سورہ رحمٰن
سورہ رحمٰن کی کچھ ابتدائی آیات پر مختصر بات کرتے ہیں
الرَّحْمَنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2) خَلَقَ الْإِنْسَانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4) الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (5) وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (6) وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ (7) أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ
.
==========
.
الرَّحْمَنُ (نہایت مہربان) - دراصل الله کا ایک نمائندہ صفاتی نام ہے. یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اسماء صفات میں جس شان سے الله اپنے اس صفاتی نام کو پیش کرتے ہیں وہ سب سے منفرد ہے. اسی وجہ سے غالباً بہت سے محققین اسے اللہ کی سب سے اونچی صفت قرار دیتے ہیں. نمونہ کے طور پر سورہ الاسراء کی آیت کا حصہ ملاحظہ ہو
.
"کہہ دو الله کہہ کر یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے پکاروسب اسی کے عمدہ نام ہیں ..."
.
یعنی اپنے ذاتی نام کے ساتھ اگر کوئی صفاتی نام باقاعدہ ذکر کیا تو وہ نام رحمٰن ہی ہے. لفظ رحمٰن میں مبالغہ کا صیغہ ہے ، اور اس کے معنی محض رحم کرنے والے کے نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد ہے وہ رحم کرنے والا جس کی رحمت ٹھاٹھیں مار رہی ہو، زور و شور سے برس رہی ہو
.
==========
.
عَلَّمَ الْقُرْآنَ (اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی) - سب سے اونچی صفت الرَّحْمَنُ کے ذکر کے فوراً بعد، علوم میں سب سے اونچے علم یعنی قران حکیم کا ذکر کیا گیا. قران مجید اپنے قاری کیلئے اپنے نفس اور آفاق پر غور کرنے کو عبادت سے تعبیر کرتا ہے. وہ ہر علم کی حوصلہ افزائی اور اسکے حصول کی تلقین کرتا ہے مگر سب سے زیادہ اہمیت وہ اسی کو دیتا ہے کہ انسان الله پاک کی اس عظیم ترین نعمت یعنی قران حکیم پر تدبر و تفکر کرے. قران کی عظمت پر یوں تو بیشمار براہین قران و سنت دونوں سے پیش ہوسکتی ہیں مگر اس وقت بخاری کی اس حدیث پر اکتفاء کرتے ہیں
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَ
تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے
.
==========
.
خَلَقَ الْإِنْسَانَ (اسی نے انسان کو پیدا کیا) - اب سب سے اونچی صفت اور سب سے بلند علم کے ذکر کے بعد خالق اپنی بہترین مخلوق کا ذکر کر رہے ہیں یعنی وہی انسان جسے خلیفہ الارض کی خلعت پہنائی گئی. اسی ضمن میں سورہ تین میں ارشاد ہوتا ہے کہ
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
کہ ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے
.
==========
.
عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (اسی نے اسکو بیان کی صلاحیت دی) - سب سے اونچی صفت رحمٰن ، سب سے بلند علم قران، سب سے مکرم تخلیق انسان کے ذکر کے بعد اس انسان کی افضل ترین صفت یا صلاحیت یعنی 'قوت بیان' کا ذکر ہوا. یہ بیان ہی کی قوت ہے جس کے استمعال سے انسان دیگر مخلوقات کی بانسبت کہیں زیادہ تیزی سے شعوری ارتقاء کرتا چلا گیا. یہی بیان ہے جس نے زبانوں کو جنم دیا ، جس نے رابطہ کو ممکن بنایا، جس کے ذریعے فرد کا علم معاشرہ سے منسلک ہوگیا.
.
==========
.
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں) - جس نظام شمسی سے ہماری زمین متعلق ہے ، اس میں سورج اور چاند مرکزی اہمیت رکھتے ہیں. بتایا جا رہا ہے کہ یہ دونوں پورے توازن اور تندہی سے اپنے اپنے مدار میں دیگر مخلوقات کی طرح تسبیح کر رہے ہیں یعنی گھوم رہے ہیں.
.
==========
.
وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (اور ستارے اور درخت دونوں سجده کرتے ہیں) - بتایا جا رہا ہے کہ دیگر ستارے اور نباتات بھی اپنا سر جھکائے سجدہ کر رہے ہیں یعنی سورج و چاند کی طرح الله کے نافذ کردہ قوانین کے پابند ہیں.
.
==========
.
وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ (اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی) - بتایا جارہا ہے کہ اسی نے اس آسمان کو بلند کیا یعنی ان کاسموس ، کہتشاؤں اور شمسی نظاموں کو ہماری زمین سے جدا رکھ کرہماری آنکھوں سے بلند رکھا. اور پھر میزان یعنی ترازو قائم کی. یہ اشارہ ہے اس حقیقت کا کہ جس طرح ترازو کا کام توازن برقرار رکھنا ہے، ہر شے کو ناپ تول کر بتانا ہے. اسی طرح اس پرہیبت کائنات کو اس کے رب اللہ عزوجل نے بہترین توازن کے ساتھ قائم کیا ہے
.
==========
.
أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ (کہ ترازو میں حد سے تجاوز نہ کرو) - اب ایک خوبصورت ادبی اسلوب سے یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ جس طرح تمہارے رب نے ہر کام میں عدل اور توازن رکھا ہے. ویسے ہی تم پر بھی لازم ہے کہ ترازو یا توازن سے کبھی تجاوز نے کرو. رشتے ہوں، مال ہو یا تمہارا کاروبار .. کوئی بھی معاملہ توازن کو پامال نہ کرے، عدل کے خلاف نہ ہو
.
==========
.
دھیان رہے کہ یہ ایک طالبعلم کا غور کرنا ہے جس میں کمی اور کوتاہی دونوں کا ہی احتمال ہے لہٰذا اسے حتمی نہ سمجھا جائے
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment