Saturday, 31 January 2015

عوام کا اجتہاد اور تقلید


اجتہاد اور تقلید


آپ کہتے ہیں کہ علماء کو اجتہاد کرنا چاہیئے
میں کہتا ہوں کہ عوام کو بھی اجتہاد کرنا چاہیئے
.
آپ کہتے ہیں کہ عوام کے لئے اجتہاد کرنا جائز نہیں
میں کہتا ہوں کہ عوام کے لئے اجتہاد نہایت ضروری ہے
.
فرق بس اتنا ہے کہ عوام کا اجتہاد علماء کے اجتہاد سے یکسر مختلف ہے
.
 ایک عالم قران اور سنت سے براہ راست اجتہاد کر کے اپنی رائے پیش کرتا ہے. جبکہ عوام کا اجتہاد یہ ہے کہ وہ ان مجتہدین علماء کی آراء کا تقابلی جائزہ لے کر اس رائے کا انتخاب کریں جو انہیں قران اور سنت کی تعلیمات سے قریب تر محسوس ہوں 
.
ظاہر ہے کہ عوام سے یہ توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ دین کے ہر حکم کے بارے میں تقابلی جائزہ لیتے رہیں مگر وہ احکام جن کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی ممکنہ اشکال پیدا ہوگیا ہو یا پھر وہ بنیادی نوعیت کے ہوں، تو پھر لازم ہے کہ وہ زحمت کرکے دوسرے  پیش کردہ استدلال کا بھی کتاب و سنت کی روشنی میں جائزہ لیں اورپھر نتیجہ اخذ کریں. اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو ان میں اور ان مشرکین مکہ میں کیا فرق باقی رہ جائے گا جو اپنے خاندانی مذھب اور استدلال کو اپنائے  رہے. جب انہیں تنبیہہ کی جاتیکہ ایسا نہ کرو تو ان کا جواب ہوتا
.
 (نتبع ما ألفينا عليه آباءنا (ہم تو اسی کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا 
.
قرآن مجید میں (سورۃالتوبہ آیت 31) میں اللہ تعالیٰ نے  نصاریٰ کےمتعلق یہ فرمایا ہے کہ انھوں نے عالموں اور زاہدوں کو اپنا خدا بنا لیا تھا، بخاری شریف میں رسول عربی صلی الله و الہے وسلم نے خدا بنا لینے کی تصریح  یوں کی ہے کہ ان کے علماء انھیں جو کچھ کہتے ، وہ اسے مان لیتے تھے چاہے وہ اللہ کے نازل کردہ واضح  کیا احکامات  کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ان کا اصرار صرف اس بات پر تھا کہ کیا تم ہمارے علماء سے زیادہ جانتے ہو؟ یا ہمارے آباء سے زیادہ زہین بن گئے ہو؟ حقیقت میں یہی وہ رویہ یعنی جمود تھا جو قبولِ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ذرا غور کیجیے کہ اگر قرآن اس جمود کی مخالفت نہ کرتا  تو کیا ہمارے آباء و  اجداد ، یا ہم خود باطل مذہبی رہنماؤں کی پیروی میں رہتے ہوئے دینِ حق تک پہنچ سکتے تھے؟قرآن مجید نے  انسانی فکر سےاسی  جاہلانہ جمود کو ختم کرنے کے لیے غور و فکر کی دعوت  دی اور لوگوں (عوام) کے ذہنوں کو وسیع کیا۔
 یہ اعتراض اپنی صحت کے اعتبار سے لغو ہے کہ اسطرح ہر شخص اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگے گا. سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی خواہش نفس کو دین کے احکام پر ترجیح دیتا ہے تو وہ ہر صورت میں چاہے تقلید کرتا ہو یا نہ کرتا ہو ، اس غلط روش کو اپنائے رکھے گا. ایسے شخص کی تربیت کی جائے گی، اسے سمجھایا جائےگا کہ دین میں کسی رائے کو اختیار کرنے کا میعار خواہش نہیں بلکہ قران و سنت کا استدلال ہے. اب اگر پوری علمی دیانت کے باوجود یہ شخص غلطی کر بیٹھتا ہے اور نتیجہ میں اس رائے کو اپناتا ہے جو کمزور تھی تو پھر مندرجہ بالا حدیث اس پر بھی ایسے ہی صادق آ جائے گی جیسے کہ اس مجتہد پر جسکی رائے اس نے اختیار کی
.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے والے کے متعلق فرمایا :
.
إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ، فَلَه أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدُ ثُمَّ أَخْطَاءَ فَلَهُ أَجْرٌ.
.
جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ دینے میں صحیح اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اور اگر اس نے اجتہاد میں غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے۔
.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنه، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، 6 : 2676، رقم : 6919
2. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب بيان اجر الحاکم إذا اجتهد، فأصاب أو أخطا 3 : 1342، رقم : 1716

تقلید اپنی اصل میں بری نہیں بلکہ ایک احسن عمل ہے مگر اندھی تقلید کسی طور جائز نہیں. ہر شخص خواہ وہ عالم ہو یا جاہل ، کسی نہ کسی درجے میں مقلد ضرور ہے.معاملہ بگڑتا تب ہے جب کوئی اور بات قران و سنت سےواضح حق بن کر آپ کے سامنے آجائے اور آپ صرف اس وجہ سے اس سے چشم پوشی کرلیں کہ یہ آپ کے فرقہ، مسلک یا طبقہ فکر سے میل نہیں کھاتی
.
تقلید اور اندھی تقلید کو ایک سادہ مثال سے سمجھیں. فرض کریں کہ آپ کو پیٹ میں درد کی شدید شکایت ہوجاتی ہے اور آپ علاج کے لئے اپنے خاندانی معالج یعنی ڈاکٹر کے پاس تشریف لے جاتے ہیں. وہ آپ کا معائینہ کر کے آپ کو ایک دوا تجویز کر دیتا ہے. اب آپ اس سے یہ سوال نہیں کرتے کہ یہ دوا کیوں دی؟ یا اس کے اجزاء کیا کیا ہیں؟ یا اسکی جگہ کوئی اور دوا کیوں نہیں دے رہے؟ .. نہیں بلکہ آپ عمومی طور پر خاموشی سے وہ دوا لے لیتے ہیں اور بخوشی اسے نوش بھی کرتے ہیں. آپ کو اپنے خاندانی معالج کی تعلیم اور تجربہ پر قوی اعتماد ہوتا ہے لہٰذا آپ کے دل میں کوئی شکوک جنم نہیں لیتے. یہی تقلید ہے جو اپنے آپ میں ایک احسن عمل ہے. مگر کیا ہو ؟ کہ آپ کو اچانک معلوم پڑے کہ ایک دوسرا بہت بڑا ڈاکٹر یا ایک ڈاکٹروں کی تحقیقاتی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اس دوا سے پیٹ کا درد تو شاید ٹھیک ہوجائے مگر گردہ خراب ہوجانے کا قوی امکان ہے. ایسی صورت میں اب آپ کیا کریں گے ؟ آپ کے پاس دو ہی راستے بچیں گے، پہلا یہ کہ آپ فرمائیں کہ کوئی بھی تحقیق چاہے کتنی ہی مستند کیوں نہ ہو میرے لئے قابل غور نہیں ، کیونکہ میں تو بس اپنے خاندانی ڈاکٹر ہی سے علاج کرواتا  ہوں اور اسی کی رائے کو اپنائے رکھوں گا. اس بیوقوفانہ روش کو اندھی تقلید کہتے ہیں، جس میں عوام کی اکثریت مبتلا ہے. دوسرا راستہ یہ ہے کہ کیونکہ اب آپ کے سامنے دو علمی آراء موجود ہیں تو آپ دونوں کا تقابلی جائزہ لیں گے، ان کا مستند ہونا دیکھیں گے، ان کی صحت پر سوالات کریں گے، ہو سکتا ہے کچھ اور اہل علم سے بھی گفتگو کریں اور پھر اس سب کے بعد جب آپ کا ایک رائے پر اعتماد ہو جائے گا تو اس دوا کو لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کریں گے. اس عقلمندانہ روش کو میری زبان میں عوام کا اجتہاد یا احسن تقلید کہا جاتا ہے
.
واللہ و اعلم بلصواب
.
====عظیم نامہ====

Thursday, 15 January 2015

"پی - کے"


"پی - کے"



حال ہی میں بالی وڈ کی ایک مووی "پی - کے" کے نام سے ریلیز ہوئی. اس فلم میں مذھب کی جانب سے پیش کردہ فرسودہ عقائد کو تختہ مشق بنایا گیا اور ساتھ ہی مذھبی ٹھیکیداروں پر رانگ نمبر کہہ کر کڑی تنقید کی گئی. پیغام یہ تھا کہ جھوٹے خداءوں اور اس کے ٹھیکیداروں کو رانگ نمبر جان کر مسترد کردو اور حقیقی خدا کے رائٹ نمبر کو اپنا لو. دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جہاں اسے مختلف مذاھب جیسے ھندوازم کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا. وہاں دو بڑے حلقوں سے اسے پذیرائی بھی حاصل ہوئی. پہلا حلقہ ملحدین کا ہے اور دوسرا روشن خیال مسلمانوں کا. ملحدین اس لئے بغلیں بجا رہے ہیں کیونکہ اس میں خداءوں کو رانگ نمبر کہہ کر انکا انکار کیا گیا اور مسلم اس لئے شادمان ہیں کہ اس میں رانگ نمبروں کو رد کرکے رائٹ نمبر یعنی حقیقی خدا کو ماننے کی ترغیب دی گئی ہے جو کے اسلام کا بنیادی پیغام ہے. یہ ایک بار پھر اسی حقیقت کا غماذ ہے کہ نظریاتی سطح پر آخری ٹکراءو انہی دو حلقوں کے بیچ ہونا ہے. افراد کی ایک تعداد اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگی اور دوسری تعداد الحاد کی چادر میں منہ چھپالےگی. یہی اصل حق و باطل کا معرکہ ہے. واللہ و عالم بلصواب

.
===== عظیم نامہ====

پارٹ ٹائم نیک


پارٹ ٹائم نیک 


ہم انسانوں کی اکثریت پارٹ ٹائم نیک بننا چاھتی ہے اور فل ٹائم نیک بننے سے خوفزدہ ہے. کتنے ہی ہیں جو اس ڈر سے حج کی کوشش نہیں کرتے کہ کہیں گناہ نہ چھوڑنے پڑ جائیں اور کتنے ہی ہیں جو اس خوف سے قران نہیں سمجھتے کہ کہیں سدھر نہ جائیں


.
====عظیم نامہ====


حقیقی موت کیا ہے؟



حقیقی موت کیا ہے؟




قران حکیم کے بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ موت سانس رکنے کا نہیں بلکہ قلب مردہ ہوجانے کا نام ہے. جو ذکر و فکر کرتا ہے اس کا قلب زندہ ہے یعنی اس کا وجود زندہ ہے، جو زکر و فکر سے غافل ہے اس کا قلب مردہ ہے یعنی وہ سانس لے کر بھی چلتا پھرتا مردہ ہے. 

.
====عظیم نامہ====

Sunday, 11 January 2015

عورت کون ؟ ایک پر مزاح جائزہ


عورت کون ؟ ایک پر مزاح جائزہ


عورت ایک ایسی پہیلی ہے جسے آج تک نہ تو کوئی بقراط سلجھا سکا ہے اور نہ ہی کوئی سقراط حل کر پائے گا. عجب معمہ ہے یہ عورت ، طفل سی معصوم بھی اور غضب کی پرکالا بھی. چاہے تو اک مسکان سے بگڑی بات بنا ڈالے اور چاہے تو ایک چٹکتی چنگاری سے گھر کو راکھ بنادے. کہنے والے کہہ گئے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا  ہے اور ہر ناکامیاب مرد کے پیچھے ایک سے زائد  کا ... بات کہاں تک سچ ہے ؟ یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں اس پر ضرور ثبت ہیں کہ جہاں ایک سے زائد عورتوں کا ۔اجماع ہوا تو بس سمجھئے کہ فساد کی داغ بیل پڑی۔ عورت کسی بھی مرد کو شادی کے بعد لکھ پتی بناسکتی ہے۔ شرط فقط اتنی ہے کہ مرد شادی سے قبل کروڑ پتی ہو۔
.
عورتوں کی دو اقسام ہیں ، پہلی وہ جو جھگڑا کرتی ہیں اور دوسری وہ جو جھگڑا کرواتی ہیں. دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عورت خواہ کسی بھی خطہ کی ہو .. وہ عورت ہوتی ہے. یہاں ہمارے کہنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ تعلیم، رہن سہن، ثقافت یا پہناوہ خواتین پر نظر انداز نہیں ہوتے. یقیناً ان عوامل کا ظہور شخصیت پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن ان کا مشترک اور بنیادی زاویہ سوچ ہر عورت کے 'عورت' ہونے کی دلیل دیتا ہے. یہ ایسا ہی ہے کہ گویا کینو افریقہ کا ہو یا کراچی سبزی منڈی کا .. وہ ہوتا کھٹا ہی ہے
.

عورتوں کو بطور استعارہ 'صنف نازک' سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے
.
نازکی ان کے لب کی کیا کہئے ؟
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے 
.
مگر یقین جانئے اسی نازکی کے بل پر اس عورت نے بڑے سے بڑے پہلوان پچھاڑ دیئے. تاریخ شاہد ہے کہ وہ جنگجو اور سورما جو کسی طاقت یا فوج کے سامنے نہ جھکے وہ عورت کے دام میں با آسانی جا پھنسے اور زیر ہوگئے. اس پر طرہ یہ کہ صنف نازک کل بھی مظلوم تھی، آج بھی مظلوم ہے اور شائد ابد تک یہ مظلومیت کا تمغہ انکے لئے ہی ریزرو رہے گا
.
خنجر پر کوئی دھبہ نہ دامن پر کوئی داغ 
تم قتل کرے ہو یا کرامات کرے ہو ؟
.

اس موقع پر ہمیں معروف مزاحیہ اداکار عمر شریف کی وہ دہائی یاد آگئی۔ جسکے مطابق عورتیں مرتی  بھی نہیں ہیں۔ شیر مرجاتا ہے، چیتا مرجاتا ہے، ہاتھی مرجاتا ہے۔ عورتیں نہیں مرتی۔ قبرستان جائو تو میلوں بعد کسی خاتون کی قبر نظر آتی ہے۔ نام مختاراں بی بی۔ عمر نوے برس۔ وجہ موت قتل ! پھر بھی خود نہیں مری کسی نے مارا تو مری

مغرب کا تو یہ عالم ہے کہ حقوق انسانی کی فہرست میں اول بچے، دوئم عورت، سوئم کتے اور چہارم شائد مرد ... اب تو مغربی ممالک میں مرد اس صورت حال سے اس قدر دلبرداشتہ ہیں کہ بطور احتجاج ہم جنسی پر اتر آئے ہیں. ہمیں تو یہ بھی شبہ ہے کہ کلوننگ کے تجربات بھی کہیں اسی محرومی کا شاخسانہ تو نہیں؟ کسی دل جلے شوہر کا شعر ہے
۔
مارا ہے بیوی نے کچھ اس ترنگ میں
ٹیسیں سی اٹھ رہی ہیں مرے انگ انگ میں
۔
اور کہا جو اماں سے بیوی کی مار کا احوال
بولی بیٹا گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
.
ارض پاک کی صورتحال بھی خاصی گھمبیر ہے. حقوق نسواں کے نام پر ہر سطح پر مذاکرے اور مظاھرے کئے جاتے ہیں. صحافت سے لے کر سیاست تک ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے مطالبات ہوتے ہیں مگر جہاں بات آئی سزائے موت کی تو قانون کی کتاب بدل جاتی ہے اور عورت کو پھانسی دینا غیر انسانی فعل قرار پاتا ہے. قومی اسمبلی میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جلد ایوان کسی گھریلو شادی بیاہ کی تقریب کا منظر پیش کرے گا جہاں رکن اسمبلی کو کالا باغ ڈیم سے زیادہ ساتھی رکن کے زیور کی فکر ہوگی. سیاست کے میدان میں مرد حضرات کو یہ معاملہ بھی درپیش ہے کہ عورت کے مقابلہ میں جیت ہو یا ہار .. دونوں صورتوں میں ذلت مرد کا ہی مقدر بنتی ہے. جیت جائے تو مردانگی کا طعنہ ملتا ہے کہ مرد ہو کر عورت کو نیچا دکھاتے ہو؟ اور عورت کے ہاتھ شکست تو بہرکیف دنیا کے تمسخر کا موجب ہے
.
مسرت شاہین اور مولانا فضل الرحمٰن کے یادگار معرکہ کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے؟ آج تک فریقین مولانا کی جائز فتح کو سیاسی گٹھ جوڑ اور دھاندلی کا نام دیتے ہیں
.



خوب جان لیں کہ مرد فطرتاً کنوارہ ہے اور اگر اسے ذرا بھٹکنے کا موقع مل جائے تو آوارہ بھی ہے. کوئی حاجی صاحب اگر ٹوپی لگا کر اور تسبیح تھام کر اس مخفی مردانہ رغبت کی اپنے اندر ہونے کی نفی کرتے ہیں تو ہمارے نزدیک یا تو انہیں میڈیکل چیک اپ کی ضرورت ہے یا پھر وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور اگر کوئی خاتون یہ سوچتی ہیں کہ میرے شوہر یا میرے والد یا میرے بھائی یا میرے بہنوئی ایسے نہیں ہیں تو وہ ایک سراب میں جی رہی ہیں. حقیقت یہ ہے کہ مخالف جنس کیلئے ایک فزیکلی فٹ مرد کا دل ضرور بچوں کی طرح مچلتا ہے. گویا دل تو بچہ ہے جی !

.
کس کو پتہ تھا؟ پہلو میں رکھا .. دل ایسا پاجی بھی ہوگا 
ہم تو ہمیشہ، سمجھتے تھے کوئی .. ہم جیسا حاجی ہی ہوگا 
.
فرق فقط اتنا ہے کہ ایک مہذب انسان تہذیب نفس کے سبب اپنی نفسانی خواہشات کو لگام دیئے رکھتا ہے. جب کے دوسرا انسان اپنی نفسی و جنسی خواہش میں ایسا بے لگام ہوتا ہے کہ کچھ وقت بعد لاعلاج ہوجاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ بوڑھے مردوں میں بھی آپ کو ایسے ایسے ٹھرکی ملتے ہیں کہ آدمی سر پیٹ لے. 
.
کچھ خواتین یہ غلط فہمی بھی پال لیتی ہیں کہ 'کیونکہ' وہ بہت حسین ہیں اسلئے انکے لئے مردوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے. حالانکہ مرد کی عورت سے رغبت کا یہ عالم ہے کہ اس کے لئے وہ اکثر کسی خاص سراپے کا محتاج نہیں ہوتا. گویا خاتون موٹی ہوں، دبلی ہوں، گوری ہوں، کالی ہوں، حسینہ ہوں، عام صورت ہوں. غرض جو بھی حال ہو مردوں کا ایک جم غفیر ان کا پرستار بن جائے گا. یہ اور بات کہ ان میں شاذ ہی کوئی ایسا نکلے جو فی الواقع نکاح کا متمنی ہو. اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گھر پر رشتے آنے کی لائن کبھی نہیں لگے گی مگر کالج، یونیورسٹی، محلے، فیس بک ہر جگہ مرد آگے پیچھے گھوم رہے ہوں گے. جیسے سب سے بڑی حور پری یہی ہیں. اصولاً تو جب باہر ہزاروں مرد مداح بنے ہوئے ہیں تو کم از کم آٹھ دس تو رشتے ہر وقت آئیں؟ ظاہر ہے کہ اکثر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا. عقلمند عورت وہ ہے جو غیر مردوں کی اس پذیرائی سے مسرور ہوکر اٹھلاتی نہ پھرے بلکہ اپنی قابلیت اور شخصیت کو مضبوط بنانے پر دھیان دے. تاکہ کل جب رشتے کی بات ہو تو کوئی سینسبل انسان اس سے نکاح کا متمنی ہو.
.


عورت کو خوش رکھنے کی سعی کسی بھی مرد کے لئے جوئے شیر بجا لانے کے مترادف ہے . خواتین کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ انہیں جتنا بھی خوش رکھنے کی کوشش کی جائے وہ اتنا ہی روٹھنے کے مواقع ڈھونڈ نکالتی ہیں. یہ مثال ایسی ہی ہےکہ جیسے مذہبی سیاسی جماعتوں  کے قدموں میں اگر حکومت وقت اپنی دستار بھی رکھ چھوڑے تو وہ یہ کہہ کر دھرنے یا ہڑتال پر چلی جائیں گی کہ دستار کا کپڑا .امریکی ہے
.
ہمارے ایک جہاندیدہ دوست خاندانی مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے شوخی سے بولے 

.
عظیم میاں ! یاد رکھیں مرد اور عورت کے جھگڑے میں ہمیشہ مرد ہی ہارتا ہے، مرد عورت سے جیت نہیں سکتا 
.
ہم نے مسکرا کر استفسار کیا ... اور قبلہ اگر جھگڑا دو عورتوں کے بیچ میں ہو، تب ہارنے یا جیتنے والا کون ہوگا؟
انہوں نے جوابی مسکان کے ساتھ کامل اطمینان سے جواب دیا ...  اگر جھگڑا دو عورتوں کے بیچ ہو تو کوئی نہ جیتتا ہے نہ ہارتا ہے ، کیونکہ جیت ہار کے فیصلہ کیلئے ایک کا ہار ماننا ضروری ہے
 .
اگر تم ایسی عورت سے ملو جو اپنی غلطی کا اعتراف کرے، معافی مانگے اور اپنی تصحیح کرلے تو ۔۔ خبردار ہوجائو ! وہ عورت نہیں مرد ہے ! عورتیں یہ سب نہیں کرتی
.
بھلے وقتوں کا ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنی شب و روز کی ریاضت سے فضا میں پرواز کرنا سیکھ لی. دل میں خیال آیا   کہ بس یہی موقع ہے اپنی زوجہ کو متاثر کرنے کا. پس فوراًاڑان بھری اور اپنے گھر کا رخ کیا. راہ میں جس خاص و عام کی نظر پڑی وہ ششدر رہ گیا. بالکنی میں سے جھانکتی بیگم صحابہ نے بھی جو کسی بندہ بشر کو محو پرواز دیکھا تو فرط حیرت سے دانتوں تلے انگلی داب لی. بلآخر ان صاحب نے زمین کا رخ کیا اور اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی.  بیگم نے دروازہ کھولتے ہی قریباً چیختے ہوئے کہا " اجی ! آپ نے اس اڑتے ہوئے ولی اللہ کو دیکھا ؟؟" شوھر صاحب نے مسرت سے پھولتے ہوئے کہا کہ "اری نیک بخت ! وہ اڑتا ہوا ولی میں ہی تو تھا "- بیگم نے جیسے ہی سنا تو تیور بدلے اور شان بے نیازی سے زلف دراز کو جھٹک کر کہا "تب ہی میں کہوں کہ پرواز میں پختگی کیوں نہ تھی؟ آپ سے کوئی کام ٹھیک سے ہوتا بھی ہے کہ نہیں! جانے کون منحوس گھڑی آپ کے پلے باندھی گئی"- غرض ان چار حروف پر مبنی لفط 'عورت' کو سمجھنا حضرت انسان کے بس کا روگ نہیں
.
====عظیم نامہ====

Friday, 9 January 2015

ہم جنس پرستی

ہم جنس پرستی ہر دور میں کسی نہ کسی درجہ میں موجود رہی ہے مگر آج مغربی معاشرے میں انسانی حقوق کے نام پر اسے جتنی  سرپرستی حاصل ہوئی ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نہ ملی تھی. غالباً یہی وجہ ہے کہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ہم جنس پرستی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے. اس کا ایک ہلکا سا اندازہ ٢٠٠٦ کی دس سال پرانی امریکی تحقیق سے ہوتا ہے ، جس کے مطابق 'سان فرانسیسکو ' شہر کی پندرہ فیصد آبادی خود کو ہم جنس پرست کہتی ہے. ان دس سالوں میں اور مزید کتنا اضافہ ہوا ہوگا ؟ اس کا اندازہ آپ خود بخوبی کرسکتے ہیں.
ہم جنسی مرد و عورت دونوں میں موجود ہوسکتی ہے اور اسے آپ دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں. پہلی قسم جو اکثریت میں ہے وہ ان افراد پر مشتمل ہے جو اپنی زندگی کے حالات و واقعات سے متاثر ہوکر ہم جنسی کا شعوری انتخاب کرتے ہیں. اس کے برعکس دوسری قسم (جن کی تعداد نسبتاً کم ہے) ، ان اشخاص پر مبنی ہے جو کسی ایسے جسمانی نقص ک
ے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جو ان کے 'ہارمونل بیلنس' کو متاثر کرکے صنف مخالف جیسے محسوسات عطا کردیتا ہے
پہلے غور کرتے ہیں اس اکثریت پر جو ہم جنسی کا شعوری انتخاب کرتی ہے. ہم جنسی ایک غیر فطری رویہ ہے جسے انسانیت کا مجموئی فہم ہمیشہ مسترد کرتا آیا ہے. مذہب کے مقدمہ میں پابندی کی بنیادی وجہ بھی اس فعل کا غیر متوازن اور غیر فطری ہونا ہے جو نہ صرف فرد کی ذاتی زندگی کو پراگندہ کرتا ہے بلکہ خاندانی نظم کو بری طرح متاثر کرکے معاشرے میں بھی تنزلی کا باعث بنتا ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم جنسی یا لواطت وغیرہ غیر فطری عمل ہیں تو پھر ایک انسان اس کا انتخاب کیسے کر لیتا ہے؟ .. مشاہداتی طور جو افراد ہم جنسی کو اپنا لیتے ہیں ، ان کی تربیت میں اکثر پانچ عوامل میں سے کوئی ایک عمل ضرور کارفرما رہا ہوتا ہے. پہلا یہ کہ ایک شخص سے بچپن میں ناجائز جنسی فائدہ اٹھایا گیا ہو اور وہ چاہتے نہ چاہتے کسی دوسرے شخص کی جنسی ہوس کا شکار بنتا رہا ہو. ایسا حادثہ اس بچہ کی نفسیات کو تباہ اور فطرت کو مسخ کرسکتا ہے جس کا نتیجہ آگے چل کر مستقل ہم جنسی کو اپنانے کی صورت میں نکلے.  دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کسی لڑکی کی تربیت لڑکوں کے طرز پر یا لڑکے کی تربیت لڑکیوں کے طرز پر کی جائے. ایسے بارہا قصہ سامنے آتے رہے ہیں جہاں بہت سی بہنوں کے درمیان جب ایک بھائی پلا بڑھا تو اس نے وہی کھیل اور شوق اپنا لئے جنہیں اسکی بہنوں نے اپنا رکھا تھا جیسے سجنا سنورنا، سنگھار کرنا، گڑیوں سے کھیلنا وغیرہ. نتیجہ یہ نکلا کہ پختہ عمر میں پہنچ کر اسے بھی دیگر لڑکیوں کی طرح جنس مخالف سے کشش محسوس ہونے لگی.
Teesri waja ye k
aik lambay zamanay tak osay jins e mukhaalif ka saath muyasar na ho saka jese koi qaafla kisi raigistaan ya jungle waghera mei muqayad ho ker reh gya. Ab zaahir
hai k os k wajood mei jinsee zaroorayat mojood hain leken onhe pora kerne ka koi jaaiz tareeqa saamnay nahi. lehaza baaz awqaat aisi sorat mei wo is zaroorat ko
gheir fitri andaaz mei pora kerne se nahi chookta jis mei hum jinsee k saath jaanwaro ya murdoo se jinsi taaluq ki kareeeh tareen misaalein bhi mojood hain.
Choothi waja ye hai k kisi shakhs k liye jins e mukhaalif ki bhermaar ho jaaye jo os se taaluq peda keray. Nateeja ye k pehle wo jins e mukhaalif se gher fitree
fentesi aazmata hai aur phir is se bhi bezaar ho kr hum jinsee ya bachoo k sath ighlaam jese gande fail mei khod ko mbtala kerleta hai. Paanchvien aur aakhree
waja ye hai k woh apne halaal rishte se haraam ghair fitree tareeqa ikhtyaar krta hai yani sodomy apnata hai jo osay kisi derje mei hum jinsee ki tergheeb dene
lagta hai. Waja in paanchon mei se koi bhi rahi ho mager ye waazeh hai k hum jinsi gher fitri tareeq ko apnane ka shakhsana hoti hai. Lehaza ye zaroori hai k in
ghair fitri waaqiat o halaat ka tadaaruk kya jaaye aur mutaasir afraad ko taleem, terbyat, saza ya nafsyaati counseling ke zarye waapis fitri dager per laaya
jaaye.
ye haqeeqat hai k Jinsi muharikaat aik zaroorat ki terha insaani fitrat mei wadyat shuda hain, mager in daayaat ka mojood hona mehz hewaaani taskeen ke liye
nahi hai balkay is ka haqeeqi maqsad afzaaish e nasl aur naee nasl ki terbyat hai. Zahir hai k ye afzaaish, jins mkhalif ke ikhtlaat se he wqoo pazeer ho saktee
hai aur ager afzaaish he na ho tu terbyat ka swaal bhi nahi peda hota. Hum jinsee ager mwaashray mei faroogh pa jaayee tu khandaani nizaam derhm berhm ho ker
reh jata hai. Ab maa, baap ya awlaad jese khobsorat rishtay jo insanyat ka aijaaz hain mafqood ho ker reh jaate hain. aik maghribi tehqeeqi maqaalay k mutaabiq
wo goud liye yateem bachay jo hm jns perast jorron ke zair nigraani palte hain, tarha tarha k nafsyaati aarzo ka shikaar ho jaate hain. ye badeehi haqeeqat hai
k insaan ki terbyat k liye maa aur baap dono ka kirdaar kaleedi hai. Isay tasleem kerne mei bhi kisi ko aar nahi hona chahyee k aik merd chah ker bhi maa nahi
ban sakta aur aik awrat chaah ker bhi baap ki kumee khatum nahi ker saktee. Ager ise tasleem kerne mei phir bhi kisi ko ibhaam ho tu on ashkhaas se pooch leejye
jo maa ya baap mei se kisi aik se mehroom rahe hon. Awrat ne merd se mazhabi, muasharti, saqaafti aur tajurbaati bunyaado per hamesha se kisi na kisi derje mei
perda kya hai. Yahan perday se muraad burqa lena nahi balkay apne ijsaam ko kisi bhi hud mei merd zaat se chopaana hai. ye perda ya khod ko chopana derhaqeeqat
merd ki os gher mamooli jnsee kashish ki waja se hai jo woh sinf e nazuk ke liye mehsoos kerta hai. Khawateen chahe perday ki pabandee ko kitna he ghalat
samjhein ya merdoo ko kitna he zyada zehni bamaar kion na qarar dein. Wo is haqeeqat ko tabdeel kerne se qaasir hain k merd o zun mein aik zaberdast jinsee
kashish mojood hai jise ijtemaai tor per lagaam dena bina hifaazati iqdaamaat ke naamumkin hai. Ager mehz roshan khyaali ya merd ki terbyaat se koi baat banna
hoti tu euorpe o america mein minute k hisaab se lerrkyaan rape na hotien aur in muaashron mei awrat ki hesiat aik sex show piece ki na hoti. Is tamheed ko
perhne ke baad zara ghor kerein k ager hum jinsee k nateeje mein yehee zaberdast kashish merd ko merd se aur awrat ko awrat se peda hojaaye tu mutaasir shakhs
ki zeehni kefyat ka kya aalum hoga? aur is se mwaashray mei jinsee bhook kitne derjay zyaada ho jaaye gee?
Aaj bohat se jidat pasandee aur roshan khyaali ke mubaligh, hum jinsi ko fitree qaraar dete hain aur iska istadlaal mei kuch jaanvaroon ki misaal paish kerte
hain jin mei hum jinsee ka rujhaan paaya gya hai. Ye aik dilchasp aur qaabile  ghor daleel hai mager ise paish kerne waale aik bunyaadi haqeeeqat ko qasadan
bhool jaate hain k jahan insaano aur janvaroo mei buht si fitree mumaasilt mojod hai wahan kaii maamlon mein insaani fitri meelanaat jaanvaroon se qatan
mukhtalif hain. Jese jaanvero mei kaprray na pehnna fitree hai mager insaan ki maashrat mei kapro se khod ko dhaankna is ke posheeda fitri meelan ka zahoor hai.
isee terha jaanvero ko jorra bana ker jinsee taaluq qaaim kerne mein ye pabandee haail nahi hoti k on ka jinsee saathi on ka haqeeqi bhai ya behn ya ma ya baap
hai. Wo bus apni jinsee zaroorat pori kerte hain aur yeheee jaanvaron ki fitrat hai. Iske beraks insaano mei koi saleem ul fitrat shakhs is tsawr se bhi ghin
khaata hai. Janvaro aur insano ke fitri meelanat ka yehee woh ferq hai jise malhooz na rakhne ki waja se kuch insaano ne nung dhrng rehne ko fitrat se qareeb
hona samjh lya. jese hindoo dhrm ke kuch saadho yehee dawa ker k berhina aur gande rehte hain. maghribi mmaalik mei 'naturist' jo akser saahil samander aur
jungle k ilaaqo mein nnange ghoomte hain, in ka falsafa bhi yehee hai k is terha wo fitrat k qareeb hotay hain. isi terhaa ' incest relationship' yani sagay
rishto se jinsi taaluq peda kerne waalo ki taadad din dugnee aur raat chugnee berrh rahee hai. Wo yehee kehte hain k insaan bhi aik jaanver hai lehaaza yerishto
ki taqseem ghlat hai. Aap dekh sakte hain k Hum Jinsee der asal aik amal he nahi balkay tabaah kun sooch hai jo insaan ko fitrat ka naam le ker fitrat se door
ker deti hai. Lehaaza kisi aise dhookay mei na aaieen jo hum jinsee ko fitree qaraar de. is waqt aqwaam e mutahida k social engineering program k teht iskolon,
kalijon aur media k zarye hum jinsee ko terveej ka her mumkin zarya ferahm kya jaraha hai.
ye mkhtsr byaan tha in askhaas ka jo hm jnsi ka daanista intekhaab kerte hain. Ab baat kerte hain us dosre chotay grooh ki jo jnyaati tor per ya tu jnsi aaza se
mehrom hotay hain ya phir jinyaati nuqs ke baais donon jinson ke aazaa le ker peda hotay hain. Aise ashkhaas maazoor k hukm mein daakhil hain. Ehm baat ye hai k
in ke is paidaaishi nuqs ko nuqs tasleem kya jaaye. Isay waja bana ker unhein hum jinsee ki ijazat nahi dee jasakti balkay jis terhan kisi dosri jinyaati kami
(genetic disease) ka ilaaj kya jaata hai, theek isee terha is ka bhi ilaaj kya jaaye ga. Ager ye pedaaishi jinyaati kamzori kisi ilaaj se dour ho sakti hai tu
ise dour kya jaaye ga takay mutaasira shakhs fitri jinsi taaluq qaaiem kerne ke qaabil ho jaaye. Ager aisa momkin na ho aur kisi jinyaati kami ke sabub donon
jins jism mein khl mlt hon tu phir aik imkaan ye bhi hai k jis teruf os shakhs ka tabyaati ya badni rujhaan zyaada ho , ise jdeed sex transformation ke
operation k zarye wo ata ker dya jaayee takay ye shakhs bhi fitri dhaare mein shaamil hosake. Yahan ye baat bhi malhooz rahay k jahan jinsi zaroryaat ka insaani
fitrat mei mojod hona aik haqeeqat hai, wahan dosri haqeeqat ye bhi hai k jinsee zaroryaat zindagee ya mawt ka masla nahi hotien aur in per qaabo paaya jana
mushkil mager mumkin hai. Lehaza beshumaar aise merd aur awrtein mojod hain jo daanista saari zindagee na shaadi kerte hain aur na he koi jinsi taaluq qaaiem
kerte hain. Lehaza ager koi shakhs kisi jinyaati jnsi kami ka shikaar hai tu osay ise aik imtehaan samjh ker qabool kerna hoga aur saber ka raasta apnaana hoga,
yahan tak k os ke liye koi fitree sabeel peda hojaaye. Humein bhi aise logon ko nafrat se nahi balkay hamdardee se dekhna chahye. In se wohee hamdardee hamein
mehsos honi chahyee jo kisi dosre jnyaati marz mein mubtala shakhs se hamein hoti hai.
Aakhri baat ye k ager koi aisa mareez bawajood ilaaj aur pabandio k chup ker hum jinsee ka irtekaab ker bethta hai tu Allah os k sath kya maamla kerein gae? tu
janaab is sawaal ka hatmee jawaab koi nahi de sakta, hum sirf asooli baatein keh sakte hain jaise bud kaari aur hum jinsee berrey gunaah hain. Mager saath mein
hum ye bhi batayeein gae k hamara Rub her shay per qaadir hai, os ne shirk k siwa kisi bhi gunaah ko mwaaaf kerne ka imkaan bataya hai aur wo aisa munsif hai k
her shakhs se os k halaat aur salahyton k mutaabiq jaza o saza ka maamla kerta hai. 

Thursday, 1 January 2015

عمرہ کا بلاوہ



عمرہ کا بلاوہ



اس بار جب پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو بیک وقت دو خواہشات نے دل میں جنم لیا. پہلی یہ کہ پچھلی بار کی طرح عمرہ کرتے ہوئے پاکستان جاؤں اور دوسری خواہش یہ کہ گیارہ سال بعد بقر عید اپنے گھر والوں کے ساتھ منا لوں. ظاہر ہے دونوں خواہشات ایک ساتھ پوری ہونا ناممکن تھا. بقرعید کے موقع پر چونکہ حج کا اہتمام ہوتا ہے لہٰذا عمرہ کا امکان ہی نہیں تھا. پھر مالی تنگی بھی کسی حد میں لاحق تھی. مجھے لامحالہ دو میں سے کسی ایک خواہش ہی کا انتخاب کرنا ضروری تھا. میں نے سوچ کر عمرہ کا انتخاب کیا اور ملازمت پر چھٹی کی درخوست دے دی. مینجر نے اس درخوست کو مسترد کردیا اور کہا کہ ستمبر یا اکتوبر میں ہی چھٹی مل سکے گی. بقر عید انہی مہینوں میں تھی. میں نے اسے غیبی اشارہ سمجھا اور منظور کرکے عید منانے پاکستان چلا آیا. دل میں لیکن ایک کسک سی باقی رہی کہ اللہ پاک ! عمرہ نہیں ہوسکا 
frown emoticon
 .. ابھی اسی سوچ میں دن گزار رہا تھا کہ ایک دن انگلینڈ میں گھر پر گھنٹی بجی اور ایک لفافے کی رجسٹرڈ ڈلیوری ہوئی. لفافہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک کمپنی جس کی سروس میں لیتا رہا تھا ، اس نے پورے برطانیہ میں ایک قرعہ اندازی کی ہے جس کے نتیجے میں میرا واحد نام نکلا ہے، لہٰذا مجھے عمرہ کا مفت ٹکٹ دیا جارہا ہے. 
.
الحمد اللہ ثم الحمد الله .. میرا رب پاک ہے، مسبب الاسباب ہے، قادر المطلق ہے، احکم الحاکمین ہے. میری کل شام عمرہ کے لئے روانگی ہے. میرے پروردگار نے مجھ سیاہ کار کو اپنے گھر بلایا ہے. آپ احباب سے انشااللہ دس گیارہ روز بعد ملاقات ہوگی. 
.
لبيك اللهم لبيك .. لبيك لا شريك لك لبيك .. إن الحمد والنعمة .. لك والملك .. لا شريك لك 



.
====عظیم نامہ====