Thursday, 22 September 2016

خودبخود

خودبخود



زیرو کا بلب ایڈیسن نے بنایا اور سورج خودبخود بن گیا.
ملک کا نظام انسانوں نے بنایا اور کائنات کا نظم خودبخود بن گیا.
اداروں کے قوانین قانون سازوں نے بنائے اور مادی قوانین خود بخود بن گئے. 
مادے کے ڈھیر سے جیتا جاگتا عاقل انسان خود بخود بن گیا. 
"یہ کائنات خودبخود چل رہی ہے". یہ بات ملحد نے گاڑی چلاتے ہوئے کہی.

کون بہتر؟


کون بہتر؟



ایک شخص کے تین بیٹے تھے. ایک روز اس نے ان تینوں کو جمع کرکے تلقین کی کہ دیکھو میں شام تک کیلئے گھر سے باہر جارہا ہوں. اگر میری غیرموجودگی میں کچھ مہمان آجائیں تو تم لازمی مہمان نوازی کے حقوق ادا کرنا. یہ کہہ کر وہ شخص اپنا کام نمٹانے گھر سے چلا گیا. کچھ دیر بعد کسی نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا. معلوم ہوا کہ کچھ مہمان ملنے آئے ہیں. اب ان بیٹوں نے جب مہمانوں کی صورت دیکھی تو پہلا سب سے بڑا بیٹا تو جلدی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا. دوسرا منجھلا بیٹا کمرے میں تو نہ چھپا مگر واجبی سا سلام کرکے کونے میں بیٹھ کر لاتعلقی سے اپنا ناول پڑھنے لگا. ان دونوں بڑے بیٹوں کے برعکس چھوٹے بیٹے نے جو اپنی عمر اور طاقت کے لحاظ سے بہت کم تھا، نہ صرف مہمانوں کا پرجوش استقبال کیا بلکہ اپنی ٹوٹی پھوٹی گفتگو سے ان کا دل بھی بہلانے لگا. گو چھوٹا ہونے کے سبب اسے ٹھیک سے بات کرنا نہیں آتا تھا. پھر وہ اٹھا اور جا کر مہمانوں کیلئے چائے بنانے لگا لیکن اسے تو چائے بنانا بھی ٹھیک سے نہ آتی تھی. لہٰذا اس نے پانی سے پہلے دودھ ڈال دیا اور دودھ کے بعد پتی ڈالی. چینی بھی کچھ زیادہ گرگئی اور اس نے پیالی بھی زیادہ بھر دی. اب وہ اس چائے کو بامشکل سنبھالتا، لڑکھڑاتا، ڈگمگاتا مہمانوں کے پاس لانے لگا. اس کے ہاتھ توازن نہ رکھ پاتے تھے اور چائے تھوڑا تھوڑا اچھل کر طشتری میں پھیلتی جاتی تھی. اس نے بسکٹ بھی پیش کئے مگر جس برتن میں انہیں رکھا وہ چٹخا ہوا تھا. ان سب کوتاہیوں کے باوجود وہ مہمانوں کی ہر ممکنہ تواضع کرتا رہا. شام ڈھلے باپ واپس آیا تو اسے اندازہ ہوگیا کہ کچھ مہمان گھر آئے تھے. اس نے بیٹوں سے استفسار کیا کہ تم میں سے کس نے مہمان نوازی کے حقوق ادا کئے ؟
.
قارئین آپ کا کیا خیال ہے کہ ان تینوں بیٹوں میں سے وہ کون تھا جس نے حقیقی معنوں میں مہمان کے حقوق ادا کرنے کی سعی کی؟ مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے ہر ایک کا جواب یہی ہوگا کہ چھوٹے بیٹے نے حقوق ادا کئے. اس نے چاہے کتنی ہی غلطیاں کی ہوں مگر کم از کم اس نے اپنی صلاحیت کے مطابق مقدور بھر کوشش تو کی. دوستو اس فرضی کہانی کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جو افراد عملی طور پر بہتری کی کوشش کرتے ہیں، وہ اپنی اس کوشش میں کسی ممکنہ کمی اور غلطی کے باوجود بھی ان افراد سے بہرحال ہزار درجے بہتر ہیں جو صرف فصیح و بلیغ باتیں بگھارتے ہیں. افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے خود ساختہ مفکرین تنقید کرنے میں تو سب سے آگے ہیں مگر عملی میدان میں ان کا اپنا کردار صفر بٹا صفر ہے. یہ لوگ فلاحی (چیریٹی) اداروں میں کیڑے نکالتے ہیں مگر خود کسی فلاحی کام کا عملی حصہ نہیں بنتے. یہ تعلیمی شرح کے کم ہونے پر طعنہ کستے ہیں مگر خود کسی غریب کی تعلیم کا بندوبست نہیں کرتے. یہ ملک میں بڑھتی بیروزگاری کا رونا روتے ہیں مگر ذاتی وسائل رکھنے کے باوجود کسی مجبور کی نوکری کا بندوبست نہیں کرتے. 
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا 
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے 
.
====عظیم نامہ====

Monday, 19 September 2016

مایوسی کے پیغمبر


مایوسی کے پیغمبر



بد مزاج انسان کا پسندیدہ جملہ: "بھائی سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے" 
(حالانکہ اکثر سچ کڑوا نہیں ہوتا بلکہ آپ کا لہجہ اور الفاظ کا انتخاب اسے کڑوا بنادیتا ہے)
.
منفی ذہنیت والے انسان کا پسندیدہ جملہ: "بھائی میں تو بس آئینہ دکھاتا ہوں" 
(حالانکہ منفیت کا مریض مثبت زاویہ دیکھ ہی نہیں سکتا. وہ تو صرف ماتم کرسکتا ہے، کوسنے دے سکتا ہے)
بے عمل ناقد انسان کا پسندیدہ جملہ: "بھائی میں تو مسلسل تنقید ہی سے لوگوں میں آگہی پیدا کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہوں." 
(حالانکہ عملی میدان میں مثبت تبدیلی لانے والے افراد ہمیشہ اپنی گفتگو میں مثبت ہوتے ہیں اور صرف 'تعمیری' تنقید کیا کرتے ہیں) 
.
مایوس انسان کا پسندیدہ جملہ: "بھائی یہ معاشرہ ہی سڑ چکا ہے، مجھ اکیلے کے کرنے سے کیا ہوگا؟
(حالانکہ سچی تبدیلی کے خواہشمند شکوے کرنے کی بجائے اپنا اپنا کردار نبھاتے ہیں)
.
دوستو میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تنقید نہ کریں یا مسائل کو زیر بحث نہ لائیں. ضرور لائیں مگر اس میں توازن پیدا کریں. جہاں زید حامد کی طرح خوش فہمی کا چیمپئن بننا حماقت ہے وہاں حسن نثار کی طرح مایوسی کا پیغمبر بن جانا بھی دانش کی دلیل نہیں. تنقید ضرور کریں مگر تعریف کے پہلوؤں پر بھی اپنی نظر کرم کیجیئے. مثبت انداز میں تنقید کیجیئے کہ جسے پڑھ کر قاری مایوسی کی دلدل میں نہ جاگرے بلکہ اس میں اپنے سدھار کا جذبہ پیدا ہو. یہ کلیہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ جس صحبت میں بیٹھو گے ویسے ہی جلد یا دیر تم بھی ہو جاؤ گے، لہٰذا اپنی صحبت کا فیصلہ سوچ سمجھ کر اس حدیث کی روشنی میں کرو 
.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہاروں کی بھٹی. تو مشک والے کے پاس سے تم بغیر فائدے کے واپس نہ ہوگے، یا تو اسے خریدو گے یا اس کی بو پاؤ گے. اور لوہار کی بھٹی تیرے جسم کو یا تمہارے کپڑے کو جلا دے گی یا تم اس کی بدبو سونگھو گے۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2021)
.
====عظیم نامہ====

Friday, 16 September 2016

جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے


جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے



کہتے ہیں کہ ایک درویش اپنی دھن میں مگن یہ کہتا جارہا تھا 
.
"جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے ... جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے" . 
.
ایک شریر انسان کو جو مستی سوجھی تو اس نے درویش کو کنکر پھینک مارا. 
.
درویش نے پلٹ کر اس شخص کو گھورا تو اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے طنزیہ جملہ کسا 
.
"ارے کیا ہوا میاں؟ مجھے کیوں دیکھتے ہو؟ تم ہی تو کہتے ہو کہ جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے؟"
.
درویش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا 
.
"ہاں یہی سچ ہے کہ جو کرتا ہے سو اللہ کرتا ہے .. میں تو بس یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کرنے کرانے میں اپنا منہ کس نے کالا کیا؟"
عزیزان من ، اس کائنات میں سب کچھ اللہ ہی کی مرضی اور اجازت سے ہورہا ہے. مگر اسی نے اپنی مرضی و اجازت سے انسان کو آزادی اختیار دے رکھا ہے. وہ 'علم' رکھتا ہے مگر اس کا 'علم' رکھنا آپ کو دیئے 'اختیار' کو سلب نہیں کرتا. 
.
====عظیم نامہ====

Thursday, 15 September 2016

تقدیر سادہ الفاظ میں کیا ہے؟



تقدیر سادہ الفاظ میں کیا ہے؟


.
تقدیر کے مسئلے کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پیچیدہ ترین مسئلہ تسلیم کیا جاتا ہے. فلسفہ، مذہب، سائنس، منطق سب اس موضوع پر طبع آزمائی کرتے رہے ہیں اور کسی متفقہ مدلل نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں. متکلمین بھی ایک زمانے تک جبریہ یعنی مکمل جبر اور قدریہ یعنی مکمل اختیار جیسی انتہاؤں میں مبتلا رہے ہیں. لہٰذا یہ سوچنا درست نہیں کہ اس کی باریکیوں کو آپ سوشل میڈیا پر سمجھ لیں گے. بہرحال میری سمجھ کا ایک اجمالی خاکہ درج ذیل پانچ حقیتوں میں مذکور ہے. جو تمام ایک دوسرے سے منسلک تو ضرور ہیں مگر اپنا جداگانہ وجود رکھتی ہیں اور جنہیں اگر آپ جدا جدا سمجھ لیں تو مسئلہ تقدیر کو کسی حد تک جان پائیں گے ان شاء للہ
.

١. علم الٰہی
_____________
یعنی اللہ کو ہر بات کا بناء ماضی، حال اور مستقبل کی تفریق کے علم ہے لیکن کسی بات کا رب کو علم ہونا اور کسی پر رب کا جبر کرنا دو علیحدہ حقیقتیں ہیں. رب کا علم کیسے کام کرتا ہے؟ یہ ہم اپنی انسانی عقل سے کبھی نہیں جان سکتے کہ محدود غیر محدود کا احاطہ نہیں کرسکتا. زمان و مکان میں مقید مخلوق زمان و مکان سے آزاد خالق کے علم کو نہیں جان سکتی.
.
"اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور جانتا ہے جو کچھ زمین میں اور دریا میں ہے، اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ کتاب روشن میں ہیں۔" (سورہ الانعام ٥٩)
.
٢. تقدیر مبرم حقیقی
______________________
.
تقدیر دو حصوں میں منقسم ہے. اس کا پہلا حصہ وہ ہے جس میں ہم مجبور محض ہیں اور جسے بدلا نہیں جاسکتا. جیسے ہمارا مرد یا عورت ہونا یا ایک خاص ملک و گھر میں پیدا ہونا، ہمارا 'ڈی این اے کوڈ' وغیرہ. اسی طرح کسی کی موت کا یا عذاب کا حتمی فیصلہ بھی اسی میں شامل ہے
.
"’’(فرشتوں نے کہا:) اے ابراہیم! اس (بات) سے درگزر کیجئے، بیشک اب تو آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آچکا ہے، اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘ (سورہ الهود ١١)

.
٣. تقدیر مبرم غیر حقیقی
__________________________
تقدیر کا وہ دوسرا حصہ جس میں دعا اور کوشش سے تبدیلی ممکن ہے جیسے دعا اور دوا کرو گے تو فلاں بیماری سے نجات پاؤ گے ورنہ نہیں.
.
"صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے۔‘‘ (ترمذی)
.
٤. آزادی ارادہ و اختیار
_______________________
دین کا سارا مقدمہ اسی پر قائم ہے کہ انسان اس دنیا میں آزادی ارادہ و اختیار کے ذریعے جو فیصلے کرے گا، روز آخرت اسی کی جزاء پائے گا. لہٰذا اس سے بڑا کوئی مغالطہ نہیں کہ کوئی عقلمند یہ سوچے کہ وہ مطلق مجبور ہے. یہ بات ہم پر دین اور تجربے دونوں سے ثابت ہے کہ انسان زندگی کے اچھے برے فیصلے اکثر اپنی مرضی سے لینے پر قادر ہوتا ہے. یہ اختیار 'تقدیر مبرم غیر حقیقی' کے دائرے میں ہی کام کرتا ہے.
.
"ہم نے تو اسے راہ دکھائی تو اب وہ خواہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا" (سورہ الدھر ٣)
.
" یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی، پھر اس کو اس کا پورا پورا بدل دیا جائے"
(سورہ النجم)
.
٥. نتیجہ 
_________
.
کوشش انسان کے ہاتھ میں ہے مگر موافق و مخالف نتیجہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے. اسی لئے شریعت میں ہم صرف کوشش کے مکلف ہیں نتائج کے نہیں. گو عموم میں اس دارالا متحان کا اصول یہی ہے کہ اچھے برے دونوں اقدام کو انسان کے مطلوبہ نتیجے تک پہنچنے دیا جائے. مگر دو صورتوں میں قادر المطلق نتیجہ انسانی ارادے کے برخلاف کردیتے ہیں. پہلا جب کی گئی کوشش رب کے مجموعی نظام و مشیت یعنی اس کے کائناتی گرینڈ پلان سے ٹکراتی ہو. دوسرا جب کسی کی دعا اس عمل کے خلاف مقبول ہوچکی ہو. چانچہ بعض اوقات ایک قاتل اپنے ارادہ و اختیار سے گولی چلاتا ہے مگر گولی اسی بندوق میں اٹک جاتی ہے اور یوں اس کا ارادہ مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کرپاتا.
.
"اور پھر اس کے باغ کے پھل آفت میں گھیر دیئے گئے تو وہ ان اخراجات پر ہاتھ ملنے لگا جو اس نے باغ کی تیاری پر صرف کئے تھے جب کہ باغ اپنی شاخوں کے بل اُلٹا پڑا ہوا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ اے کاش میں کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہ بناتا " (سورہ الکہف ٤٢)
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 14 September 2016

وہ عورت پڑوسی کے ساتھ بھاگ گئی


 وہ عورت پڑوسی کے ساتھ بھاگ گئی



سوال:

میرے ایک کزن نے بہت محبت سے شادی کی اور اسی سے اس کے بچے ہوئے. وہ عورت پڑوسی کے ساتھ چکر چلا کر بھاگ گئی. میرا کزن اب پانچ ماہ سے شدید اذیت میں رہتا ہے. مرنے مارنے اور خودکشی کا سوچتا رہتا ہے. میں اسے کئی مولوی صاحبان کے پاس بھیج چکا ہوں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا. آپ کسی اچھے مولوی کو جانتے ہیں؟ سمجھ نہیں آتا اسے کیسے ہینڈل کروں؟ اس عورت نے بچوں کی ماں ہوکر بھی ایسا کیوں کیا؟ سوچا آپ بہتر مشورہ دیں گے 
.
جواب:
آپ کے کزن کے ساتھ جو ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے مگر وہ پہلا انسان نہیں ہے جس کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آیا ہو. ایسے ہلا دینے والے واقعات ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں. ہم ایسے کسی واقعہ پر افسوس تو کرسکتے ہیں مگر اسے بنیاد بنا کر کسی کو مارنے یا خودکشی کرلینے کا جواز نہیں تراش سکتے. ایسی سوچ عقل اور دین دونوں کے خلاف ہے. آپ کے کزن کو مولوی کی نہیں بلکہ کسی ایسے قابل نفسیاتی معالج کی ضورت ہے جسے وہ اپنا دکھ کھل کر بیان کرسکے اور جو اس کی باقاعدہ کونسلنگ کرسکے. ممکن ہے کہ اسے ایک خاص ذہنی تھیراپی کروائی جائے جسے "کاگنیٹیو بحویور تھیراپی" یعنی 'سی-بی-ٹی' سے موسوم کیا جاتا ہے. ساتھ ہی اسے ذہنی دباؤ کو دور کرنے کی ایسی ادویات دی جائیں گی جو اسے اپنی اس داخلی کیفیت سے لڑنے میں مدد کرسکیں. ساتھ ہی لازمی ہے کہ اسے دین کی اصل روح کے قریب لایا جائے. ذکر الٰہی سے قلوب سکون پاتے ہیں. دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ کوئی غیرمعمولی واقعہ بھی فرد کو ڈپریشن میں لے جاتا ہے. مایوسی پیدا ہونا، خودکشی کا سوچتے رہنا، روتے رہنا - یہ سب ڈپریشن کی علامات میں شامل ہیں. آپ نے اس حادثے پر کوئی پی ایچ ڈی تھیسس نہیں جمع کروانا ہے. اسلئے یہ سوال کہ اس عورت نے بچوں کی ماں ہوکر ایسا کیوں کیا؟ اسے کریدتے رہنے کا اب کوئی فائدہ نہیں. اکثر ایسے حادثات کے پیچھے سالوں پر محیط بہت سے مخفی عوامل ہوا کرتے ہیں. جیسے مناسب وقت اور توجہ نہ دینا، بات بے بات جھگڑا کرتے رہنا، عزت نفس کو کچلتے رہنا وغیرہ 
.
وقت کرتا ہے پرورش برسوں 
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا 
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: نازیبا کمنٹس ڈیلیٹ کردیئے جائیں گے جیسے اس عورت کو گالی دینا یا اس مرد کا مذاق بنانا)

Tuesday, 13 September 2016

پتھر کے شیطان کو حج میں کنکریاں مارنا کہاں کی عقلمندی ہے؟


پتھر کے شیطان کو پتھر مارنا کہاں کی عقلمندی ہے؟




کچھ دیر قبل کسی کی شیئر کردہ پوسٹ اپنی فیس بک وال پر شیئر کی جسے میرے علاوہ بھی بہت سے افراد شیئر کرچکے ہیں. ان افراد میں محترم رعایت اللہ فاروقی، محترم جمیل اصغر جامی، محترم قیصر شہزاد اور محترم مولانا اسحٰق عالم جیسے صاحبان علم بھی شامل ہیں. اس شیئر کردہ پوسٹ کو جہاں بہت سے لوگوں نے سراہا وہاں کچھ سادہ لوح افراد ایسے بھی تھے جو اسے پڑھ کر بھڑک اٹھے. کچھ کی غیرت ایمانی تو اس وقت تک ٹھنڈی نہ ہوئی جب تک انہوں نے مجھے برابھلا نہ کہہ لیا. گو کے اس پوسٹ کی خوبصورتی یہی تھی کہ اسے مزید نہ کھولا جائے مگر اب یہ حال دیکھ کر اس کا مختصر خلاصہ لکھ رہا ہوں 
.
پوسٹ کے پہلے حصے میں ملحدین اور مخالفین اسلام کا وہ مشہور اعتراض درج ہے جو وہ ہر سال حج کے موقع پر اٹھایا کرتے ہیں. اعتراض کچھ یوں ہے کہ : "پتھر کے شیطان کو کنکریاں مارنا کہاں کی عقلمندی ہے؟" . اس سوال یا اعتراض کا جواب ایک مسلم کیلئے تو اتنا کافی ہے کہ یہ حکم خداوندی ہے اسلئے ہمیں مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں. مگر کیا یہی جواب کسی ملحد کیلئے بھی درست ہوگا؟ ظاہر ہے کہ نہیں. لہٰذا پوسٹ میں اس سوال کا جواب مکالمے کے اس انداز سے دیا گیا جسے 'الزامی جواب' کہا جاتا ہے. جواب کچھ یوں ہے کہ : اگر پتھر کے شیطان کو کنکری مارنا عقلمندی نہیں تو پھر امریکہ کے جھنڈے کو سیلوٹ مارنا کیسے عقلمندی ہوگی؟ جس طرح امریکہ کا جھنڈا امریکہ کے وجود کا علامتی اظہار ہے اور اسی لئے امریکی فوجی اسے ملک کی علامت سمجھ کر سیلوٹ مارتے ہیں. ٹھیک اسی طرح پتھر کا یہ مجسمہ شیطان کا علامتی نشان بنایا گیا ہے جسے کنکریاں مار کر مسلمان اپنی شیطان بیزاری کا اعلان کرتے ہیں. 
یہ پوسٹ ملحدین کے ایک گستاخانہ اعتراض کا الزامی جواب ہے. امید ہے کہ اب بات واضح ہوئی ہوگی.

Friday, 9 September 2016

مجھے زبردستی تخلیق کرکے خدا نے جبری ظلم کیوں کیا؟


مجھے زبردستی تخلیق کرکے خدا نے جبری ظلم کیوں کیا؟



.
سوال: میں نے خدا کو کوئی ایپلیکیشن (درخواست) نہیں دی تھی کہ وہ مجھے پیدا کرے. مجھے زبردستی تخلیق کرکے خدا نے جبری ظلم کیوں کیا؟ 
جواب: گستاخی معاف مگر خدا کے خلاف پرچہ کٹوانے سے پہلے آپ کو چاہیئے کہ اپنے والدین پر جبر کا مقدمہ دائر کردیں. انہوں نے مل کر آپ کی کسی درخواست یا اپروول کے بغیر آپ کو اس دنیا میں لانے کی سازش کی. آپ کی والدہ نے آپ کو جبری طور پر نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھا. پھر ان دونوں نے آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف اسکول میں ڈال دیا. جہاں آپ کو اساتذہ کے ساتھ مل کر سختی سے وہ بھی پڑھوایا جو آپ پڑھنا نہیں چاہتے تھے. زبردستی امتحان دلوائے. اس طرح کے جرائم کی طویل فہرست موجود ہے. جو انکے مسلسل جبر کی داستان بیان کرتی ہے. اس لئے اگر اس دنیا میں کوئی آپ کیلئے سب سے بڑا مجرم ہے تو وہ آپ کے والدین ہیں. لیکن یہ کیا؟ آپ تو اپنے والدین سے ناراض نہیں ہوتے. آپ تو ان کی ان جبری سازشوں پر ان کا شکریہ ادا کرتے نظر آتے ہیں. آپ تو ان والدین کو کوستے ہیں جو حمل ضائع کردیں. موت سے بچنے کیلئے آپ اپنا مال پانی کی طرح لٹا دیتے ہیں. آپ کے کسی عزیز کی جان کسی حادثے میں بچ جائے تو شکرانے کے نوافل پڑھتے ہیں. آپ تو ہر سال اپنی سالگرہ کی مبارکبادیں سمیٹتے ہیں. اپنے بچوں کی پیدائش پر سارے علاقے میں مٹھائیاں بانٹتے ہیں. اولاد نہ ہو تو مہنگے سے مہنگا علاج کرتے ہیں. خدا سے منتیں مانگتے ہیں. اگر خدا نے آپ کو پیدا کرکے آپ پر ظلم کیا ہے تو آپ کے والدین اسی منطق سے کیوں ظالم نہیں؟ اور آپ جو اولاد پیدا کرتے ہیں تو آپ خود ظالم کیسے نہیں؟ 
.
میرے عزیز سچ یہ ہے کہ عمومی طور پر ہم بحیثیت انسان یہ خوب جانتے ہیں کہ زندگی ایک عظیم ترین تحفہ اور عطیہ خداوندی ہے. بیش قیمت تحفہ پر دینے والے کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے، یہ نہیں کہا جاتا کہ میں نے تحفہ کیلئے کوئی ایپلیکیشن تو نہیں دی تھی. میں جانتا ہوں کہ بعض افراد کیلئے زندگی ایسی سخت ہوجاتی ہے کہ وہ خودکشی تک کربیٹھتے ہیں مگر اس میں قصور ان حالات و واقعات کا ہوتا ہے جو دوسرے انسان اسکے لئے کھڑے کردیتے ہیں یا اس کی اپنی ان حماقتوں کا ہوتا ہے جو زندگی جیسی نعمت کو بھی اس پر بوجھ بنا دیتی ہیں. وگرنہ ایسی حالت میں بھی اگر خودکشی کرنے والے شخص کو بہتری کی کوئی صورت نظر آجائے تو وہ کبھی زندگی کی نعمت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا. اب آپ کو میں بتاتا ہوں کہ آپ کا اصل مسلہ کیا ہے؟ آپ کی اصل شکایت یہ ہے ہی نہیں کہ آپ کو زندگی کی نعمت کیوں دی گئی؟ آپ کا اصل شکوہ یہ ہے کہ آپ کو اس زندگی میں خدائی ہدایات پر عمل کیوں کرنا ہے؟ آپ خفاء اس بات پر ہیں کہ اگر آج آپ نے تقویٰ نہ اختیار کیا تو کل جہنم آپ کا ٹھکانہ بن جائے گی. یہ ہے وہ اصل اشکال جو کسی مسلم کے ذہن میں ایسے سوالات پیدا کرتا ہے. یہ سوچ بڑی تباہ کن اور حماقت پر مبنی ہے. یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اعتراض کرے کہ کسی اچھے کاروبار یا نوکری کرنے کیلئے مجھے پہلے محنت سے پڑھنا اور سیکھنا کیوں ہے؟ ایسی راہ فرار ڈھونڈھنے والے انسان کو نکما تو کہا جاسکتا ہے لیکن درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا. پورا قران انسان کو جنت کی نوید سنا رہا ہے اور حقوق کی ممکنہ تلافی کیساتھ سچی توبہ پر گناہوں کے معاف ہوجانے کی خوشخبری دے رہا ہے. ایسے میں جنت کے اونچے سے اونچے درجات کی چاہ رکھنے کی بجائے کسی ناکارہ وجود کی طرح اپنے پیدا ہونے کو ظلم سمجھ لینا نہایت عجیب ہے. 
.
یہ تو تھی بنیادی باتیں جنہیں ہر مسلم کی سوچ کا جزو ہونا چاہیئے. اب اس بات کا بھی جائزہ لےلیتے ہیں کہ کیا فی الواقع خدا نے ہم سے پوچھے بناء ہمیں اس دار الامتحان میں بھیجا ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ ہماری تخلیق 'خلیفہ الارض' کے طور پر کی گئی. جیسے بیان ہوا {اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرْضِ خَلِیۡفَۃً: میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔} لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے اس جسدی وجود سے قبل ہمارے ایک روحانی وجود کو بھی پیدا کیا گیا. جو ہماری اصل شخصیت کا ماخذ ہے. قران حکیم میں بیان ہوا کہ ہمارے اس روحانی وجود میں نیکی اور بدی کے شعور سمیت کئی حقیقتوں کو الہام کردیا گیا. جیسے سورہ الشمس میں ارشاد ہوا {فَأَلْہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقْوَاہَا: ہم نے ا نسان پر اسکی نیکی و بدی کو الہام کردیا ہے-} ہماری اسی شخصیت نے رب سے مکالمہ کیا اور ان کے رب ہونے کا اقرار کیا. ہم میں سے ہر ایک کی روح نے اپنی زمینی منتقلی سے قبل یہ وعدہ اپنے رب سے کیا، اسی وعدے کو عہد اَلَسْتُ سے تعبیر کیا جاتا ہے. ملاحظہ ہو سورہ الاعراف [173-7:171] 
.
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ
.
"اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا "کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟" انہوں نے کہا "ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں" یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ "ہم تو اس بات سے بے خبر تھے."
.
بات یہاں تک ہی نہیں ہے بلکہ اس امتحان اور ذمہ داری کو بحیثیت امانت کائنات کی مخلوقات پر پیش کیا گیا تھا. مگر سوائے انسان کے باقی تمام مخلوقات نے اسے قبول کرنے سے عاجزی اختیار کی. سورہ الاحزاب کی ان ٧١ سے ٧٣ آیات پر غور کیجیئے
.
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
.
"ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے"
.
اس آیت کی مختصر تشریح میں یہ جان لیں کہ مفسرین میں اختلاف ہے کہ لفظ امانت سے حقیقی مراد کیا ہے؟ بعض کے نزدیک اس کا مطلب شریعت، بعض کے نزدیک آزادی ارادہ و فکر، بعض کے نزدیک قران حکیم اور بعض کے نزدیک 'خلیفہ الارض' کی ذمہ داری ہے. بات جو بھی مراد ہو ، یہ صاف ظاہر ہے کہ قران کے بیان کے مطابق یہ ذمہ داری ہم نے اپنی مرضی سے قبول کی تھی. لفظ ظالم اور لفظ جاہل سے اردو والا ظالم اور جاہل مراد نہیں ہے. عربی میں ظالم وہ بھی ہوتا ہے جو خود کو اپنی استعداد سے زیادہ مشقت میں ڈال لے. اور جاہل وہ جس کی عقل پر جذبات کا پردہ پڑ جائے. 
.
یعنی اگر قران کی مانی جائے تو ہم اس جسدی خاکی وجود سے قبل کچھ فیصلے، کچھ وعدے اپنے رب سے کرکے آئے ہیں. ہمیں یہ وعدے یاد کیوں نہیں؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ امتحان کی غرض سے اس یادداشت کو جزوی معطل کر دیا گیا ہے. دوسرا جواب یہ ممکن ہے کہ چونکہ ان کا ارتکاب ہمارے روحانی وجود نے کیا تھا ، اسلئے اس کی روحانی یادداشت بھی ہمارے جسدی یاداشت سے قدرے مختلف ہے. ہمیں یہ تو یاد نہیں کہ ہم میں اچھائی اور برائی کا شعور کیسے اور کب الہام ہوا؟ مگر یہ شعور ہر انسان میں موجود ہے، اسکے ہم سب گواہ ہیں. ہمیں یہ تو یاد نہیں کہ ہم نے کب اللہ سے ان کے رب ہونے کو تسلیم کیا تھا؟ مگر ہم اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ایک بنانے والے پر ایمان رکھنا انسانی فطرت میں پنہاں ہے. ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ ہم نے اس امتحان کی خدائی ذمہ داری کب اور کیوں قبول کی تھی؟ مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس کائنات کی موجود مخلوقات میں اگر کوئی مخلوق ایسی ہے جو کائناتی قوتوں کو مسخر کررہی ہے تو وہ صرف انسان ہی ہے. 
.
====عظیم نامہ====

کیا خدا ایک اور خدا بنا سکتا ہے؟



کیا خدا ایک اور خدا بنا سکتا ہے؟


.

سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ 'ناممکنات' کی دو اقسام ہیں. پہلی قسم وہ جو منطقی اعتبار سے تو سوچی جاسکتی ہو مگر کسی کیلئے اسے انجام دینا ممکن نہ ہو اور دوسری ناممکنات کی قسم وہ ہے جو منطقی اعتبار سے ہی جملہ محال، غلط اور عقلی بنیاد سے خالی ہو. ناممکنات کی اس دوسری قسم کو 'منطقی ناممکنات' یا 'منطقی حماقت' سے تعبیر کرتے ہیں اور حماقت پر گفتگو کرنا بھی سراسر حماقت ہے. پہلی قسم البتہ حماقت نہیں بلکہ صرف مخلوق کیلئے اسے انجام دینا ناممکن ہے. خدا ہر اس ناممکن کو ممکن کرسکتا ہے جو پہلی قسم سے متعلق ہو. یہ سوال کہ 'کیا خدا ایک اور خدا بنا سکتا ہے؟' دراصل دوسرے قبیل سے ہے یعنی منطقی حماقت (انفارمل لوجیکل فیلیسی) اور منطقی ناممکنات (لاجیکل امپاسبلٹی - اومنی پوٹینس پیراڈوکس) ہے جسے کچھ شریر اذہان استعمال کرکے تشکیک پیدا کرتے ہیں. خدا کی بنیادی تعریف یہ بتاتی ہے کہ خدا وہ ہستی ہے جسے کسی نے تخلیق نہ کیا ہو اور جو سب کی خالق ہو. اب کسی عقلمند کا یہ استفسار کہ خدا دوسرا خدا بنا سکتا ہے بلکل لغو اور عقل سے عاری ہے. دراصل دوسرے الفاظ میں یہ پوچھا جارہا ہے کہ کیا کبھی نہ تخلیق ہونے والی ہستی کسی دوسری نہ تخلیق ہونے والی ہستی کو تخلیق کرسکتی ہے؟ ظاہر ہے ایسی بات کی حیثیت ایک منطقی الجھاؤ سے زیادہ نہیں ہے. یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی فرمائے کہ کیا خدا ایسی مخلوق بناسکتا ہے جو مخلوق نہ ہو؟ اب اس حماقت یا شرارت پر ہنسا تو جاسکتا ہے مگر سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا. ان 'منطقی حماقتوں' کی کچھ روزمرہ کی امثال دیکھ لیتے ہیں. فرض کیجیئے آپ میراتھن دوڑ میں سب سے پہلے نمبر پر آتے ہیں. اب کوئی شخص آپ سے یہ پوچھے کہ کیا آپ دوڑ میں سب سے پہلے سے پہلے آسکتے ہیں؟ آپ اسے سمجھائیں گے کہ میاں میں تو پہلے ہی سب سے پہلے نمبر پر ہوں مگر وہ آپ کا مذاق اڑانے لگے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ سب سے پہلے سے پہلے نہیں آسکتے. اب آپ اس سجن کی عقل پر ماتم کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں؟ 
.
ہوسکتا ہے آپ سوچیں کہ ایسا بے سر پیر کا سوال کون پوچھے گا؟ لیکن جان لیں کہ ایسے عقلمند کثرت سے موجود ہیں جو یہ پوچھتے ہیں کہ اگر خدا الاول ہے تو کیا وہ اول سے اول ہو سکتا ہے؟ یا اگر الآخر ہے تو آخر سے آخر ہوسکتا ہے؟ انہیں بتانا ہوگا کہ خدا کی بہت سی صفات ہیں جو اس کی ذات کا ہمیں تعارف فراہم کرتی ہیں. یہ تقاضہ عبث ہے کہ وہ آپ کو کسی کرتب دیکھانے کیلئے اپنی کسی مستقل صفت کا انکار کردے. یہ سچ ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے (أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) مگر اس سے مراد فقط اتنی ہے کہ وہ اپنی صفات کو برقرار رکھتے ہوئے کائنات کی ہر شے پر تصرف اور قوت رکھتا ہے. لہٰذا جب کوئی شخص اسطرح کا سوال پوچھتا ہے کہ کیا خدا اتنا وزنی پتھر بنا سکتا ہے جسے وہ خود نہ اٹھا سکے؟ تو اس کا یہ سوال زبان حال سے اپنے غلط ہونے کا اعلان کررہا ہوتا ہے. جب یہ جان لیا کہ خدا ہر شے پر قدرت یعنی اتھارٹی رکھتا ہے تو اب اس تقاضہ کا کوئی محل ہی نہیں کہ وہ کچھ ایسا تخلیق کرے جس پر وہ قادر نہ ہو. قاعدہ یہ ہے کہ ذات اپنی صفات سے مزین ہوتی ہے اور جس لمحے کسی صفت کی نفی ہوتی ہے، اسی لمحے ذات کی تعریف بدل جاتی ہے. جیسے صدیق اکبر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صفت سچ بولنا ہے. اب اگر کوئی انکی حیات میں یہ پوچھتا کہ کیا ابوبکر رضی اللہ عنہ جھوٹ بولنے پر قادر ہیں ؟ تو جواب دیا جاتا کہ ہاں قادر تو ہیں مگر وہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے کیونکہ جھوٹ بولنا ان کی سرشت میں ہی نہیں. گویا اختیار اگر حاصل بھی ہو تو ذات کبھی خود میں پیوست صفات کا انکار نہیں کرتی. خدا بھی اپنی صفات اور سنت کے خلاف کبھی نہیں کرتا. قران حکیم میں جابجا اسی حقیقت کا بیان ہوا ہے. 
.
لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اﷲِ تَبْدِیْلاً (الأحزاب:62)
’’تم خدا کی سنت میں ہر گز تبدیلی نہیں پاؤ گے ‘‘
.
====عظیم نامہ====

Monday, 5 September 2016

مردوں کے سینے پر نپلز کیوں ہوتے ہیں؟


مردوں کے سینے پر نپلز کیوں ہوتے ہیں؟

.
میں آپ سب احباب سے بلعموم اور بہنوں سے بلخصوص معذرت خواہ ہوں کہ ایسے سوال کو آج کی پوسٹ کا موضوع بنا رہا ہوں جو کچھ سلیم فطرت نفوس پر گراں گزرے گا مگر یہ سوال مقبول عام ہے اور بہت سے اذہان میں موجود ہے. چنانچہ ارادہ کیا کہ کسی بات کی پرواہ کئے بناء اسی سوال کو موضوع سخن بنایا جائے.
.
اس سوال کو پوچھنے والے لوگ دو مختلف زاویوں سے بات کو جاننا چاہتے ہیں. پہلا زاویہ یہ کہ مردوں میں نپلز کی موجودگی کی سائنسی توجیہہ کیا ہے؟ اور دوسرا زاویہ یہ کہ اللہ عزوجل نے جب ہر چیز کو کسی متعین مقصد سے پیدا فرمایا ہے تو پھر مردوں میں نپلز کا کیا مقصد ہے؟ ہم دونوں ہی زاویوں کا ممکنہ اختصار کے ساتھ جائزہ لیں گے ان شاء للہ.
.
پہلا زاویہ یعنی مردوں میں نپلز کے ہونے کی سائنسی توجیہہ کے حوالے سے جان لیں کہ بچے کی پیدائش میں مرد اور عورت دونوں کے تیئیس تیئیس کروموسومز کا ملاپ ہوتا ہے، جنہیں ایکس اور وائی کروموسومز کا نام دیا جاتا ہے. دوسرے الفاظ میں مرد و زن کے مشترکہ چھیالیس کروموسومز مل کر آنے والے بچے کے قد، رنگت وغیرہ کے ساتھ ساتھ جنس کا بھی تعین کرتے ہیں. یہ کروموسومز جوڑوں کی صورت میں ہوتے ہیں. ماں کی جانب سے دیا گیا کروموسومز کا ہر جوڑا لازمی 'ایکس ایکس' کا مرکب ہوتا ہے، جس کا نتیجہ بچے کی زنانہ جنس کی صورت میں نکلتا ہے. جب کے باپ کی جانب سے بھیجا گیا کروموسومز کا جوڑا 'ایکس ایکس' بھی ہو سکتا ہے اور 'ایکس وائی' بھی ہو سکتا ہے. یہ باپ کی طرف سے بھیجا 'وائی کروموسومز' ہی ہے جو ماں کے پیٹ میں بچے کی مردانہ جنس کا تعین کردیتا ہے. گویا سائنسی اعتبار سے بچے کے لڑکا ہونے یا نہ ہونے کی ذمہ داری خالص باپ کے بھیجے کروموسومز پر ہوتی ہے.  یہ مرد یا عورت کی جنس کا تعین ماں کے پیٹ میں کئی ہفتوں بعد شروع ہوتا ہے. ابتداء میں بناء کسی جنسی تعین کے بچہ 'ایکس ایکس کروموسومز' کے نقشے پر پروان چڑھتا ہے. اسی دوران بچے کے اعضاء بناء جنسی تفریق کے نمو پاتے ہیں اور یہی وہ موقع ہے جب بچے کے نپلز نمودار ہوجاتے ہیں. کچھ ہفتوں بعد جب ممکنہ 'وائی کروموسومز' حرکت میں آتے ہیں تو وہ مردانہ جنس کو پہچان کر نپلز کی مزید تشکیل پر روک لگا دیتے ہیں اور اگر جنس زنانہ غالب ہو تو اسکی مزید تشکیل کو جاری رکھتے ہیں. اسی لئے بعض سائنسدان یہ تعبیر اختیار کرتے ہیں کہ ہم سب ماں کے پیٹ میں ابتدائی ہفتوں میں لڑکی ہوتے ہیں اور بعد میں ہم میں سے کچھ 'وائی کروموسومز' سے لڑکا بن پاتے ہیں. گو راقم کے نزدیک زیادہ درست تعبیر ان سائنسدانوں کی ہے جو کہتے ہیں کہ ان ابتدائی ہفتوں میں ہم سب بناء کسی جنس کے تعیین کے موجود ہوتے ہیں. کچھ ہفتوں بعد جنس کا حتمی فیصلہ ہوتا ہے. یہی وہ سائنسی توجیہہ ہے جو خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات میں بھی ان کی موجودگی کا سبب ہے. مردوں کے نپلز کے بارے میں نظریہ ارتقاء کے حاملین کی جانب سے ایک اور بات جو کبھی پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ شائد انسان کے اوائل دور میں یہ نپلز کارآمد ہوا کرتے تھے، جن سے مرد بھی خواتین کی طرح بچوں کو دودھ پلانے کا کام کرتے تھے اور بعد کے ارتقائی مراحل نے اس کی ضرورت کو معدوم کیا تو مرد کلی طور پر اس فائدے کو کھو بیٹھے مگر نپلز بناء فائدے بھی ان سے چسپاں رہے. اس بات کا جب ہم دیانتدارانہ جائزہ دلائل کی روشنی میں لیتے ہیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ اس کی حیثیت ایک فلسفیانہ مفروضہ سے زیادہ کی نہیں ہے. لہٰذا اس پر کسی تحقیق یا تنقید کی بنیاد رکھنا بھی درست نہیں.
.
امید ہے کہ اختصار کے باوجود قارئین پر پہلا زاویہ بڑی حد تک واضح ہوگیا ہوگا. اب ہم دوسرے زاویئے پر بات کرتے ہیں یعنی کہ جب اللہ پاک کی ہر تخلیق کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے تو مردوں کے ان نپلز کو بے مقصد کیوں پیدا کیا؟ اس سوال کے جواب میں مقصدیت کو جاننے کیلئے ہم مختلف ممکنہ امکانات کا جائزہ لیں گے مگر سب سے پہلے اپنی یادداشت سے میں ایک دلچسپ واقعہ آپ کو سناتا ہوں. میرے ایک دیرینہ دوست نے بچپن میں اپنے والد سے یہی دریافت کیا کہ 'ابو اللہ پاک نے ہم مردوں کے نپلز کیوں بنائے؟' اس کے والد نے پہلے تو کچھ دیر سوچا پھر ہنس کر بولے کہ 'میاں بس یہ ہم مردوں کا ڈیزائن ہے' :) ظاہر ہے کہ میں نے یہ مختصر واقعہ آپ کو ازراہ تفنن سنایا ہے مگر سچ پوچھیئے تو یہ جواب اتنا بے دلیل بھی نہیں. کیا اس کائنات اور اس میں موجود مخلوقات کی تزئین اپنے آپ میں ایک مقصد نہیں ہے؟ انسان کو رب کریم نے احسن التقویم یعنی انتہائی خوبصورت اور متناسب پیدا فرمایا ہے لہٰذا اس کی جسمانی تزئین اپنے آپ میں ایک مقصد ہے. ایک سپاٹ سینہ کو متناسب انداز میں منقسم کرکے خوبصورت تخلیق کیا گیا ہے. جس طرح کسی پھول کی پتیوں کے کناروں پر ابھرے مختلف رنگ کو دیکھ کر ہم اس کا مقصد دریافت نہیں کرتے بلکہ اسے پھول کی خوبصورتی گردانتے ہیں. ٹھیک اسی طرح یہ مردانہ اجسام کی خوبصورتی میں اپنا کردار نبھاتے ہیں. پھر دوسرا پہلو یہ کہ ہم جانتے ہیں کہ خالق کل کائنات اپنی مخلوق کو جوڑا جوڑا کرکے ایسے تخلیق کرتے ہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہوتے ہیں اور مختلف بھی. اللہ پاک اسی کائنات میں نہیں بلکہ جنت میں بھی اپنی خلاقی کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہاں بھی ان کی عطا کردہ نعمتیں ملتی جلتی بھی ہوں گی اور مختلف بھی. سورہ الانعام کی ٩٠  آیت ملاحظہ ہو
.
" ________ وہی خدا وہ ہے جس نے آسمان سے پانی نازل کیا ہے پھر ہم نے ہر شے کے کوئے نکالے پھر ہری بھری شاخیں نکالیں جس سے ہم گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے شگوفے سے لٹکتے ہوئے گچھےّ پیدا کئے اور انگور و زیتون اور انار کے باغات پیدا کئے جو شکل میں 'ملتے جلتے' اور مزہ میں بالکل الگ الگ ہیں________"
.
سورۂ الزمر کی ٢٣ آیت میں رب اپنے کلام کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس میں موجود آیات کو بھی ملتا جلتا بنایا گیا ہے.
.
" الله نے بہترین کلام نازل کیا جو ایک کتاب ہے باہم 'ملتی جلتی'، بار بار دہرائی جانے والی، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل الله کی یاد کی طرف نرم (ہو کر مائل) ہو جاتے ہیں________"
.
.گویا اپنی ہر بات اور تخلیق کو اختلاف کیساتھ ملتا جلتا رکھنا رب کریم کی شان خلاقی کا ایک اظہار ہے. مردوں اور عورتوں کے ڈیزائن میں یکسانیت کو قائم رکھنے کا ایک انداز شائد ان نپلز کی موجودگی بھی ہے. تیسرا پہلو سوچنے کا یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اردگرد موجود ہر ہر چیز کا ایک لازمی متعین مقصد ہے. وہ ہماری آنکھیں ہوں، کان ہوں، گردے ہوں، درخت ہوں، سورج، چاند، ستارے ہوں .. ہر ہر تخلیق کا ایک متعین مقصد ضرور ہے. جب ہمیں پورا اطمینان حاصل ہے کہ ہمارے اطراف موجود یہ ان گنت تخلیقات بامقصد بنائی  گئی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم کچھ چیزوں کے بارے میں یہ خامہ سرائی کریں کہ شائد ان کا کوئی مقصد نہیں؟ ہم یہ کیوں نہ سوچیں کہ جب ہر شے کا مقصد ہے تو یقینی طور پر ان مٹھی بھر اشیاء کا بھی مقصد لازمی ہوگا. بس ہمیں اب تک ان کی حکمت کا ٹھیک علم نہیں حاصل ہوسکا. کسی شے کی حکمت نظر نہ آئے تو کیا لازمی ہے کہ ہم اس سے یہ مراد لیں کہ اس میں کوئی حکمت ہو ہی نہیں سکتی؟ یا پھر قرین قیاس یہ ہے کہ جب ہر شے کی حکمت ہے تو اسکی بھی ہوگی جو آج ہماری کم علمی کی وجہ سے اوجھل ہے؟  اس کی ایک تازہ مثال انسانی جسم میں موجود اپنڈکس کی ہے جسے اب تک ارتقائی عمل کا ایک ایسا نتیجہ قرار دیا جاتا رہا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں. مگر ابھی نئی سائنسی تحقیقات سے یہ منکشف ہوا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اپنڈکس کے کئی زبردست فائدے سامنے آئے ہیں. جیسے اس میں وہ مثبت بیکٹیریا موجود رہتے ہیں جو ہیضے یا اس قسم کی دیگر بیماریوں اور جراثیم کے تدارک میں معاون ثابت ہوتے ہیں. اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اپنڈکس سفید خون کے خلیات کا صحتمند توازن کسی حد تک برقرار رکھتا ہے. گویا ایک ایسا جسمانی عضو جس کے بارے میں سائنس آج تک یہی کہتی آئی کہ اس کا مطلق کوئی فائدہ نہیں ، وہ آج کی تحقیقات سے مختلف فوائد کی نوید دے رہا ہے. لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ آج سے کچھ سال بعد ہم رب کی اضافی توصیف یہ سوچ کر کریں کہ انہوں نے مردوں کو نپلز دینے میں فلاں فلاں حکمت رکھ رکھی تھی. چوتھا پہلو یہ مغالطہ ہے کہ نپلز کا واحد کام بچے کو دودھ پہنچانا ہے. حقیقت میں سائنسی اعتبار سے یہ اسکے ساتھ ساتھ  مرد و عورت کی تفریق کے بغیر جنسی تسکین کا بھی سامان کرتے ہیں اور اس حوالے سے مردوں میں ان کی موجودگی کمتر درجے میں یہی کام انکے لئے انجام دیتی ہے. پانچواں امکانی پہلو یہ ہے کہ بعض لوگ ایسی جنیاتی بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جن سے ان کی جنس کا تعین نہیں ہو پاتا. یعنی ان میں مرد اور عورت دونوں کے جسمانی خدوخال موجود ہوتے ہیں. یا پھر وہ جسمانی طور پر ایک جنس جب کے نفسیاتی سطح پر دوسری جنس سے وابستہ ہوتے ہیں. ایسے میں اس بات کی اجازت ہے کہ اگر طبیب واقعی اس انسان کی جنیاتی بیماری کے قائل ہوں تو اس کی جنس کو متعین کرنے کیلئے سرجری کی جائے. ایسے کسی آپریشن کی صورت میں مردوں کے اجسام میں نپلز کی پہلے سے موجودگی یقینی طور پر مددگار ثابت ہوگی. 
.
====عظیم نامہ====

Sunday, 4 September 2016

قران مجید میں ڈائنوسور کا ذکر کیوں نہیں


قران مجید میں ڈائنوسور کا ذکر کیوں نہیں 



سوال:
قران مجید میں ڈائنوسور کا ذکر کیوں نہیں ہے؟
.
جواب:
قران مجید میں شارک مچھلی کا ذکر بھی نہیں ہے. بھالو بن مانس کا ذکر بھی نہیں ہے بلکہ یوں کہیئے کہ گنتی کی چند اقسام کے سوا جانوروں کی اکثر اقسام کا ذکر قران حکیم میں موجود نہیں ہے. سائنس کے مطابق ڈائنوسور کے علاوہ بھی کروڑوں ایسی حیات کی اقسام زمین پر موجود رہی ہیں جن کا اب نام و نشان مٹ چکا ہے، ان کا ذکر بھی نہیں ہے. سوال یہ ہے کہ یہ ذکر آخر کیوں ہو؟ ہر کتاب کا ایک بنیادی موضوع ہوتا ہے اور اس موضوع سے غیر متعلق چیزوں کا ذکر اس کتاب میں نہیں کیا جاتا. کوئی ناقد کسی کتاب میں کسی خاص شے کے ذکر نہ ہونے پر اسی صورت تنقید کرسکتا ہے جب وہ شے اس کتاب کے موضوع کے عین مطابق اور لازم ہو. بصورت دیگر یہ اعتراض مسترد کردیا جائے گا. قران مجید الله کا کلام ہے جس کے اصل موضوعات حیات بعد الموت اور تزکیہ نفس ہیں. ان ہی موضوعات کو بیان کرتے ہوئے کلام پاک میں بعض اوقات ضمنی طور پر کچھ مثالیں دے دی جاتی ہیں جن میں کبھی تاریخی تو کبھی سائنسی حقیقتوں کا بیان آجاتا ہے. مگر اس سے یہ اخذ کرلینا بعید از عقل ہے کہ قران کوئی سائنس یا تاریخ کی کتاب ہے جس میں ہر ہر سائنسی حقیقت اور تاریخی واقعہ کا لازمی ذکر موجود ہوگا. قران آیات یعنی نشانیوں کی کتاب ہے سائنس کی ہرگز نہیں. لہٰذا یہ تقاضہ کہ قران مجید میں ڈائنوسور کا ذکر موجود ہو، درست نہیں. اس کا انسانی ہدایت، تزکیہ نفس یا آخرت سے کوئی تعلق نہیں. اگر کوئی بھلا مانس یہ حسرت رکھتا ہے کہ اگر قران حکیم میں ڈائنوسور کا ذکر مل جائے تو کفار ایمان لے آئیں گے؟ تو ایسا سوچنا اسکی خام خیالی ہے. انہوں نے پھر نئے اعتراضات تراش لینے ہیں جیسے برمودا ٹراینگل کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ یا اسپیڈ آف لائیٹ کیوں نہیں لکھ دی گئی. خاطر جمع رکھیں کہ وہ اذہان جو حقیقت میں ہدایت کے طالب ہیں، ان کے لئے اسی قران میں اصل موضوع کے بیان میں بیشمار ایسی سائنسی و تاریخی حقیقتوں کا ذکر موجود ہے جو انہیں اس کلام کے الہامی ہونے کا انہیں یقین دلا دیتی ہیں. جنہوں نے نہیں ماننا، انہوں نے ڈائنوسور کا ذکر پڑھ کر بھی نہیں ماننا. 
.
یہ تو تھی بنیادی بات. اب اس کی بھی کچھ تحقیق کئے لیتے ہیں کہ کیا کلام مجید میں کوئی ایسے قرائن موجود ہیں جو ڈائنوسور کی جانب اشارہ کرتے ہوں؟ اس ضمن میں سب سے پہلے یہ جان لیں کہ لفظ ڈائنوسور حال ہی میں سائنسدانوں کا پیش کردہ ہے جس کے معنی 'خوفناک چھپکلی' کے ہیں. لہٰذا یہ سوچنا حماقت ہوگی کہ لفظ ڈائنوسور آپ کو قران مجید سمیت کسی بھی الہامی یا غیر الہامی کتاب میں مل سکے. اس کے لئے تو کوئی دوسرا لفظ یا اشارہ ہونے کا ہی امکان ہوسکتا ہے. ڈائنوسور کے حوالے سے سائنس کی دنیا میں دو آراء موجود ہیں. پہلی رائے جو خاصی مستند و مقبول ہے، اسکے مطابق سیارہ زمین پر ڈائنوسور کا زمانہ انسانوں کے وجود سے بہت پہلے کا ہے. گویا انسان نے کبھی ڈائنوسور کو اپنی آنکھ سے زندہ نہیں دیکھا. دوسری رائے جو پائی جاتی ہے وہ خاصی کمزور اور محدود ہے جس کے مطابق ڈائنوسور اور انسان ایک زمانے میں ساتھ سیارہ زمین پر موجود رہے ہیں. میرا کام اس مضمون میں ان دونوں آراء کا تقابل کرکے ان میں سے ایک کی صحت ثابت کرنا نہیں ہے. لہٰذا میں دونوں زاویوں کو امکانی طور پر درست مان کر قران حکیم سے اس کا تقابل پیش کروں گا. جیسا عرض کیا کہ محققین کی اکثریت پہلی رائے کو درست اور دوسری رائے کو محض اختراع مانتی ہے، اسلئے ہم بھی پہلی رائے ہی کو پہلے موضوع بناتے ہیں یعنی ڈائنوسور انسان کی آمد سے پہلے اس دنیا سے مٹ چکے تھے. 
.
سوره العنکبوت / ۲۰ میں ارشاد ہے  کہ "آپ کہہ دیجئے! کھ تم لوگ زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیا ھے اس کے بعد وہی آخرت دوباره پیدا کرے گا بیشک وه ھر شے پر قدرت رکھنے والا ھے"  
.
گویا مندرجہ بالا آیت میں زمین پر تخلیق کے ابتدائی مراحل پر غور کرنے کی باقاعدہ ترغیب دی گئی ہے اور یہ اشارہ مل رہا ہے کہ مخلوق مختلف مراحل سے گزری ہوگی. قران مجید میں سابقہ صحائف کیطرح بیان ہوا کہ کائنات کی تخلیق چھ یوم میں کی گئی مگر ساتھ ہی یہ صراحت بھی کردی کہ اللہ کے یوم کو اپنے یوم پر قیاس نہ کرلینا. ایک مقام پر اس یوم کو انسانی یوم کے ہزار سال کے برابر اور دوسرے مقام پر پچاس ہزار سال کا بتا کر کسی خاص وقت کی قید کو اٹھا دیا گیا. گویا کائنات کی تخلیق کے چھ یوم سے چھ زمانے یا چھ مراحل مراد لئے جائیں گے جو لاکھوں سالوں پر بھی محیط ہوسکتے ہیں. اس سارے زمانے میں زندگی و تخلیق بہت سے مراحل سے گزری ہے اور آج ان گنت اقسام زندگی ناپید ہوچکی ہیں. یعنی قران بائبل کی طرح چھ یوم کو انسانی یوم نہ مان کر ڈائنوسور جیسی تخلیق کے اس سیارے پر کسی وقت میں موجودگی کی راہ میں کوئی روک نہیں پیدا کرتا. یہ بات بھی متعدد آیات اور متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آدم علیہ السلام کی زمین پر آمد سے قبل ہی ہمارے اس سیارے پر زندگی اور اسباب زندگی موجود تھے. نمونے کے طور پر سورہ الفصلت کی ١٠ آیت کو دیکھیئے 
.
"اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان معیشت مقرر کیا (سب) چار دن میں۔ (اور تمام) طلبگاروں کے لئے یکساں"
.
اسی طرح سورہ البقرہ کی ٣٠ آیت ملاحظہ کیجیئے 
.
"اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔ (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے"
.
مفسرین نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ فرشتوں کا یہ استفسار و الزام کہ انسان زمین پر کشت و خون کرے گا، اس حقیقت کا غماز ہے کہ زمین پر پہلے سے مختلف مخلوقات تھیں جو کشت و خوں کرتی تھیں اور یہی مشاہدہ انکے اس بیان کا محرک بنا. ڈائنوسور یقینی طور پر ان ہی مخلوقات میں شامل تھے. جیسے بیان کیا جاچکا کہ 
ڈائنوسور کی اصطلاح حال ہی میں استعمال ہوئی ہے. قران مجید میں ایک لفظ دَابَّةً استعمال ہوا ہے جو بڑے وحشی  حیوانوں کیلئے استعمال ہوتا ہے. اسی لفظ کو سورہ البقرہ کی ١٦٤ آیت میں یوں ذکر ہوا 
.
"..اور زمین پر ہر قسم کے جانور (دَابَّةً ) پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانےمیں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں۔ عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں"
.
ہم جانتے ہیں کہ ڈائنوسور میں چھوٹی، بڑی، گوشت خور، سبزی خور، چلنے والی، اڑنے والی، رینگنے والی، دو پاؤں والی، چار پاؤں والی بہت سی اقسام تھیں. سورہ النور کی ٤٥ آیت جہاں آج موجود اقسام حیوان کا احاطہ کرتی ہیں وہاں ڈائنوسور کی ان اقسام کا بھی بیان کئے دیتی ہے. ملاحظہ ہو 
"اور خدا ہی نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار (دَابَّةً ) کو پانی سے پیدا کیا۔ تو اس میں بعضے ایسے ہیں کہ پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں۔ خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، بےشک خدا ہر چیز پر قادر ہے"
.
درج بلا استدلال میں قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ اگر ڈائنوسور کا ذکر خاص الفاظ میں نہ بھی کیا گیا ہو تب بھی قران حکیم میں ایسے کئی اشارے موجود ہیں جو ڈائنوسور کی اس زمین پر سابقہ وجود کو انسانی موجودگی حیات سے قبل ظاہر کرتے ہیں. اب ہم ان شاء للہ اس دوسری رائے کو موضوع بناتے ہیں جس کے مطابق ایک زمانے میں اسی سیارہ زمین پر انسان اور ڈائنوسور ایک ساتھ موجود رہے ہیں. جیسا ابتداء میں عرض کیا تھا کہ یہ رائے کمزور اور کم مقبول سمجھی جاتی ہے مگر اس کے حاملین بڑی زور و شور سے اس کی صحت کے قائل ہیں. ان کے اس یقین کی تین بڑی وجوہات نظر آتی ہیں. پہلی وجہ وہ دریافتیں ہیں جن میں ایسے آثار ملے ہیں جن سے حیوانوں کے عظیم البحثہ ہونے کا اظہار ہوتا ہے. دوسری وجہ پرانے الہامی صحائف اور تاریخی کتب میں انسانوں اور حیوانوں کے غیرمعمولی قد کا ذکر ہے. تیسری وجہ پرانے تاریخی کھنڈرات اور غاروں میں دیواروں پر کندہ وہ نقوش ہیں جو ڈائنوسور جیسے جانوروں کی تصویر معلوم ہوتے ہیں. بہرحال ہمارا کام تو فقط اس دوسرے امکان کے سچ ہونے پر قرانی رو سے ڈائنوسور کی موجودگی کا جائزہ لینا ہے. ایک لمحے کو مان لیجیئے کہ ڈائنوسور  کی نسل انسان کی موجودگی کے وقت بھی معدوم نہیں ہوئی تھی، اب دیکھتے ہیں کہ کیا قران میں اس امکان کی گنجائش موجود ہے؟
.
قران و سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ ابتداء میں انسان کی عمر نہایت طویل اور قد نہایت اونچے تھے. جیسے قران مجید کے بیان کے مطاق نوح علیہ السلام نے ٩٥٠ برس اپنی قوم کو تبلیغ کی. اسی طرح صحیح البخاری حدیث نمبر ( 3336 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 7092 ) کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کے قد کو ٦٠ ہاتھ یعنی کوئی ٣٠ گز بیان کیا گیا ہے. اسی طرح ہود علیہ السلام کی قوم عاد کے طویل قامت ہونے کا بھی قران حکیم میں واضح ذکر موجود ہے. سورہ الفجر کی ٦-٨ آیت ملاحظہ کریں 
.
"یا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا.  ارم (کہلاتے تھے اتنے) دراز قد. کہ تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے"
.
سورہ الحاقہ، آيت ۷ کو دیکھیئے، جس میں قوم عاد کا بعد عذاب حال بیان ہوا ہے 
.
''اگر تو وہاں ہوتا تو مشاہدہ کرتا کہ وہ سارى قوم منہ کے بل گرى پڑى ہے اور سوکھے اور کھوکھلے درختوں کى طرح ڈھير ہوگئے ہيں''
.
درختوں کے تنوں سے انسانوں کو تشبیہہ دینا ان کے درختوں کی طرح طویل قامت ہونے کا عندیہ دیتا ہے. اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب انسان اتنے طویل قامت تھے تو کیا ان کو مہیا جانور طویل قامت نہ ہونگے؟ کیا ان کی مرغی اور بکری اسی قامت کی نہ ہوتی ہوگی جو ان انسانوں کے قد کے تناسب سے ہو؟ آج ہم سائنسی اعتبار سے کم از کم اس پر متفق ہیں کہ اوائل دور میں جانوروں کی بہت سے موجود اقسام آج سے کہیں زیادہ طویل قامت تھیں. جیسے آج کا موجودہ ہاتھی اس وقت کے "میمتھ ہاتھی" سے خاصہ چھوٹا ہے. اسی طرح شیر اور دیگر درندوں کے قد آج سے کہیں زیادہ بڑے ہوا کرتے تھے. اسی طرح ارتقائی مراحل کے بیان میں محققین مختلف چھپکلیوں، مگرمچھ، گینڈے ، وہیل مچھلی وغیرہ کو ڈائنوسور ہی کی ارتقائی شکل قرار دیتے ہیں. گویا اگر قران و سنت میں مذکور اشاروں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جائے کہ انسان اور جانور ابتداء میں عظیم البحثہ تھے اور وقت گزرتے گزرتے بتدریج ان کا قد گھٹتا گیا تو شائد غلط نہ ہوگا. اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر یہ ماننے میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ ڈائنوسور جیسے طویل قامت جانور زمین کے اوائل دور میں موجود رہے ہونگے. ایک آخری اشارہ ہمیں قران و حدیث سے ان قیامت کی نمائندہ نشانیوں میں بھی ملتا ہے جس میں زمین سے ایک بڑے جانور (دَابَّةً الْأَرْضِ) کے نکلنے کی خبر دی گئی ہے. گو اس خبر کا شمار متشابہات میں ہے اور اس کی حقیقی صورت کا ٹھیک ادراک اسکے وقوع سے قبل شائد ممکن نہ ہو. غرض قران مجید میں ڈائنوسور کا لفظی ذکر نہ بھی ہو تب بھی ایسے قرائن و اشارے بکثرت موجود ہیں جو ان کی موجودگی پر دلیل بن سکتے ہیں. 
.
====عظیم نامہ====

Saturday, 3 September 2016

علم نہ ہو تو کیا روز آخرت گناہ معاف ہوجائینگے



علم نہ ہو تو کیا روز آخرت گناہ معاف ہوجائینگے؟



.
یہ انتہا درجے کا تباہ کن مغالطہ ہے کہ کوئی شخص دین کا علم اسلئے حاصل نہ کرے کہ اگر علم حاصل ہوگیا تو عمل نہ کرنے پر مواخذہ ہوگا. یہ بات ایک حد تک سچ ضرور ہے مگر ساتھ ہی اس سے بڑا سچ یہ بھی ہے کہ جس شخص کو رب نے عقل دی، مواقع دیئے، زرائع دیئے، صلاحیت دی اور اس سب کے باوجود اس نے جانتے بوجھتے دین کا علم حاصل نہ کیا تو روز قیامت اس سے بڑا خسارے والا شاید ہی کوئی اور ہو. اس شخص سے بڑا احمق کون ہوگا؟ جو یہ سوچ کر مسرور رہے کہ مواقع و صلاحیت ہونے کے باوجود وہ علم نہ ہونے کا بہانہ بناکر بچ جائے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ شخص تو دہرے گناہ اور مزید سختی کے لائق ہوگا کہ ہدایت کے ان گنت مواقع اس کے اردگرد موجود رہے مگر یہ دانستہ ان سے پہلو تہی کرتا رہا، اس نے مادی کامیابی کیلئے دنیا میں طرح طرح کے علوم سیکھے مگر دین کا علم جان بوجھ کر حاصل نہ کیا اور اس نے شرعی مسائل جان بوجھ کر نہ سیکھے کہ معلوم ہوگیا تو شریعت کی پیروی کرنی پڑجائےگی. کسے معلوم؟ کہ ایسے شخص کا شمار ان مجرمین میں ہو جنہیں مردہ کہتے ہوئے قران حکیم بیان کرتا ہے کہ وہ آنکھیں رکھ کر بھی نہیں دیکھتے، کان رکھ کر بھی نہیں سنتے اور جن کے قلوب پر مہر لگ گئی ہے. علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے. اس حدیث کا ایک مصداق یہی ہے کہ مسلمان پوری زندگی طالبعلم بن کر گزارتا ہے. 
.
ایسا ممکن ہی نہیں کہ اخلاص سے حاصل کیا علم خالی چلا جائے اور اس سے انسانی شخصیت میں کسی نہ کسی درجے میں مثبت تبدیلی واقع نہ ہو. کسی درجے میں عمل کی توفیق مخلص طالبعلم کو لازمی حاصل ہوتی ہے اور کچھ نہیں تو علم کا حاصل کرنا ازخود اسکے لئے ایک زبردست نیک عمل بن جاتا ہے. جس وقت آپ دین کا علم حاصل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، اس کے لئے کتاب اٹھاتے ہیں، اس کیلئے سوال پوچھتے ہیں، اس کے لئے دروس میں جاتے ہیں، نوٹس بناتے ہیں تو جان لیں کہ اس کوشش کا ہر ہر لمحہ اپنے آپ میں صالح عمل کی بہترین صورت قرار پاتا ہے. اسی لئے تو احادیث میں آیا کہ ایک ساعت کا تفکر ساری رات کی عبادت سے بہتر ہے اور ایک علم والے کی فضیلت عبادت کرنے والے پر ایسی ہے جیسے چاند کی ستاروں پر اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے امتی پر. شرط صرف اتنی ہے کہ علم حاصل کرنے والے کی نیت میں اخلاص ہو. حرام سے اجتناب اور فرائض کی پابندی کے بعد جتنے بھی معاملات ہیں وہ بلندی درجات سے متعلق ہیں. علماء کے متعلق جو اکثر تادیبی احادیث بیان ہوتی ہیں، ان میں کم عمل علماء کی بات نہیں بیان ہوئی بلکہ بد نیت اور فتنہ پرور علماء کی سخت پکڑ کا ذکر آیا ہے. 
.
====عظیم نامہ====

روز قیامت معافی


روز قیامت معافی




اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ اللہ رب العزت آپ کے بڑے بڑے ان گنت گناہوں کو روز قیامت معاف فرمادیں تو پھر اپنا دل بڑا کریں اور ہر اس انسان کو بلاتفریق و تمیز سچے دل سے معاف کردیں جس نے کبھی آپ کا کوئی حق مارا ہو، آپ کو نقصان پہنچایا ہو یا آپ کی دل آزاری کی ہو. ہرگز یہ نہ کہیں کہ اس شخص کا فلاں گناہ یا جرم اتنا بڑا ہے کہ میں معاف نہیں کرسکتا. اگر میں کسی کی زیادتی کو بڑا سمجھ کر معاف نہیں کرسکتا تو مجھے کیا حق ہے کہ اپنے بڑے جرائم بناء سزا معاف ہوجانے کی رب سے امید رکھوں؟ ہاں یہ درست ہے کہ رب کریم رحمٰن و رحیم ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ وہ اپنے بندے سے وہی معاملہ کریں گے جیسا معاملہ اس نے اپنے اختیار سے دیگر مخلوق کیساتھ کیا ہوگا. اس حدیث کو دیکھیئے
.
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی آرزو ہو کہ وہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو جائے تو اس کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کی شہادت دیتا ہو اور وہ لوگوں سے بھی وہی معاملہ کرے جو اپنے لئے چاہتا ہو‘‘۔( الطبرانی)
.
گویا اگر کوئی انسان اپنے لئے روز قیامت معافی چاہتا ہے تو چاہیئے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں کو معاف کرنے کی عادت ڈال لے. بیشمار آیات و احادیث میں ہماری یہی تربیت کی گئی ہے. اگر یہ حقیقت آپ کو سمجھ آگئی ہے تو راقم بحیثیت بھائی آپ سے یہ استدعا کرتا ہے کہ آج ہی اس انسان کو فون کریں یا اس سے ملاقات کریں جس کے خلاف آپ کے دل میں رنجش ہے، اس سے پوری محبت سے بات کریں اور اسے صدق دل سے اللہ کی رضا کیلئے معاف کردیں. 
.
دھیان رہے کہ معاف کردینا محض الفاظ کا ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ اپنے دل کو مخاطب کی جانب سے صاف کرلینے کا نام ہے. مشاہدہ ہے کہ خواتین کو خاص کر یہ مرحلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اگر الفاظ سے معاف کر بھی دیں تو ساری زندگی دل صاف نہیں کر پاتی. ان کا دل بدستور اس زیادتی پر زخمی رہتا ہے اور بعض اوقات تو وہ منتظر رہتی ہیں کہ کب فلاں شخص اسی دنیا میں اپنی برائی کی سزا پالے. ایسا معاف کرنا کسی زاویئے سے بھی معاف کرنا نہیں ہے. اگر آپ بھی خود میں اسی روش کو موجود پاتے ہیں تو جان لیں کہ یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے جس سے آپ کو نجات حاصل کرنی چاہیئے. ایسی صورت میں ایک آزمودہ علاج یہ ہے کہ اس زیادتی کرنے والے انسان کیلئے دن رات خیر کی دعا کریں چاہے خود پر جبر کرکے کرنی پڑے. ساتھ ہی اللہ پاک سے اپنے لئے بھی دعا مانگیں کہ وہ آپ کے دل کو راضی فرما دے. 
.
====عظیم نامہ====