عورت کون ؟ ایک پر مزاح جائزہ
عورت ایک ایسی پہیلی ہے جسے آج تک نہ تو کوئی بقراط سلجھا سکا ہے اور نہ ہی کوئی سقراط حل کر پائے گا. عجب معمہ ہے یہ عورت ، طفل سی معصوم بھی اور غضب کی پرکالا بھی. چاہے تو اک مسکان سے بگڑی بات بنا ڈالے اور چاہے تو ایک چٹکتی چنگاری سے گھر کو راکھ بنادے. کہنے والے کہہ گئے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہر ناکامیاب مرد کے پیچھے ایک سے زائد کا ... بات کہاں تک سچ ہے ؟ یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں اس پر ضرور ثبت ہیں کہ جہاں ایک سے زائد عورتوں کا ۔اجماع ہوا تو بس سمجھئے کہ فساد کی داغ بیل پڑی۔ عورت کسی بھی مرد کو شادی کے بعد لکھ پتی بناسکتی ہے۔ شرط فقط اتنی ہے کہ مرد شادی سے قبل کروڑ پتی ہو۔
.
عورتوں کی دو اقسام ہیں ، پہلی وہ جو جھگڑا کرتی ہیں اور دوسری وہ جو جھگڑا کرواتی ہیں. دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عورت خواہ کسی بھی خطہ کی ہو .. وہ عورت ہوتی ہے. یہاں ہمارے کہنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ تعلیم، رہن سہن، ثقافت یا پہناوہ خواتین پر نظر انداز نہیں ہوتے. یقیناً ان عوامل کا ظہور شخصیت پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن ان کا مشترک اور بنیادی زاویہ سوچ ہر عورت کے 'عورت' ہونے کی دلیل دیتا ہے. یہ ایسا ہی ہے کہ گویا کینو افریقہ کا ہو یا کراچی سبزی منڈی کا .. وہ ہوتا کھٹا ہی ہے
.
عورتوں کو بطور استعارہ 'صنف نازک' سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے
.
نازکی ان کے لب کی کیا کہئے ؟
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے
.
مگر یقین جانئے اسی نازکی کے بل پر اس عورت نے بڑے سے بڑے پہلوان پچھاڑ دیئے. تاریخ شاہد ہے کہ وہ جنگجو اور سورما جو کسی طاقت یا فوج کے سامنے نہ جھکے وہ عورت کے دام میں با آسانی جا پھنسے اور زیر ہوگئے. اس پر طرہ یہ کہ صنف نازک کل بھی مظلوم تھی، آج بھی مظلوم ہے اور شائد ابد تک یہ مظلومیت کا تمغہ انکے لئے ہی ریزرو رہے گا
.
خنجر پر کوئی دھبہ نہ دامن پر کوئی داغ
تم قتل کرے ہو یا کرامات کرے ہو ؟
.
اس موقع پر ہمیں معروف مزاحیہ اداکار عمر شریف کی وہ دہائی یاد آگئی۔ جسکے مطابق عورتیں مرتی بھی نہیں ہیں۔ شیر مرجاتا ہے، چیتا مرجاتا ہے، ہاتھی مرجاتا ہے۔ عورتیں نہیں مرتی۔ قبرستان جائو تو میلوں بعد کسی خاتون کی قبر نظر آتی ہے۔ نام مختاراں بی بی۔ عمر نوے برس۔ وجہ موت قتل ! پھر بھی خود نہیں مری کسی نے مارا تو مری
مغرب کا تو یہ عالم ہے کہ حقوق انسانی کی فہرست میں اول بچے، دوئم عورت، سوئم کتے اور چہارم شائد مرد ... اب تو مغربی ممالک میں مرد اس صورت حال سے اس قدر دلبرداشتہ ہیں کہ بطور احتجاج ہم جنسی پر اتر آئے ہیں. ہمیں تو یہ بھی شبہ ہے کہ کلوننگ کے تجربات بھی کہیں اسی محرومی کا شاخسانہ تو نہیں؟ کسی دل جلے شوہر کا شعر ہے
۔
مارا ہے بیوی نے کچھ اس ترنگ میں
ٹیسیں سی اٹھ رہی ہیں مرے انگ انگ میں
۔
اور کہا جو اماں سے بیوی کی مار کا احوال
بولی بیٹا گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
.
ارض پاک کی صورتحال بھی خاصی گھمبیر ہے. حقوق نسواں کے نام پر ہر سطح پر مذاکرے اور مظاھرے کئے جاتے ہیں. صحافت سے لے کر سیاست تک ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے مطالبات ہوتے ہیں مگر جہاں بات آئی سزائے موت کی تو قانون کی کتاب بدل جاتی ہے اور عورت کو پھانسی دینا غیر انسانی فعل قرار پاتا ہے. قومی اسمبلی میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جلد ایوان کسی گھریلو شادی بیاہ کی تقریب کا منظر پیش کرے گا جہاں رکن اسمبلی کو کالا باغ ڈیم سے زیادہ ساتھی رکن کے زیور کی فکر ہوگی. سیاست کے میدان میں مرد حضرات کو یہ معاملہ بھی درپیش ہے کہ عورت کے مقابلہ میں جیت ہو یا ہار .. دونوں صورتوں میں ذلت مرد کا ہی مقدر بنتی ہے. جیت جائے تو مردانگی کا طعنہ ملتا ہے کہ مرد ہو کر عورت کو نیچا دکھاتے ہو؟ اور عورت کے ہاتھ شکست تو بہرکیف دنیا کے تمسخر کا موجب ہے
.
مسرت شاہین اور مولانا فضل الرحمٰن کے یادگار معرکہ کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے؟ آج تک فریقین مولانا کی جائز فتح کو سیاسی گٹھ جوڑ اور دھاندلی کا نام دیتے ہیں
.
خوب جان لیں کہ مرد فطرتاً کنوارہ ہے اور اگر اسے ذرا بھٹکنے کا موقع مل
جائے تو آوارہ بھی ہے. کوئی حاجی صاحب اگر ٹوپی لگا کر اور تسبیح تھام کر
اس مخفی مردانہ رغبت کی اپنے اندر ہونے کی نفی کرتے ہیں تو ہمارے نزدیک یا
تو انہیں میڈیکل چیک اپ کی ضرورت ہے یا پھر وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں
اور اگر کوئی خاتون یہ سوچتی ہیں کہ میرے شوہر یا میرے والد یا میرے بھائی
یا میرے بہنوئی ایسے نہیں ہیں تو وہ ایک سراب میں جی رہی ہیں. حقیقت یہ ہے
کہ مخالف جنس کیلئے ایک فزیکلی فٹ مرد کا دل ضرور بچوں کی طرح مچلتا ہے.
گویا دل تو بچہ ہے جی !
.
کس کو پتہ تھا؟ پہلو میں رکھا .. دل ایسا پاجی بھی ہوگا
ہم تو ہمیشہ، سمجھتے تھے کوئی .. ہم جیسا حاجی ہی ہوگا
.
فرق فقط اتنا ہے کہ ایک مہذب انسان تہذیب نفس کے سبب اپنی نفسانی خواہشات
کو لگام دیئے رکھتا ہے. جب کے دوسرا انسان اپنی نفسی و جنسی خواہش میں ایسا
بے لگام ہوتا ہے کہ کچھ وقت بعد لاعلاج ہوجاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ بوڑھے
مردوں میں بھی آپ کو ایسے ایسے ٹھرکی ملتے ہیں کہ آدمی سر پیٹ لے.
.
کچھ خواتین یہ غلط فہمی بھی پال لیتی ہیں کہ 'کیونکہ' وہ بہت حسین ہیں
اسلئے انکے لئے مردوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے. حالانکہ مرد کی عورت سے
رغبت کا یہ عالم ہے کہ اس کے لئے وہ اکثر کسی خاص سراپے کا محتاج نہیں
ہوتا. گویا خاتون موٹی ہوں، دبلی ہوں، گوری ہوں، کالی ہوں، حسینہ ہوں، عام
صورت ہوں. غرض جو بھی حال ہو مردوں کا ایک جم غفیر ان کا پرستار بن جائے
گا. یہ اور بات کہ ان میں شاذ ہی کوئی ایسا نکلے جو فی الواقع نکاح کا
متمنی ہو. اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گھر پر رشتے آنے کی لائن کبھی نہیں لگے
گی مگر کالج، یونیورسٹی، محلے، فیس بک ہر جگہ مرد آگے پیچھے گھوم رہے ہوں
گے. جیسے سب سے بڑی حور پری یہی ہیں. اصولاً تو جب باہر ہزاروں مرد مداح
بنے ہوئے ہیں تو کم از کم آٹھ دس تو رشتے ہر وقت آئیں؟ ظاہر ہے کہ اکثر
کیسز میں ایسا نہیں ہوتا. عقلمند عورت وہ ہے جو غیر مردوں کی اس پذیرائی سے
مسرور ہوکر اٹھلاتی نہ پھرے بلکہ اپنی قابلیت اور شخصیت کو مضبوط بنانے پر
دھیان دے. تاکہ کل جب رشتے کی بات ہو تو کوئی سینسبل انسان اس سے نکاح کا
متمنی ہو.
.
عورت کو خوش رکھنے کی سعی کسی بھی مرد کے لئے جوئے شیر بجا لانے کے مترادف ہے . خواتین کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ انہیں جتنا بھی خوش رکھنے کی کوشش کی جائے وہ اتنا ہی روٹھنے کے مواقع ڈھونڈ نکالتی ہیں. یہ مثال ایسی ہی ہےکہ جیسے مذہبی سیاسی جماعتوں کے قدموں میں اگر حکومت وقت اپنی دستار بھی رکھ چھوڑے تو وہ یہ کہہ کر دھرنے یا ہڑتال پر چلی جائیں گی کہ دستار کا کپڑا .امریکی ہے
.
ہمارے ایک جہاندیدہ دوست خاندانی مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے شوخی سے بولے
ہمارے ایک جہاندیدہ دوست خاندانی مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے شوخی سے بولے
.
عظیم میاں ! یاد رکھیں مرد اور عورت کے جھگڑے میں ہمیشہ مرد ہی ہارتا ہے، مرد عورت سے جیت نہیں سکتا
.
ہم نے مسکرا کر استفسار کیا ... اور قبلہ اگر جھگڑا دو عورتوں کے بیچ میں ہو، تب ہارنے یا جیتنے والا کون ہوگا؟
.
انہوں نے جوابی مسکان کے ساتھ کامل
اطمینان سے جواب دیا ... اگر جھگڑا دو عورتوں کے بیچ ہو تو کوئی نہ جیتتا
ہے نہ ہارتا ہے ، کیونکہ جیت ہار کے فیصلہ کیلئے ایک کا ہار ماننا ضروری ہے
.
اگر
تم ایسی عورت سے ملو جو اپنی غلطی کا اعتراف کرے، معافی مانگے اور اپنی
تصحیح کرلے تو ۔۔ خبردار ہوجائو ! وہ عورت نہیں مرد ہے ! عورتیں یہ سب نہیں
کرتی
بھلے وقتوں کا ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنی شب و روز کی ریاضت سے فضا میں پرواز کرنا سیکھ لی. دل میں خیال آیا کہ بس یہی موقع ہے اپنی زوجہ کو متاثر کرنے کا. پس فوراًاڑان بھری اور اپنے گھر کا رخ کیا. راہ میں جس خاص و عام کی نظر پڑی وہ ششدر رہ گیا. بالکنی میں سے جھانکتی بیگم صحابہ نے بھی جو کسی بندہ بشر کو محو پرواز دیکھا تو فرط حیرت سے دانتوں تلے انگلی داب لی. بلآخر ان صاحب نے زمین کا رخ کیا اور اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی. بیگم نے دروازہ کھولتے ہی قریباً چیختے ہوئے کہا " اجی ! آپ نے اس اڑتے ہوئے ولی اللہ کو دیکھا ؟؟" شوھر صاحب نے مسرت سے پھولتے ہوئے کہا کہ "اری نیک بخت ! وہ اڑتا ہوا ولی میں ہی تو تھا "- بیگم نے جیسے ہی سنا تو تیور بدلے اور شان بے نیازی سے زلف دراز کو جھٹک کر کہا "تب ہی میں کہوں کہ پرواز میں پختگی کیوں نہ تھی؟ آپ سے کوئی کام ٹھیک سے ہوتا بھی ہے کہ نہیں! جانے کون منحوس گھڑی آپ کے پلے باندھی گئی"- غرض ان چار حروف پر مبنی لفط 'عورت' کو سمجھنا حضرت انسان کے بس کا روگ نہیں
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment