Saturday, 31 January 2015

عوام کا اجتہاد اور تقلید


اجتہاد اور تقلید


آپ کہتے ہیں کہ علماء کو اجتہاد کرنا چاہیئے
میں کہتا ہوں کہ عوام کو بھی اجتہاد کرنا چاہیئے
.
آپ کہتے ہیں کہ عوام کے لئے اجتہاد کرنا جائز نہیں
میں کہتا ہوں کہ عوام کے لئے اجتہاد نہایت ضروری ہے
.
فرق بس اتنا ہے کہ عوام کا اجتہاد علماء کے اجتہاد سے یکسر مختلف ہے
.
 ایک عالم قران اور سنت سے براہ راست اجتہاد کر کے اپنی رائے پیش کرتا ہے. جبکہ عوام کا اجتہاد یہ ہے کہ وہ ان مجتہدین علماء کی آراء کا تقابلی جائزہ لے کر اس رائے کا انتخاب کریں جو انہیں قران اور سنت کی تعلیمات سے قریب تر محسوس ہوں 
.
ظاہر ہے کہ عوام سے یہ توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ دین کے ہر حکم کے بارے میں تقابلی جائزہ لیتے رہیں مگر وہ احکام جن کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی ممکنہ اشکال پیدا ہوگیا ہو یا پھر وہ بنیادی نوعیت کے ہوں، تو پھر لازم ہے کہ وہ زحمت کرکے دوسرے  پیش کردہ استدلال کا بھی کتاب و سنت کی روشنی میں جائزہ لیں اورپھر نتیجہ اخذ کریں. اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو ان میں اور ان مشرکین مکہ میں کیا فرق باقی رہ جائے گا جو اپنے خاندانی مذھب اور استدلال کو اپنائے  رہے. جب انہیں تنبیہہ کی جاتیکہ ایسا نہ کرو تو ان کا جواب ہوتا
.
 (نتبع ما ألفينا عليه آباءنا (ہم تو اسی کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا 
.
قرآن مجید میں (سورۃالتوبہ آیت 31) میں اللہ تعالیٰ نے  نصاریٰ کےمتعلق یہ فرمایا ہے کہ انھوں نے عالموں اور زاہدوں کو اپنا خدا بنا لیا تھا، بخاری شریف میں رسول عربی صلی الله و الہے وسلم نے خدا بنا لینے کی تصریح  یوں کی ہے کہ ان کے علماء انھیں جو کچھ کہتے ، وہ اسے مان لیتے تھے چاہے وہ اللہ کے نازل کردہ واضح  کیا احکامات  کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ان کا اصرار صرف اس بات پر تھا کہ کیا تم ہمارے علماء سے زیادہ جانتے ہو؟ یا ہمارے آباء سے زیادہ زہین بن گئے ہو؟ حقیقت میں یہی وہ رویہ یعنی جمود تھا جو قبولِ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ذرا غور کیجیے کہ اگر قرآن اس جمود کی مخالفت نہ کرتا  تو کیا ہمارے آباء و  اجداد ، یا ہم خود باطل مذہبی رہنماؤں کی پیروی میں رہتے ہوئے دینِ حق تک پہنچ سکتے تھے؟قرآن مجید نے  انسانی فکر سےاسی  جاہلانہ جمود کو ختم کرنے کے لیے غور و فکر کی دعوت  دی اور لوگوں (عوام) کے ذہنوں کو وسیع کیا۔
 یہ اعتراض اپنی صحت کے اعتبار سے لغو ہے کہ اسطرح ہر شخص اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگے گا. سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی خواہش نفس کو دین کے احکام پر ترجیح دیتا ہے تو وہ ہر صورت میں چاہے تقلید کرتا ہو یا نہ کرتا ہو ، اس غلط روش کو اپنائے رکھے گا. ایسے شخص کی تربیت کی جائے گی، اسے سمجھایا جائےگا کہ دین میں کسی رائے کو اختیار کرنے کا میعار خواہش نہیں بلکہ قران و سنت کا استدلال ہے. اب اگر پوری علمی دیانت کے باوجود یہ شخص غلطی کر بیٹھتا ہے اور نتیجہ میں اس رائے کو اپناتا ہے جو کمزور تھی تو پھر مندرجہ بالا حدیث اس پر بھی ایسے ہی صادق آ جائے گی جیسے کہ اس مجتہد پر جسکی رائے اس نے اختیار کی
.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے والے کے متعلق فرمایا :
.
إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ، فَلَه أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدُ ثُمَّ أَخْطَاءَ فَلَهُ أَجْرٌ.
.
جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ دینے میں صحیح اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اور اگر اس نے اجتہاد میں غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے۔
.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنه، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، 6 : 2676، رقم : 6919
2. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب بيان اجر الحاکم إذا اجتهد، فأصاب أو أخطا 3 : 1342، رقم : 1716

تقلید اپنی اصل میں بری نہیں بلکہ ایک احسن عمل ہے مگر اندھی تقلید کسی طور جائز نہیں. ہر شخص خواہ وہ عالم ہو یا جاہل ، کسی نہ کسی درجے میں مقلد ضرور ہے.معاملہ بگڑتا تب ہے جب کوئی اور بات قران و سنت سےواضح حق بن کر آپ کے سامنے آجائے اور آپ صرف اس وجہ سے اس سے چشم پوشی کرلیں کہ یہ آپ کے فرقہ، مسلک یا طبقہ فکر سے میل نہیں کھاتی
.
تقلید اور اندھی تقلید کو ایک سادہ مثال سے سمجھیں. فرض کریں کہ آپ کو پیٹ میں درد کی شدید شکایت ہوجاتی ہے اور آپ علاج کے لئے اپنے خاندانی معالج یعنی ڈاکٹر کے پاس تشریف لے جاتے ہیں. وہ آپ کا معائینہ کر کے آپ کو ایک دوا تجویز کر دیتا ہے. اب آپ اس سے یہ سوال نہیں کرتے کہ یہ دوا کیوں دی؟ یا اس کے اجزاء کیا کیا ہیں؟ یا اسکی جگہ کوئی اور دوا کیوں نہیں دے رہے؟ .. نہیں بلکہ آپ عمومی طور پر خاموشی سے وہ دوا لے لیتے ہیں اور بخوشی اسے نوش بھی کرتے ہیں. آپ کو اپنے خاندانی معالج کی تعلیم اور تجربہ پر قوی اعتماد ہوتا ہے لہٰذا آپ کے دل میں کوئی شکوک جنم نہیں لیتے. یہی تقلید ہے جو اپنے آپ میں ایک احسن عمل ہے. مگر کیا ہو ؟ کہ آپ کو اچانک معلوم پڑے کہ ایک دوسرا بہت بڑا ڈاکٹر یا ایک ڈاکٹروں کی تحقیقاتی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اس دوا سے پیٹ کا درد تو شاید ٹھیک ہوجائے مگر گردہ خراب ہوجانے کا قوی امکان ہے. ایسی صورت میں اب آپ کیا کریں گے ؟ آپ کے پاس دو ہی راستے بچیں گے، پہلا یہ کہ آپ فرمائیں کہ کوئی بھی تحقیق چاہے کتنی ہی مستند کیوں نہ ہو میرے لئے قابل غور نہیں ، کیونکہ میں تو بس اپنے خاندانی ڈاکٹر ہی سے علاج کرواتا  ہوں اور اسی کی رائے کو اپنائے رکھوں گا. اس بیوقوفانہ روش کو اندھی تقلید کہتے ہیں، جس میں عوام کی اکثریت مبتلا ہے. دوسرا راستہ یہ ہے کہ کیونکہ اب آپ کے سامنے دو علمی آراء موجود ہیں تو آپ دونوں کا تقابلی جائزہ لیں گے، ان کا مستند ہونا دیکھیں گے، ان کی صحت پر سوالات کریں گے، ہو سکتا ہے کچھ اور اہل علم سے بھی گفتگو کریں اور پھر اس سب کے بعد جب آپ کا ایک رائے پر اعتماد ہو جائے گا تو اس دوا کو لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کریں گے. اس عقلمندانہ روش کو میری زبان میں عوام کا اجتہاد یا احسن تقلید کہا جاتا ہے
.
واللہ و اعلم بلصواب
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment