Sunday, 29 September 2019

چار شادیاں کرنا

کئی مغربی ممالک کے قانون کے مطابق مسلمان مرد اپنی مذہبی آزادی کو بنیاد بنا کر ایک سے زائد شادی نہیں کر سکتے. اس پابندی پر کوئی شور نہیں مچایا جاتا بلکہ تمام مسلمان خاموشی سے اس قانون کی پاسداری کرتے ہیں. وجہ یہ ہے کہ اسلام میں چار شادیوں تک کی 'اجازت' ضرور ہے مگر چار شادیاں کرنا 'لازمی' ہرگز نہیں ہے. یہی اجازت اور لازمی کا فرق اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کون سا حکومتی حکم ایک مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں تسلیم کرسکتا ہے اور کون سا نہیں؟ چانچہ اگر خدانخواستہ حکومت کی جانب سے کسی فرض حکم الہی جیسے نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی جائے یا روزے رکھنے کو ممنوع قرار دے دیا جائے تو ایسے میں ایک مسلم اس حکومتی حکم کو تسلیم نہیں کرے گا. اور اسے ہمارا مشورہ بھی یہی ہوگا کہ جلد از جلد وہ ایسی سرزمین سے ہجرت کرجائے جہاں اسے دین کے بنیادی ارکان یا احکام پورے کرنے کی آزادی نہیں. اس سے کمتر کوئی 'اجازت' کی نوعیت والی پابندی اگر حکومت کی جانب سے لاگو ہو تو مسلم پر فرض ہے کہ وہ ملکی نظم و قانون کی پابندی کرے.
.
اسی طرح 'گائے' کا گوشت کھانے کی مسلمان کو اجازت ضرور ہے مگر اسے کھانا 'فرض' ہرگز نہیں ہے. لہٰذا اگرہندوستانی حکومت کی جانب سے اس پر حالات کے پیش نظر پابندی لگائی گئی ہے تو راقم کی ناقص سمجھ میں اس پر عمل کرنا ہر ہندوستانی مسلم شہری کی ذمہ داری ہے. ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سمجھنا اور تسلیم کرنا ہوگا کہ ہندو دھرم جو کہ بھارت کا غالب ترین مذہب ہے، اس میں گائے کو ماں کی صورت غیر معمولی تقدس حاصل ہے. چنانچہ بحیثت مسلم ہم اس کے مقدس ہونے یا نہ ہونے پر مہذب گفتگو تو کرسکتے ہیں مگر تحقیری انداز اختیار کرکے مذاق نہیں اڑا سکتے. حال ہی میں انتہا پسند ہندووں کی جانب سے گائے کے ذبیحہ کو لے کر پے درپے کئی مسلم جانیں تلف کی گئیں اور کئی کو غیرانسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ظاہر ہے اس امر کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔ مگر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بھارت میں کسی بھی پسماندہ ملک کی طرح جہالت و انتہاپسندی موجود ہے۔ مسلم ممالک باسمیت پاکستان میں بھی ایسے عناصر موجود رہے ہیں جو مذہبی جذباتیت کا سہارا لے کر مخالف مسلک یا مذہب کے افراد کو ظلم کا نشانہ بنادیتے ہیں۔ پڑھا لکھا طبقہ البتہ ایسے کسی اقدام یا رویئے کی مذمت کرتا ہے اور یہی معاملہ بھارت میں بھی اس مدعا کے متعلق رہا ہے۔ حکومت یا صاحب رائے طبقہ اگر گائے کی حرمت کیلئے اتنا ہی حساس ہوتا تو آج انڈیا دنیا بھر میں بیف میٹ کا نمائندہ ایکسپورٹر نہ ہوتا۔ مگر چونکہ عوامی سطح پر انتہاپسند پرتشدد عناصر بڑی تعداد میں موجود ہیں، اسلئے قوانین بنانا ضروری ہوگیا ہے۔ لازمی ہے کہ بھارتی مسلمان اس حساسیت کو سمجھیں اور کسی ضد بحث کے بغیر گائے کے ذبیحہ سے مکمل اجتناب کریں۔ البتہ اس پابندی کے خاتمے اور عوامی آگہی کیلئے کوئی بھی پرامن کوشش ضرور کریں۔ مسلمان انڈیا میں ایک اقلیت ہیں اور اقلیت بہرحال اقلیت ہونے کی قیمت ادا کرتی ہے۔
۔
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment