Sunday, 31 May 2015

یہ وقت کیا ہے ؟ .. شاعر: جاوید اختر


 یہ وقت کیا ہے ؟


عنوان : یہ وقت کیا ہے ؟
شاعر: جاوید اختر
انتخاب: عظیم الرحمٰن عثمانی
=================
.
یہ وقت کیا ہے؟
یہ کیا ہے آخر ؟ کہ کیوں  مسلسل گزر رہا ہے؟
یہ جب میں گزرا تھا تب کہاں تھا ؟ .. کہیں تو ہوگا ؟
گزر گیا ہے تو اب کہاں ہے؟ .. کہیں تو ہوگا ؟
کہاں سے آیا ؟ کدھر گیا ہے ؟
یہ کب سے کب تک کا سلسلہ ہے ؟
یہ وقت کیا ہے؟
.
یہ واقعے، حادثے، تصادم 
ہر ایک غم .. ہر ایک مسرت 
ہر ایک اذیت .. ہر ایک لذت
ہر ایک تبسم .. ہر ایک آنسو
ہر ایک نغمہ .. ہر ایک خوشبو
وہ زخم کا درد ہو کہ وہ لمس کا ہو جادو
خود اپنی آواز ہو .. یا ماحول کی صدائیں
یہ ذہن میں بنتی اور بگڑتی ہوئی فضائیں
وہ فکر میں آئے زلزلے ہوں .. یا دل کی ہلچل
تمام احساس ، سارے جذبے
یہ جیسے پتے ہیں .. 
بہتے پانی کی سطح پر جیسے تیرتے ہیں ..
ابھی یہاں ہیں .. ابھی وہاں ہیں 
اور اب ہیں اوجھل
دکھائی  دیتا نہیں ہے لیکن یہ کچھ تو ہے جو بہہ رہا ہے ؟
یہ کیسا دریا ہے ؟
کن پہاڑوں سے آرہا ہے ؟
یہ کس سمندر کو جارہا ہے ؟
یہ وقت کیا ہے؟
.
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ چلتی گاڑی سے پیڑ دیکھو 
تو ایسا لگتا ہے کہ دوسری سمت جا رہے ہیں
مگر حقیقت میں پیڑ اپنی جگہ کھڑے ہیں
تو کیا یہ ممکن ہے ؟ ساری صدیاں قطار اندر قطار اپنی جگہ کھڑی ہوں
یہ وقت ساکت ہو اور ہم ہی گزر رہے ہوں ؟
.
اسی ایک لمحہ میں سارے لمحے ہیں
تمام صدیاں چھپی ہوئی ہوں
نہ کوئی آئندہ .. نہ گزشتہ 
جو ہوچکا ہے .. وہ ہو رہا ہے
جو ہونے والا ہے ، ہو رہا ہے
میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ ممکن ہے ؟
سچ یہ ہو کہ سفر میں ہم ہیں
گزرتے ہم ہیں
جسے سمجھتے ہیں ہم گزرتا ہے ، وہ تھما ہے
گزرتا ہے یا تھما ہوا ہے ؟
اکائی ہے یا بٹا ہوا ہے ؟
ہے منجمد یا پگھل رہا ہے؟
کسے خبر ہے ؟ کسے پتہ ہے ؟
یہ وقت کیا ہے؟

Monday, 25 May 2015

سورہ رحمٰن


سورہ رحمٰن



سورہ رحمٰن کی کچھ ابتدائی آیات پر مختصر بات کرتے ہیں
الرَّحْمَنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2) خَلَقَ الْإِنْسَانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4) الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (5) وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (6) وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ (7) أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ 
.
==========
.
الرَّحْمَنُ (نہایت مہربان) - دراصل الله کا ایک نمائندہ صفاتی نام ہے. یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اسماء صفات میں جس شان سے الله اپنے اس صفاتی نام کو پیش کرتے ہیں وہ سب سے منفرد ہے. اسی وجہ سے غالباً بہت سے محققین اسے اللہ کی سب سے اونچی صفت قرار دیتے ہیں. نمونہ کے طور پر سورہ الاسراء کی آیت کا حصہ ملاحظہ ہو
.
"کہہ دو الله کہہ کر یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے پکاروسب اسی کے عمدہ نام ہیں ..."
. 
یعنی اپنے ذاتی نام کے ساتھ اگر کوئی صفاتی نام باقاعدہ ذکر کیا تو وہ نام رحمٰن ہی ہے. لفظ رحمٰن میں مبالغہ کا صیغہ ہے ، اور اس کے معنی محض رحم کرنے والے کے نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد ہے وہ رحم کرنے والا جس کی رحمت ٹھاٹھیں مار رہی ہو، زور و شور سے برس رہی ہو
. 
==========
.
عَلَّمَ الْقُرْآنَ (اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی) - سب سے اونچی صفت الرَّحْمَنُ کے ذکر کے فوراً بعد، علوم میں سب سے اونچے علم یعنی قران حکیم کا ذکر کیا گیا. قران مجید اپنے قاری کیلئے اپنے نفس اور آفاق پر غور کرنے کو عبادت سے تعبیر کرتا ہے. وہ ہر علم کی حوصلہ افزائی اور اسکے حصول کی تلقین کرتا ہے مگر سب سے زیادہ اہمیت وہ اسی کو دیتا ہے کہ انسان الله پاک کی اس عظیم ترین نعمت یعنی قران حکیم پر تدبر و تفکر کرے. قران کی عظمت پر یوں تو بیشمار براہین قران و سنت دونوں سے پیش ہوسکتی ہیں مگر اس وقت بخاری کی اس حدیث پر اکتفاء کرتے ہیں

خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَ
تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے
.
==========
.
خَلَقَ الْإِنْسَانَ (اسی نے انسان کو پیدا کیا) - اب سب سے اونچی صفت اور سب سے بلند علم کے ذکر کے بعد خالق اپنی بہترین مخلوق کا ذکر کر رہے ہیں یعنی وہی انسان جسے خلیفہ الارض کی خلعت پہنائی گئی. اسی ضمن میں سورہ تین میں ارشاد ہوتا ہے کہ

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ 
کہ ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے
.
==========
.
عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (اسی نے اسکو بیان کی صلاحیت دی) - سب سے اونچی صفت رحمٰن ، سب سے بلند علم قران، سب سے مکرم تخلیق انسان کے ذکر کے بعد اس انسان کی افضل ترین صفت یا صلاحیت یعنی 'قوت بیان' کا ذکر ہوا. یہ بیان ہی کی قوت ہے جس کے استمعال سے انسان دیگر مخلوقات کی بانسبت کہیں زیادہ تیزی سے شعوری ارتقاء کرتا چلا گیا. یہی بیان ہے جس نے زبانوں کو جنم دیا ، جس نے رابطہ کو ممکن بنایا، جس کے ذریعے فرد کا علم معاشرہ سے منسلک ہوگیا. 
.
==========
.
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں) - جس نظام شمسی سے ہماری زمین متعلق ہے ، اس میں سورج اور چاند مرکزی اہمیت رکھتے ہیں. بتایا جا رہا ہے کہ یہ دونوں پورے توازن اور تندہی سے اپنے اپنے مدار میں دیگر مخلوقات کی طرح تسبیح کر رہے ہیں یعنی گھوم رہے ہیں. 
.
==========
.
وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (اور ستارے اور درخت دونوں سجده کرتے ہیں) - بتایا جا رہا ہے کہ دیگر ستارے اور نباتات بھی اپنا سر جھکائے سجدہ کر رہے ہیں یعنی سورج و چاند کی طرح الله کے نافذ کردہ قوانین کے پابند ہیں.
.
==========
.
وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ (اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی) - بتایا جارہا ہے کہ اسی نے اس آسمان کو بلند کیا یعنی ان کاسموس ، کہتشاؤں اور شمسی نظاموں کو ہماری زمین سے جدا رکھ کرہماری آنکھوں سے بلند رکھا. اور پھر میزان یعنی ترازو قائم کی. یہ اشارہ ہے اس حقیقت کا کہ جس طرح ترازو کا کام توازن برقرار رکھنا ہے، ہر شے کو ناپ تول کر بتانا ہے. اسی طرح اس پرہیبت کائنات کو اس کے رب اللہ عزوجل نے بہترین توازن کے ساتھ قائم کیا ہے
.
==========
.
أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ (کہ ترازو میں حد سے تجاوز نہ کرو) - اب ایک خوبصورت ادبی اسلوب سے یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ جس طرح تمہارے رب نے ہر کام میں عدل اور توازن رکھا ہے. ویسے ہی تم پر بھی لازم ہے کہ ترازو یا توازن سے کبھی تجاوز نے کرو. رشتے ہوں، مال ہو یا تمہارا کاروبار .. کوئی بھی معاملہ توازن کو پامال نہ کرے، عدل کے خلاف نہ ہو
.
==========
.
دھیان رہے کہ یہ ایک طالبعلم کا غور کرنا ہے جس میں کمی اور کوتاہی دونوں کا ہی احتمال ہے لہٰذا اسے حتمی نہ سمجھا جائے
.
====عظیم نامہ====

اگر


اگر





اگر ایمان کا دعویٰ عمل سے تصدیق نہ پاۓ تو پھر ناقص ہے .. اگر خدا کا تصور، ذوق عبادت پیدا نہ کرے تو وہ باطل ہے .. اور اگر علم کردار میں نہ ڈھل جاۓ تو وہ علم ہے ہی نہیں، بلکے محض معلومات ہے.
.
====عظیم نامہ====

Saturday, 23 May 2015

انسان کا دل اور کعبہ



انسان کا دل اور کعبہ


کعبہ اس وقت بھی معتبر تھا جب اس کے اندر تین سو پینسٹھ بت رکھے تھے. وہ اس وقت بھی الله کا گھر تھا ، رسول الله (ص) نے اس وقت بھی اس کا طواف و تکریم کیا تھا. ذرا سوچو ! نبی پاک (ص) نے یہ بھی تو بتایا ہے کہ انسان کا دل الله کا گھر ہے. ہو سکتا ہے اس میں بھی تین سو پینسٹھ خواہشات کے بت سجے ہوں لیکن یہ پھر بھی معتبر ہے. ہمیں ان بتوں کے باوجود اسکی عزت کرنی ہے. یہ اور بات کہ جس طرح فتح مکہ کے وقت رسول عربی (ص) نے بتوں سے کعبہ کو پاک کیا تھا ، ہمیں بھی اپنے نفس پر فتح پانی ہے اور پھر ان پوشیدہ بتوں کو نکال پھینکنا ہے

.
====عظیم نامہ====

Sunday, 17 May 2015

اسلامی نظام یا فرد کی تربیت؟


      اسلامی نظام یا فرد کی تربیت



اگر ایک شخص بینائی سے محروم ہے تو پھر اس کے اردگرد کتنی ہی روشنی کیوں نہ ہو ؟ وہ دیکھنے سے محروم رہے گا. اسی طرح اگر کوئی شخص دیکھ سکتا ہو مگر اس کے ارد گرد گھٹاٹوپ اندھیرا ہو تو وہ آنکھیں رکھ کر بھی نہیں دیکھ سکتا. جب تک انسان کے اندر بینائی کی روشنی اور باہر ماحول کی روشنی یکجا نہ ہو تب تک بصارت حاصل نہیں ہو سکتی. ایک اور مثال لیتے ہیں ، اگر کوئی شخص بہترین کپڑے پہنے اور اپنے ظاہر کو خوب سنوارے مگر اپنی باطنی صحت کیلئے نہ صحتمند غذا کا انتخاب کرے اور نہ بیماریوں کے تدارک کیلئے کبھی کوئی دوا لے تو یقینی طور پر اس کا ظاہر خیال رکھنے کے باوجود بھی خراب ہوتا چلا جائے گا. جیسے اندرونی بیماری سےچہرے کا رنگ زرد ہوسکتا ہے یا کیلشیم کی کمی سے دھبے پڑسکتے ہیں یا غیرمتوازن خوراک سے موٹاپا اور بھدا پن پیدا ہو سکتا ہے وغیرہ. اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی خوراک ، دوا اور اندرونی صحت کے لئے تو سب اقدامات کرے مگر اپنے ظاہر کو فراموش کردے تو آپ دیکھیں گے کہ جلد ہی اس انسان کی اندرونی صحت بھی تباہ ہوجائے گی. مثلاّ ممکن ہے کہ نہ نہانے کی وجہ سے جسم جلد کی بیماری کا شکار ہو جائے ، یا دانت صاف نہ کرنے سے اسے کیڑے اور بیکٹریا لگ جائیں جو لامحالہ اسکی انرونی صحت کو بھی تباہ کر کے رکھ دیں. اسی طرح کی بیشمار مثالیں دی جاسکتی ہے جو ایک ہی حقیقت کی غمازی کرتی ہیں اور وہ یہ کہ ظاہر اور باطن دونوں کو بیکوقت سنوارنا کامیابی کیلئے لازم ہے. اب آپ دین ہی کی مثال لے لیں، ہم جانتے ہیں کہ اسلام ظاہر سے متعلق ہے اور ایمان باطن سے. جتنے بھی معاملات یا عبادات کا ظاہری ظہور ہمیں نظر آتا ہے یہ اسلام ہے جیسے نماز ، حج ، حقوق العباد وغیرہ. اس کے برعکس ہماری نیت، اخلاص ، تقویٰ دراصل ایمان کے مظہر ہیں جو صرف رب العزت پر ظاہر ہیں کہ وہی دلوں کا حال جانتا ہے. مگر کیا اسلام اور ایمان ایک دوسرے کے بناء تکمیل پاسکتے ہیں ؟ یقیناً نہیں .. یہاں بھی وہی اصول کارفرما ہے کہ ظاہر اور باطن یکجا ہونگے تو بات بنے گی. جہاں کسی کا ظاہر میں الجھ کر باطن کو بھول جانا حماقت ہے وہاں باطن کا نعرہ لگا کر ظاہر سے گریز کرنا بھی خودکشی ہے


اگر معاشرے کو ایک اکائی تسلیم کیا جائے تو معاشرے کا ظاہر ، نافذ شدہ اجتماعی نظام یا موجود معاشرتی اقدار ہیں اور اس کا باطن انفرادیت یعنی فرد ہے. فرد کی اصلاح سے معاشرہ تشکیل پائے گا اور معاشرے کی اصلاح سے فرد درست رہے گا. ظاہر اور باطن یا معاشرے اور فرد دونوں میں سے کسی ایک کو چھوڑیں گے تو دوسرا بھی لازمی تباہ ہوگا. میری احقر رائے میں یہی اسلام کا پیغام ہے کہ دونوں یعنی معاشرے اور فرد کی ایک ساتھ تربیت کی جائے. آسان الفاظ میں دین کا مخاطب نہ تو صرف فرد ہے اور نہ ہی صرف معاشرہ. بلکہ یہ دونوں کو ایک ساتھ مخاطب کرتا ہے. دین فرد سے معاشرہ اور معاشرہ سے فرد کا سفر کرتا ہے. انگریزی اصطلاح کے مطابق یہ ' ٹو اینڈ فرو موشن' ہے. جہاں یہ ایک انتہا ہے کہ کوئی بیوقوف فرد کی اصلاح کو چھوڑ کر صرف معاشرے یا ریاست کو مسلمان بنانا چاہے. وہاں دوسری انتہا یہ بھی ہے کہ کوئی معاشرے کو بھلا کر فرد کی تعمیر کا اعادہ کرتا رہے. اگر آپ صرف معاشرے پر اسلامی نظام مسلط کرنا چاہیں گے تو فرد کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اصلاح کی جگہ فساد جنم لے گا مگر اگر آپ کو یہ گمان ہے کہ صرف فرد کی تبلیغ و تعلیم سے آپ معاشرے کو سدھار پائیں گے ؟ تو یہ بھی ایک صریح مغالطہ ہے. اگر معاشرہ بےحیائی اور ناانصافی کا گڑھ ہے تو آپ دس لوگوں کو دین بتائیں گے اور یہ معاشرہ ہزار لوگوں کو 'منی بدنام اور شیلا جوان' سکھاتا رہے گا.  آپ فرد کی اصلاح کے لئے جماعت بنائیں گے اور یہ معاشرہ اپنے تعلیمی اداروں، ٹی وی چینلوں اور ہر حاصل ذرائع سے اپنی ترویج کرتا رہے گا. لازمی ہے کہ دونوں کی یعنی فرد و معاشرے کی اصلاح ساتھ ساتھ ہو. 

====عظیم نامہ====

Wednesday, 13 May 2015

ملحدین - ہم کہیں گے حال دل

 

ملحدین - ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا؟


 ملحدین کی ایک ادا یہ بھی ہے کہ آپ ان سے پوچھیں کہ آپ کے اس شعوری وجود کو کون وجود میں لے کر آیا ؟ جواب میں یہ فرمائیں گے کہ مذہب انسان نے خود بنایا ہےاور ساری جنگیں مذہب کی وجہ سے ہوئی ہیں...... لیکن قبلہ ہم نے تو یہ پوچھا ہی نہیں تھا.
....
آپ پوچھیں کہ انسان کا شعور تقاضہ کرتا ہے کہ کائنات کے وجود کی توجیہہ پیش کی جائے تو منکرین خدا کیا توجیہہ پیش کرتے ہیں ؟ یہ جواب دیں گے کہ قران میں ڈائناسور کا ذکر نہیں ہے اور مذہب سوچنے پر پابندی لگا دیتا ہے...... مگر پیارے دانشور یہ تو سوال ہی نہیں تھا.
.
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل، اور آپ فرمائیں گے
کیا
.
ہم تو مذہب کی بات ہی نہیں کر رہے. ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ آج ہی مسلمان ، ہندو یا عیسائی مذہب قبول کرلیں. ہمارا استفسار بس اتنا ہے کہ آپ کا مسلہ مذہب سے ہے تو مذہب کا انکار کریں ، خدا کا انکار کیوں کرتے ہیں ؟ مذہب پر بات بعد میں کبھی کرلیں گے. ابھی تو اتنی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں کہ ایک برتر ذہانت کو کھل کر تخلیق کرنے والا تسلیم کرسکیں. ابتدا کائنات کی کوئی تو توجیہہ پیش کرنا ہوگی ؟ .. یا تو یہ ثابت کریں کہ بے جان مادہ خودبخود خود کو پیدا کرنے پر قادر ہوگیا اور پھر پیدا ہو کر خود ہی خود باشعور ہوگیا اور پھر خود سے دیکھنے، سننے اور سمجھنے بھی لگا اور پھر اس نے اپنے لئے مختلف فطری قوانین بھی خود پر نافذ کرلئے.
.
اگر آپ یہ ثابت نہیں کرسکتے اور یقیناً نہیں کرسکتے تو پھر مانئے کہ اس پر ہیبت کائنات اور انسانی وجود کی واحد توجیہہ یہی ہوسکتی ہے کہ کسی برتر ذہانت کو پس پردہ تسلیم کیا جائے. آپ کو خدا کے لفظ سے الرجی ہے تو اسے سپریم پاور کہہ لیں، غیبی کائناتی شعور پکار لیں یا کوئی اور نام دے لیں جس سے آپ کی 'علمی' شخصیت کو تسکین ملتی ہو. مگر ایک برتر ذہانت کو مانے بناء کوئی چارہ نہیں ہے جو مادی قوانین سے ماوراء ہے بلکہ قوانین کو اپنی منشاء سے تشکیل دینے والی ہے.
.
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے .. وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے .. وہی خدا ہے

.
 عظیم نامہ

ملحدین - سوال گندم .. جواب چنا

 

ملحدین - سوال گندم .. جواب چنا 

 

 .
آپ مجھ سے سوال پوچھیں کہ سامنے کھڑی گاڑی کس نے بنائی؟ اور میں آپ کو جواب دوں کہ دراصل پہلے انجن بنا پھر اس پر گاڑی کی باڈی سجای گئی اور پھر اس میں پہیئے شیشے لگا کر اسکی تزئین کی گئی.
.
اس جواب پر ممکن ہے آپ مجھیں ناگواری سے گھوریں ضرور، کہ بھائی سیدھا سا سوال تھا کہ گاڑی کس نے بنائی ، جواب دے دینا تھا کہ ٹویوٹا نے .. بات سمجھ آجاتی. یہ اتنی لمبی اور غیر متعلق تفصیل بتانے کی کیا ضرورت تھی ؟ کہ گاڑی 'کیسے' بنی ؟ یا اس میں کیا کیا اجزاء استمعال ہوئے؟ یہ تو سوال ہی نہ تھا. لہٰذا پوچھنے والا جواب سے محروم ہی رہے گا.
.
آپ مجھ سے دریافت کریں کہ تاج محل کس نے تعمیر کیا؟ اور میں پروفیسر انداز میں یہ جواب دینے لگوں کہ اسکی تعمیر میں پہلے اینٹیں لگائی گئیں، پھر کھڑکیاں دروازے بنے، پھر رنگ و روغن ہوا اور آخر میں باہر کا چبوترا بنایا گیا.
.
یقیناً آپ کو میرے اس احمقانہ جواب پر شدید کوفت ہوگی. آپ نے تو آسان سا سوال پوچھا تھا کہ تاج محل کس نے بنوایا یا بنایا؟ میرا جواب ہونا چاہیئے تھا کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنے کاریگروں سے اسے تعمیر کروایا تھا. بات مکمل ہوجاتی. اس تقریر کی قطعی کوئی حاجت نہ تھی کہ اسکی تعمیر میں کون سا کام پہلے اور کون سا بعد میں ہوا؟ اس نامناسب تفصیل سے یہی ہوا کہ سوال جوں کا توں باقی رہا.
.
ملحدین کا حال بھی کچھ اس سے زیادہ بہتر نہیں ہے. آپ ان سے پوچھیں کہ اس باشعور انسان کو کس نے تخلیق کیا؟ یہ فوراً ارتقاء سمیت دس نظریات پیش کردیں گے کہ تخلیق کا عمل کن مراحل سے گزرا. انہیں کوئی عقل دلائے کہ عقلمندوں ! انسان کی تخلیق کے مراحل جو بھی رہے ہوں ، سوال یہ نہیں ہے. سوال یہ ہے کہ تخلیق 'کس' نے کی؟
.
آپ ان سے دریافت کریں کہ اس عظیم کائنات کو ایسے بہترین نظم کے ساتھ کس نے پیدا کیا ؟ اور یہ جواب میں آپ کو بگ بینگ سمیت پچاس سائنسی تھیوریاں پیش کرنے لگیں گے کہ کائنات کی تخلیق میں کون کون سے مراحل گزرے ہیں؟ انہیں کوئی سمجھائے کہ زہین فلسفیوں سوال یہ نہیں ہے. تخلیق کائنات میں کتنا ہی وقت لگا ہو یا کتنے ہے مراحل گزرے ہوں. سوال یہ ہے کہ کون ہے جس نے بے جان بے شعور مادہ سے اس پر ہیبت کائنات کو تخلیق کردیا. اسمیں بے مثال نظم اور بے نظیر توازن پیدا کردیا؟
.
ہم پوچھ رہے ہیں کہ 'کس' نے بنایا ؟؟ ..
آپ فرما رہے ہیں کہ 'کیسے' بنا ؟؟ ..
سوال ہمارا گندم ہے ..
جواب آپ کا چنا ہے ..

.
ہم جانتے ہیں کہ آج اس بیوقوفانہ روش میں ڈاکن سے ہاکنگ تک سب شامل ہیں. مگر ہوش کے ناخن لو اور حقیقت کو تسلیم کرو. سائنس کو ملحدین کی جاگیر سمجھنا چھوڑ دو. آپ کی کلاسیکل فزکس کا موجد 'آئزک نیوٹن' ایک کٹر مذہبی انسان تھا، آپ کی ماڈرن فزکس جس پر آج فخر کرتے ہو اس کا بانی 'البرٹ آئین اسٹائن' خدا کا ماننے والا انسان تھا، کوانٹم مکینکس جسے تم مستقبل کی سائنس مانتے ہو اس کی ابتدا کرنے والا ایک خدا پرست شخص 'میکس پلانک' تھا. تو حضرت اس نشہ سے نکلو ، یہ جان لو کہ سائنسدانوں اور دیگر ہر شعبہ کے ماہر کی عزت اپنی جگہ ضروری ہے مگر ہر فن اور علم کی اپنی حدود متعین ہیں. کوئی انسانی علم اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا. سائنس مادی علوم سے آگے نہیں دیکھ سکتی. مادہ کہاں سے وجود میں آیا ؟ یا توانائی کون تخلیق کر گیا ؟ یا ایک بے جان مادہ کے ڈھیر سے جیتا جاگتا باشعور انسان کون نکال لایا ؟ یہ اور ایسے بیشمار سوالوں کے سامنے مادی علوم کے پر جلنے لگتے ہیں. سائنس کا کام ہے یہ بتانا کہ کوئی مخلوق 'کیسے' تخلیق ہوئی ؟ مگر 'کیوں' ہوئی اور 'کس نے' اسے تخلیق کیا ؟ یہ سوالات اس کی حدود سے باہر ہیں. اس کے لئے لامحالہ وحی کی جانب ہی دیکھنا ہوگا.
.
اپنی اور اپنے علم کی حدود کو پہچانو، یہ کیسی حماقت ہے کہ ایک چمچہ خود کو پلیٹ کہے، ایک بکری .. خود کو اونٹ سمجھنے لگے ، ایک اونٹ خود کو انسان گردانے اور ایک انسان خدائی کا دعویٰ کرنے لگے. اپنے آپ کو پہچاننے میں عافیت ہے. خود کو پہچان کر نکھارنے کی کوشش عقلمندی ہے.
.
 عظیم نامہ

فطرت انسانی کیا ہے؟

 

فطرت انسانی کیا ہے؟



 فطرت لفظ فطر سے وجود میں آیا ہے، جس کے معانی ہیں 'اندر سے پھوٹنا' .. اسی نسبت سے فطر کے ایک معنی بناء کسی بیرونی مثل کے ابتدا ہونے کے بھی ہیں. الله رب العزت کا ایک صفاتی نام فاطر ہے ( فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ) یعنی وہ جو کائنات کو بناء کسی سابقہ مثل کے وجود میں لے آیا. فطرت دراصل انسان کے وہ مجموعی اوصاف، صفات اور داعیات ہیں جو انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہیں اور جن کی موجودگی آپ کے وجدان میں موجود ہے. یہ وہ داخلی احساسات، جذبات و محرکات ہیں جو اس کی شخصیت میں بنانے والے نے پیدائشی طور پر مضمر کر رکھے ہیں. لہٰذا جب خارج سے کوئی ایسی بات، خیال یا فلسفہ پیش کیا جائے جو انسانی فطرت سے قریب ہو یعنی ان داخلی داعیات کے نزدیک ہو تو انسان کی طبیعت اسے لپک کر قبول کرلیتی ہے. وجہ یہی ہے کہ اس بیرونی شے کے بارے میں داخلی گواہی پہلے سے موجود تھی. اسی طرح اگر کوئی بات انسان کی مشترکہ فطرت کے خلاف ہے تو چاہے اسے کتنا ہی منطقی روپ کیوں نہ دے دیا جائے ، اسے اجتماعی قبولیت کبھی حاصل نہ ہوگی.
.
دیکھیں آپ کو پیاس لگتی ہے اسی لئے آپ پانی پیتے ہیں. اب اگر آپ کو پیاس ہی نہ ہو اور کوئی زبردستی آپ کے منہ میں پانی انڈیلتا رہے تو جلد ہی آپ کا جسم اسے اگل دے گا. خارج سے پیش کردہ شے کا خیر مقدم تب ہی ٹھیک سے ہوسکتا ہے جب اندر طلب موجود ہو. آپ کی شخصیت میں جو داعیات آپ کے رب نے ودیعت کر رکھے ہیں ، ان کی نوعیت بھی پیاس کی سی ہے. آپ کی طبیعت اسی صورت سیرابی اور سرشاری محسوس کرسکے گی جب خارج سے پہنچی بات آپ کے داخلی وجدان کی پیاس بجھا سکے.
.
اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ دین فطرت ہے ، یعنی اس کا پیش کردہ مقدمہ اور عقائد انسانی فطرت سے پوری طرح منسلک ہیں. لہٰذا اسلام کا مخاطب اسکے الہامی پیغام کو جب سنتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اسکی گواہی اسے باطن سے حاصل ہورہی ہے. یہی وجہ ہے کہ غیرمسلم سب سے زیادہ تعداد میں اسلام کے پیغام کو قبول کرتے ہیں. فطرت کے یہ داعیات چونکہ انسان میں پیدائشی طور پر الہام شدہ ہیں ، اسلئے یہ کہنا مبنی باحقیقت ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے دین فطرت کا ماننے والا یعنی مسلم ہوتا ہے. حضرت عیسیٰ الہے سلام سے تحریف شدہ بائبل میں ایک قول منسوب ہے جس کا مفہوم ہے کہ رب کی جنت میں صرف وہی لوگ داخل ہوسکیں گے جو بچوں کی طرح صاف فطرت پر ہوں.
.
معاملہ یہ ہے کہ انسان دیگر حیوانات کی طرح محض داخلی وجود پر نہیں چلتا بلکہ اس کے اردگرد موجود حالات و واقعات بعض اوقات اس کی فطرت کو جزوی یا کلی طور پر مسخ کردیتے ہیں. پھر انسان کو ارادہ و اختیار کی جو خصوصی صلاحیت رب کی جانب سے عطا ہوئی ہے ، وہ اسے یہ قابلیت دے دیتی ہے کہ وہ چاہے تو فطرت پر قائم رہ کر سلیم الفطرت بنا رہے اور چاہے تو خارجی فلسفوں کو اپنا کر فطری داعیات کو مدفون کردے. اسی حقیقت کا بیان بخاری کی اس صحیح حدیث میں ہوتا ہے
.
"ہر بچہ فطرت (یعنی اسلام) پر پیدا ہوتا ہے تو اسکے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں"
.
اسی طرح ماں کی ممتا کا جذبہ خالص فطرت کا عکس ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی ماں نے اپنا بچہ کو بیدردی سے مار ڈالا. سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس سے فطرت کا انکار نہیں ہوتا بلکہ اثبات ہوتا ہے. وجہ یہ ہے کہ اس ماں کا یہ ظالمانہ اقدام پورے انسانی معاشرے میں ایک سنسنی پیدا کردیتا ہے ، یہ واقعہ ایک بڑی خبر بن جاتا ہے. ہر انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ ایسا کیا ہوا جو ایک ماں اپنے اس فطری جذبہ کو پامال کرگئی؟ کیا اس کا ذہنی توازن بھی درست تھا ؟ وغیرہ کہنے کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی فرد یا قبیلہ کی فطرت مسخ ہو سکتی ہے مگر اسے استثنیٰ مانا جائے گا اور ایسا کوئی غیر فطری عمل جلد یا بدیر ختم ہوجاتا ہے. ساتھ ہی اسے کبھی انسانیت کی اکثریت کی تائید حاصل نہیں ہوتی.
.
سورہ شمس میں الله عزو جل نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اچھائی اور برائی کی تفریق و تمیز ہمارے نفس یعنی ہماری فطری شخصیت میں الہام کردی گئی ہیں
.
"پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی"
.

چنانچہ ہر انسان چاہے وہ پاکستان میں بستا ہو، امریکہ میں ہو یا افریقہ کے زولو قبیلہ میں .. وہ یہ جانتا ہے کہ سچ بولنا ایک عمدہ قدر ہے اور جھوٹ بولنا غلط. کسی کی جان بچانا ایک اچھا کام ہے اور کسی بے گناہ کی جان لینا ایک مذموم عمل. یہ تمیز اسکی فطرت میں پہلے دن سے موجود ہے. اس موقع پر وہ حدیث بھی سن لیں جو بتاتی ہے کہ ایک انسان کیسے جان لے کہ کوئی عمل گناہ ہے یا نہیں؟
.
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”استفت قلبک ولو افتاک المفتون“ (اپنے دل سے فتویٰ لو، اگرچہ مفتی بھی فتویٰ دے دیں)
یعنی اگر اپنے اندر جھانکو گے تو تمہارا قلب ، تمہارا داخل تمھیں یہ بتا دے گا کہ کیا گناہ ہے. اس ضمن میں سب سے بڑا مفتی آپ کا اپنا حاسّهِ باطنی ہے.
.
واللہ و اعلم بلصواب
.
 عظیم نامہ

Monday, 11 May 2015

مدارس پر تنقید - پرویز رشید کے تازہ بیان کے تناظر میں

 

مدارس پر تنقید - پرویز رشید کے تازہ بیان کے تناظر میں

 
 
اس سے کوئی صاحب شعور انکار نہیں کرتا کہ مدارس میں یقیناً کچھ خامیاں بنیادی نوعیت کی موجود ہیں. یہ بھی حقیقت ہے کہ ان خامیوں کو دور کرنے کیلئے نصاب اور تربیت دونوں کے حوالے سے کچھ اصلاحات ناگزیر ہیں. یہ بھی تسلیم کرنا چاہیئے کہ ہمارے مذھبی رویوں میں برداشت کی شدید کمی ہے. یہ بھی بجا ہے کہ تکفیری فتووں نے صرف تفرقہ اور نفرت کو پھیلایا ہے.
.
مگر کسی عقلمند کا یہ کہنا کہ ..
.
ہم سائنس و تحقیق میں پیچھے رہ گئے ہیں اور اس کے ذمہ دار مدارس ہیں؟
یا ہماری ملکی معیشت تباہ ہو گئی ہے ، اس کی وجہ مدارس ہیں ؟
یا پھر ہمارے تعلیمی ادارے، یونیورسٹیاں وغیرہ بین الاقوامی معیار میں پیچھے ہیں، اس کا سبب مدارس ہیں؟
.
اس سے زیادہ بے بنیاد، ظالمانہ اور مضحکہ خیز الزام اور کیا ہو سکتا ہے؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی دست کار سے کہیں کہ کیوں کے اس نے گلدان پر نقوش صحیح سے نہیں کاڑھے اسلئے تھر میں بچے بھوک سے مر گئے.
.
سوال یہ ہے کہ کیا مدارس نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا کہ آپ معاشی اصلاحات نہ کریں ؟ کیا کسی مولوی نے آپ پر بندوق تانی تھی کہ جدید ہسپتال قائم نہ کریں؟ کیا اہل مدرسہ نے آپ کو روک رکھا تھا کہ آپ سائنسی ایجادات نہ کریں ؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر اپنی ناکامیوں کا بوجھ مدارس کے سر پر کیوں ڈالتے ہیں ؟ مذھبی طبقہ کو خدارا وہ ملامتی فرقہ نہ بنائیں جن کے کندھے پر رکھ کر آپ اپنی بندوق چلا سکیں.
.
میں نے پوسٹ کے آغاز میں ہی یہ تحریر کردیا تھا کہ مدارس میں بلاشبہ کئی خامیاں موجود ہیں. مگر سوچنا یہ ہے کہ کس شعبہ یا طبقہ میں نہیں ہیں؟ کیا آپ کی فوج دودھ میں دھلی ہے ؟ کیا آپ کا میڈیا بہت شفاف ہے ؟ کیا آپ کا تعلیمی نظام قابل تعریف ہے ؟ کیا آپ کے قانون ساز ادارے بکاؤ نہیں ہیں ؟ کیا آپ کے ڈاکٹرز انجینیرز سے لے کر ایک چھابڑی والے سبزی فروش تک بد دیانت نہیں ہیں ؟ یا پھر آپ کے سیاستدان کرپشن سے پاک ہیں ؟
.
جب مسائل ہر جگہ موجود ہیں، اصلاحات کی سخت ضرورت ہر میدان میں لازمی ہیں تو انصاف کیجیئے. ہر شعبہ کو اتنا ہی الزام دیجیئے جس کا وہ ذمہ دار ہے. اگر دین سے محبت ہے ، اگر ملک سے لگاؤ ہے تو ان سب اداروں کو ان کی خامیوں سمیت قبول کریں  اور پھر آگے بڑھ کر اصلاح میں کردار ادا کریں. یہ صرف ماتم کرنے والا رویہ ترک کریں، عمل کے میدان میں اتریں.
.
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصہ کی کوئی شمع جلاتے جاتے

.
عظیم نامہ

Monday, 4 May 2015

شائد ..


شائد


اللہ رب العزت کو زبان کی سختی پسند نہیں ، شائد اسی لئے زبان میں ہڈی نہیں ہوتی ... الله عزوجل کو زندہ مخلوق کا اکڑنا پسند نہیں ، شائد اسی لئے صرف مردہ اکڑ جاتے ہیں ... مگر مردہ لاش پانی میں ڈوبتی نہیں ہے ، شائد اس لئے کہ ڈوبنے کے لئے زندگی ضروری ہے ؟

====عظیم نامہ====