Friday, 3 June 2016

میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ..




میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ ...


.وہ آئرش لڑکی انگلینڈ میں پلی بڑھی تھی. مجھے اس کا انداز، گفتگو، لباس سب دیگر انگریز بچوں کی طرح ہی لگا مگر اس کے لہجہ میں ایک اضافی خاموش صداقت ہمیشہ جھلکتی تھی. پھر ایک روز اچانک معلوم ہوا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اب ہمارے پڑوسی گھر میں جن سے ہمارے گہرے مراسم تھے، بہو بن کر آرہی ہے. یہ بات ایک بڑی خبر تھی اور اب مجھ سمیت سب کو یہ اشتیاق تھا کہ اس نومسلم سے مل سکیں. گو میرے ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں یہ بدگمانی دفن تھی کہ شائد اس نے اسلام محض شادی کرنے کیلئے قبول کیا ہوگا. ایسے کئی کیسز مشاہدے میں آتے رہے ہیں جہاں نوجوان لڑکے لڑکی اپنا مذہب صرف اسلئے تبدیل کرلیتے ہیں تاکہ معاشرہ ان کی شادی کو قبول کرسکے. مجھے لگا کہ غالبأ یہ معاملہ بھی اسی کی ایک مثال ہوگا. میری اس سے ملاقات کروائی گئی ، جہاں مجھے بھی یہ دعوت دی گئی کہ میں اس نومولود مسلم کو دین کی کچھ سمجھ دے سکوں. چانچہ نہایت اختصار سے کچھ باتیں میں نے بھی سمجھائیں جو اب خود میری یادداشت سے محو ہیں. اس نومسلم لڑکی کی گھبرائی معصوم آنکھوں میں مجھے بہن نہیں بیٹی نظر آئی لہٰذا میں نے اسے بیٹی ہی پکارا. جواب میں اس نے بھی چچا یا ماموں جیسی ہی عزت دی. پھر نکاح کا انعقاد ہوا اور خوشی خوشی اس رشتے کا باقاعدہ آغاز ہوا.
.
جس گھر میں وہ نکاح ہو کر آئی تھی ، وہ گھر میرے ہی گھر کی طرح پیدائشی مسلمانوں کا گھر تھا جہاں 'دین اور دنیا ساتھ ساتھ' کا نام لے کر زندگی گزاری جاتی ہے. جس نوجوان سے اس کا نکاح ہوا تھا وہ غصہ کا شدید تیز تھا اور مزاج میں بچپنا رکھتا تھا. غرض یہ کہ ایک نومسلم اپنی سابقہ کرسچن اور ویسٹرن ویلیوز کو چھوڑ کر ایک روایتی پاکستانی نژاد فیملی میں آئی تھی. میری زبان دعا گو تھی کہ الله اس رشتے کو کامیاب کریں مگر دل خوفزدہ تھا کہ بظاہر کئی عوامل ان کے خلاف تھے. 
.
مگر پھر میں نے دیکھا کہ دلوں کو بدل دینے والی ذات نے دل بدل دیئے. یہ گھر اس لڑکی کیلئے رحمت ثابت ہوا جہاں ساس کی صورت میں ایک پیار کرنے والی ماں اور شوہر کی صورت میں ایک بہترین دوست اسے میسر آیا. اس لڑکی نے دین کو صرف سمجھا نہیں بلکہ اپنے کردار کو اس میں ڈھال لیا. عبادات کی پابندی کے ساتھ جب اس نے اسکارف پہننے کی خواہش کی تو اردگرد کئی لوگ تذبذب میں پڑگئے. اس نے دین کو ایسی خوبصورتی اور خاموشی سے اپنایا کہ جدی پشتی مسلم عورتیں اسے اپنے لئے عملی نمونہ ماننے پر مجبور ہوگئیں. الله نے اس نومسلم کو بھی گھر میں اسلام کی مزید ترویج کا ذریعہ بنادیا. گویا اگر گھر لڑکی کے لئے رحمت ثابت ہوا تو یہ لڑکی گھر کیلئے نعمت قرار پائی. کئی عورتوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس لڑکی کے چہرے سے نور نکلتا محسوس ہوتا ہے. نور محسوس ہوتا ہے یا نہیں ؟ یہ تو میں نہیں جانتا مگر ہاں اتنا پورے شرح صدر سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک پاکیزگی کا احساس ضرور ہوتا ہے. آج بھی کبھی ملاقات ہوجائے تو تیزی سے آکر عظیم انکل کہہ کر ادب سے جھک کر سلام کہتی ہے. ایسی عزت کسی ادبی کہانیوں میں تو پڑھی ہے مگر ہماری پاکستانی ثقافت میں مفقود ہوچکی ہے. 
.
ایک زمانے بعد جب ملاقات ہوئی تو اس سے پوچھا تھا کہ بیٹا آج سچائی سے بتاؤ کہ تم نے اسلام کیوں قبول کیا تھا ؟ کیا محض اسلئے کہ تمہاری پسند کی شادی ہوسکے؟ .. اس نے نفی میں سر ہلاکر کہا کہ نہیں عظیم انکل ، ہرگز نہیں .. میں نے پوچھا تو پھر کیوں قبول کیا؟ .. کہنے لگی کہ "انکل میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ میں نے بائبل پڑھی." .. میں نے اس کی تصحیح کی کہ "تمہارا مطلب ہے کہ تم نے قران پڑھا؟" .. اس نے سنجیدگی سے کہا کہ "نہیں انکل ، میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ میں نے بائبل پڑھی" .. میں نے حیرت سے اسے تکتے ہوئے پوچھا "مطلب؟" .. اس نے سمجھایا کہ 'جب میں نے بائبل کو خود پڑھا تو مجھے احساس ہونے لگا کہ جو اس میں لکھا ہے وہ تو مسلم کہتے ہیں ، جو اس میں کرنے کو کہا گیا ہے وہ تو مسلم کرتے ہیں. کیتھولک چرچ میں بچپن سے ہم 'مدر میری' کے بت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنی حاجت مانگتے آئے ہیں مگر پوری بائبل میں ایسا کچھ نہیں لکھا، ہمیں تثلیث کا عقیدہ رٹوایا گیا ہے مگر اس کا کوئی ادنیٰ ذکر بھی بائبل سے ثابت نہیں، جیزس (حضرت عیسیٰ ع ) داڑھی رکھ کر جیسے نظر آتے تھے ویسے تو مسلم مرد نظر آتے ہیں. میری (مریم ع ) سر ڈھانپ کر جیسی دیکھتی تھیں ویسی تو مسلم خواتین نظر آتی ہیں اور اسی طرح کی بہت سی باتوں نے مجھے لاشعوری طور پر مسلمانوں سے قریب کردیا. میں یونیورسٹی میں مسلمان دوستوں کے ساتھ رہنے میں ہی بہتر محسوس کرتی حالانکہ ان میں کئی اچھے مسلم نہیں تھے. پھر جب مجھے اسلام قبول کرکے نکاح کا موقع میسر آیا تو میں نے اسے لپک کر قبول کرلیا اور آج مطمئن ہوں.' 
.
میرے لئے یہ لڑکی اور وہ گھر جس میں یہ لڑکی بیاہی گئی ، دونوں اپنی حقیقت میں مثال ہیں. جہاں ایک جانب اخلاص و قبول حق کی داستان دکھائی دیتی ہے تو دوسری جانب دین کے سامنے سب فاسد معاشرتی اقدار ہیچ نظر آنے لگتی ہیں. دعا ہے کہ رب کریم ان کی خوشیوں کو مزید بڑھائے اور مجھ جیسوں کو سیکھنے کی توفیق دے. آمین 
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment