'اسلام و فوبیا' (اسلام سے بغض و نفرت)
.
کل جب آفس سے فارغ ہوا تو طبیعت گھر جانے پر مائل نہ تھی. لندن میں ہونے والی تقاریب کا آن لائن جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ آفس سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر فلسفیوں کی ایک بڑی تقریب کا انعقاد ہورہا ہے جہاں موضوع ہے 'انسانی شخصیت پر بڑھتی عمر کے اثرات' اور یہاں ایک نمائندہ تعلیمی ادارے (کنگز کالج لندن) کی فلسفے کی پروفیسر خطاب کریں گی. کچھ تذبذب کے بعد میں نے وہاں جانے کا ارادہ کیا اور وقت سے پہلے جا دھمکا. یہ پرانے شاہی طرز کا ایک بڑا آڈیٹوریم تھا، جہاں اچھی خاصی تعداد میں لوگ موجود تھے. شرکاء کا جائزہ لیا تو منکشف ہوا کہ وہ قریب قریب سب ہی انگریز ہیں، چالیس سے ستر سال تک کی عمر والے ہیں اور چہرے مہرے سے ہی مفکر نظر آتے ہیں. مجھے اپنا آپ ان کے درمیان اجنبی محسوس ہوا، وہ بھی کن آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ پاکستانی مسلمان یہاں کیا کررہا ہے؟ خیر ہم بھی ڈھیٹ بنے رہے اور حسب عادت آگے کی ایک نشست پر قبضہ کرلیا. کچھ ہی دیر میں خاتون اسپیکر تشریف لائیں اور انہوں نے گفتگو کا آغاز کیا. بڑی پرمغز گفتگو ہوئی، جس میں انہوں نے انسانی شخصیت پر کیا کیا عوامل اثر انداز ہوتے ہیں اور کیسے بڑھاپے میں ذہنی کمزوری شخصیت کو بدل سکتی ہے؟ جیسے سوالوں کا جائزہ لیا. بطور سامع اکثر باتوں سے اتفاق ہوا، کچھ سے اختلاف ہوا اور کچھ بلکل نئے زاویئے سامنے آئے. گفتگو ختم ہوئی تو تالیاں بجا کر ہم نے اپنا بستہ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکلنے لگے. ٹھیک اسی وقت دیوار پر لگی دیو قامت اسکرین بدلی اور اب وہاں ایک نیا موضوع لکھا ہوا نظر آیا ، جس نے میرے پیر جکڑ لئے. موضوع تھا 'اسلام و فوبیا' (اسلام سے بغض و نفرت). جو اشتہار اس تقریب کا میں دیکھ کر یہاں آیا تھا، اس میں ایسے کسی موضوع کا دور دور تک ذکر نہیں تھا. ظاہر ہے، ہم نے پھر بستہ اتارا اور جلدی سے جا کر اسی نشست پر اپنا قبضہ دوبارہ جما لیا.
.
تین فلسفیوں کا ایک پینل پنڈال کے سامنے براجمان ہوگیا. تینوں فلسفے کے استاد تھے. دو کی سوچ ملحدانہ تھی جب کے تیسرے نے اپنا تعارف بطور یہودی کے کروایا. میں محسوس کر سکتا تھا کہ میری موجودگی کئی لوگوں کو اور مینجمنٹ کو شائد بے چین کر رہی ہے. ان تینوں مقررین نے یکے بعد دیگرے تقاریر کیں. جس میں انہوں نے بتایا کہ 'اسلام و فوبیا' کیا ہے؟ اور کیوں ہے؟ حیران کن بات یہ تھی کہ ان کی گفتگو کا محور 'اسلام و فوبیا' میں مبتلا لوگوں کی حوصلہ شکنی نہیں تھی بلکہ اس موضوع کی آڑ میں ان تجاویز کو پیش کرنا تھا جس سے مسلمانوں کی مغربی اقدار کے مطابق ذہن سازی کی جاسکے. کچھ اس طرح کی باتیں اور تجاویز کو پیش کیا گیا کہ
'میں نے اسلام سے ارتداد کرنے والو سے گفتگو کرکے یہ جانا ہے کہ اسلام کے عقائد پر سخت تر ہو لیکن مسلمانوں پر نرم تر ہو جاؤ اور انہیں ہر حاصل مراعات میں شامل کرو'.
'یہاں کے مسلمانوں سے پردہ ختم کیا جائے. مخلوط محفلوں کو یقینی بنایا جائے. لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکولوں کو الگ الگ نہ رکھا جائے'
.
'مسلمانوں میں قران کی سمجھ میں بہت بڑے اختلافات ہیں. ان کے درمیانی اس وقت زبردست تجدید نو کی جنگ ہو رہی ہے. ہمیں ان میں جدید تعبیرات اور سوچ کو فروغ دینا ہے. انہیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ مسلمان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ قران سے احکام زندگی اخذ کرنے لگیں'
.
'ہمارے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب چونکہ فساد کی جڑ ہے، اسلئے مذاہب پر پابندی لگا دی جائے. ان کی یہ سوچ صحیح ہے مگر اس پر عمل درآمد ناممکن ہے. اگر کبھی ہو بھی گیا تب بھی انسانی ذہن مذہب جیسی کوئی اور چیز بنا کر فساد کرے گا'
.
'مسلمانوں کے دل سے یہودیوں کی نفرت نکانی چاہیئے. وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہودیوں نے احادیث کی کتابوں میں غلط روایت شامل کرکے دین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی.'
.
اسی طرح کی اور بھی دیگر باتیں ہوتی رہیں. پروگرام ختم ہوگیا اور سب جانے لگے. ہم نے پھر پورے خشوع و خضوع سے بستہ سنبھالا اور باہر نکلنے لگے. پیچھے سے آواز آئی ، تمھیں آج کی گفتگو کیسی لگی؟ مڑ کر دیکھا تو شرکاء میں سے ہی کوئی اجنبی نے یہ سوال پوچھا تھا. میں نے مسکرا کر کہا.
.
"عجیب بات ہے کہ دو ملحد اور ایک یہودی بیٹھ کر 'اسلام و فوبیا' کی وجوہات اور اس کے تدارک پر لیکچر دے رہے ہیں اور اس پورے ملک میں کوئی ایک مسلم اسکالر نہ مل سکا جو مسلمانوں کی جانب سے ان کا نظریہ رکھ پاتا؟ اور جس سے شرکاء سوالات کرسکتے؟ اگر آپ واقعی 'اسلام و فوبیا' کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں تو اگلی بار کسی ایسے مسلمان کے ساتھ اسٹیج شیئر کریں جو مسلم اکثریت کا نمائندہ ہو. البتہ یہ دھیان رہے کہ کسی ایسے تجدد پسند مسلمان کو نہ پکڑ لائیں جو صرف آپ کی باتوں کی تائید کرسکتا ہو ان پر نقد نہیں. چاہیں تو اس میں مدد کرسکتا ہوں آپ کی. آپ لوگ فلسفے کے استاد ہیں یا فلسفے کے طالبعلم. میں فلسفہ آپ جتنا نہیں جانتا، لیکن جتنا جانتا ہوں، اس کے مطابق فلسفہ نام ہے کسی حقیقت کو ہر ممکنہ زاویے سے جانچ کر مکالمہ کرنے کا. لہٰذا آپ میں یہ جرات ہونی چاہیئے کہ مقابل نقطہ نظر کو بھی ایک ہی اسٹیج پر سن اور سمجھ سکیں."
.
مخاطب کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا. لہٰذا میں نے مسکرا کر نرمی سے بات کا خاتمہ کیا، بستہ سنبھالا اور اجازت لی.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment