھانی ہوگی، اس سب کا بہترین اجر آپ اپنے رب سے پائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ ساتھ ہی اپنے اس احساس جرم کو زائل کرنے کیلئے اور شیطان کی اس چال کو الٹ دینے کیلئے فوری طور پر کم از کم دو چار نئے اور عمدہ کپڑوں کے جوڑے خریدیئے اور انہیں بھی ان بقیہ پرانے کپڑوں کیساتھ ساتھ مستحقین تک پہنچانے کا اہتمام کیجیئے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اسکی مالی استطاعت رکھتے ہونگے۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کے اس عمل اور صدقے کو بھرپور قبولیت عطا فرمائیں۔ آمین۔
۔
 ====عظیم نامہ====

Tuesday, 14 March 2017

روزمرہ کے واقعات اور الله کا گرینڈ پلان


روزمرہ کے واقعات اور الله کا گرینڈ پلان



آج سے کوئی دس برس قبل میرا واسطہ کچھ ایسے افراد سے ہوا جو علم میں مجھ سے کہیں زیادہ تھے. انہوں نے اپنے استدلال اور جاذب طرز گفتگو سے میرے ذہن میں طرح طرح کے شکوک پیدا کردیئے. وقت کیساتھ ان تمام اشکالات کا جواب مجھے کتاب اللہ سے حاصل ہوا مگر پھر بھی کبھی ایسا وقت آجاتا تھا جب ذہن زچ ہوجاتا اور ہمت ٹوٹنے لگتی. وجود خدا سے متعلق ان ہی دنوں ایسے ہی ایک سوال نے میرے ذہن کو بری طرح جکڑ لیا. اسی سوال کو ایک رات سوچتے ہوئے میں اپنے روزمرہ کے راستے سے گزر رہا تھا. دل اس اشکال سے شدید مضطرب تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے. اچانک مجھے کچھ فاصلے پر ایک پتھر پر سے روشنی نکلتی ہوئی محسوس ہوئی. ایک لمحے کو میں اپنا اضطراب بھولا اور متجسس ہو کر اس روشنی کی طرف لپکا تو معلوم ہوا کہ ایک پتھر پر ایک 'سی ڈی' الٹی رکھی ہوئی ہے. اس کا چمکیلا حصہ اپر کی جانب ہے جس پر اسٹریٹ لیمپ کی روشنی پڑ کر منعکس ہو رہی تھی. میں نے 'سی ڈی' اٹھائی تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ کسی اسلامی لیکچر کی ریکارڈنگ تھی. گھر جاکر اسے سنا تو اس میں موجود باتوں سے اپنے اس اشکال کا جواب حاصل ہوگیا اور دل کو قرار آگیا. 
.
 کوئی سال بھر پہلے میری طبیعت بگڑنے لگی. ڈاکٹر کے پاس ٹیسٹ کروائے تو سب نارمل آئے لیکن ذہن اور جسم دونوں جیسے نیم مفلوج سے رہنے لگے. دو بار ایسا ہوا کہ کسی دوست نے مجھے باہر چلتے دیکھا تو فون کرکے خیریت دریافت کی کہ آپ بہت بیمار لگ رہے ہیں. جو ان دنوں چہرہ دیکھتا وہ فکرمند ہو کر میری خیریت دریافت کرتا. ڈاکٹرز مجھ سے پوچھتے کہ کیا تمھیں کوئی اسٹریس لاحق ہے؟ کوئی پریشانی ہے؟ میں انہیں بتاتا کہ ہرگز نہیں بلکہ میں تو اپنے رب کی نعمتوں سے الحمدللہ سرشار ہوں اور اتنا پرسکون ہوں کہ خود ہی حیرت ہوتی ہے الحمدللہ. مجھے طرح طرح کے وٹامنز دیئے جانے لگے لیکن طبیعت نے نہ سنبھلنا تھا تو نہ سنبھلی. اللہ پاک سے دعا گو رہا. ایک روز اچانک میرا نیا موبائل شدید گرم ہوگیا. اتنا گرم جیسے اس میں ابھی آگ لگ جائے گی. اسے بند کیا اور کچھ دیر بعد دوبارہ چلایا تو ٹھیک ہوگیا. پھر چند روز بعد یہی ماجرا ہوا اور موبائل دوبارہ گرم ہو کر انگارہ بن گیا. مجھے لگا کہ میرا یہ نیا 'سام سنگ ایس سکس ایج' موبائل ناکارہ ہونے والا ہے. آخری کوشش کے طور پر میں نے اس کی گہری جانچ کی تو معلوم ہوا کہ کچھ ایسی 'ایپلی کیشنز' اس میں انسٹال ہوگئی ہیں جو نہ صرف موبائل کی کارکردگی پر شدید بوجھ ڈال رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے 'کونفلکٹ' یعنی ٹکرا بھی رہی ہیں. میں نے فوری طور پر انہیں ہٹایا تو موبائل واپس ٹھیک ہوگیا اور اس کے بعد آج تک بلکل ٹھیک ہے. میں نے حسب عادت اس واقعہ پر غور کیا کہ کہیں اسمیں میرے لئے رب کی جانب سے کوئی پیغام تو نہیں؟ احساس ہوا کہ یہی معاملہ میرے اپنے ذہن کے ساتھ بھی ہورہا ہے. ان دنوں میں دو مخالف مکاتب فکر کی اصولی بحث کو بیک وقت تقابلی انداز میں پڑھ رہا تھا. ساتھ ہی دونوں کے نمائندہ استادوں سے گفتگو بھی کررہا تھا. اصول الفقہ کو اس سے قبل میں نے نہیں پڑھا تھا اور اب اچانک میں دو مخالف نقطہ نظر کے انتہائی 'ایڈوانس کانسپٹس' کو اپنے ذہن پر زبردستی لاد رہا تھا، جس سے میرے ذہن کی 'ہارڈ ڈسک' کریش ہورہی تھی. جیسے ہی بات سمجھ آئی تو ڈاکٹر کو بتایا. اس نے مثالیں دے کر ثابت کیا کہ یہی اصل جڑ ہے. چانچہ کچھ عرصہ کیلئے میں نے ہر طرح کی تحقیق ترک کرکے ذہن کو ہنسنے بولنے والی تفریحات میں مصروف کرلیا. کچھ ہفتوں تک فیس بک سے بھی واجبی سا تعلق رکھا. نتیجہ یہ ہوا کہ طبیعت الحمدللہ پوری طرح سے سنبھل گئی.
.
 ایسے ان گنت واقعات میرے پاس ہیں جو طوالت کے سبب نہیں درج کررہا. مگر دوستو ان واقعات کو آپ کے گوش گزار کرنے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ مومن کی زندگی میں 'انہونی' یا 'حسن اتفاق' نام کی کوئی شے نہیں ہوتی. وہ اس حقیقت کی معرفت پاچکا ہوتا ہے کہ زندگی کے خارج و باطن میں ہونے والی ہر واردات، ہر حادثہ، ہر واقعہ دراصل قادر المطلق کے 'گرینڈ پلان' ہی کا ایک چھوٹا سا جزو ہے. اس کا ہونا یا تو خالص 'امر الہی' کا ظہور ہے یا پھر 'اذن خداوندی' کا تقاضہ. سادہ الفاظ میں ہمارے اردگرد ہونے والے واقعات کے ذریعے رب العزت ہمیں مختلف پیغامات منتقل کرتے ہیں. اگر ہم روزمرہ کے ان واقعات میں غور و فکر کرکے منشاء خداوندی کھوجنے اور دیکھنے کی صلاحیت حاصل کرلیں تو پھر یہ پیغامات کبھی ہماری الجھنوں کا حل ثابت ہوتے ہیں، کبھی ہماری بداعمالی پر سرزنش کا کام کرتے ہیں، کبھی کسی غلط روش پر تنبیہہ کرتے ہیں اور کبھی ہماری تحقیق میں معاونت فراہم کرتے ہیں. یوں تو قران حکیم کے طالبعلم کو جابجا کتاب اللہ میں اسکی ترغیب ملتی ہے مگر سورہ یوسف تو مانیئے اسی ترغیب کا شاہکار معلوم ہوتی ہے. جس میں یوسف علیہ السلام کی زندگی کا ایک ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جن کی مجموعی حکمت جب یوسف علیہ السلام پر سورہ کے آخر میں آشکار ہوتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تمام بظاہر غیر متعلق واقعات درحقیقت تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے تھے اور جن سب نے مل کر انہیں اس منزل تک پہنچایا ہے جو مطلوب تھی. وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ 
.
 "... واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے، بے شک و ہ علیم اور حکیم ہے. اے میرے رب، تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا"
.
 ====عظیم نامہ====

Monday, 13 March 2017

طرز اختلاف یا تذلیل


طرز اختلاف 
یا تذلیل 



آج سارا دن کے بعد فیس بک کھولا تو یہ دیکھ کر شدید کوفت ہوئی کہ کچھ مذہبی رجحان رکھنے والے دوست رائے سے اختلاف کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں، پھبتیاں کس رہے ہیں، تذلیل کر رہے ہیں. ان میں سے ایک طرف کچھ صاحبان مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رح کے معتقدین ہیں اور دوسری جانب وہ حضرات ہیں جو مولانا وحید الدین خان صاحب کی محبت میں فنافی الشیخ کی منازل سر کرچکے ہیں. پہلے قبیل کو اہل مدارس کا بیانیہ سپورٹ کررہا ہے اور دوسرے گروہ کو غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ. دھواں دھار لڑائی جاری ہے اور تاحال دونوں جانب سے مغلظات کا اسکور قریب قریب برابر ہے.
.
 سوچتا ہوں اگر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رح اس طرز اختلاف کو اپنے نام پر ہوتا دیکھ لیں تو شائد اپنا دل تھام کر بیٹھ جائیں. تصور کرتا ہوں اگر مولانا وحید الدین خان اپنے نام لیواؤں کو ایسی تحقیری زبان استعمال کرتا دیکھ لیں تو شائد اپنا سر پیٹ لیں. ڈاکٹر اسرار احمد رح نے اپنی پوری زندگی قران حکیم کی تعلیم اور خلافت کی جدوجہد میں بسر کی مگر اس کے باوجود مولانا امین احسن اصلاحی رح کو اپنے اساتذہ میں شمار کرکے ویسی ہی عزت دیتے رہے. جاوید احمد غامدی صاحب سے جب میری اپنی ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ جب جب مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رح کا ذکر کرتے ہیں تو ایک اضافی ادب ان کا احاطہ کرلیتا ہے. وہ بتاتے ہیں کہ علمی اختلاف کیسے کیا جاتا ہے؟ یہ مولانا مودودی رح سے سیکھا.
.
 افسوس کہ آج ان ہی صاحبان علم کا نام لے کر ایسا غیر علمی انداز اختیار کیا جارہا ہے جسے دیکھ کر غصہ بھی آتا ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے. غصہ اسلئے کہ یہ غیر شائستہ انداز اپنانے والے جاہل نہیں بلکہ مجھ جیسے سے کہیں زیادہ علم رکھتے ہیں اور افسوس اسلئے کہ دونوں طرفین تعمیر سمجھ کر تخریب کا حصہ بن رہے ہیں. میں آپ دونوں مکاتب فکر سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ صبر و شائستگی کا دامن تھامیں. اگر ایک جانب سے گالی دی جائے تو دوسری جانب بردباری کا مظاہرہ کرے. اگر دوسری جانب سے دل دکھایا جائے تو پہلی جانب حکمت سے کام لے. اگر میری اس تحریر سے آپ میں سے کسی کو چوٹ پہنچے تو میں پیشگی معافی مانگتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ میرا مقصد آپ کی تذلیل ہرگز نہیں بلکہ اخوت و مروت ہے.
.
 ====عظیم نامہ====

Saturday, 11 March 2017

استغفار کی اہمیت


استغفار کی اہمیت



تمام اللہ والو میں ایک قدر مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ وہ استغفار کا کثرت سے اہتمام کرتے ہیں. احادیث مبارکہ میں استغفار کے ایسے ایسے فضائل بیان کئے گئے ہیں جن کے حصول کیلئے اصولی طور پر ایک سچا مسلمان دن رات تگ و دو کرسکتا ہے. گناہ سے خلاصی ہو، قلب کی صفائی ہو، رزق کی کشادگی ہو یا پھر مصیبتوں سے نجات - استغفار کی کثرت ہمیشہ مومن کا لازمی ہتھیار ہوتی ہے. ایک حدیث کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن میں ستر بار اور دوسری صحیح حدیث کے مطابق دن میں سو بار استغفار کیا کرتے تھے. دوستو کیا آپ جانتے ہیں کہ سو بار استغفار پڑھنے کیلئے مشکل  سے پانچ منٹ درکار ہوتے ہیں؟ نہ ہی اس کے پڑھنے کیلئے کسی خاص وقت یا جگہ کی کوئی قید ہے. گویا آپ چاہیں تو کسی خاص وقت یا خاص نماز کے بعد پڑھیں ورنہ چاہیں تو اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اپنے گناہوں کو اور رب کی رحمت کو سوچتے ہوئے استغفار کر سکتے ہیں. پھر کیسی محرومی کی بات ہے کہ میں اور آپ اس پانچ منٹ کے ذکر کو ترک کرکے استغفار کے لاتعداد فضائل سے خود کو محروم کرلیں؟ کیوں نا کم ازکم ہم سو مرتبہ استغفار پڑھنے کو اپنا روز کا معمول بنالیں؟ آپ زیادہ سے زیادہ بھی استغفار پڑھ سکتے ہیں کہ یہ اور بھی سعادت کا موجب ہوگا مگر یہ نہ ہو کہ جوش میں دو چار روز تو دس ہزار مرتبہ استغفار کی تسبیح پڑھ لی اور اس کے بعد اکتا کر ترک کردیا. بہتر و افضل یہی ہے کہ عمل یا ذکر بھلے کم ہو مگر اپنی روح کے ساتھ ہو اور مسلسل ہو. پھر یہاں تو صرف سو مرتبہ پڑھ لینا سنت بھی ہے. 
.
 ====عظیم نامہ====