دعوت دین کا ایک سبق آموز واقعہ
جیسا کے احباب واقف ہیں کہ میں عرصہ دراز سے انگلینڈ میں مقیم ہوں.کچھ برس قبل میں اپنے شہر میں غیر مسلموں کو دعوت دین دینے کا امیر مقرر کیا گیا تھا. میں نے یہ ذمہ داری چند برس نبھائی اور اس دوران لاتعداد ایسے واقعات کا سامنا کیا جو میری یادداشت کا مستقل حصہ بن گئے. ایسے واقعات جن میں بظاہر کوئی خاص بات نظر نہ بھی آئے تب بھی وہ آپ کو اہم سیکھ دے جاتے ہیں. دعوت دین دینا نبیوں کی سنت ہے اور اسکی بجاآوری کیلئے بے تحاشہ برداشت کا حامل ہونا ضروری ہے. جب آپ دعوت دیتے ہیں تو کبھی تو کوئی آپ کو جھڑک دیتا ہے، کبھی کوئی غیر مسلم آپ پر الزام لگاتا ہے، کبھی کوئی ملحد آپ کا مذاق اڑتا ہے، کبھی کوئی مسلمان گروہ آپ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور کبھی تو ایسا بھی ہوا ہے کہ داعی کے منہ پر تھوک دیتا ہے. ایسے میں داعی کیلئے لازم ہے کہ وہ برداشت، حکمت اور شائستگی کا دامن نہ چھوڑے.
.
ایسے ہی ایک روز میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ایک مصروف مقام پر دعوت دین میں مشغول تھا ، جب ایک ایرانی شخص جو اہل تشیعہ سے تعلق رکھتا تھا، ہمارے پاس آیا اور نہایت اشتعال دلانے والے جملے ادا کرنے لگا. وہ کبھی عمر رض کا نام لے کر کوئی فقرہ کستا تو کبھی حضرت عائشہ رض کے متعلق کسی واقعہ پر ٹھٹھا لگاتا. ظاہر ہے کہ ایسے میں غیرت ایمانی کا جوش میں آنا لازم ہے لہٰذا مجھ سمیت تمام ساتھیوں میں شدید غصہ ابھرا. ہم میں سے جو نوجوان تھے وہ اس شخص کو مارنے کیلئے آگے بڑھے. میں جانتا تھا کہ یہ شخص آیا ہی اس مقصد سے ہے کہ اشتعال پھیلا سکے اور اس کے نتیجے میں کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ ہو جو ہماری دعوت کے اس سلسلے کو ہمیشہ کیلئے روک لگا دے. میں نے آگے بڑھ کر اپنے ساتھیوں کو سختی سے روکا اور خود اس کے قریب آگیا. اس شخص کی آنکھوں میں اب ایک خوف کا سایہ تھا اور اسے قوی امید تھی کہ اب میں اس پر ہاتھ اٹھانے والا ہوں. لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اچانک آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا. وہ گھبراہٹ میں ادھر سے ادھر نظر چرا رہا تھا. اب میں نے اس سے نرمی سے پوچھا کہ مجھے بتاؤ اگر کوئی شخص تمھاری والدہ کو گالی دے یا ان کے لئے کوئی نازیبا بات کہے تو تم کیا کرو گے؟ جواب میں اس نے پوری شدت سے کہا کہ میں اس کا منہ توڑدوں گا. میں نے سمجھایا کہ پھر تم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمارے لئے حضرت عائشہ رض ماں کا درجہ رکھتی ہیں؟ اور ہمارا ردعمل بھی تمہاری کسی ایسی بات کے نتیجے میں یہی ہوگا. اس نے نظر جھکالی اور معزرت کی. میں نے اسے مزید سمجھایا کہ اس کے الزام درست نہیں ہیں ، وہ سنتا رہا اور ارادہ کیا کہ اب ایسے سخت جملے کسی سے نہ کہے گا.
.
میں نے اس سے مزید پوچھا کہ کیا وجہ تھی جو تم اپنے بھائیوں سے اتنے خفا ہو؟ تو اس نے بتایا کہ کس طرح علاقے کی ایک سنی مسجد نے اسے اپنی مسجد سے ذلیل کرکے نکال دیا. جب کے وہ صرف نماز ادا کررہا تھا اور کوئی قابل اعتراض بات نہ کی تھی. میں نے کہا کہ اگر واقعی انہوں نے ایسا کیا تو بہت غلط کیا اور ان کی طرف سے میں تم سے معافی مانگتا ہوں مگر کیا تم چاہو گے کہ کسی نے تم سے زیادتی کی تو تم اب ہر کسی سے جوابی زیادتی کرکے بدلہ لو؟ اس نے نفی میں سر ہلادیا. اس دن کے بعد جب بھی ہم دعوت دین دے رہے ہوتے اور اس کا گزر وہاں سے ہوتا تو سلام کرنے چلا آتا اور محبت سے ملتا. اس تفرقہ نے جو فرقوں اور مسالک کے مابین شدید نفرت پیدا کردی ہے، کاش کے اس کا خاتمہ ہو.
.
===عظیم نامہ====
.
(گزارش ہے کہ اس پوسٹ کو مسلکی منافرت کیلئے استمال نہ کیا جائے بلکہ سمجھا جائے کہ یہ انتہائی رویئے ہر فرقہ و مسلک میں موجود ہیں اور ان کا علاج نفرت نہیں مکالمہ ہے)
.
ایسے ہی ایک روز میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ایک مصروف مقام پر دعوت دین میں مشغول تھا ، جب ایک ایرانی شخص جو اہل تشیعہ سے تعلق رکھتا تھا، ہمارے پاس آیا اور نہایت اشتعال دلانے والے جملے ادا کرنے لگا. وہ کبھی عمر رض کا نام لے کر کوئی فقرہ کستا تو کبھی حضرت عائشہ رض کے متعلق کسی واقعہ پر ٹھٹھا لگاتا. ظاہر ہے کہ ایسے میں غیرت ایمانی کا جوش میں آنا لازم ہے لہٰذا مجھ سمیت تمام ساتھیوں میں شدید غصہ ابھرا. ہم میں سے جو نوجوان تھے وہ اس شخص کو مارنے کیلئے آگے بڑھے. میں جانتا تھا کہ یہ شخص آیا ہی اس مقصد سے ہے کہ اشتعال پھیلا سکے اور اس کے نتیجے میں کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ ہو جو ہماری دعوت کے اس سلسلے کو ہمیشہ کیلئے روک لگا دے. میں نے آگے بڑھ کر اپنے ساتھیوں کو سختی سے روکا اور خود اس کے قریب آگیا. اس شخص کی آنکھوں میں اب ایک خوف کا سایہ تھا اور اسے قوی امید تھی کہ اب میں اس پر ہاتھ اٹھانے والا ہوں. لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اچانک آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا. وہ گھبراہٹ میں ادھر سے ادھر نظر چرا رہا تھا. اب میں نے اس سے نرمی سے پوچھا کہ مجھے بتاؤ اگر کوئی شخص تمھاری والدہ کو گالی دے یا ان کے لئے کوئی نازیبا بات کہے تو تم کیا کرو گے؟ جواب میں اس نے پوری شدت سے کہا کہ میں اس کا منہ توڑدوں گا. میں نے سمجھایا کہ پھر تم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمارے لئے حضرت عائشہ رض ماں کا درجہ رکھتی ہیں؟ اور ہمارا ردعمل بھی تمہاری کسی ایسی بات کے نتیجے میں یہی ہوگا. اس نے نظر جھکالی اور معزرت کی. میں نے اسے مزید سمجھایا کہ اس کے الزام درست نہیں ہیں ، وہ سنتا رہا اور ارادہ کیا کہ اب ایسے سخت جملے کسی سے نہ کہے گا.
.
میں نے اس سے مزید پوچھا کہ کیا وجہ تھی جو تم اپنے بھائیوں سے اتنے خفا ہو؟ تو اس نے بتایا کہ کس طرح علاقے کی ایک سنی مسجد نے اسے اپنی مسجد سے ذلیل کرکے نکال دیا. جب کے وہ صرف نماز ادا کررہا تھا اور کوئی قابل اعتراض بات نہ کی تھی. میں نے کہا کہ اگر واقعی انہوں نے ایسا کیا تو بہت غلط کیا اور ان کی طرف سے میں تم سے معافی مانگتا ہوں مگر کیا تم چاہو گے کہ کسی نے تم سے زیادتی کی تو تم اب ہر کسی سے جوابی زیادتی کرکے بدلہ لو؟ اس نے نفی میں سر ہلادیا. اس دن کے بعد جب بھی ہم دعوت دین دے رہے ہوتے اور اس کا گزر وہاں سے ہوتا تو سلام کرنے چلا آتا اور محبت سے ملتا. اس تفرقہ نے جو فرقوں اور مسالک کے مابین شدید نفرت پیدا کردی ہے، کاش کے اس کا خاتمہ ہو.
.
===عظیم نامہ====
.
(گزارش ہے کہ اس پوسٹ کو مسلکی منافرت کیلئے استمال نہ کیا جائے بلکہ سمجھا جائے کہ یہ انتہائی رویئے ہر فرقہ و مسلک میں موجود ہیں اور ان کا علاج نفرت نہیں مکالمہ ہے)
No comments:
Post a Comment