قوت غضب
دیگر نعمتوں کی طرح رب العزت کی جانب سے ہمیں عطا کردہ کوئی بھی جذبہ یا صفت اپنی اصل میں منفی نہیں ہے. البتہ اس کا غلط استعمال اسے ضرور منفی بناسکتا ہے. یہاں تک کے وہ جذبات بھی کہ جن کے بارے میں عامیانہ تاثر یہ ہی ہے کہ شائد ان کا انسانی تذکیر و ارتقاء میں کوئی ہاتھ نہیں. ان جذبات کو بھی ذرا دقت نظر سے دیکھیں تو وہ خیر سے مزین نظر آتے ہیں. مثال کے طور پر شہوت کا جذبہ ہر مسلمان بلخصوص نوجوانوں کیلئے ایک بڑا اور مستقل فتنہ بنا رہتا ہے. لیکن اگر شہوت کا جذبہ انسان میں موجود نہ ہو تو نہ ہی وہ بعد از نکاح جنسی تعلق قائم کرسکے اور نہ ہی افزائش نسل ممکن رہے. اسی طرح انسان میں جو قوت غضب ودیعت ہے، اس سے بھی طرح طرح کے فتنے برآمد ہوتے ہیں. ان ہی ممکنہ فتنوں کی بنیاد پر عام صورت میں غصہ کو حرام قرار دیا گیا ہے. مگر کیا ہو کہ یہ قوت غضب کسی انسان میں مفقود ہو جائے؟ اگر ایسا ہو تو اس انسان سے غیرت و حمیت جیسی اونچی صفات کا یکسر خاتمہ ہو جائے گا اور پھر وہ ان مقامات پر بھی غضب یا غصہ کرنے سے قاصر رہے گا جہاں ضروری ہے. الغرض یہ کہ ہر جذبہ اپنی اصل میں خیر ہے. گو ہمیں سمجھ کر اس کا استعمال درست سمت میں کرنا ہے.
.
یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات ایک جذبے سے پیدا ہونے والے فتنے پر دوسرے جذبے کی مدد سے قابو پایا جاسکے. مثال کے طور پر ناجائز شہوت کی لت کو چھوڑنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان اپنی قوت غضب کو اس پر حاوی کردے. بلکہ شہوت ہی کیا؟ کوئی بھی ایسا گناہ جو عادت یا لت بن کر چمٹ جائے، اسے چھوڑنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان خود پر غضب ناک ہو اور یک لخت اسے چھوڑ دینے کا تہیہ کرلے. جب جب اس گناہ کا مبہم سا خیال اٹھے تب تب غضب ناک ہو کر اسے جھٹک دے. یاد رکھیں کہ انسان صرف عقلی وجود نہیں ہے بلکہ وہ اپنے باطن میں ایک جذباتی شاکلہ بھی رکھتا ہے. وہ نفسیاتی گناہ جو عادت اور لت بن جائے، اسے فقط عقلی استدلال یا شائستہ ترتیب سے چھوڑنا قریب قریب ناممکن ہے. مجھے امید ہے کہ آپ میں سے اکثر کے سامنے ایسی مثالیں موجود ہونگی جہاں کوئی انتہائی بگڑا ہوا غصیلا جھگڑالو شخص جو شراب و شباب کا ساری زندگی رسیا رہا ہو ، اچانک ایسا سدھرتا ہے کہ گناہ کی جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا. اس کے برعکس بعض اوقات ایک بظاہر نیک انسان کو کوئی گناہ ایسا لت بن کر چمٹتا ہے کہ وہ باوجود بار بار کی کوشش و توبہ کے اسے چھوڑ نہیں پاتا. وجہ یہی ہے کہ پہلا بگڑا ہوا شخص بھرپور قوت غضب رکھتا تھا جسے ڈھال بنا کر اس نے جب ترک گناہ کا فیصلہ کیا تو استقامت سے اس پر قائم رہ سکا. جب کے دوسرا نیک شخص اپنی طبیعت کی نرمی کی وجہ سے قوت غضب کا درست استعمال نہ جانتا تھا، چنانچہ بار بار ترغیب گناہ کے سامنے ہتھیار ڈالتا چلا گیا.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment