اسلامی نظام یا فرد کی تربیت
اگر ایک شخص بینائی سے محروم ہے تو پھر اس کے اردگرد کتنی ہی روشنی کیوں نہ ہو ؟ وہ دیکھنے سے محروم رہے گا. اسی طرح اگر کوئی شخص دیکھ سکتا ہو مگر اس کے ارد گرد گھٹاٹوپ اندھیرا ہو تو وہ آنکھیں رکھ کر بھی نہیں دیکھ سکتا. جب تک انسان کے اندر بینائی کی روشنی اور باہر ماحول کی روشنی یکجا نہ ہو تب تک بصارت حاصل نہیں ہو سکتی. ایک اور مثال لیتے ہیں ، اگر کوئی شخص بہترین کپڑے پہنے اور اپنے ظاہر کو خوب سنوارے مگر اپنی باطنی صحت کیلئے نہ صحتمند غذا کا انتخاب کرے اور نہ بیماریوں کے تدارک کیلئے کبھی کوئی دوا لے تو یقینی طور پر اس کا ظاہر خیال رکھنے کے باوجود بھی خراب ہوتا چلا جائے گا. جیسے اندرونی بیماری سےچہرے کا رنگ زرد ہوسکتا ہے یا کیلشیم کی کمی سے دھبے پڑسکتے ہیں یا غیرمتوازن خوراک سے موٹاپا اور بھدا پن پیدا ہو سکتا ہے وغیرہ. اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی خوراک ، دوا اور اندرونی صحت کے لئے تو سب اقدامات کرے مگر اپنے ظاہر کو فراموش کردے تو آپ دیکھیں گے کہ جلد ہی اس انسان کی اندرونی صحت بھی تباہ ہوجائے گی. مثلاّ ممکن ہے کہ نہ نہانے کی وجہ سے جسم جلد کی بیماری کا شکار ہو جائے ، یا دانت صاف نہ کرنے سے اسے کیڑے اور بیکٹریا لگ جائیں جو لامحالہ اسکی انرونی صحت کو بھی تباہ کر کے رکھ دیں. اسی طرح کی بیشمار مثالیں دی جاسکتی ہے جو ایک ہی حقیقت کی غمازی کرتی ہیں اور وہ یہ کہ ظاہر اور باطن دونوں کو بیکوقت سنوارنا کامیابی کیلئے لازم ہے. اب آپ دین ہی کی مثال لے لیں، ہم جانتے ہیں کہ اسلام ظاہر سے متعلق ہے اور ایمان باطن سے. جتنے بھی معاملات یا عبادات کا ظاہری ظہور ہمیں نظر آتا ہے یہ اسلام ہے جیسے نماز ، حج ، حقوق العباد وغیرہ. اس کے برعکس ہماری نیت، اخلاص ، تقویٰ دراصل ایمان کے مظہر ہیں جو صرف رب العزت پر ظاہر ہیں کہ وہی دلوں کا حال جانتا ہے. مگر کیا اسلام اور ایمان ایک دوسرے کے بناء تکمیل پاسکتے ہیں ؟ یقیناً نہیں .. یہاں بھی وہی اصول کارفرما ہے کہ ظاہر اور باطن یکجا ہونگے تو بات بنے گی. جہاں کسی کا ظاہر میں الجھ کر باطن کو بھول جانا حماقت ہے وہاں باطن کا نعرہ لگا کر ظاہر سے گریز کرنا بھی خودکشی ہے
اگر معاشرے کو ایک اکائی تسلیم کیا جائے تو معاشرے کا ظاہر ، نافذ شدہ اجتماعی نظام یا موجود معاشرتی اقدار ہیں اور اس کا باطن انفرادیت یعنی فرد ہے. فرد کی اصلاح سے معاشرہ تشکیل پائے گا اور معاشرے کی اصلاح سے فرد درست رہے گا. ظاہر اور باطن یا معاشرے اور فرد دونوں میں سے کسی ایک کو چھوڑیں گے تو دوسرا بھی لازمی تباہ ہوگا. میری احقر رائے میں یہی اسلام کا پیغام ہے کہ دونوں یعنی معاشرے اور فرد کی ایک ساتھ تربیت کی جائے. آسان الفاظ میں دین کا مخاطب نہ تو صرف فرد ہے اور نہ ہی صرف معاشرہ. بلکہ یہ دونوں کو ایک ساتھ مخاطب کرتا ہے. دین فرد سے معاشرہ اور معاشرہ سے فرد کا سفر کرتا ہے. انگریزی اصطلاح کے مطابق یہ ' ٹو اینڈ فرو موشن' ہے. جہاں یہ ایک انتہا ہے کہ کوئی بیوقوف فرد کی اصلاح کو چھوڑ کر صرف معاشرے یا ریاست کو مسلمان بنانا چاہے. وہاں دوسری انتہا یہ بھی ہے کہ کوئی معاشرے کو بھلا کر فرد کی تعمیر کا اعادہ کرتا رہے. اگر آپ صرف معاشرے پر اسلامی نظام مسلط کرنا چاہیں گے تو فرد کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اصلاح کی جگہ فساد جنم لے گا مگر اگر آپ کو یہ گمان ہے کہ صرف فرد کی تبلیغ و تعلیم سے آپ معاشرے کو سدھار پائیں گے ؟ تو یہ بھی ایک صریح مغالطہ ہے. اگر معاشرہ بےحیائی اور ناانصافی کا گڑھ ہے تو آپ دس لوگوں کو دین بتائیں گے اور یہ معاشرہ ہزار لوگوں کو 'منی بدنام اور شیلا جوان' سکھاتا رہے گا. آپ فرد کی اصلاح کے لئے جماعت بنائیں گے اور یہ معاشرہ اپنے تعلیمی اداروں، ٹی وی چینلوں اور ہر حاصل ذرائع سے اپنی ترویج کرتا رہے گا. لازمی ہے کہ دونوں کی یعنی فرد و معاشرے کی اصلاح ساتھ ساتھ ہو.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment