پتھر کے شیطان کو پتھر مارنا کہاں کی عقلمندی ہے؟
.
کچھ دیر قبل کسی کی شیئر کردہ پوسٹ اپنی فیس بک وال پر شیئر کی جسے میرے علاوہ بھی بہت سے افراد شیئر کرچکے ہیں. ان افراد میں محترم رعایت اللہ فاروقی، محترم جمیل اصغر جامی، محترم قیصر شہزاد اور محترم مولانا اسحٰق عالم جیسے صاحبان علم بھی شامل ہیں. اس شیئر کردہ پوسٹ کو جہاں بہت سے لوگوں نے سراہا وہاں کچھ سادہ لوح افراد ایسے بھی تھے جو اسے پڑھ کر بھڑک اٹھے. کچھ کی غیرت ایمانی تو اس وقت تک ٹھنڈی نہ ہوئی جب تک انہوں نے مجھے برابھلا نہ کہہ لیا. گو کے اس پوسٹ کی خوبصورتی یہی تھی کہ اسے مزید نہ کھولا جائے مگر اب یہ حال دیکھ کر اس کا مختصر خلاصہ لکھ رہا ہوں
.
پوسٹ کے پہلے حصے میں ملحدین اور مخالفین اسلام کا وہ مشہور اعتراض درج ہے جو وہ ہر سال حج کے موقع پر اٹھایا کرتے ہیں. اعتراض کچھ یوں ہے کہ : "پتھر کے شیطان کو کنکریاں مارنا کہاں کی عقلمندی ہے؟" . اس سوال یا اعتراض کا جواب ایک مسلم کیلئے تو اتنا کافی ہے کہ یہ حکم خداوندی ہے اسلئے ہمیں مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں. مگر کیا یہی جواب کسی ملحد کیلئے بھی درست ہوگا؟ ظاہر ہے کہ نہیں. لہٰذا پوسٹ میں اس سوال کا جواب مکالمے کے اس انداز سے دیا گیا جسے 'الزامی جواب' کہا جاتا ہے. جواب کچھ یوں ہے کہ : اگر پتھر کے شیطان کو کنکری مارنا عقلمندی نہیں تو پھر امریکہ کے جھنڈے کو سیلوٹ مارنا کیسے عقلمندی ہوگی؟ جس طرح امریکہ کا جھنڈا امریکہ کے وجود کا علامتی اظہار ہے اور اسی لئے امریکی فوجی اسے ملک کی علامت سمجھ کر سیلوٹ مارتے ہیں. ٹھیک اسی طرح پتھر کا یہ مجسمہ شیطان کا علامتی نشان بنایا گیا ہے جسے کنکریاں مار کر مسلمان اپنی شیطان بیزاری کا اعلان کرتے ہیں.
.
یہ پوسٹ ملحدین کے ایک گستاخانہ اعتراض کا الزامی جواب ہے. امید ہے کہ اب بات واضح ہوئی ہوگی.


جو لوگ پتھر پوجتے ہے، وہ ٹھیک اسی لاجک پہ، کسی کی علامت بنا کے پوچتے ہے،،،
ReplyDeleteکوئی دوسرا علامت بنا کے پوجے تو جہالت، آپ علامت بنا کے مارو، تو ثواب کیا یہ کھلا تضاد نہیں