Wednesday, 13 May 2015

فطرت انسانی کیا ہے؟

 

فطرت انسانی کیا ہے؟



 فطرت لفظ فطر سے وجود میں آیا ہے، جس کے معانی ہیں 'اندر سے پھوٹنا' .. اسی نسبت سے فطر کے ایک معنی بناء کسی بیرونی مثل کے ابتدا ہونے کے بھی ہیں. الله رب العزت کا ایک صفاتی نام فاطر ہے ( فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ) یعنی وہ جو کائنات کو بناء کسی سابقہ مثل کے وجود میں لے آیا. فطرت دراصل انسان کے وہ مجموعی اوصاف، صفات اور داعیات ہیں جو انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہیں اور جن کی موجودگی آپ کے وجدان میں موجود ہے. یہ وہ داخلی احساسات، جذبات و محرکات ہیں جو اس کی شخصیت میں بنانے والے نے پیدائشی طور پر مضمر کر رکھے ہیں. لہٰذا جب خارج سے کوئی ایسی بات، خیال یا فلسفہ پیش کیا جائے جو انسانی فطرت سے قریب ہو یعنی ان داخلی داعیات کے نزدیک ہو تو انسان کی طبیعت اسے لپک کر قبول کرلیتی ہے. وجہ یہی ہے کہ اس بیرونی شے کے بارے میں داخلی گواہی پہلے سے موجود تھی. اسی طرح اگر کوئی بات انسان کی مشترکہ فطرت کے خلاف ہے تو چاہے اسے کتنا ہی منطقی روپ کیوں نہ دے دیا جائے ، اسے اجتماعی قبولیت کبھی حاصل نہ ہوگی.
.
دیکھیں آپ کو پیاس لگتی ہے اسی لئے آپ پانی پیتے ہیں. اب اگر آپ کو پیاس ہی نہ ہو اور کوئی زبردستی آپ کے منہ میں پانی انڈیلتا رہے تو جلد ہی آپ کا جسم اسے اگل دے گا. خارج سے پیش کردہ شے کا خیر مقدم تب ہی ٹھیک سے ہوسکتا ہے جب اندر طلب موجود ہو. آپ کی شخصیت میں جو داعیات آپ کے رب نے ودیعت کر رکھے ہیں ، ان کی نوعیت بھی پیاس کی سی ہے. آپ کی طبیعت اسی صورت سیرابی اور سرشاری محسوس کرسکے گی جب خارج سے پہنچی بات آپ کے داخلی وجدان کی پیاس بجھا سکے.
.
اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ دین فطرت ہے ، یعنی اس کا پیش کردہ مقدمہ اور عقائد انسانی فطرت سے پوری طرح منسلک ہیں. لہٰذا اسلام کا مخاطب اسکے الہامی پیغام کو جب سنتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اسکی گواہی اسے باطن سے حاصل ہورہی ہے. یہی وجہ ہے کہ غیرمسلم سب سے زیادہ تعداد میں اسلام کے پیغام کو قبول کرتے ہیں. فطرت کے یہ داعیات چونکہ انسان میں پیدائشی طور پر الہام شدہ ہیں ، اسلئے یہ کہنا مبنی باحقیقت ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے دین فطرت کا ماننے والا یعنی مسلم ہوتا ہے. حضرت عیسیٰ الہے سلام سے تحریف شدہ بائبل میں ایک قول منسوب ہے جس کا مفہوم ہے کہ رب کی جنت میں صرف وہی لوگ داخل ہوسکیں گے جو بچوں کی طرح صاف فطرت پر ہوں.
.
معاملہ یہ ہے کہ انسان دیگر حیوانات کی طرح محض داخلی وجود پر نہیں چلتا بلکہ اس کے اردگرد موجود حالات و واقعات بعض اوقات اس کی فطرت کو جزوی یا کلی طور پر مسخ کردیتے ہیں. پھر انسان کو ارادہ و اختیار کی جو خصوصی صلاحیت رب کی جانب سے عطا ہوئی ہے ، وہ اسے یہ قابلیت دے دیتی ہے کہ وہ چاہے تو فطرت پر قائم رہ کر سلیم الفطرت بنا رہے اور چاہے تو خارجی فلسفوں کو اپنا کر فطری داعیات کو مدفون کردے. اسی حقیقت کا بیان بخاری کی اس صحیح حدیث میں ہوتا ہے
.
"ہر بچہ فطرت (یعنی اسلام) پر پیدا ہوتا ہے تو اسکے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں"
.
اسی طرح ماں کی ممتا کا جذبہ خالص فطرت کا عکس ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی ماں نے اپنا بچہ کو بیدردی سے مار ڈالا. سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس سے فطرت کا انکار نہیں ہوتا بلکہ اثبات ہوتا ہے. وجہ یہ ہے کہ اس ماں کا یہ ظالمانہ اقدام پورے انسانی معاشرے میں ایک سنسنی پیدا کردیتا ہے ، یہ واقعہ ایک بڑی خبر بن جاتا ہے. ہر انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ ایسا کیا ہوا جو ایک ماں اپنے اس فطری جذبہ کو پامال کرگئی؟ کیا اس کا ذہنی توازن بھی درست تھا ؟ وغیرہ کہنے کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی فرد یا قبیلہ کی فطرت مسخ ہو سکتی ہے مگر اسے استثنیٰ مانا جائے گا اور ایسا کوئی غیر فطری عمل جلد یا بدیر ختم ہوجاتا ہے. ساتھ ہی اسے کبھی انسانیت کی اکثریت کی تائید حاصل نہیں ہوتی.
.
سورہ شمس میں الله عزو جل نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اچھائی اور برائی کی تفریق و تمیز ہمارے نفس یعنی ہماری فطری شخصیت میں الہام کردی گئی ہیں
.
"پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی"
.

چنانچہ ہر انسان چاہے وہ پاکستان میں بستا ہو، امریکہ میں ہو یا افریقہ کے زولو قبیلہ میں .. وہ یہ جانتا ہے کہ سچ بولنا ایک عمدہ قدر ہے اور جھوٹ بولنا غلط. کسی کی جان بچانا ایک اچھا کام ہے اور کسی بے گناہ کی جان لینا ایک مذموم عمل. یہ تمیز اسکی فطرت میں پہلے دن سے موجود ہے. اس موقع پر وہ حدیث بھی سن لیں جو بتاتی ہے کہ ایک انسان کیسے جان لے کہ کوئی عمل گناہ ہے یا نہیں؟
.
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”استفت قلبک ولو افتاک المفتون“ (اپنے دل سے فتویٰ لو، اگرچہ مفتی بھی فتویٰ دے دیں)
یعنی اگر اپنے اندر جھانکو گے تو تمہارا قلب ، تمہارا داخل تمھیں یہ بتا دے گا کہ کیا گناہ ہے. اس ضمن میں سب سے بڑا مفتی آپ کا اپنا حاسّهِ باطنی ہے.
.
واللہ و اعلم بلصواب
.
 عظیم نامہ

No comments:

Post a Comment