مولانا
طارق جمیل - 'تبلیغی جماعت' کا یقینی طور پر سب سے زیادہ مقبول نام ہے.
آپ بلا شبہ عالم اسلام کی ایک عظیم المرتبت شخصیت ہیں. جن کا پراثر طریقہ
تعلیم خواص وعوام دونوں کو دین سے جوڑتا آیا ہے. آپ دور حاضر میں وحدت امت
کے بہت بڑے داعی ہیں اور تفرقہ ختم کردینے کیلئے شب و روز کوشاں ہیں. دیگر
بہت سے احباب کی طرح میں بھی مولانا سے کئی فکری اختلافات رکھتا ہوں مگر
ساتھ ہی میں آپ کی وسعت قلبی، جذبہ ایمانی
اور پر سوز واعظانہ قابلیت کا تہہ دل سے مداح رہا ہوں. میں ہمیشہ ان کے
لئے دل میں بے پناہ محبت اور عزت محسوس کرتا ہوں. شائد اسلئے کہ میں ان میں
دوسروں کی طرح محقق یا مجدد تلاش نہیں کرتا بلکہ ایک واعظ اور داعی کو
دیکھتا ہوں. میں ان میں ایک ایسا عظیم مبلغ پاتا ہوں جو شیخ عبدلقادر
جیلانی رح کی طرح آپ کے روحانی وجود کو سادہ باتوں کے زریعے جھنجھوڑ دینے
کی صلاحیت رکھتا ہے. ان کے خطبات، میں علمی وسعت کیلئے نہیں سنتا بلکہ
اسلئے سنتا ہوں کہ مجھے اپنی موت یاد آجائے اور میری آنکھیں ندامت سے بھیگ
سکیں. یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی سننے والا مولانا کو بناء تعصب کو سنے اور
اسے فکر آخرت محسوس نہ ہو. میرا احساس یہ ہے کہ اللہ پاک نے مولانا کی دین
میں محنت کے سبب ان کی زبان میں عجب سا اثر پیدا کردیا ہے. وہی جملہ اور
وہی الفاظ جو کوئی اور ادا کرے تو عام سے محسوس ہوں وہی جب مولانا کی زبان
سے ادا ہوتے ہیں تو مخاطب کے قلب میں جا اترتے ہیں. کچھ عرصہ قبل مولانا
طارق جمیل انگلینڈ تشریف لائے تو حسن اتفاق سے آپ سے ملاقات ہوئی. آپ کے
ساتھ بیٹھے، نماز پڑھی اور خطاب سنا. مولانا کو اس سے پہلے بھی کئی بار
سامنے سن چکا تھا مگر آپ سے باقاعدہ ملاقات پہلی بار تھی. آپ کا ایک ایک
انگ دین کی محنت سے سجا محسوس ہوا. اس عمر میں اتنا سفر اور مشقت اٹھانا
صرف دین کی تبلیغ و ترویج کیلئے آپ ہی کا خاصہ ہے.
.
آپ کی فکر پر بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں جن میں سے کچھ احقر کی سمجھ میں حقیقت اور اکثر مذھبی منافرت پر مبنی ہیں. پہلا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ آپ کی دعوت کا محور صرف مشہور اشخاص ہیں. یہ ایک بے بنیاد بات ہے. اتنا ضرور ہے کہ عمران خان سے لے کر عامر خان تک اور فلمی اداکاروں، گلوکاروں سے لے کر کرکٹ ٹیم تک آپ کے ذریعے دین کا پیغام پاتے رہے ہیں مگر اسے بنیاد بناکر یہ کہنا کہ آپ عام لوگوں کو دین نہیں پہنچاتے بلکل غلط الزام ہے. اسی طرح ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہا کہ آپ فلاں عالم یا فلاں دہشت گرد گروہ یا فلاں سیاسی رہنما کا نام لے کر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ یہ کہنے والے ایک لمحہ یہ نہیں سوچتے کہ تبلیغی جماعت بحیثیت مجموعی کبھی بھی نام لے لے کر کسی کو ملامت نہیں کرتے بلکہ ہر کسی کو محبت سے دین کی جانب بلاتے ہیں. مختلف مذہبی گروہ اپنی اپنی دینی فکر کو سب سے اہم سمجھ کر مولانا سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان کے حق میں بات کریں اور جب وہ ایسا نہیں کرتے تو تو آپ پر الزامات لگاتے ہیں جیسے جہادی گروہ چاہتے ہیں کہ وہ جہاد کریں، تجدید امت کے دعویدار چاہتے ہیں کہ وہ جہادی گروہوں کا نام لے لے کر ان کی مذمت کریں، خلافت کے گروہ چاہتے ہیں کہ وہ اقامت دین کی ذمہ داری ادا کریں اور تحقیقی مزاج کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو قران ریسرچ اکیڈمی بنادیں. ان میں سے کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ہر جماعت کا اپنا منہج ہے اور وہ اپنے لحاظ سے دین کا کام کر رہے ہیں. جس طرح ان پر تبلیغی جماعت اپنا منشور نہیں تھوپتی، اسی طرح انہیں بھی یہ حق نہیں کہ مولانا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کریں. اسی طرح سہہ روزہ یا چلہ وغیرہ کو بدعات قرار دیا جاتا ہے حالانکہ مولانا یا تبلیغی جماعت نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ دین کے لوازم ہیں بلکہ اسے ہمیشہ ایک تربیتی مشق کے طور پر پیش کیا. آپ پر جن اعتراضات سے میں متفق ہوں وہ تین ہیں. پہلا آپ کا دوران خطاب بعض اوقات ضعیف و موضوع احادیث کو پیش کردینا ہے. آپ کا ایسا کرنا احناف میں موجود اس رائے کے تحت ہے جس میں اگر قران اور صحیح حدیث کے نصوص سے اصول ثابت ہو تو فضائل کے ضمن میں ضعیف احادیث و واقعات بھی پیش کئے جاسکتے ہیں. میں خود کو اس سے بلکل متفق نہیں پاتا کہ اس سے بہت سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے. دوسرا اعتراض یہ کہ قران مجید کو تبلیغ اور تربیت دونوں کا محور ہونا چاہیئے. جو راقم کی رائے میں نہیں ہے یا اس درجہ میں نہیں ہے جس میں ہونا چاہیئے. تیسرا اور آخری اعتراض یہ کہ مولانا بعض اوقات منظر نگاری میں بہت دور نکل جاتے ہیں جیسے جنت، جہنم، حور وغیرہ جو ممکن ہے سادہ طبیعتوں کو تو مائل کرتا ہو مگر بہت سے پڑھے لکھے اذہان کو متنفر کردیتا ہے. بہرحال میرے یہ اعتراضات اگر صحیح بھی مان لئے جائیں تب بھی بیشمار خیر کے پہلوؤں سے استفادہ نہ کرنا بہت بڑی محرومی ہوگی. میں دین پر تحقیق کیلئے انہیں نہیں سنتا بلکہ مجھے جب خود کو فکر آخرت کی جانب مائل کرنا ہو تو مولانا بلاشبہ میری پہلی ترجیح ہوتے ہیں. آپ سب پہلے ہی مولانا کو سنتے ہونگے مگر اگر کسی مسلکی منافرت کی وجہ سے نہیں سنتے تو ضرور سنیں بلکہ ان کے خطبات پر مشتمل کتب بھی لے آئیں.
.
آپ کی فکر پر بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں جن میں سے کچھ احقر کی سمجھ میں حقیقت اور اکثر مذھبی منافرت پر مبنی ہیں. پہلا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ آپ کی دعوت کا محور صرف مشہور اشخاص ہیں. یہ ایک بے بنیاد بات ہے. اتنا ضرور ہے کہ عمران خان سے لے کر عامر خان تک اور فلمی اداکاروں، گلوکاروں سے لے کر کرکٹ ٹیم تک آپ کے ذریعے دین کا پیغام پاتے رہے ہیں مگر اسے بنیاد بناکر یہ کہنا کہ آپ عام لوگوں کو دین نہیں پہنچاتے بلکل غلط الزام ہے. اسی طرح ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہا کہ آپ فلاں عالم یا فلاں دہشت گرد گروہ یا فلاں سیاسی رہنما کا نام لے کر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ یہ کہنے والے ایک لمحہ یہ نہیں سوچتے کہ تبلیغی جماعت بحیثیت مجموعی کبھی بھی نام لے لے کر کسی کو ملامت نہیں کرتے بلکہ ہر کسی کو محبت سے دین کی جانب بلاتے ہیں. مختلف مذہبی گروہ اپنی اپنی دینی فکر کو سب سے اہم سمجھ کر مولانا سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان کے حق میں بات کریں اور جب وہ ایسا نہیں کرتے تو تو آپ پر الزامات لگاتے ہیں جیسے جہادی گروہ چاہتے ہیں کہ وہ جہاد کریں، تجدید امت کے دعویدار چاہتے ہیں کہ وہ جہادی گروہوں کا نام لے لے کر ان کی مذمت کریں، خلافت کے گروہ چاہتے ہیں کہ وہ اقامت دین کی ذمہ داری ادا کریں اور تحقیقی مزاج کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو قران ریسرچ اکیڈمی بنادیں. ان میں سے کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ہر جماعت کا اپنا منہج ہے اور وہ اپنے لحاظ سے دین کا کام کر رہے ہیں. جس طرح ان پر تبلیغی جماعت اپنا منشور نہیں تھوپتی، اسی طرح انہیں بھی یہ حق نہیں کہ مولانا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کریں. اسی طرح سہہ روزہ یا چلہ وغیرہ کو بدعات قرار دیا جاتا ہے حالانکہ مولانا یا تبلیغی جماعت نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ دین کے لوازم ہیں بلکہ اسے ہمیشہ ایک تربیتی مشق کے طور پر پیش کیا. آپ پر جن اعتراضات سے میں متفق ہوں وہ تین ہیں. پہلا آپ کا دوران خطاب بعض اوقات ضعیف و موضوع احادیث کو پیش کردینا ہے. آپ کا ایسا کرنا احناف میں موجود اس رائے کے تحت ہے جس میں اگر قران اور صحیح حدیث کے نصوص سے اصول ثابت ہو تو فضائل کے ضمن میں ضعیف احادیث و واقعات بھی پیش کئے جاسکتے ہیں. میں خود کو اس سے بلکل متفق نہیں پاتا کہ اس سے بہت سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے. دوسرا اعتراض یہ کہ قران مجید کو تبلیغ اور تربیت دونوں کا محور ہونا چاہیئے. جو راقم کی رائے میں نہیں ہے یا اس درجہ میں نہیں ہے جس میں ہونا چاہیئے. تیسرا اور آخری اعتراض یہ کہ مولانا بعض اوقات منظر نگاری میں بہت دور نکل جاتے ہیں جیسے جنت، جہنم، حور وغیرہ جو ممکن ہے سادہ طبیعتوں کو تو مائل کرتا ہو مگر بہت سے پڑھے لکھے اذہان کو متنفر کردیتا ہے. بہرحال میرے یہ اعتراضات اگر صحیح بھی مان لئے جائیں تب بھی بیشمار خیر کے پہلوؤں سے استفادہ نہ کرنا بہت بڑی محرومی ہوگی. میں دین پر تحقیق کیلئے انہیں نہیں سنتا بلکہ مجھے جب خود کو فکر آخرت کی جانب مائل کرنا ہو تو مولانا بلاشبہ میری پہلی ترجیح ہوتے ہیں. آپ سب پہلے ہی مولانا کو سنتے ہونگے مگر اگر کسی مسلکی منافرت کی وجہ سے نہیں سنتے تو ضرور سنیں بلکہ ان کے خطبات پر مشتمل کتب بھی لے آئیں.
No comments:
Post a Comment