Wednesday, 24 January 2018

دین سے منسلک اہل علم


دین سے منسلک اہل علم



دین سے منسلک اہل علم کی عزت کیجیئے 
دین سے منسلک اہل ایمان سے مستفید ہوں 
مگر کبھی بھی ... مذہبیوں کو مذہب کی تصویر نہ سمجھیئے 
اور اگر آپ نے کہیں ایسا سمجھنے کی حماقت کی تو بہت امکان ہے کہ کل مذہب کے بھیس میں چھپا کوئی گھٹیا انسان آپ کو دین ہی سے متنفر کردے. آپ کو ایمان سے ہی دور کردے. 
دین کا پیغام سو فیصد سچ ہے، حق ہے، خیر ہے .. مگر بظاہر اس مذہب کا علمبردار نظر آنے والا عالم، صوفی یا مجھ جیسا خودساختہ داعی فی الواقع اپنے کردار میں دین کا عکس ہو ؟ یہ قطعی ضروری نہیں 
.
پوری مذہب کی تاریخ شاہد ہے کہ جہاں ہر دور میں کچھ علماء حق موجود ہوتے ہیں وہاں علماء و مشائخ کا چوغہ پہن کر افراد کا ایک گروہ مافیا کی صورت مذہب کے پردے میں عام لوگوں کا فکری، جنسی اور مالی استحصال کیا کرتا ہے. رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں علماء حق کو انبیاء کا وارث بتایا وہاں ان علماء سو کا بھی تذکرہ کیا جنہیں آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سب سے بدترین قرار دیا
۔
سابقہ امت مسلمہ بنی اسرائیل کی جانب سے علماء و شیوخ کی اندھی پیروی کرنے کو قران حکیم نے شرک سے تعبیر کیا. لہٰذا ارشاد ہے کہ اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبہ: ٣١) 
''انہوں نے اپنے علماء اور شیوخ کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ انکو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں''۔
.
عدی بن حاتم (طائی)سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو (سورہ توبہ کی) مندرجہ بالا آیت (٣١) پڑھتے سنا ''انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے'' (عدی کہتے ہیں) تو میں نے کہا: ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے۔ آپؐ نے فرمایا: جب وہ خدا کے حلال ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے تو تم اس کو حرام نہیں ٹھہراتے اور جب وہ خدا کے حرام کردہ کو حلال کر لیتے ہیں تو تم ان کوحلال نہیں ٹھہراتے؟ میں نے کہا: یہ تو ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو پھر یہی تو ان کی عبادت ہے''
.
لہذا میرے عزیز ۔۔۔ کسی مذہبی ٹھیکیدار، گروہ، فرقے، مدرسے یا فرد کے غلیظ عمل کو دین و مذہب کی حقانیت و پیغام سے ہرگز خلط ملط نہ ہونے دو۔ تم پر فرض ہے کہ اگر صلاحیت و مواقع رکھتے ہو تو دین کا مقدمہ کتاب الہی اور مستحکم سنت سے جانو۔ کسی فرد یا گروہ کو اس کا معیار بلکل نہ بننے دو۔
۔
====عظیم نامہ====
۔
(نوٹ: اس تحریر کے اصل مخاطب وہ ہیں۔ جن سے میری مخاطبت رہی ہے۔ جن میں اہل مدرسہ بھی شامل ہیں اور جو کسی مدرسے یا مولوی کی جانب سے ہوئی زیادتی یا غلط فعل کو بنیاد بناکر دین اسلام سے ہی متنفر ہوچلے ہیں)

اپنا اپنا امتحان ہے یارو


اپنا اپنا امتحان ہے یارو


اس لڑکی کے رشتے نہیں آتے ۔۔
اس لڑکے کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔
اس مرد کی طلاق ہوگئی ۔۔
وہ عورت بیوہ ہوگئی ۔۔
اس جوڑے کے اولاد نہیں ہے ۔۔
اس جوڑے کی اولاد جسمانی معذور ہے ۔۔
اس جوڑے کی اولاد ذہنی توازن سے محروم ہے ۔۔
اس جوڑے کی اولاد بھری جوانی میں مرگئی ۔۔
اس جوڑے کی اولاد والدین کی شدید نافرمان نکلی ۔۔
۔
سب کا اپنا اپنا امتحان ہے یارو ۔۔ سب کا اپنا اپنا چیلنج ۔۔
جو تمہیں درپیش ہے وہی غنیمت ہے ۔۔
اس میں صبر و شکر سے سرخرو ہو ۔۔
جو دوسرے کو درپیش ہے وہ تمہیں درپیش ہوتا تو سوچو کیا ہوتا؟
لہذا حرص اور شکوہ چھوڑ دو ۔۔ راضی بارضا رہنا سیکھ لو ۔۔ تمہارا رب کسی پر اتنا ہی بوجھ ڈالتا ہے جتنا وہ سہہ سکے ۔۔ اگر تمہارا امتحان بڑا ہے تو سرخروئی پر تمہارا اجر بھی اتنا ہی بڑا ہوگا ۔۔
۔
====عظیم نامہ====

Sunday, 21 January 2018

تیری پہچان یہی ہے



تیری پہچان یہی ہے


جو ظاہر ہے وہ باطن میں نہیں اور جو باطن ہے وہ ظاہر میں نہیں. مگر میرا رب بیک وقت الظاہر بھی ہے اور الباطن بھی ..
.
جو سب سے پہلے آتا ہے وہ سب سے آخر کیسے آسکتا ہے؟ مگر میرا رب بیک وقت الاول بھی ہے اور الآخر بھی ..
.
جو رحمدل ہے وہ قہر کہاں ڈھاتا ہے؟ مگر میرا رب بیک وقت الرحمٰن بھی ہے اور القہّار بھی ..
.
جو معاف کرتا ہے وہ انتقام تو نہیں لیتا مگر میرا رب بیک وقت العفو بھی ہے اور المنتقم بھی .. 
.
لہٰذا عظیم ! اپنے خالق کو مخلوق پر قیاس نہ کر .. بلکہ اعتراف کرلے کہ ..
.
تو دل میں تو آتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں، تیری پہچان یہی ہے 
.
====عظیم نامہ====

Saturday, 20 January 2018

مسلمانوں کی کچھ نمائندہ فکری تحریکیں


مسلمانوں کی کچھ نمائندہ فکری تحریکیں

.
صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین کی جماعت جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت یافتہ تھی وہاں نہایت سادہ طبیعت بھی تھی. ان پر جب ایک بار کفر اور ایمان واضح ہوگیا تو انہوں نے منطقی مباحث یا فلسفیانہ استدلال میں وقت نہیں لگایا بلکہ ہر اس بات پر عمل کی کوشش میں لگے رہے جو ان کی اخروی نجات کا سبب بن سکتی تھی. ان کا یہ سادہ مزاج اس صحرائی عرب کی ثقافت بھی تھا جو قران حکیم کے اولین مخاطب تھے. البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے جب فتوحات کا سلسلہ بڑھا اور اسلام کا پیغام غیرمعمولی رفتار سے آدھی دنیا پر چھانے لگا تو مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو نئے چیلنجز درپیش ہوئے. رومن اور گریک فلسفہ اپنا اپنا منفرد ڈھانچہ اور نہایت بلیغ انداز رکھتا تھا. اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج کوئی ڈیڑھ دو ہزار سال بعد بھی ہماری درس گاہیں ان فلسفیوں جیسے فیثاغورث، سقراط، افلاطون، ارسطو وغیرہ کی تعلیمات پر ڈاکٹریٹ کرتے ہیں. آپ اندازہ کرسکتے ہیں؟ کہ جب ان فلاسفاء کی تعلیمات ان سادہ اذہان عربوں اور دیگر مسلمانوں تک پہنچی ہوں گی تو کیسے کیسے سوالات و موضوعات نے جنم لیا ہوگا؟ اس پر طرہ یہ کہ عیسائی مذہبی جماعتوں نے اسی فلسفے کے ذریعے اپنا مقدمہ تیار کررکھا تھا اور اسی کے ذریعے وہ اسلامی تعلیمات کی بنیادوں پر بڑی مہارت سے ذک پہنچانے میں کوشاں تھے. دور خلافت میں جب حکومتی سطح پر سائنس اور فلسفے کی بیشمار کتب کا عربی ترجمہ کیا گیا تو جہاں اس سے تحقیق و علم میں مسلمان آگے آئے وہاں ان فلسفوں کے ذریعے وہ وہ سوال اٹھائے جانے لگے جو پہلے کبھی پیدا ہی نہ ہوئے تھے. فلسفہ جبر و قدر، مسئلہ نقل و عقل، صفات خداوندی عین ذات ہیں یا نہیں، عالم امثال، کائنات محدود یا لامحدود، خدا محدود یا لامحدود، موجود شر میں خدائی انصاف اور اسی طرح دیگر سوالات مسلم اذہان کو متاثر کرنے لگے. کچھ مسلم اہل علم ان گریک اور رومن فلسفوں سے اس درجے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اگر مکمل نہیں تو اس کا بیشتر حصہ اختیار کرلیا. نئی اصطلاحات پیش کی گئی مگر ان کے پیچھے فلسفہ ارسطو یا افلاطون ہی کا ہوا کرتا. گو کچھ فلسفیانہ نتائج ان کے ذاتی بھی تھے۔ ان مسلم اہل علم کو تاریخ میں مسلم فلاسفاء پکارا جاتا ہے. الکندی، الفاربی، ابو سینا وغیرہ اسی سوچ کے نمائندہ ہیں. اسی المیئے کا ذکر علامہ اقبال نے بھی اپنے الہ آباد کے خطبات کے ابتدائیہ میں کیا ہے. 

.
ایسے میں ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں جو عقلی و علمی سطح پر ان جدید فلسفوں کا جواب دے سکیں. اسی مقصد کو لے کر دوسری صدی حجرہ میں ایک نیا گروہ سامنے آیا جنہیں تاریخ میں 'معتزلہ' کے نام سے جانا جاتا ہے. 'حسن بصری رح' کی بصرہ ہی کی علمی نشست میں ان سے ان کے ایک شاگرد 'واصل ابن عطا' نے اختلاف کیا. اس کے بقول گناہ کبیرہ کا مرتکب شخص نہ حالت ایمان میں رہتا ہے اور نہ حالت کفر میں. اس اختلاف کی بناء پر وہ نشست چھوڑ گیا جس پر حسن بصری رح نے فرمایا کہ واصل نے خود کو ہم سے الگ کرلیا. اسی بنیاد پر واصل اور اس کے نئے گروہ کو معتزلہ پکارا گیا. معتزلہ لفظ اعتزال سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں خود کو الگ کرلینا. دھیان رہے کہ معتزلہ خود کو معتزلہ نہیں کہتے تھے بلکہ وہ خود کو 'اهل التوحيد و العدل' کے لقب سے موسوم کرتے تھے. یہیں سے صحیح معنوں میں علم الکلام یا مسلم متکلمین کا آغاز ہوا. متکلم اور فلسفی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فسلفی آخری ہدف متعین نہیں کرتا بلکہ عقل کے گھوڑے دوڑانے سے جو بھی نتیجہ اسے قرین قیاس لگے اسے اختیار کرلیتا ہے. جبکہ متکلم بنیادی اہداف وحی کی روشنی میں پہلے سے متعین کئے ہوتا ہے اور وہ عقل یا فکری استدلال سے اس متعین شدہ ہدف کا دفاع پیش کرتا ہے. معتزلہ کی یہ تحریک واصل ابن عطا کے علاوہ بھی بہت سے اہل علم سے تقویت پاتی رہی جن میں میں 'عامر ابن عبید' اور 'ابوالحدید الالطاف' شہر بصرہ میں جبکہ 'بشر ابن المتعمر' شہر بغداد میں سرفہرست ہیں. معتزلہ نے نہ صرف غیرمسلم فلسفے کا موثر ترین جواب دیا بلکہ ان سیاسی سوالات کے بھی جواب دیئے جو اس وقت عوام کی دل کی آواز تھے. معتزلہ ریشنلسٹ یعنی عقل پسند تھے اور ان کے کئی عقائد و نتائج اس عقل پسندی کو وحی و سنت پر فوقیت دیتے محسوس ہوتے تھے. معتزلہ کی اس تحریک نے کئی سرد و گرم دیکھیے مگر مجموعی اعتبار سے ان کی مقبولیت بڑھتی گئی. یہاں تک کہ خلیفہ مامون کی خلافت میں انہیں سرکاری فکر کا درجہ حاصل ہوگیا. عباسی دور میں ایک عقیدہ معتزلہ کا یہ بھی اپنایا گیا کہ قران حکیم 'مخلوق' ہے. ساتھ ہی یہ اعلان ہوا کہ جو اس سرکاری فکر کو نہیں مانے گا اسے سخت ترین سزا دی جائے گی. ایسے میں اکثر اہل علم خاموش ہوگئے مگر امام احمد بن حنبل رح نے پوری قوت سے تن تنہا حق کی صدا بلند کی اور قران حکیم کو مخلوق ماننے سے انکار کردیا. وہ جانتے تھے کہ قران کو مخلوق ماننا دراصل اسے ناقص منوانا ہے جو مستقبل میں تباہ کن ثابت ہوگا. اس کی پاداش میں انہیں زندان میں ڈالا گیا، کوڑے لگائے گئے مگر وہ اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے. معتزلہ کے زیر اثر اس استبداد نے عوام و خاص میں ان سے دوری پیدا کردی. 
.
بصرہ میں معتزلہ فکر ہی کے ایک علمی گھرانے میں ایک ذہین بچے نے آنکھ کھولی. جن کا نام 'ابو الحسن علي ابن إسماعيل اﻷشعري' رکھا گیا. آپ مشہور صحابی 'ابو موسیٰ الاشعری رض' کی نسل سے تھے. ابوالحسن الاشعری چالیس برس کی عمر تک معتزلہ فکر سے ہی وابستہ رہے. قوی امکان ہے کہ ابتداء ہی سے آپ کو معتزلہ کی فکر سے علمی اختلاف ہونے لگے تھے. مگر پھر آپ نے چالیس سال کی عمر میں دوران رمضان تین بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت کی جس میں آپ کو کہا گیا کہ طریق رسول یعنی احادیث و سنت کی حمایت کرو. اس تجربے کا اثر یہ ہوا کہ آپ نے معتزلہ کی فکر سے جدائی اختیار کی اور پورے زور و شور سے معتزلہ کا علمی رد پیش کیا. آپ نہ صرف معتزلہ فکر میں موجود خامیوں سے باخوبی آگاہ تھے بلکہ دیگر موجود عقائد پر بھی آپ کی گہری نظر تھی. لہٰذا جہاں آپ نے معتزلہ کی عقل پسندی اور علم الکلام کا پردہ چاک کیا، وہاں امام احمد بن حنبل رح کے حامیان کی اس سوچ کو بھی چیلنج کیا جو عقل و کلام کے استعمال کے مکمل مخالف محسوس ہونے لگے تھے. اسی طرح خارجیوں کی اس سمجھ کو انہوں نے غلط قرار دیا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے. ابوالحسن الاشعری کی اس برپا تحریک سے بعد میں بہت سے اہل علم جڑتے چلے گئے. جن کی بڑی تعداد شافعی تھی. اسی دور میں ثمرقند کے گاؤں ماترید میں ایک اور صاحب علم نے مقبولیت حاصل کی جن کا نام 'أبو منصور ماتریدی' تھا. آپ ابو ایوب الانصاری رض کی نسل سے تھے. آپ سے جڑنے والے علماء کی اکثریت حنفی مکتب سے منسلک تھی. آپ نے بھی معتزلہ فکر کا بھرپور علمی رد پیش کیا جیسے معتزلہ کی اسماء و صفات الہی کی سمجھ کو آپ نے غلط ثابت کیا. 'أبو منصور ماتریدی' اور 'ابوالحسن الاشعری' دونوں ہی کی فکر معتزلہ کی بیخ کنی کرتی تھی اور دونوں ہی قران کے ساتھ سنت کو بھی سینے سے لگانے والے تھے. ان دونوں صاحبان علم کی تعلیمات میں بھی کچھ ایک دوسرے سے اختلافات موجود تھے مگر ان کی نوعیت سنجیدہ نا تھی. لہٰذا جلد ہی ان دونوں بزرگان کی فکر نے مل کر سنی فکر کی نمائندگی شروع کردی. جسے آج تک 'جماعت اہل السنہ' کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے. دیوبندی بریلوی سب خود کو جماعت اہل السنہ ہی کہتے ہیں. خود کو عقائد میں اشعری اور ماتریدی کہہ کر پکارتے ہیں. یہاں 'امام ابو حامد غزالی' کا ذکر لازمی ہے جو بعد کے ادوار میں جماعت اہل السنہ یا اشعری فکر کے نمائندہ بن کر ابھرے. آپ ایک زمانے تک فلسفے کے عالم رہے اور اسی طرز استدلال سے وہ مختلف فلسفوں پر جیسے امامیہ، اسماعیلیہ وغیرہ پر نقد کرتے رہے. پھر اہل تصوف سے جڑ کر ان کی فکر میں انقلاب آیا اور انہوں نے علم فلسفہ ہی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا. آپ کی مقبول ترین تصنیف اس ضمن میں 'تہافت الفلسفہ' کے نام سے موجود ہے. اس کتاب نے علمی حلقوں میں ہلچل مچا دی اور فلسفے کے استعمال پرجیسے روک سی پیدا کردی. یہاں تک کہ ایک دوسرے بڑے صاحب علم مسلم فلسفی 'ابن رشد' نے اس کتاب کا بھرپور رد 'تہافت التہافت' کے نام سے پیش کیا. جس نے کسی حد تک علم فلسفہ کا دفاع کیا. دین کے سنجیدہ طالبعلموں کیلئے یہ دونوں کتب آج بھی حصول علم کا بہترین ذریعہ ہیں.
.
اس کے ساتھ ساتھ سنیوں یعنی جماعت اہل السنہ ہی میں ایک اور فکر بھی برقرار رہی جو قران حکیم کے ظاہری معنوں ہی کو درست ماننے پر اصرار کرتے ہیں اور کسی اصطلاحی یا مخفی معنی کے ہونے کا انکار کرتے ہیں. اس گروہ کو 'ظاہری' کہا گیا. اسی اپروچ پر قائم گروہوں کو آج سلفی، اہل حدیث وغیرہ بھی کہہ دیا جاتا ہے. گو درحقیقت آج موجود اہل حدیث یا سلفی فکر کے نتائج کچھ حوالوں سے اور کمتر درجے میں اصل 'ظاہری' سوچ سے مختلف ہیں. جیسے سلفی/اہل حدیث اصول الفقہ میں 'قیاس' کے قائل ہیں جبکہ ظاہری قائل نہیں ہیں. گو کہ ان کے اکثر عقائد میں بڑی حد تک مماثلت ہے اور یہ سب محدثین ہی کی جماعت سے نکلے ہیں. ظاہری سمجھ کے علمبردار علماء میں امام داؤد ظاہری، حافظ ابن حزم وغیرہ شامل ہیں. جبکہ سلفی/ اہل حدیث فکر کے لئے امام ابن تیمیہ، حافظ ابن القیم، شیخ ناصر الدین البانی، عبدالعزیز ابن باز وغیرہ شامل ہیں. کچھ محققین سلفی اور اہل حدیث فکر کو مماثل سمجھتے ہیں جبکہ کچھ کہ نزدیک ان میں بھی کچھ معمولی اختلافات موجود ہیں.
.

اس سب کے ساتھ ساتھ اہل السنہ کے علاوہ بھی مسلم تاریخ میں ایک بہت بڑا اختلاف واقع ہوا اور ارتقاء پاتا رہا. حضرت علی رض کی وفات کے بعد مسمانوں کا ایک گروہ ایسا پیدا ہوا جو خود کو 'شیعان علی' یعنی علی کے چاہنے والے کہہ کر پکارتا تھا اور جنہیں آج شیعہ یا اہل تشیع کہا جاتا ہے. ان کا حقیقی اختلاف سیاسی نوعیت کا تھا. ان کے نزدیک خلافت کے جائز حقدار امام علی رض تھے. وقت کے ساتھ ساتھ یہ اختلاف صرف سیاسی نہ رہا بلکہ فکری جدائی کا بھی سبب بننے لگا. جس طرح سنی مسلمان ابتداء میں گریک و رومن فلسفے سے متاثر ہوئے تھے. ویسے ہی مسلمانوں کا یہ گروہ فارس یعنی موجودہ ایران کی تہذیب و فلسفے سے متاثر ہوا. سنی مسلمانوں کے مرکزی دھارے سے ان کے کئی فکری اختلافات واقع ہوئے جن میں سرفہرست امامت کا تصور ہے. ان مسلسل مباحث، مکالموں، فکری اختلاف، فسلفوں، علم الکلام وغیرہ نے دین کے بہت سے طالبعلموں کو ظاہری منطق میں الجھا دیا تھا. لہٰذا یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ احکام کی روحانیت کو واپس لایا جائے. یہاں سے تصوف کا آغاز ہوا. یہ تحریک اپنے مقصد کے لحاظ سے ایک عمدہ کاوش تھی اور اگر فقط تذکیر نفس تک محدود رہتی تو کوئی معترض نہ ہوتا مگر تصوف نے اپنا پورا فکری ڈسپلن عقائد سمیت پیش کیا. دیگر علمی تحریکوں کی طرح یہ بھی بیرونی فلسفوں سے محفوظ نہ رہی. ارسطو، افلاطون، فیثاغورث کے صدیوں پہلے پیش کردہ تصورات کی بھرپور جھلک تصوف کے نام پر پیش کردہ کئی نظریات میں نظر آتی ہے. علم تصوف کے اوائل آثار دور تابعین کے فوری بعد نظر آتے ہیں مگر علمی منظم سطح پر اسے شائد سب سے پہلے 'شیخ ابن العربی' نے پیش کیا. ان سے ایک نمایاں بڑا اختلاف 'شیخ احمد سرہندی عرف مجدد الف ثانی' نے وحدت الوجود کے مقابل وحدت الشہود کا نظریہ پیش کرکے کیا۔ بعد میں 'شاہ ولی اللہ محدث دھلوی' نے ان دونوں نظریات میں تطبیق کی کوشش کی۔ جسے اہل علم کے ایک حلقے نے قبول اور دوسرے نے رد کردیا۔ اہل تصوف میں بھی بہت سے افراد ایک اور تحریک سے متاثر ہوئے جسے 'باطنیہ' کہا جاتا تھا. باطنیہ دراصل اسماعیلی عقائد کے بہت قریب تھے۔ اور عام طور پر تاریخ میں فرقہ اسماعیلی، آغا خانی، رافضی اور خوجا کے لیے باطنیہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہ قران حکیم کے معروف الفاظ کے بھی باطنی معنی پیش کرتے. ان کا دعویٰ تھا کہ قرآن شریف کی آیتوں کے ظاہری معنی کچھ اور ہیں اور اصلی باطنی کچھ اور. گویا جس طرح 'ظاہری' فکر کے مبلغ قران کے ظاہری معنوں ہی کو قبول کرنے پر مصر تھے. وہاں 'باطنیہ' تحریک سے متاثر یہ اہل تصوف قران حکیم کے معروف سادہ معنوں کا بھی باطنی ترجمہ کرنے لگے. جیسے لفظ 'جبال' کا سادہ و معروف معنی پہاڑ ہے مگر باطنیہ سے منسلک افراد لفظ جبال کوپہاڑ کی بجائے اولیاء اللہ سے تعبیر کرتے. ان کے بقول یہ وہ غوث و ابدال ہیں جو رب کی جانب سے زمین کی مختلف ذمہ داریوں پرجبال کی مانند مامور ہیں اور توازن قائم رکھتے ہیں. باقی تفصیل سے ہم دانستہ اجتناب کررہے ہیں کہ یہ موضوع اپنے آپ میں طوالت کا متقاضی ہے. .
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: یہ مضمون اس وقت ناقص ہے اور ایک 'رف ڈرافٹ' کی صورت میں پیش کیا گیا ہے. ان کے علاوہ بھی بہت سے فلسفے مسلم تاریخ کا حصہ ہیں. مستقبل قریب میں راقم اسکی تصحیح اور اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے. فی الوقت اسے موجود نقائص کے ساتھ قبول کیجیئے)

Tuesday, 16 January 2018

عوام کی عدالت میں



عوام کی عدالت میں


۔
فن خطابت کے بہت سے روپ ہیں جن میں تقریر اور مباحثہ کی اصناف سرفہرست ہیں. پھر تقریر اور مباحثے کی مزید کئی اقسام ہیں، جن کی باریکیوں کو ایک ماہر مقرر یا خطیب سمجھتا ہے. اسی طرح فن خطابت پر مبنی ایک صورت ایسی بھی ہے جس میں 'فرضی عدالت' سجائی جاتی ہے، جہاں عدالت کا اسٹیج سجا کر وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی پیش کردہ مقدمے کی تائید یا مخالفت میں دلائل سے جنگ کرتے ہیں. آخر میں جج جس وکیل یا مقرر کے حق میں فیصلہ دیتا ہے، اسے فاتح تصور کیا جاتا ہے. اسی طرح کی ایک عوامی فرضی عدالت کا 'نیو کراچی' میں اہتمام کیا گیا. جس میں وکیل صفائی کے کردار کیلئے مجھ سے رابطہ کیا گیا. یہ پروگرام ایک چیرٹی آراگنایزشن کی جانب سے عوامی شعور میں اضافے کیلئے ترتیب دیا جارہا تھا. وکیل استغاثہ کا کردار میرا قریبی دوست اور نامور مقرر نبھا رہا تھا. میرے لئے یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا جو بعد میں آخری بھی ثابت ہوا. پروگرام کا بنیادی ڈھانچہ تو طے شدہ تھا مگر دونوں وکلاء (مقررین) کیا استدلال پیش کریں گے؟ اور آخری نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ طے شدہ نہیں تھا. قسمت کی کرنی کچھ یوں ہوئی کہ جس روز پروگرام تھا، اس دن مجھے بخار نے گھیر لیا، گلا ایسا جکڑا کہ بولنے میں تکلیف ہونے لگی. میں نے انتظامیہ کو اپنی حالت بتائی اور چاہا کہ وہ میری جگہ کسی اور کو لے آئیں. ظاہر ہے پورا پروگرام خراب ہوتا نظر آنے لگا. اتنے کم وقت میں کوئی دوست مقرر راضی نہ ہوا لہٰذا مجبوراً مجھ ہی کو جانا پڑا. والدہ نے تھرماس میں نیم گرم نمکین پانی اور ڈسپرین ساتھ دے دی جس سے غرارے کرنے سے میری آواز نکلنے لگتی تھی. پروگرام کا انعقاد کسی آڈیٹوریم کی بجائے کھلے میدان میں کیا گیا تھا اور پنڈال بجا طور پر کسی سیاسی جلسے کا سا منظر پیش کررہا تھا. سامعین کی اکثریت غریب و متوسط عوام کی تھی جو اسے تماشا سمجھ کر غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کررہے تھے. عدالت کا پورا منظر سجایا گیا تھا. پیچھے قائد اعظم کی قدآور تصویر آویزاں تھی، بیچ میں میز پر ایک جانب ٹائپ رائٹر پر لکھا جارہا تھا اور دوسری جانب اردلی آواز لگانے کیلئے متعین تھا. وسط میں بھاری بھرکم جج صاحب عدالتی کوٹ پہنے براجمان تھے. ایک طرف کٹہرا تھا جہاں ایک نوجوان مجرم/ ملزم کھڑا تھا اور دوسری طرف دوسرا کٹہرا تھا جس میں اسی ملزم کے بوڑھے والدین موجود تھے. 
۔
مقدمہ بڑا عجیب تھا کہ ایک قتل کے مجرم کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے لیکن اس نے عدالت میں اب یہ اپیل درج کردی ہے کہ مجھے قاتل بنانے کے ذمہ دار میرے اپنے والدین ہیں لہذا انہیں بھی سزا دی جائے۔ جج نے بھاری آواز میں کہا کاروائی شروع کی جائے۔ میرے دوست یعنی وکیل استغاثہ نے پورے زور و شور سے ملزم کا مقدمہ پیش کیا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح والدین نے اس لڑکے کو آٹھویں جماعت کے بعد اسکول سے اٹھا لیا۔ کس طرح باپ نے بیٹے کو تربیت کیلئے وقت نہ دیا اور کس طرح یہ لڑکا آوارہ صحبت میں پڑ کر بلآخر ایک قاتل بن بیٹھا۔ بہت ہی احسن انداز میں استغاثہ نے اپنا مقدمہ قائم کردیا۔ اب میری یعنی وکیل صفائی کی باری تھی۔ میں وکیل کا بہروپ بھرے چپکے چپکے ڈسپرین کے غرارے کرکے اپنا گلا صاف کررہا تھا۔ میں نے استغاثہ کے دلائل کا تیاپانچہ کرنا شروع کیا اور بتایا کہ کیسے اس لڑکے کے مجبور والدین نے اپنی مفلسی کے باوجود اسے اسکول میں داخل کیا۔ کیسے اس کا باپ بنیادی ضروریات کیلئے دن رات مزدوری کرکے اپنی چمڑی جلاتا رہا۔ کیسے اس کی ماں نے لوگوں کے برتن مانجھ مانجھ کر بیٹے کی خواہشیں پوری کی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ کیسےاس لڑکے نے عیاشی و سرکشی کا رویہ اپنایا جبکہ اسی کے دوسرے بہن بھائیوں نے ان ہی حالات میں اپنی ذمہ داری نبھائی۔ وکیل استغاثہ بھی بھرپور دلائل سے میری کاٹ کررہا تھا۔ خوب گھمسان کی جنگ تھی اور فی الواقع یہ طے کرنا مشکل تھا کہ کون زیادہ درست ہے؟ دونوں جانب سے ثبوت پیش کیئے گئے۔ متعلقہ لوگوں سے جرح کی گئی۔ گرما گرمی ہوئی۔ عوام تالیوں سیٹیوں سے ساتھ دے رہی تھی۔ 
۔
ظاہر ہے کہ یہ حقیقی عدالت نہیں تھی جہاں بات صرف دلائل و ثبوت تک محدود رہے۔ یہ تو عوام کے سامنے فرضی عدالت تھی لہذا لفاظی، جوش بیان، مزاح، تک بندی، شاعری سب کا تڑکا ضروری تھا۔ چنانچہ دونوں وکلاء ایک دوسرے پر جملے بھی چپکا رہے تھے اور نری لفاظی بھی جھاڑ رہے تھے۔ جیسے میں نے کچھ تک بندی یا گردان اس طرح کی جس میں جملوں کا اختتام 'آن' پر ہوتا تھا۔ الفاظ تو اب راقم کو یاد نہیں مگر جیسے 'یہ مقدمہ ظلم کا نشان بن جاتا ہے، یوں مجرم قتل کا سامان بن جاتا ہے اور جھوٹ اپنی حد سے گزرے تو وکیل استغاثہ کا بیان بن جاتا ہے'۔ میری یہ جملے بازی مجمع نے خوب انجوائے کی تو وکیل استغاثہ نے اس کا ترکی با ترکی کچھ یوں جواب دیا ۔۔۔ 'انسان اپنے درجے سے گرے تو حیوان بن جاتا ہے، حیوان اپنے درجے سے گرے تو شیطان بن جاتا ہے مگر جب شیطان بھی اپنی حد سے نکل جائے تو وہ فاضل وکیل عظیم الرحمن بن جاتا ہے' ۔۔۔۔ ان جملوں پر عوام نے خوب شور مچایا تو میں نے آبجیکشن کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ 'جج صاحب وکیل استغاثہ کی سوچ ملاحظہ کیجیئے کہ مجھ پر نقد کرتے یہ بھی نہ سوچا کہ جس کو یہ ملعون شیطان سے جوڑ رہے ہیں اس نام میں ان کے رب کا نام دو بار آتا ہے ۔۔ ایک عظیم کی صورت میں تو دوسرا الرحمن کی صورت میں' ۔۔۔۔ اس بے ساختہ جواب نے عوام کی توپوں کا رخ مقابل کی جانب کردیا۔ اس گرما گرم ماحول میں بھی اس کراری تکرار پر ہم دونوں وکیل ہنسی نہ روک پائے۔ آخر میں جج نے فیصلہ سنایا۔ والدین کے خلاف مقدمہ خارج کرکے انہیں باعزت رہا کردیا گیا جبکہ شواہد دیکھتے ہوئے مجرم کی سزا برقرار رکھی گئی۔ 
۔
یہ تجربہ جہاں نہایت یادگار ثابت ہوا وہاں اس کی عوامی شعور کے ضمن میں افادیت بھی محسوس ہوئی۔ یہ فی الواقع ایک صحتمند طریق لگا جس سے عوام میں شعور ارتقاء پاسکتا ہے۔ انگلینڈ میں عام شہریوں کو جیوری یعنی ججمنٹ کرنے کیلئے عدالت بلالیتی ہے جہاں کوئی ہفتہ بھر انہیں حقیقی جرائم کے مقدمات کی سنوائی اور فیصلوں کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ اس تجربے سے ان کی سوچ کو جو نئے زاویئے حاصل ہوتے ہیں وہ انہیں ایک بہتر شہری اور ایک بہتر انسان بنادیتے ہیں۔ 
۔
====عظیم نامہ====

Sunday, 14 January 2018

کچھ یادگار ھوٹنگ



کچھ یادگار ھوٹنگ


۔
تقریری مقابلوں میں مقرر کو جہاں اعتماد، دلائل، حسن بیان، منظر نگاری، رد دلیل وغیرہ کا سہارا لینا ہوتا ہے۔ وہاں اس کا سامنا حاظرین کی سفاک ھوٹنگ یعنی جملے کسنے سے بھی ہوتا ہے۔ ایسی ہی چند ھوٹنگ کی یاد آپ کی حسن سماعت کی نظر کررہا ہوں۔
۔
پاکستان ایئر فورس رسالپور اکیڈمی کے زیر اہتمام سالانہ تقریری مقابلے کو بجا طور پر پاکستان کا نمایاں ترین مقابلہ سمجھا جاتا ہے۔ راقم نے بطور مقرر تین سال لگاتار اس میں شرکت و کامیابی حاصل کی ہے۔ ایئر فورس کے کیڈٹس صرف پیشہ وارانہ مہارت ہی کا شاہکار نہیں بلکہ تفریح، حاضر جوابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ تقریری مقابلے میں انتظامیہ کی جانب سے ھوٹنگ یعنی جملے کسنا ممنوع ہوتا ہے۔ مگر وہ کیڈٹس ہی کیا جو کوئی رستہ ڈھونڈ نہ نکالیں؟ لہذا کیڈٹس کا ھوٹنگ کیلئے طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ آڈیٹویم کی پچھلی نشستوں پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ دوران تقریر جب مقرر کی نظر ان کی جانب جاتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اچانک ایک کیڈٹ کھڑا ہوکر اپنی گود میں کسی بچے کو فرضی طور پر جھولا دے رہا ہے۔ پھر ایک جھٹکے سے وہ گود کے اس فرضی بچے کو ہوا میں اچھال کر اپر دیکھنے لگتا ہے۔ کچھ اور کیڈٹ بھی کھڑے ہوکر تشویش سے دیکھتے ہیں اور اس فرضی بچے کو کیچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیچ چھوٹ جاتا ہے اور یہ سب کیڈٹ بناء آواز نکالے رونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں اور مقرر کی طرف دہایاں دیتے ہوئے ماتم کرنے لگتے ہیں۔ یہ ساری واردات نہایت خاموشی سے منظم ترین انداز میں ہوتی ہے۔ بڑے بڑے مقرر اس اچھوتی ھوٹنگ کو دیکھ کر اور کنفیوز ہوکر تقریر بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح اچانک ایک پوری لائن کیڈٹ کی کھڑی ہوکر بناء آواز مارچ کرتی ہوئی پیچھے آجاتی ہے اور پیچھے والی لائن آگے آجاتی ہے۔ یہ ایسا عجیب منظر ہوتا ہے جس کے اثر کو الفاظ میں ڈھالنا شائد ممکن نہیں۔ 
۔
ایک اور یاد 'جنگ اخبار' کے زیراہتمام مباحثے کی ہے جو شیریٹن ہوٹل کراچی میں ہوا تھا۔ اس میں بہترین ھوٹنگ کرنے والے کو پرائز دینے کا اعلان کردیا گیا تھا۔ لہذا ہر سامع بہترین جملے کسنے میں مشغول تھا۔ ایسے میں مہمان خصوصی کو اسٹیج پر بلایا گیاجو ایک نجی ایئر لائن کے مالک بھی تھے۔ ان کا سر بالوں سے بلکل بے نیاز تھا۔ گویا عامیانہ الفاظ میں وہ رچ کے ٹکلو تھے۔ اسٹیج کے پیچھے اور اپر دیوقامت آئینے نصب تھے۔ ساتھ ہی اسٹیج پر سرچ لائٹ کیساتھ باقی سب لائٹیں ہلکی روشنی دے رہی تھیں۔ اب جب یہ مہمان خصوصی اسٹیج پر تشریف لائے تو سارے آئینوں میں ان کا گنجا ٹکلو سر پوری آب و تاب سے چمکتا دمکتا نظر آیا۔ اچانک خاموشی میں پیچھے سے ایک آواز گونجی ۔۔ "ارے جیسے چاند نکل آیا !" ۔۔ پورے ھال میں یہ سنتے ہی ایک گھمسان کا قہقہہ پڑا۔ سب لوٹ پوٹ ہوگئے۔ جس لڑکے نے جملہ کسا تھا اسے انعام دیا گیا حالانکہ یہ ھوٹنگ کسی مقرر کی بجائے بیچارے مہمان خصوصی پر تھی۔
۔
اسی طرح غالبا بحریہ یونیورسٹی یا ڈی ایچ اے کالج کا کوئی تقریری مقابلہ ہورہا تھا۔ میرے برابر میں ایک لڑکی مقررہ آکر بیٹھ گئی۔ یہ لڑکی ایک معروف ٹی وی ماڈل بھی تھی۔ جس کا نام ہم دانستہ نہیں درج کررہے۔ ان دنوں اس کا ایک اشتہار ٹی وی پر مقبول ہورہا تھا جس میں وہ یہ جملہ کہتی تھی ۔۔ "میں حیران رہ گئی" ۔۔ یہ لڑکی اپنی تقریر کے بارے میں کافی پرامید تھی اور مجھے اپنے پوائنٹس بتا کر مشورہ لے رہی تھی۔ مجھے بھرپور امید تھی کہ وہ ایک بہترین تقریر کرنے جارہی ہے۔ کچھ دیر بعد اس ماڈل مقررہ کا نام پکارا گیا۔ آڈیئنس اسے پہچان گئی اور سب نے یک زبان ہوکر نعرہ مارا ۔۔ "میں حیران رہ گئی" ۔۔ تقریر کرتے ہوئے وہ بولی ۔۔ صدر عالی وقار ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ میرا آج کا موضوع ہے ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ میں یہ بتانا چاہتی ہوں ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ آج ملک کے حالات دیکھ کر ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ غرض اس لڑکی کی تقریر کو سب آڈیئنس نے مل کر دوبھر کردیا اور اسے اسٹیج سے سوری کہہ کر اترنا پڑا۔ ججز تک اپنی ہنسی نہیں روک پارہے تھے۔ یہ لڑکی واپس آکر میرے برابر بیٹھ گئی۔ نہ وہ کچھ کہہ رہی تھی نہ مجھ میں پوچھنے کی ہمت تھی۔ کچھ دیر بعد بالآخر میں نے دبی آواز میں ہمدردی سے پوچھا "تم ٹھیک ہو؟" ۔۔۔ اس نے ناراض نظروں سے مجھے دیکھا اور ہاتھ ہلا کر کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "میں حیران رہ گئی !!" 
۔
====عظیم نامہ====

میرے بچے .. میرے نونہال


میرے بچے .. میرے نونہال 




.
یہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھرمار بہت بعد میں ہوئی ہے. سب سے پہلے پی ٹی وی کے ساتھ جو پہلا نمایاں پرائیویٹ چینل لانچ ہوا تھا اس کا نام 'این ٹی ایم' تھا اور جو شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک کا حصہ سمجھا جاتا ہے. ہماری انجینیرنگ کے دور میں اسی چینل کے زیر اہتمام ایک بہت بڑے تقریری مقابلے کا انعقاد کیا گیا. یہ مقابلہ کراچی کی معروف درسگاہ 'ڈاؤ میڈیکل کالج' میں منعقد ہوا. اپنی یونیورسٹی کی جانب سے مجھے اس میں شرکت کیلئے بھیجا گیا. یہ مقابلہ سب مقررین کیلئے اسلئے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کہ اسے ٹی وی پر آنا تھا اور اس زمانے میں دو ٹی وی چینلز کی موجودگی میں ٹی وی پر آجانا بڑی بات تھی. ہم جب مقابلے میں شرکت کی نیت سے نکلے تو ہماری یونیورسٹی کلاس کے دوستوں کا گروپ ساتھ چلنے پر مصر ہوگیا. ان کیلئے ایک تو دوست کی تقریر تھی، پھر ٹی وی پر آنا تھا اور سب سے بڑھ کر اس کالج میں آنکھیں سیکنا تھا جہاں لڑکیوں کی بھرمار تھی. ایسے میں کون کافر جانے کو تیار نہ ہوتا؟ لہٰذا ہمارے ساتھ ہمارے قریبی دوستوں کا ایک گروپ بھی بطور سامعین جاپہنچا. آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. نشستیں بھری ہوئی، لڑکے لڑکیاں زمین اور سیڑھیوں تک بیٹھے ہوئے تھے. جنہیں وہاں بھی جگہ نہ ملی وہ کھڑے یا لٹکے ہوئے تھے. گویا دیکھ کر بندہ خدا عبرت لے کہ روز آخر کیسا نفسا نفسی کا عالم ہوگا؟ اسٹیج کے برابر میں ایک ریکارڈنگ روم قائم تھا. ہمارا دیگر شرکاء کی طرح ہلکا پھلکا میک اپ بھی کردیا گیا. مقابلے کا آغاز ہوا تو دو اعلانات یکے بعد دیگرے سامنے آئے. پہلا اعلان ججز کی جانب سے تھا کہ وہ لفاظی یا فقط جوش خطابت دیکھانے والے مقررین کو انعامات کی فہرست سے خارج کردیں گے اور صرف ان مقررین کو پہلا دوسرا تیسرا انعام دیں گے جو خالص دلائل و منطق سے اپنی بات پیش کرے. دوسرا اعلان انتظامیہ کی جانب سے ہوا کہ بہترین ہوٹنگ کرنے والے کو بھی ایک پرائز دیا جائے گا. یہ دونوں اعلانات مجھے آغاز ہی میں ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوئے. سامعین دلائل سے مزین سنجیدہ تقاریر اسی وقت سماعت کرتے ہیں جب انہیں نظم و ضبط میں باندھا جائے. یہاں تو ہوٹنگ کی کھلی چھٹی دے کر پروگرام کی قبر کھود دی گئی تھی. 
.
جو ڈر تھا وہی ہوا. ہوٹنگ یعنی جملے بازی جلد ہی ہاولنگ یعنی ہلڑ بازی میں تبدیل ہوگئی. کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی. ایک کے بعد دوسرا مقرر اسٹیج پر جاتا اور سامعین کے ہاتھوں رسوا ہوکر نیچے اتر آتا. مجھ سمیت سب مقررین اپنا حشر سوچ کر ہیبت طاری تھی. بلآخر اسی ہنگامے میں میرا نمبر قریب آپہنچا. میرے ساتھ آئے دو دوستوں نے مجھے بازو سے تھام کر منع کیا اور کہا کہ ایسے میں اپر جانا اپنی عزت لٹوانے کے مترادف ہے. باقی دوست بھی مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے چشم تصور سے میری عصمت دری کا منظر ان کے سامنے ہو. میں نے ایک لمحہ سوچا اور پھر ڈرتے دل کے ساتھ اپر جانے کا فیصلہ کرلیا. اعلان ہوا کہ ... 'اب آئیں گے سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے مقرر عظیم الرحمٰن !' ... لفظ 'انجینیرنگ' سنتے ہی 'میڈیکل' کالج کے ان طلباء و طالبات میں روایتی مسابقت کے سبب مزید بجلی آگئی. جب میں اسٹیج کی جانب بڑھنے لگا تو سامنے والی دو قطاروں میں بیٹھی لڑکیوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اپر کیا اور جھوم جھوم کر گانے لگی .... "ہوگا دنیا میں تو بے مثال ... میرے بچے میرے نونہال !" ..... پورا ھال مجھ پر ہنس رہا تھا، سوائے ان چند دوستوں کے جو مجھ پر ترس بھری نگاہ رکھے ہوئے تھے. ہم اندر سے تو شدید لرزہ براندام تھے مگر چہرے پر ایک پر اعتماد مسکراہٹ سجائے ہوٹنگ کرنے والو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اسٹیج پر جا پہنچے. ٹانگیں کانپ رہی تھیں مگر بڑے اعتماد سے مائیک درست کیا، سانس اندر کھینچی اور بولنے کے لئے جیسے ہی زور لگانا چاہا تو..... تو سامنے ریکارڈنگ روم سے ایک بندہ بھاگتا ہوا باہر آیا اور بولا "بھائی کچھ ٹیکنکل فالٹ کی وجہ سے آپ کا اسٹیج پر آنا اور اعلان ریکارڈ نہیں ہو پایا، آپ پلیز دوبارہ نیچے آجائیں. آپ کا پھر سے نام بلایا جائے گا" ... اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ سامعین نے میرا کیا حال کیا ہوگا؟ میں من ہی من ریکارڈنگ والے کو کوستا ہوا واپس اپنی نشست پر آبیٹھا. دوبارہ اعلان ہوا ... 'اب آئیں گے سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے مقرر عظیم الرحمٰن !' ... آڈینس تو مانو انتظار میں تھی .. ہر طرف صدا تھی .. "ہوگا دنیا میں تو بے مثال ... میرے بچے میرے نونہال !" ..... اسی عالم میں ہم مسکراتے ہوئے دوبارہ اسٹیج پر جاپہنچے. لیکن اس دوران میں نے اپنے آپ میں ایک فیصلہ کرلیا تھا. 
.
فیصلہ یہ تھا کہ میں دلائل سے مزین تیار شدہ تقریر نہیں کروں گا بلکہ خالص 'تک بندی' سے بھرپور جوشیلی تقریر کروں گا. پھر بھلے وہ موضوع سے کم مناسبت رکھتی ہو یا ججز کے اعلان و معیار کے برخلاف ہو. یہ سوچ کر میں نے مائیک تھاما مگر دانستہ خاموش مسکراہٹ کے ساتھ سامنے سامعین کو بے نیازی سے دیکھتا رہا. سات منٹ کی تقریر میں سات سیکنڈ بھی اہم ہوتے ہیں. مگر میں نے کوئی آدھا منٹ ایک لفظ نہ بولا. بلکہ مزے سے مائیک کو انگلی سے بھی کھٹکھٹاتا رہا. اس تیس سیکنڈ میں سامنے لوگوں نے چیخ چیخ کر اپنے گلے پھاڑ لئے مگر میں مسکراتا ہوا خاموش رہا. تیس سیکنڈ تک جب میں نہ بولا تو اچانک لوگوں کا شور تھما اور انہوں نے حیرت سے اسٹیج کی طرف دیکھا کہ یہ ناہنجار بولتا کیوں نہیں؟ .. جیسے ہی یہ خاموش لمحہ مجھے ملا میں نے بھاری آواز میں آغاز کیا ... 'کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے' ... لوگوں کو محسوس ہوا کہ وہ بیوقوف بن گئے ہیں تو ایک کھسیانی سے ہنسی ہنسے. ایسے میں ایک لڑکا جو سب سے زیادہ ہوٹنگ کررہا تھا اور مجمع کا منظور نظر تھا، میں نے اس کی جانب اشارہ کرکے بات کا آغاز کیا ... 'تم بتاؤ اے پاکستانی' ...اس کے بعد میں نے پرجوش گفتگو شروع کی، اس لڑکے نے جب میری نظروں کو اپنے اندر اترتے محسوس کیا تو آنکھیں چرانے لگا اور خاموش ہوگیا. میرا ماننا رہا ہے کہ ہوٹنگ کرنے والا مجمع خاموش مجمع سے کہیں بہتر ہوا کرتا ہے، وجہ یہ کہ وہ زندہ ہوتا ہے، اس میں انرجی ہوتی ہے. جیسے دریا غلط جانب بہہ رہا ہو تو تباہی لاتا ہے مگر اگر کسی طور آپ اس دریا کا دھارا صحیح جانب موڑ دیں تو وہ اسی زور و شور سے سیرابی کا بھی بھرپور کام انجام دیتا ہے. کچھ ایسا ہی اس مجمع کے ساتھ ہوا. میں ان کی ہوٹنگ انرجی کو اپنی پذیرائی میں موڑنے پر کامیاب ہوگیا تھا. اب عالم یہ تھا کہ ہاتھ اٹھاتا تو تالیاں گونجتی، ہاتھ گراتا تو تالیاں رک جاتی. وقت ختم ہونے کی گھنٹی بجی تو لوگوں نے گھنٹی روک دی. کوئی زور سے چلایا ...' اسے بولنے دو .. اسے نہیں روکو' ... اس پر طرہ یہ کہ گھنٹی بجنے پر ہم نے برجستہ کچھ یوں شعر پڑھا. 
.
چشم ساقی کی عنایات پر پابندی ہے 
ان دنوں وقت پر، حالات پر پابندی ہے 
درد اٹھتا ہے، لہو بن کر چھلکنے کیلئے 
یہ 'گھنٹی' بجا کر کہتے ہیں جذبات پر پابندی ہے 
یہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی. جب اسٹیج سے اترا تو لوگوں کے جھرمٹ میں تھا. میری طویل قامت جسامت نے انہیں مجھے کاندھے پر اٹھانے سے روکے رکھا مگر آڈینس کی اس غیر معمولی پذیرائی نے ججز پر اتنا پریشر ڈالا کہ میری دلائل سے خالی تقریر پر بھی انہیں مجھے دوسرا انعام دینا پڑا. اس پر بھی لوگ غصہ تھے کہ پہلا کیوں نہ دیا؟ پہلا انعام میرے ایک دوست کو ملا جس نے فلسفیانہ استدلال سے مزین تقریر تو کی تھی مگر آڈینس میں سنا اسے کسی نے نہ تھا. افسوس کہ اس مقابلے کے کچھ ماہ بعد ہی شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک بند کردیا گیا اور میری یہ یادگار تقریر کبھی آن ائیر نہ ہوسکی.
.
====عظیم نامہ====