اگر عقل اپنے مدارج، فطرت کی رہنمائی میں طے کرے تو اسکا لازمی نتیجہ ایک
ایسا سکون ہے جو آپ کا قلبی و عقلی شخصیت کا مکمل احاطہ کرلیتا ہے. قران
حکیم میں اسکی مثال حکیم لقمان علیہ سلام کی صورت میں دی گئی ہے، قران کے
اسلوب سے واضح ہے کہ وہ غالباً نہ تو نبی تھے اور نہ ہی کسی نبی کے پیرو.
مگر انہوں نے اپنی عقل کا استمعال فطرت کی رہنمائی میں کیا تو اسی حکمت کے
وارث بن گئے جو انبیاء کی میراث ہے. ابراہیم علیہ سلام بھی نبوت ملنے سے
قبل اسی فطرت کی رہنمائی میں اپنی عقل کا استمعال کرتے رہے،
کبھی سوچا کہ سورج میرا رب ہے، پھر مسترد کیا. پھر چاند ، ستاروں کو رب
کہا مگر عقل و فطرت نے اسے بھی مسترد کردیا. بلاخر فطرت کی رہنمائی میں اس
عقلی ارتقاء سے وہ یہ جان گئے کہ یہ سب خود مخلوق ہیں اور خالق وہ ہے جو
انہیں ایک نظام کا پابند کرتا ہے. نبوت انہیں اس دریافت کے بعد عطا ہوئی.
عام انسانی تاریخ میں فیثا غورث اور سقراط اسی عقل و فطرت کے امتزاج کا
بہترین نمونہ ہیں. میرا ماننا یہ ہے کہ جب اخلاص فطرت کی رہنمائی میں تعقل
کے درجہ پر پہنچتا ہے تو حقیقت الہام کردی جاتی ہے.
.
====عظیم نامہ====
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment