Wednesday, 29 June 2016

گرینڈ پلان


گرینڈ پلان




مومن کی زندگی میں 'انہونی' یا 'حسن اتفاق' نام کی کوئی شے نہیں ہوتی. وہ اس حقیقت کی معرفت پاچکا ہوتا ہے کہ زندگی کے خارج و باطن میں ہونے والی ہر واردات، ہر حادثہ، ہر واقعہ دراصل قادر المطلق کے 'گرینڈ پلان' ہی کا ایک چھوٹا سا جزو ہے. اس کا ہونا یا تو خالص 'امر الہی' کا ظہور ہے یا پھر 'اذن خداوندی' کا تقاضہ. سادہ الفاظ میں کوئی واقعہ یا تو رب العزت کے حکم کو براہ راست پورا کرتا ہے یا پھر جن و انس کو اس دار الامتحان میں حاصل عارضی آزادی کا شاخسانہ ہوتا ہے. ایسی آزادی جو آزاد ہوکر بھی منشاء خداوندی کی پابند ہے. پس مبارک ہو اس عبد کو جو روزمرہ کے حالات اور واقعات پر غور کی صلاحیت و توفیق رکھتا ہے. جو معبود کی مشیت کو واقعہ کے محرک کی صورت میں دیکھ پاتا ہے اور جو رضائے الہی سے راضی بارضا رہتا ہے. ایسے انسان کو جلد یا بدیر 'حکمت' کی خلعت سے نوازا جاتا ہے جو بیک وقت کائنات کے رموز بھی افشاں کرتی ہے اور نفس المطمئنہ کی منزل بھی ممکن بنادیتی ہے.
.
====عظیم نامہ====

Monday, 27 June 2016

توہم پرستی



توہم پرستی



کچھ سالوں قبل ایک قریبی دوست نے مجھے دعوت پر مدعو کیا. گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مہمان و میزبان سب ایک کمپیوٹر سکرین کے گرد جمع ہیں اور سبحان اللہ ، اللہ اکبر کے نعروں کا غلغلہ ہے. میں بھی جذبہ ایمانی سے سرشار آگے بڑھا کہ جان سکوں ماجرہ کیا ہے؟ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سرزمین عرب پر کوئی ایسا درخت دریافت ہوگیا ہے جو با آواز بلند .. جی ہاں بآواز بلند الله سبحان تعالیٰ کی حمد بیان کر رہا ہے. زمین کا مالک اس درخت کو کٹوا کر وہاں ایک عمارت تعمیر کرنے کا متمنی ہے مگر اس نے جدید و قدیم سب نسخے آزما لئے لیکن درخت نہ اب کٹتا ہے نہ تب. بلآخر اس نے یہ اعلان کردیا ہے کہ جو اس درخت کو کاٹ دے گا میں اسے ملین ڈالر کا انعام دوں گا اور یہ بھی کہ اب تک ہر کوشش ناکام رہی ہے. یہی وہ حیرت انگیز بریکنگ نیوز تھی جسے کسی ویب سائٹ سے پڑھ کر احباب سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کر کے جھوم رہے تھے. میں نے بھی کہا سبحان اللہ ! دوستو، رفیقو یہ تو کمال ہوگیا ! مجھے تو یہ حضرت موسیٰ ع کی لاٹھی سے بھی بڑا معجزہ معلوم ہوتا ہے. ہمیں چاہیئے کہ ہم اسی وقت گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کو فون کریں اور دنیا کو بتادیں کہ دیکھ لو اسلام ہی واحد سچا دین ہے. ہمارے پاس اب واضح ثبوت اور اللہ کا معجزہ موجود ہے. ہمی چاہیئے کہ ہم غیرملکی مبصرین کو مدعو کریں یا کم ازکم قومی ٹی وی چینل یا خبر رساں اداروں کو ہی اس پر ایک دستاویزی فلم بنانے پر مجبور کریں. 
.
میری اس تجویز کو سن کر تمام احباب خاموش، جواب ندارد. کوئی کھسیانی ہنسی ہنسا تو کوئی نظریں چرانے لگا. کیوں؟ اسلئے کہ دل میں یہ سب جانتے تھے کہ اس قسم کے قصے کہانیاں من گھڑت ہوا کرتے ہیں جن کا دین سے تعلق تو دور کی بات اس کا کوئی ناطہ عقل و فہم سے بھی نہیں جوڑا جاسکتا. مگر چونکہ جھوٹ بولنے والے نے یہ جھوٹ اسلام کا نام لے کر بولا ہے اور اسے تقدس کی پوشاک پہنا کر لکھا ہے اسلئے کسی میں ہمت نہیں کہ جھوٹے کا گریبان پکڑسکے. حالانکہ اگر جھوٹ بولنا گناہ ہے تو اسلام کا نام لے کر جھوٹ بولنا گناہ کبیر ہے. آج ہم میں سے بہت سے افراد ایسے موبائل یا سوشل میڈیا پیغامات بھیجتے نظر آتے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہوتا ہے کہ فلاں صاحب کو ایک خواب آیا جس میں اس نے فلاں مقدس شخصیت جیسے بی بی زینب رض کو دیکھا جو کہہ رہی ہیں کہ فلاں عمل اتنی بار لازمی کرو. ساتھ ہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں نے عمل کیا تو اسے مالی فائدہ پہنچا اور فلاں نے عمل نہ کیا تو اسے نقصان ہوگیا یا وہ کسی حادثے سے دوچار ہوگیا (استغفراللہ). کیا اس طرح کی خرافات چاہے وہ بظاہر کتنی ہی مقدس کیوں نہ نظر آئیں، لوگوں میں پھیلا کر آپ کون سے دین کی خدمت کررہے ہیں؟ کیا اسلام کا پیغام معاذ اللہ اتنا اپاہج ہے کہ اسے پہنچانے کیلئے ان کہانیوں کا سہارا لینا پڑے؟ صحیح مسلم میں میرے نبی ص نے کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ” کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دے“۔ خدارا ایسے پیغامات سے بلیک میل ہو کر انہیں بناء تصدیق نہ پھیلائیں. جان لیں کہ ایسا کرنا ثواب نہیں قبیح گناہ ہے. جس کتاب میں تخلیق کائنات پر تدبر کرنے اور مظاہر فطرت میں تفکر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، آج اسی کتاب کے حامل حقیقی تحقیق کی بجائے صرف آلو یا بادلوں پر اللہ کا نام کھوج رہے ہیں. عزیزان من، اللہ رب العزت کی حقیقی حمد صرف حلق سے "ح" نکال کر سبحان اللہ کہنا نہیں ہے بلکہ اس کی تخلیق پر تحقیق کرکے قوانین کی دریافت و ایجادات کرنا ہے. پھر سبحان اللہ کہنا محض ایک کلمہ نہیں رہے گا بلکہ زبان حال بن جائے گا 
.
====عظیم نامہ====

Friday, 24 June 2016

ننھا مہمان


ننھا مہمان 


وہ چھوٹا ننھا مہمان مجھے نماز پڑھتا دیکھ کر میرے پاس چلا آیا اور کہنے لگا کہ عظیم انکل مجھے بھی نماز پڑھنا ہے. پھر وہ میرے برابر میں کھڑا ہو کر مجھے دیکھتا جاتا اور جو جو میں کرتا اسے پورے شوق سے دھراتا . نماز ختم ہوئی تو میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاے اور اپنے ننھے دوست کو بھی دعا کے لیے کہا. اس نے اپنی بڑی معصوم آنکھوں سے مجھے دیکھا اور پوچھا کہ کیا الله میاں مجھے دعا سے ہر چیز دے سکتے ہیں؟ میں نے پیار سے سر ہلا دیا تو اسکی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں. خوشی سے کہنے لگا کہ پھر میں اپنے الله سے الیکٹرک گٹار مانگوں گا !! اور یہ بھی کہ میں راک بینڈ جوائن کر سکوں !. اس انوکھی غیرمتوقع خواہش کو سن کر میں ایک لمحے کو سٹپٹایا اور چاہا کہ اسے ایسی خواہش سے روک دوں لیکن پھر خیال آیا کہ میں کون ہوتا ہوں اس معصوم کی دعا پر فتویٰ لگانے والا؟ اسکا مان اپنے رب پر قائم رہنا چاہیے. تدریس و تربیت اس دعا کے بعد بھی کی جا سکتی ہے..
====عظیم نامہ=====

Tuesday, 21 June 2016

میری ذلت یا میری عزت ؟



میری ذلت یا میری عزت ؟


.
میرے والدین نے بچپن ہی سے مجھے ہم نصابی سرگرمیوں اور مطالعہ کی جانب راغب کئے رکھا. پہلے عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں ہوتی تھیں، پھر اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول آئے، پھر ابن صفی اور مظہر کلیم کی عمران سیریز نے جگہ لی، پھر ادبی شمارے شامل ہوئے اور ہوتے ہوتے آج الہامی صحائف تک بات آگئی. اس سب کے پیچھے حقیقی محرک بلاشبہ میرے والدین ہی رہے. اسی طرح اسکول میں کوئی ڈرامہ ہو یا ٹیبلو مجھے اس میں خوشی سے یا زبردستی حصہ لینا ہی ہوتا تھا. میں آٹھویں جماعت میں تھا جب اسکول میں رزلٹ کے موقع پر ایک بڑے فنکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں کچھ معروف نام بھی مدعو تھے اور سب بچوں کے خاندان والوں کی شرکت بھی لازم تھی. میری اردو کا تلفظ و ادائیگی چونکہ دیگر بچوں سے بہتر تھا لہٰذا مجھے سورہ الرحمٰن کی تلاوت کے بعد اس کا ترجمہ کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی. فنکشن کا دن آیا تو پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. یہ پہلا موقع تھا جب مجھے اسٹیج پر لوگوں کے سامنے اتنا طویل بولنا تھا. میرا ایک کزن جو میرے ہی ساتھ اسکول میں تھا تقریر کیلئے منتخب کیا گیا تھا اور بولنے کیلئے خوب پراعتماد تھا. پروگرام شروع ہوا اور میری ترجمے کی باری آئی. اسٹیج پر میرا نام پکارا گیا اور میں لرزتا کانپتا مائیک کے سامنے آکھڑا ہوا. ترجمہ کرنے کے لئے منہ کھولا تو لگا کہ جیسے آواز چلی گئی ہو. لاچارگی سے سامنے دیکھا تو سامعین میں سے کچھ گھور رہے تھے تو کچھ مجھ پر ہنس رہے تھے. دماغ ماؤف ہوگیا اور الفاظ مفقود. بڑی مشکل سے سوری کہا اور اسٹیج سے اتر آیا. لوگ ہنس رہے تھے، دوست مذاق اڑا رہے تھے اور مجھ پر ذلت کا ایک شدید بوجھ تھا جس کے تلے میں دبا جاتا تھا. اسٹیج کے پیچھے والدہ اور ٹیچر دونوں میرے پاس آئے تو میں نے روتے ہوئے قسم کھانی چاہی کہ اب کبھی اسٹیج پر نہ آؤں گا. لیکن والدہ نے لپک کر تسلی دی کہ کیا ہوا جو تم بول نہ سکے؟ تم نے حصہ لیا اور کوشش کی یہی سب سے اہم ہے. اگلی دفعہ بول بھی لو گے. میں نے نفی میں سر ہلادیا. اس دن میرے کزن کو بہترین تقریر کرنے پر پہلا انعام دیا گیا اور میں ایک شکست خوردہ انسان کی طرح خود کو چھپاتا رہا. وہ ہیرو تھا اور میں زیرو. والد نے بھی خوب ہمت بندھائی اور ناراض ہونے کی بجائے مجھے میری پسند کی جگہ کھانا کھلانے لے گئے. اس بہترین برتاؤ کے باوجود میں اندر سے ٹوٹ چکا تھا. 
.
اس واقعہ کے ایک سال بعد کراچی میں سیرت النبی ص پر ایک بہت بڑے تقریری مقابلے کا اعلان کیا گیا جس میں شہر کے نمائندہ اسکولز نے شرکت کرنی تھی اور جسے میڈیا کی کوریج حاصل تھی. اس کے انتخابی مرحلے کا اسکول میں مہینوں پہلے اعلان کردیا گیا اور اسکے لئے بچوں ہی کے ہاتھوں اسکول لیٹر گھر بھیجا گیا. مجھے معلوم تھا کہ اگر یہ لیٹر میری والدہ کے ہاتھ لگ گیا تو انہوں نے مجھے کوشش کرنے پر مجبور کردینا ہے. میں نے لیٹر چھپا لیا مگر ہائی ری قسمت کہ جہاں چھپایا ، وہاں والدہ نے صفائی کی نیت سے تلاشی لے لی اور یوں ان کے علم میں آگیا. حسب توقع مجھے والدہ نے اپنی محبت سے مجبور کردیا کہ میں کوشش تو کروں اور اگلے ہی روز میرے ساتھ اسکول جاپہنچی. انتخابی مراحل کے دو ابتدائی مرحلے ہوچکے تھے اور اس روز تیسرا اور حتمی مرحلہ تھا. والدہ نے استادوں کو راضی کیا کہ وہ مجھے بھی سن لیں. میں نے آدھے دل سے پڑھا مگر پھر بھی استادوں کو بھا گیا. انہوں نے مجھے ہی بھیجنے کا فیصلہ کردیا. یہ فیصلہ جہاں میرے والدین کیلئے خوشی کی نوید تھا وہاں میرے لئے گویا موت کے پروانے سے کم نہ تھا. دن رات تیاری کرکے تقریر تیار کی اور اٹھتے بیٹھے اسے یاد کرتا رہا. رات میں سوتے ہوئے بھی اپنی سابقہ ذلت کا منظر سامنے آجاتا اور میں گھبرا کے اٹھ بیٹھتا. 
.
مقابلے کا دن آیا اور ہم میزبان اسکول میں جاپہنچے. ایک سے ایک تقریریں ہوئیں اور سب سے بہترین تقریر میزبان اسکول ہی کی ایک لڑکی نے کی. میرا نام پکارا گیا تو والد نے مسکرا کر ہمت بندھائی. اسٹیج پر گیا اور تقریر کا آغاز کردیا. کچھ ہی دیر میں مجھے احساس ہوا کہ سننے والے بھی انہماک سے سن رہے ہیں اور کچھ خواتین تو رونے لگی ہیں. ابھی میری تقریر آدھی ہی ہوئی تھی کہ اچانک مائیک بند ہوگیا اور کچھ کے بقول میزبان اسکول کی طرف سے بند کردیا گیا تاکہ میں گھبرا جاؤں اور پھر انعام ان ہی کی طالبہ کے پاس آئے. اللہ اعلم. مائیک بند ہوتے ہی میرے چہرے پر گھبراہٹ آئی تو والد اپنی نشست سے کھڑے ہوکر پکارے کہ عظیم دگنی آواز سے بولو. والد کی صدا نے مجھ میں نئی قوت پھونک دی اور میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ زور و شور سے بولا. تقریر ختم ہوئی تو نہ صرف تالیاں بجتی رہیں بلکہ بہت سے استاد مجھے چمٹا کر پیار کرنے لگے. آخر میں مجھے پہلا انعام دیا گیا. لوگ غول بنا کر مجھے گاڑی تک چھوڑنے آئے. اگلے روز اسکول میں والہانہ استقبال ہوا اور کچھ لوگوں نے تو آٹوگراف تک لیا. ایک ہی دن میں مجھے وہ عزت حاصل ہوئی جس کا تصور بھی میرے گمان میں نہ تھا. اس کے بعد میں نے یکے بعد دیگرے تقریری مقابلے جیتے، کالج آیا، یونیورسٹی آئی مگر میری جیت کا سلسلہ نہیں رکا. شہری اور ملکی سطح کا کوئی اعزاز شاید ہی ایسا ہو جسے حاصل نہ کیا ہو. میری مہنگی یونیورسٹی نے نہ صرف میری فیسیں معاف کردیں بلکہ طرح طرح کے مالی انعامات بھی مجھے ملتے رہے. اسی کی بنیاد پر مجھے مختلف آن اسکرین اور آف اسکرین آفرز آتی رہی، اخباروں میں انٹرویوز آتے رہے اور آج تک اسی فن خطابت کے ثمرات مجھے مختلف طریق سے حاصل ہوتے رہے ہیں. کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہوتا؟ اگر میں پہلی ذلت سے گھبرا کر کوشش ترک کردیتا؟ کیا ہوتا جو میرے والدین نے میری ہمت بندھا کر مجھے کوشش کرنے پر مجبور نہ کیا ہوتا؟ کیا ہوتا جو اس دن والدہ کو میرا چھپایا ہوا لیٹر نہ ملا ہوتا؟ الحمدللہ کہ ایسا کچھ نہ ہوا اور میں یہ بھی سمجھ پایا کہ پائیدار کامیابی کی کلید عارضی ناکامی کے بعد بھی مسلسل کوشش ہے. 
.
====عظیم نامہ=====

Monday, 20 June 2016

عظیم بھائی آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟


عظیم بھائی آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟



.
کوئی آٹھ دس برس قبل میں فیشن ریٹیلرز کے ایک معروف نام سے بطور سپروائزر منسلک تھا. بہت سے ملازمین سے کام لینا ہی میرا کام تھا. ان ہی دنوں ایک ہنستے مسکراتے خوش اخلاق انسان نے کمپنی کو بحیثیت سیکورٹی گارڈ جوائن کرلیا. ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا اور نہایت سادہ فطرت کے مالک انسان تھے. جلد ہی میری ان سے گہری دوستی ہوگئی جو آج تک الحمدللہ قائم و دائم ہے. ایسے سجن فطرت انسان کہ نہ صرف ہمہ وقت لوگوں کی مدد کو دل و جان سے تیار رہتے بلکہ ایسے پیار سے مدد کرتے کہ مدد لینے والے کو یہ محسوس ہونے لگتا کہ شاید ان سے مدد لے کر ہم نے ان ہی پر کوئی احسان کیا ہے. اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار جب انہیں یہ خبر ملی کہ میرا گھر میں رنگ و روغن کرنے کا ارادہ ہے تو مصر ہوگئے کہ میں آرہا ہوں رنگ کرنے، بڑی مشکل سے انہیں روک پایا یا جب ایک بار میری باس سے کچھ ان بن ہوئی تو مجھے بچانے کیلئے بناء تامل اپنی نوکری درپے لگادی. میری ان سے گھنٹوں سیاست سے لے کر کھیلوں تک کے موضوعات پر گفتگو ہوتی. اس گفتگو میں کبھی میرا کلین شیو چہرہ اور ان کی لمبی داڑھی رکاوٹ نہ بنی. جب وقت نماز آتا تو وہ مجھے ڈھونڈھ کر مجھ سے ضرور نماز کا پوچھتے اور ہلکی سی تلقین کرتے. میں بہانہ بنا کر یہاں سے وہاں ہوجایا کرتا. اسی طرح مہینے گزر گئے. نہ انہوں نے پوچھنا چھوڑا اور نہ ہم نے انہیں گولی دینا ترک کیا. 
.
ایک روز باتوں ہی باتوں میں پوچھا، عظیم بھائی آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے جھینپ کر کہا کہ پڑھتا ہوں مگر گھر جاکر پڑھتا ہوں. کہنے لگے کہ پھر کام کے دوران آنے والی ظہر کی نماز کا کیا کرتے ہیں؟ میں نے آنکھیں چراتے ہوئے جواب دیا کہ اسے گھر جاکر قضاء کرلیتا ہوں. انہوں نے حیرت اور محبت دونوں سے لبریز لہجے میں استفسار کیا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں اور وقت پر کیوں نہیں پڑھتے؟ اب میں نے ہمت مجتمع کرکے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ آفس میں کوئی جگہ ایسی نہیں جو خفیہ ہو. مجھے شرم آتی ہے کہ سب غیرمسلوموں کو کیسا عجیب مضحکہ خیز لگے گا کہ جب میں ان سب کی آنکھوں کے سامنے رکوع میں جھکوں گا یا سجدے میں پڑا ہوں گا. ضرور وہ میری ہنسی اڑائیں گے اور میری عزت کم کرنے لگیں گے. آپ ہی بتائیں کہ انہیں میرا رکوع اور سجدہ عجیب نہیں لگے گا؟ یہ سن کر ان کے چہرے پر ان کی وہی مخصوص مسکراہٹ لوٹ آئی اور انہوں نے نرمی سے میرے قریب آکر کہا کہ 
.
"یہ تو اس پر منحصر ہے عظیم بھائی کہ آپ نماز، رکوع یا سجدہ کس کیلئے کرتے ہیں؟ اگر آپ کی یہ عبادت ان لوگوں کی رضا کیلئے ہے تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ واقعی عجیب لگے گا مگر اگر آپ کی یہ عبادت اللہ پاک کی رضا کیلئے ہے تو آپ کو ان باتوں کی پرواہ نہ ہوگی"
.
یہ جملہ میری سماعتوں پر بجلی کی مانند گرا اور سیدھا قلب میں پیوست ہوگیا. وہ دن ہے اور آج کا دن ہے. دفتر ہو یا کھیل کا میدان. سفر ہو یا سڑک. میں پورے شرح صدر سے بناء گھبرائے وقت پر نماز کا اہتمام کر پاتا ہوں الحمدللہ. بعض اوقات وہی جملے جو آپ سینکڑوں بار سن چکے ہوتے ہیں، اسی لہجے اور اسی الفاظ کے انتخاب کے ساتھ جب کسی باعمل مخلص انسان کی زبان سے ادا ہوتے ہیں تو سیدھا مخاطب کے دل میں گھر بنالیتے ہیں. میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا. پھر میں نے دیکھا کہ میری اسی نماز اور اسی رکوع و سجدے نے مجھے اپنے آفس میں وہ عزت دی جو اس سے پہلے مجھے حاصل نہ تھی. مسلم و غیر مسلم دونوں مجھ سے خود آکر اسلام سمجھتے اور میرے پیٹھ پیچھے میری تعریف کرتے. صرف ایک نماز کا فرض ادا کرنے نے مجھے ان سب کے لئے دین اسلام کا نمائندہ بنادیا تھا. ایک بار تو یہاں تک ہوا کہ جب نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو ایک نوجوان کو پیچھے بیٹھا پایا. اس نے مجھ سے پوچھا کہ عظیم کیا تم مجھے نماز سیکھا سکتے ہو؟ میں نے حامی بھری تو معلوم ہوا کہ وہ ایک سکھ ہے اور اب اسلام قبول کرنا چاہتا ہے. اسی لئے اسے نماز سیکھنی ہے. یہ سب سنانے کا واحد مقصد یہی ہے کہ قارئین بھی راقم کی طرح اس سچ کو سمجھ سکیں کہ اگر فی الواقع ہماری نماز اللہ ہی کیلئے ہے تو لازم ہے کہ ہم اسے اس کے وقت پر جہاں بھی موجود ہوں ادا کریں اور لوگوں کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کو نماز نہ ادا کرنے کا میعار ہرگز نہ بننے دیں. 
.
===عظیم نامہ====

Friday, 17 June 2016

دعوت دین کا ایک سبق آموز واقعہ

 

 

دعوت دین کا ایک سبق آموز واقعہ

 
جیسا کے احباب واقف ہیں کہ میں عرصہ دراز سے انگلینڈ میں مقیم ہوں.کچھ برس قبل میں اپنے شہر میں غیر مسلموں کو دعوت دین دینے کا امیر مقرر کیا گیا تھا. میں نے یہ ذمہ داری چند برس نبھائی اور اس دوران لاتعداد ایسے واقعات کا سامنا کیا جو میری یادداشت کا مستقل حصہ بن گئے. ایسے واقعات جن میں بظاہر کوئی خاص بات نظر نہ بھی آئے تب بھی وہ آپ کو اہم سیکھ دے جاتے ہیں. دعوت دین دینا نبیوں کی سنت ہے اور اسکی بجاآوری کیلئے بے تحاشہ برداشت کا حامل ہونا ضروری ہے. جب آپ دعوت دیتے ہیں تو کبھی تو کوئی آپ کو جھڑک دیتا ہے، کبھی کوئی غیر مسلم آپ پر الزام لگاتا ہے، کبھی کوئی ملحد آپ کا مذاق اڑتا ہے، کبھی کوئی مسلمان گروہ آپ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور کبھی تو ایسا بھی ہوا ہے کہ داعی کے منہ پر تھوک دیتا ہے. ایسے میں داعی کیلئے لازم ہے کہ وہ برداشت، حکمت اور شائستگی کا دامن نہ چھوڑے.
.
ایسے ہی ایک روز میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ایک مصروف مقام پر دعوت دین میں مشغول تھا ، جب ایک ایرانی شخص جو اہل تشیعہ سے تعلق رکھتا تھا، ہمارے پاس آیا اور نہایت اشتعال دلانے والے جملے ادا کرنے لگا. وہ کبھی عمر رض کا نام لے کر کوئی فقرہ کستا تو کبھی حضرت عائشہ رض کے متعلق کسی واقعہ پر ٹھٹھا لگاتا. ظاہر ہے کہ ایسے میں غیرت ایمانی کا جوش میں آنا لازم ہے لہٰذا مجھ سمیت تمام ساتھیوں میں شدید غصہ ابھرا. ہم میں سے جو نوجوان تھے وہ اس شخص کو مارنے کیلئے آگے بڑھے. میں جانتا تھا کہ یہ شخص آیا ہی اس مقصد سے ہے کہ اشتعال پھیلا سکے اور اس کے نتیجے میں کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ ہو جو ہماری دعوت کے اس سلسلے کو ہمیشہ کیلئے روک لگا دے. میں نے آگے بڑھ کر اپنے ساتھیوں کو سختی سے روکا اور خود اس کے قریب آگیا. اس شخص کی آنکھوں میں اب ایک خوف کا سایہ تھا اور اسے قوی امید تھی کہ اب میں اس پر ہاتھ اٹھانے والا ہوں. لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اچانک آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا. وہ گھبراہٹ میں ادھر سے ادھر نظر چرا رہا تھا. اب میں نے اس سے نرمی سے پوچھا کہ مجھے بتاؤ اگر کوئی شخص تمھاری والدہ کو گالی دے یا ان کے لئے کوئی نازیبا بات کہے تو تم کیا کرو گے؟ جواب میں اس نے پوری شدت سے کہا کہ میں اس کا منہ توڑدوں گا. میں نے سمجھایا کہ پھر تم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمارے لئے حضرت عائشہ رض ماں کا درجہ رکھتی ہیں؟ اور ہمارا ردعمل بھی تمہاری کسی ایسی بات کے نتیجے میں یہی ہوگا. اس نے نظر جھکالی اور معزرت کی. میں نے اسے مزید سمجھایا کہ اس کے الزام درست نہیں ہیں ، وہ سنتا رہا اور ارادہ کیا کہ اب ایسے سخت جملے کسی سے نہ کہے گا.
.
میں نے اس سے مزید پوچھا کہ کیا وجہ تھی جو تم اپنے بھائیوں سے اتنے خفا ہو؟ تو اس نے بتایا کہ کس طرح علاقے کی ایک سنی مسجد نے اسے اپنی مسجد سے ذلیل کرکے نکال دیا. جب کے وہ صرف نماز ادا کررہا تھا اور کوئی قابل اعتراض بات نہ کی تھی. میں نے کہا کہ اگر واقعی انہوں نے ایسا کیا تو بہت غلط کیا اور ان کی طرف سے میں تم سے معافی مانگتا ہوں مگر کیا تم چاہو گے کہ کسی نے تم سے زیادتی کی تو تم اب ہر کسی سے جوابی زیادتی کرکے بدلہ لو؟ اس نے نفی میں سر ہلادیا. اس دن کے بعد جب بھی ہم دعوت دین دے رہے ہوتے اور اس کا گزر وہاں سے ہوتا تو سلام کرنے چلا آتا اور محبت سے ملتا. اس تفرقہ نے جو فرقوں اور مسالک کے مابین شدید نفرت پیدا کردی ہے، کاش کے اس کا خاتمہ ہو.
.
===عظیم نامہ====
.
(گزارش ہے کہ اس پوسٹ کو مسلکی منافرت کیلئے استمال نہ کیا جائے بلکہ سمجھا جائے کہ یہ انتہائی رویئے ہر فرقہ و مسلک میں موجود ہیں اور ان کا علاج نفرت نہیں مکالمہ ہے)

Monday, 6 June 2016

عظیم نامہ


====عظیم نامہ====



سوال:

السلام علیکم! عظیم صاحب ایک ذاتی احساس شئیر کرنے لگا ہوں امید ہے آپ ناراض نہیں ہونگے۔ آپ کی پوسٹ بہت عمدہ ، تعمیری اور اصلاح وتذکیر سے بھری ہوتی ہیں۔ لیکن آپ نے اپنی پوسٹ کے لیے جو عنوان "عظیم نامہ" رکھا ہوا ہے اس میں ذاتیات کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ آپ کی پوسٹ میں ذاتی تعلی اور بڑائی کا کوئی ذکر تک نہیں ہوتا۔ مجھے بڑا دکھ ہے کہ شروع میں میں صرف آپ کی پوسٹ کے عنوان ہی کی وجہ سے سمجھ بیٹھا کہ کوئی بیچارہ احساس کمتری کا مارا ہوا ہے جو اپنی اہمیت جتوانے کے لیے یوں اپنی پوسٹ کا اپنے نام کے ذریعے مشہوری چاہتا ہے۔ لیکن معلوم نہیں کیا واقعہ ہوا کہ مجھے پتہ چلا کہ میری فیس بک فرینڈ لسٹ میں ایک بہت عمدہ لکھنے والا نام بھی موجود ہے اس وقت سے لے کر آج تک آپ کی پوسٹ باقاعدگی سے پڑھ رہا ہوں۔ میں اصرار نہیں کررہا کہ آپ اپنی پوسٹ کا عنوان "عظیم نامہ" تبدیل کردیں۔ لیکن میری طرح کے نووارد لیکن سخت سادگی پسند اور اصلیت پسند لوگوں کے لیے بعض واوقات ایسے عنوانات ایک قسم کا حجاب بن جاتے ہیں اور ایک معمولی وجہ سے استفادہ سے محروم رہتے ہیں۔مجھ پر تو یہ حجاب اس وقت ٹوٹا جب میں نے غامدی صاحب کے ساتھ آپ کی تصویر اور پھر آپ کے محبت بھرے نقد پر مبنی پوسٹیں پڑھیں۔ اس کے بعد میں آپ کا باقاعدہ قاری بنا ہوں۔ اللہ خوش رکھے۔
.
جواب:
وعلیکم السلام بھائی،
.
گو انسان کو ہمیشہ خوش گمانی رکھنی چاہیئے مگر آپ کا سوچنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں. "عظیم نامہ" جیسا عنوان فی الواقع کسی خود پسند شخص کا اظہار معلوم ہوتا ہے. سچ پوچھیئے تو میں خود نہیں جانتا کہ کس حد تک مجھ میں خود پسندی یا خود نمائی موجود ہے؟ البتہ میں اپنے رب سے اکثر دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھیں اور اگر مجھ میں یہ بیماری موجود ہے تو مجھے شفا دے دیں. آپ سے بھی اسی دعا کی استدعا ہے. 
.
فیس بک سے بہت پہلے ایک سوشل میڈیا کی سائٹ ہوا کرتی تھی 'اور کٹ' کے نام سے. اس سائٹ پر میں نے یہ چاہا کہ اپنے خیالات ڈائری کی طرح ایک جگہ لکھ لوں جو خالص میرے اپنے لئے ہوں. لہٰذا میں نے ایک خفیہ پیج بنایا جسے 'اور کٹ' کی اصطلاح میں کمیونٹی کہا جاتا تھا. اس میں صرف اور صرف میں موجود تھا اور کسی دوسرے کے پاس یہ اختیار نہ تھا کہ وہ اسے دیکھ سکے. کیونکہ یہ پیج میرے خیالات کو خالص میرے پڑھنے کیلئے کسی ذاتی ڈائری کے مقصد سے بنایا گیا تھا لہٰذا اس پیج کا نام میں نے 'عظیم نامہ' رکھ دیا. اس وقت مجھے خبر نہ تھی کہ کل یہی نام میں اپنی ان عوامی اصلاحی تحریروں کیلئے بھی استعمال کروں گا. جب فیس بک آئی تو دیگر احباب کی طرح ایک روز میں بھی اس سے جڑ گیا، میرے پاس گنتی کے چند خاندان والے یا پرانے دوست ہوا کرتے تھے جو شاذ ہی میری وال پڑھنا گوارا کرتے. چنانچہ میں نے وہی کام فیس بک وال پر کرنا شروع کردیا جو کبھی 'اور کٹ' کی پرائیویٹ کمیونٹی میں کیا کرتا تھا اور آج جو نوبت ہے وہ آپ کے سامنے ہے. اب اس نہج پر میں اس نام کو بدلنا درست نہیں سمجھتا کہ ایک محدود حلقہ اسی تعارف سے جڑ چکا ہے. اللہ رب العزت مجھے معاف کریں اور مجھے تطہیر فکر عطا کریں آمین. 
.
====عظیم نامہ====

نوجوان عالم


نوجوان عالم 


"فلسطین کے بہن بھائیوں کی مالی مدد کیجیئے"
.
یہ مغرب کے بعد کا وقت تھا، جب ایک نزدیکی سڑک سے گزرتے ہوئے کسی نے مہذب انداز میں مجھے مخاطب کیا. میں نے پلٹ کر دیکھا تو ایک کم عمر خوش شکل نوجوان ہاتھ میں صدقات کا ایک ڈبہ تھامے مسکرا رہا تھا  "فلسطین کے بہن بھائیوں کی مالی مدد کیجیئے". میں نے جیب سے کچھ پیسے اس کے حوالے کئے اور اسے رسمی طور پر سراہا. یہ نوجوان بلاشبہ بڑی جاذب شخصیت کا حامل محسوس ہوا. متناسب قد، پرسکون چہرہ، چہرے پر مسکراہٹ، وجیہہ داڑھی اور شانوں تک کے سنت طریق پر بال. بات سے بات نکلی اور گفتگو طویل تر ہوتی چلی گئی. اپنے اس چھوٹے بھائی سے کتنی دیر بات ہوئی یہ تو ٹھیک سے یاد نہیں مگر بوریت کا ذرا سا شائبہ تک نہ ہوا. ان ہی باتوں میں اس نے مجھے کہا کہ آپ قران حکیم پر غور ضرور کیا کیجیئے. میں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ غور و فکر کی تھوڑی بہت کوشش کرتا رہتا ہوں. اس نے پوچھا کہ کیا وہ مجھے قران کی کچھ سمجھ دے سکتا ہے؟ میں اندر ہی اندر مسکرایا. میرے نفس نے سرگوشی کی کہ یہ کم عمر لڑکا تجھے قران کا کیا فہم دے سکے گا؟ تجھ سے تو خود کئی لوگ قران کا فہم سیکھتے ہیں. (معاذ اللہ .. رب مجھے معاف کریں آمین) 
.
بہرکیف میں نے کہا ضرور بتاؤ. اب اس لڑکے نے جو قران حکیم کی آیات کی حکمتیں سمجھانا شروع کیا تو میں دم بخود رہ گیا. اس کا علم اور تدبر مجھ سے بیسیوں گنا زیادہ تھا. اس نے مختصر وقت میں مجھے قران پاک کے وہ وہ مقامات سمجھائے جن کی جانب کبھی توجہ بھی نہ کی تھی. میں مؤدب ہوکر اب اس سے سوال پوچھنے لگا اور وہ مجھے نہایت اختصار سے جامع جواب دیتا گیا. جب بات مکمل ہوئی اور وقت رخصت قریب آنے لگا تو میں نے اس سے آخری درجے میں مرعوب ہوتے ہوئے گزارش کی کہ وہ قران کریم پر تدبر کی کوئی علمی نشست کا اہتمام کیوں نہیں کرتا ؟ تاکہ مجھ سمیت دیگر لوگ اس کے علم سے مستفید ہوں ؟ جواب میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ کوئی سال دو سال سے ایک نشست میں لیکچر دیتا رہا ہے جو کچھ ہی عرصے میں اتنا مقبول ہوگیا کہ شرکاء کی تعداد تین سو سے تجاوز کرگئی. میں نے مسرت سے کہا کہ تمھیں سننے کے بعد مجھے اس تعداد پر کوئی حیرت نہیں اور کیا تم مجھے بھی اس نشست میں شامل کرسکتے ہو؟ .. اس نے جواب دیا کہ اب وہ دانستہ لیکچر نہیں دیتا اور اس کے لیکچر نہ دینے کی وجہ سے بہت سے شاگرد ناراض ہیں. میں نے وجہ دریافت کی تو اس نے مسکرا کر کہا کہ میں نے لیکچر دینا اسلئے عارضی طور پر معطل کردیا ہے کیونکہ میرا نفس مجھے تنگ کرنے لگا تھا. میرے نفس نے مجھے یہ پٹی پڑھانی شروع کردی کہ تم تو بہت بڑے علامہ ہو ، تم سے تو علماء بھی سیکھنے آتے ہیں اور تمھارے علم کی تو کیا ہی بات ہے؟ .. میں نے بہت چاہا کہ اس نفس کو قابو کرسکوں مگر ناکام رہا. لہٰذا میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ جب تک اس نفس کو لگام نہیں دے لیتا، لیکچر نہیں دوں گا. اب کچھ ہفتوں سے افاقہ محسوس کررہا ہوں اور جلد دوبارہ کلاس شروع کروں گا. میں اپنے اس بھائی کے لہجے سے چھلکتی سچائی اور اس کے تزکیہ نفس کی کوشش کو محسوس کرکے مسکرا رہا تھا. اس سے اس کا نمبر لیا تاکہ رابطہ رکھا جاسکے مگر افسوس کہ شاید نمبر لکھنے میں کچھ غلطی کرگیا اور یہ پہلی ملاقات ہی میری اس سے آخری ملاقات ثابت ہوئی. اللہ پاک ہم سب کو نفس اور علم کے تکبر سے محفوظ رکھے.  آمین.
.
====عظیم نامہ=====

Sunday, 5 June 2016

ماں کی دعا


ماں کی دعا



میرا تعلق شہر کراچی کے ایک متوسط خاندان سے ہے. بہت سالوں قبل جب میں تعلیم کیلئے لندن آیا تو میرے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح اپنی ماسٹرز کی فیس جمع کرنی ہے اور ساتھ ہی ڈگری وقت پر مکمل کرنی ہے. آج کے حساب سے مجھے کم و بیش تیرہ لاکھ روپے درکار تھے. اس ہدف کا حصول قریب قریب ناممکن تھا. جن لوگوں کے ساتھ رہائش تھی وہ سب مذاق اڑاتے اور کہتے 'ہم بھی دیکھتے ہیں کہ یہ ڈگری کرنے کا بھوت تمہارے سر پر کب تک رہتا ہے؟' وہ پورے خلوص سے مجھے مشورہ دیتے کہ اس ڈگری وگری میں کچھ نہیں رکھا، اصل کام تو پاونڈ چھاپنا یعنی کمانا ہے. خوش نصیبی سے آتے ہی ایک ریسٹورانٹ میں بیرے کی نوکری مل گئی. سارا دن اور دیر رات تک بیرا گیری کرتا، پلیٹیں دھوتا، فلور صاف کرتا، کیش کاؤنٹر سنبھالتا. یونیورسٹی کی کلاسز ہفتے میں تین روز ہوا کرتیں. اکثر ایسا ہوتا کہ یونیورسٹی سے سیدھا کام پر آجاتا. کئی بار اڑتالیس گھنٹوں تک بناء سوئے کلاسز لیں اور نوکری کی. ہوٹل کی اس نوکری کے علاوہ بھی الحمدللہ طرح طرح کی مزدوریاں کیں. وقت گزرتا گیا اور میں نے ایک کے بعد ایک سیمسٹر نمایاں نمبرز سے پاس کرلئے مگر جب پروجیکٹ جمع کرانے کی صورت میں آخری مرحلہ آیا تو اسے تیار کرنے کیلئے جو لازمی وقت و محنت درکار تھی وہ میں نہ نکال سکا. وجہ یہی تھی کہ فیس کی آخری انسٹال منٹ دینے کیلئے دہری نوکری کرنا پڑتی تھی اور اس کے بعد جسم و ذہن میں پروجیکٹ کیلئے قوت باقی نہ رہتی تھی. خیر بڑی مشکل سے ٹوٹا پھوٹا پروجیکٹ بنا پایا اور جمع کرادیا. 
.
دل میں شدید خوف تھا کہ معلوم نہیں یہ پروجیکٹ پاس بھی کیا جائے گا یا نہیں؟ والدہ کا روز فون آتا جس میں وہ مجھ سے ریزلٹ کے بارے میں دریافت کرتیں. آخر ایک دن بذریعہ ڈاک مجھے اپنا ریزلٹ گھر پر موصول ہوا. دھڑکتے دل سے جب لفافہ کھولا تو یہ دیکھ کر سانسیں ڈوبنے لگیں کہ میرے پروجیکٹ کو ریجیکٹ کردیا گیا تھا. جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ مجھے چھ مہینے دوبارہ محنت کرکے نیا پروجیکٹ جمع کروانا ہوگا. میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے جب پاکستان سے والدہ کا فون آیا. انہوں نے حسب معمول ریزلٹ کا دریافت کیا. مجھ میں سچ بولنے کی ہمت نہ تھی لہٰذا میں نے جھوٹ کہا کہ امی ابھی ریزلٹ آنے میں وقت ہے. جواب میں امی نے مجھے ڈھارس دیتے ہوئے کہا کہ عظیم بلکل فکر نہ کرنا ، آج شب قدر ہے میں رات بھر تمہاری کامیابی مانگوں گی اور تم دیکھنا کہ تم کامیاب ہی رہو گے. میں نے دل میں سوچا، اب کون سی کامیابی؟ ریزلٹ تو میرے ہاتھ میں ہیں جو مجھے ناکامی کی خبر سنا رہا ہے. خیر وہ رات والدہ نے عبادت میں اور میں نے خاموش ماتم میں گزاری. صبح ہوئی تو یونیورسٹی سے فون آیا، میں نے گھبرا کر اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی کہ ہم بہت معزرت خواہ ہیں کہ ہم نے آپ کو غلط ریزلٹ بھیج دیا ہے. اصل میں تو آپ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوچکے ہیں. میری سمجھ مفقود تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انگلینڈ جیسے نظم و ضبط والے ملک کی ایک نمایاں یونیورسٹی سے ریزلٹ بھیجنے میں ایسی زبردست چوک ہوجائے؟ مگر کہیں میرا دل یہ جانتا تھا کہ یہ معاملہ حسن اتفاق نہیں بلکہ عطا الہی کا غماز ہے جو میری والدہ کی دعا کا نتیجہ ہے. ایسے کتنے ہی معجزات ہیں جو میری زندگی میں اپنے والدین کی دعاؤں سے برپا ہوئے ہیں. لوگ کسی بزرگ کی دعا کیلئے دن رات جتن کرتے ہیں مگر اکثر ویسی کوشش اپنے والدین کی دعا کے حصول کیلئے نہیں کرتے. حالانکہ یہ باپ کی دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور یہ ماں کی دعا ہے جو عرش ہلادیتی ہے. 
.
====عظیم نامہ====

Friday, 3 June 2016

میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ..




میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ ...


.وہ آئرش لڑکی انگلینڈ میں پلی بڑھی تھی. مجھے اس کا انداز، گفتگو، لباس سب دیگر انگریز بچوں کی طرح ہی لگا مگر اس کے لہجہ میں ایک اضافی خاموش صداقت ہمیشہ جھلکتی تھی. پھر ایک روز اچانک معلوم ہوا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اب ہمارے پڑوسی گھر میں جن سے ہمارے گہرے مراسم تھے، بہو بن کر آرہی ہے. یہ بات ایک بڑی خبر تھی اور اب مجھ سمیت سب کو یہ اشتیاق تھا کہ اس نومسلم سے مل سکیں. گو میرے ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں یہ بدگمانی دفن تھی کہ شائد اس نے اسلام محض شادی کرنے کیلئے قبول کیا ہوگا. ایسے کئی کیسز مشاہدے میں آتے رہے ہیں جہاں نوجوان لڑکے لڑکی اپنا مذہب صرف اسلئے تبدیل کرلیتے ہیں تاکہ معاشرہ ان کی شادی کو قبول کرسکے. مجھے لگا کہ غالبأ یہ معاملہ بھی اسی کی ایک مثال ہوگا. میری اس سے ملاقات کروائی گئی ، جہاں مجھے بھی یہ دعوت دی گئی کہ میں اس نومولود مسلم کو دین کی کچھ سمجھ دے سکوں. چانچہ نہایت اختصار سے کچھ باتیں میں نے بھی سمجھائیں جو اب خود میری یادداشت سے محو ہیں. اس نومسلم لڑکی کی گھبرائی معصوم آنکھوں میں مجھے بہن نہیں بیٹی نظر آئی لہٰذا میں نے اسے بیٹی ہی پکارا. جواب میں اس نے بھی چچا یا ماموں جیسی ہی عزت دی. پھر نکاح کا انعقاد ہوا اور خوشی خوشی اس رشتے کا باقاعدہ آغاز ہوا.
.
جس گھر میں وہ نکاح ہو کر آئی تھی ، وہ گھر میرے ہی گھر کی طرح پیدائشی مسلمانوں کا گھر تھا جہاں 'دین اور دنیا ساتھ ساتھ' کا نام لے کر زندگی گزاری جاتی ہے. جس نوجوان سے اس کا نکاح ہوا تھا وہ غصہ کا شدید تیز تھا اور مزاج میں بچپنا رکھتا تھا. غرض یہ کہ ایک نومسلم اپنی سابقہ کرسچن اور ویسٹرن ویلیوز کو چھوڑ کر ایک روایتی پاکستانی نژاد فیملی میں آئی تھی. میری زبان دعا گو تھی کہ الله اس رشتے کو کامیاب کریں مگر دل خوفزدہ تھا کہ بظاہر کئی عوامل ان کے خلاف تھے. 
.
مگر پھر میں نے دیکھا کہ دلوں کو بدل دینے والی ذات نے دل بدل دیئے. یہ گھر اس لڑکی کیلئے رحمت ثابت ہوا جہاں ساس کی صورت میں ایک پیار کرنے والی ماں اور شوہر کی صورت میں ایک بہترین دوست اسے میسر آیا. اس لڑکی نے دین کو صرف سمجھا نہیں بلکہ اپنے کردار کو اس میں ڈھال لیا. عبادات کی پابندی کے ساتھ جب اس نے اسکارف پہننے کی خواہش کی تو اردگرد کئی لوگ تذبذب میں پڑگئے. اس نے دین کو ایسی خوبصورتی اور خاموشی سے اپنایا کہ جدی پشتی مسلم عورتیں اسے اپنے لئے عملی نمونہ ماننے پر مجبور ہوگئیں. الله نے اس نومسلم کو بھی گھر میں اسلام کی مزید ترویج کا ذریعہ بنادیا. گویا اگر گھر لڑکی کے لئے رحمت ثابت ہوا تو یہ لڑکی گھر کیلئے نعمت قرار پائی. کئی عورتوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس لڑکی کے چہرے سے نور نکلتا محسوس ہوتا ہے. نور محسوس ہوتا ہے یا نہیں ؟ یہ تو میں نہیں جانتا مگر ہاں اتنا پورے شرح صدر سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک پاکیزگی کا احساس ضرور ہوتا ہے. آج بھی کبھی ملاقات ہوجائے تو تیزی سے آکر عظیم انکل کہہ کر ادب سے جھک کر سلام کہتی ہے. ایسی عزت کسی ادبی کہانیوں میں تو پڑھی ہے مگر ہماری پاکستانی ثقافت میں مفقود ہوچکی ہے. 
.
ایک زمانے بعد جب ملاقات ہوئی تو اس سے پوچھا تھا کہ بیٹا آج سچائی سے بتاؤ کہ تم نے اسلام کیوں قبول کیا تھا ؟ کیا محض اسلئے کہ تمہاری پسند کی شادی ہوسکے؟ .. اس نے نفی میں سر ہلاکر کہا کہ نہیں عظیم انکل ، ہرگز نہیں .. میں نے پوچھا تو پھر کیوں قبول کیا؟ .. کہنے لگی کہ "انکل میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ میں نے بائبل پڑھی." .. میں نے اس کی تصحیح کی کہ "تمہارا مطلب ہے کہ تم نے قران پڑھا؟" .. اس نے سنجیدگی سے کہا کہ "نہیں انکل ، میں نے اسلام اسلئے قبول کیا کیونکہ میں نے بائبل پڑھی" .. میں نے حیرت سے اسے تکتے ہوئے پوچھا "مطلب؟" .. اس نے سمجھایا کہ 'جب میں نے بائبل کو خود پڑھا تو مجھے احساس ہونے لگا کہ جو اس میں لکھا ہے وہ تو مسلم کہتے ہیں ، جو اس میں کرنے کو کہا گیا ہے وہ تو مسلم کرتے ہیں. کیتھولک چرچ میں بچپن سے ہم 'مدر میری' کے بت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنی حاجت مانگتے آئے ہیں مگر پوری بائبل میں ایسا کچھ نہیں لکھا، ہمیں تثلیث کا عقیدہ رٹوایا گیا ہے مگر اس کا کوئی ادنیٰ ذکر بھی بائبل سے ثابت نہیں، جیزس (حضرت عیسیٰ ع ) داڑھی رکھ کر جیسے نظر آتے تھے ویسے تو مسلم مرد نظر آتے ہیں. میری (مریم ع ) سر ڈھانپ کر جیسی دیکھتی تھیں ویسی تو مسلم خواتین نظر آتی ہیں اور اسی طرح کی بہت سی باتوں نے مجھے لاشعوری طور پر مسلمانوں سے قریب کردیا. میں یونیورسٹی میں مسلمان دوستوں کے ساتھ رہنے میں ہی بہتر محسوس کرتی حالانکہ ان میں کئی اچھے مسلم نہیں تھے. پھر جب مجھے اسلام قبول کرکے نکاح کا موقع میسر آیا تو میں نے اسے لپک کر قبول کرلیا اور آج مطمئن ہوں.' 
.
میرے لئے یہ لڑکی اور وہ گھر جس میں یہ لڑکی بیاہی گئی ، دونوں اپنی حقیقت میں مثال ہیں. جہاں ایک جانب اخلاص و قبول حق کی داستان دکھائی دیتی ہے تو دوسری جانب دین کے سامنے سب فاسد معاشرتی اقدار ہیچ نظر آنے لگتی ہیں. دعا ہے کہ رب کریم ان کی خوشیوں کو مزید بڑھائے اور مجھ جیسوں کو سیکھنے کی توفیق دے. آمین 
.
====عظیم نامہ====

کوئی ایک نیکی



کوئی ایک نیکی



یہ معمول بنالیجیئے کہ دن میں کم از کم کوئی ایک نیکی ایسی ضرور کریں گے جو فرائض کے علاوہ ہو، جسے آپ کسی سے نہ کہیں، جو آپ کے علاوہ صرف آپ کا رب جانتا ہو اور جسے رات میں سونے سے قبل سوچ کر آپ صدق دل سے الحمدللہ کہہ سکیں. کوئی بھی نیکی جیسے کسی غریب کو بہترین کھانا کھلادینا، کسی کے گھر شفٹنگ کیلئے سامان اٹھانے میں مدد کردینا، کسی کی عیادت کو چلے جانا یا کسی مایوس انسان کی ہمت بڑھانا وغیرہ. نیکیوں کے لاتعداد ایسے مواقع آپ کو روز حاصل ہوتے ہیں. انہیں ضائع نہ ہونے دیں. یہ بظاہر چھوٹی نیکیاں روز جزاء ان شاء اللہ چھوٹی شمار نہ ہونگی اور آپ کی مغفرت کا سبب بن جائیں گی. 
.
====عظیم نامہ====

وہ ایکسیڈنٹ



وہ ایکسیڈنٹ


کوئی پندرہ سال قبل میرے بڑے بھائی کا ایک زبردست ایکسیڈنٹ ہوا جس میں اس کے جسم کی بہت سی ہڈیاں ٹوٹ گئیں. ایک سال تک مختلف آپریشن ہوتے رہے اور جسم میں لوہے کی پلیٹیں ڈالی گئیں. اب وہ الحمدللہ الحمدللہ الحمدللہ پوری طرح تندرست ہے مگر اس دوران ایک قیامت پورے گھر پر گزرتی رہی. میں بھائی کے ساتھ ہی زیادہ وقت گزارتا تھا. ہسپتال میں جب شدت تکلیف سے وہ چیخیں مارتا تو میں بھی اس تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے نادانستہ اپنا جسم بری طرح نوچ لیتا. اس دوران بہت کچھ سیکھنے اور بہت کچھ غور کرنے کو بھی ملا. ایک روز بھائی کے پاس بیٹھا تھا اور اللہ پاک کی بیشمار نعمتوں کا ذکر ہورہا تھا. بھائی کہنے لگے کہ اللہ رب العزت کی ان گنت نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت 'بیہوش' ہوجانا ہے. میں نے حیرت سے استفسار کیا ، بیہوش ہوجانا کیسے نعمت ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جب تکلیف ایک حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ خود بخود بیہوش ہوجاتے ہیں. اس طرح اللہ پاک اپنے بندے کو اس کی حد سے زیادہ تکلیف میں نہیں ڈالتا اور حد گزرنے پر اسے درد سے عارضی طور پر بے نیاز کردیتا ہے. اللہ اکبر .. کتنی ہی بیشمار نعمتیں ایسی ہیں جنہیں ہم نعمتیں سمجھتے ہی نہیں. اسی دوران ایک آپریشن میں بھائی کے ہاتھ کی سرجری کی گئی. جب ہوش میں آئے تو ہاتھ مکمل کام کر رہا تھا مگر کوئی نس دبی رہ جانے کی وجہ سے محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا تھا. لہٰذا اب نہ تو وہ کھولتی ہوئی گرم چائے اور تازہ برف میں کوئی فرق کرسکتا تھا ، نہ ہی اسے یہ احساس ہوتا کہ کسی چیز کو اٹھانے کے لئے کتنی طاقت لگانا ضروری ہے؟ چانچہ کبھی تو کسی چیز کو اتنی طاقت سے اٹھاتا کہ وہ دور جاگرے اور کبھی کسی ہلکی سی چیز کو اٹھا کر پسینے میں شرابور ہوجاتا. سرجن نے دوبارہ آپریٹ کیا تو الحمدللہ حساسیت ہاتھ میں واپس لوٹ آئی. اللہ اکبر .. اس واقعہ سے قبل میں نے کبھی خیال بھی نہ کیا تھا کہ لمس محسوس کرنا اتنی عظیم نعمت ہے. میرے دوستوں اپنے رب کا کثرت سے شکر کیا کرو. ان نعمتوں کا جن کو تم جانتے ہو اور ان کا بھی جو تمہاری فہم سے اوجھل ہیں. شکایتیں نہ کرو ، ناشکری نہ کرو، قدر کرنا سیکھو ان لاتعداد آسائشوں اور نعمتوں کا جنہیں بن مانگے تمہارے رب نے تمھیں عطا کر رکھا ہے. کم از کم دن میں ایک بار تو دل سے پکارو .. 'الحمدللہ'  
.
====عظیم نامہ====

خلافت کا قیام اور متفرق مسلم مکاتب فکر - ایک تقابلی جائزہ




خلافت کا قیام اور متفرق مسلم مکاتب فکر - ایک تقابلی جائزہ 

=====================================
.
خلافت کہیئے، دار الاسلام قرار دیجیئے، نفاز شریعت لکھیئے، اسلامی فلاحی ریاست کہہ لیجیئے، مسلمانوں کا نظم اجتماعی پکاریئے یا قرانی نظام کا نام دیجیئے. حقیقت یہ ہے کہ مسلم امت کا ہرگروہ فرد اور معاشرے دونوں میں اسلام کے ظہور کی خواہش رکھتا ہے. وجہ یہی ہے کہ دین کے احکام جہاں فرد کی تذکیر کرتے ہیں وہاں معاشرے کے تزکیہ کیلئے بھی الہامی حدود کا اطلاق کرتے ہیں. یہ تو ممکن ہے کہ ایک گروہ یہ کہے کہ فرد کے رستے سے ہی معاشرے اور نظام میں اسلام کا حقیقی ظہور ہوسکتا ہے اور دوسرا گروہ یہ پکارے کہ فرد کا اپنا تزکیہ بھی اسی وقت ممکن ہوگا جب معاشرے یا نظام پر اسلامی اصولوں کا اطلاق کیا جائے. یا پھر کوئی تیسرا گروہ بولے کہ یہ دونوں ہی کام کو بیک وقت سرانجام دینا ہی درست سمجھ ہے. مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دین کے احکامات کو فرد، معاشرے، حکومت اور نظام ہر جگہ نافذ دیکھنے کا خواہاں نہ ہو. گویا منزل و خواب ہر مسلمان گروہ کا ایک ہے، پھر چاہے اس تک پہنچنے کے طریق اور اس حوالے سے دینی احکامات کی سمجھ میں اختلاف ہو. راقم اس سمجھ اور طریق کے گروہی اختلاف کو اجمالی طور پر بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہے. مقصد صرف ان گروہوں کی سمجھ کا بیان ہے ، کسی کی موافقت و مخالفت یہاں مقصود نہیں.
.
جہادی تحریکیں
=========
.
گو جہادی تحریکوں میں آپس میں بھی بہت فرق موجود ہے اور یہ ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں موجود ان تنظیموں کا تقابل یہاں کیا جاسکے. مگر ایک اصولی بات جو ان سب میں مشترک نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ مسلمان ممالک میں جاری ظالم اور کئی اعتبارات سے کفریہ نظام کو بازور طاقت خاتمہ کردینا چاہتے ہیں. یہ ان مغرب کے غلام کرپٹ حکمرانوں سے اقتدار چھین کر صالح افراد کے ہاتھ میں اسے سونپ دینا چاہتے ہیں. ان کے اس نظریئے کی یوں تو کئی دلیلیں ہیں مگر سب سے قوی دلیل وہ صحیح حدیث محسوس ہوتی ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ مسلم حکمران کی اطاعت اس وقت تک ہے جب تک وہ صریح کفر کا ارتکاب نہ کرنے لگے. اگر ایسا ہو تو پھر اس سے بغاوت کرکے اسکے خلاف طاقت استعمال کی جاسکتی ہے. یہ تحریکیں کہتی ہیں کہ اب چونکہ مسلم حکمران سودی نظام، استعماری قوتوں کی پشت پناہی سمیت بیشمار کھلے کفر کے ارتکاب میں ملوث ہیں لہٰذا ان کے خلاف تلوار اٹھانا جائز ہے. ان تحریکوں کے بارے میں عمومی مشاہدہ یہی رہا ہے کہ انکی اکثریت قبائلی مزاج کی ہے جہاں جدید تعلیم یافتہ اذہان بہت کم ہیں. میڈیا پروپیگنڈہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر اس سے انکار ممکن نہیں کہ ان میں کچھ گروہ نہایت سفاک اور دین سے بہت دور محسوس ہوتے ہیں. مگر ان کچھ گروہوں کو مثال بناکر تمام جہادی گروہوں پر منطبق کرنا صریح غلطی ہے. ان سفاک گروہوں کی مذمت بقیہ جہادی گروہ بھی کرتے نظر آتے ہیں. راقم کی رائے میں جہادی تحریکوں کا مقدمہ سب سے زیادہ مظبوط اور علمی انداز میں شیخ انور الاولاکی نے پیش کیا ہے
.
جماعت اسلامی / اخوان المسلمین وغیرہ
========================
.
یہ مسلمانوں کی وہ تحریکیں ہیں جو قومی سیاسی دھارے اور موجود جمہوری طریق سے منسلک ہو کر اسلامی نظام کو حصول اقتدار کے بعد نافذ کرنے کی خواہاں ہیں. یہ کہتے ہیں کہ چونکہ زمین اللہ کی ہے لہٰذا نظام بھی الله ہی کا نافذ ہونا چاہیئے. ان کا ماننا ہے کہ اگر مسلم عوام کے سامنے دیانتدار افراد کو نفاز شریعت کیلئے پیش کیا جائے تو وہ ضرور انہیں اپنے ووٹ یا موافقت سے کامیاب کریں گے. یہ دین کو تدریج سے نافذ کرنے کے قائل ہیں. اخوان المسلمین کو حال ہی میں اقتدار حاصل ہوا مگر افسوس کے جلد ہی فوجی آمریت سے اس کا خاتمہ کردیا گیا. کچھ تجزیہ نگار ترکی کے صدر طیب اردغوان کو بھی اسی سوچ سے وابستہ قرار دیتے ہیں. پاکستان میں حال ہی میں ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاسی کوشش بھی اسی سوچ کی ترجمان ہے. راقم کی رائے میں ان مذہبی سیاسی جماعتوں کا مقدمہ سب سے موثر انداز میں برصغیر کے جلیل القدر اہل علم اور جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلی مودودی نے پیش کیا 
.
تنظیم اسلامی
=========
.
یہ تنظیم دور حاضر کے ایک بہت بڑے صاحب علم، محقق اور ذہن ساز ڈاکٹر اسرار احمد رح نے قائم کی. آپ کے نزدیک خلافت کو پہلے کسی ایک ملک میں نافذ کر کے ایک مثالی ریاست کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا. جس کے ثمرات اور ترقی دیکھ کر باقی مسلم ممالک کو بھی اسکی ترغیب ہو. گو کے تنظیم کے نزدیک اس کے کارکن قومی سیاست  میں مذہبی جماعتوں کو ووٹ دے سکتے ہیں مگر ان کے نزدیک نظام کی تبدیلی نظام کا حصہ بن کر کبھی نہیں آسکتی. ڈاکٹر صاحب کے فلسفے کے مطابق خلافت منہاج النبوہ کا حصول صرف اور صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ٹھیک وہی اقدام اور ترتیب اپنائی جائے جو رسول اکرم ص نے مدینہ کی اسلامی ریاست قائم کرنے کے لئے اپنائی تھی. لہٰذا اس تنظیم کا ایک امیر مقرر ہوتا ہے جیسے کے آج کل حافظ عاکف سعید ہیں ، جن کے ہاتھ پر بیعت کرکے تنظیم میں شمولیت اختیار کی جاتی ہے،. اس کے بعد درج ذیل ترتیب اختیار کی جاتی ہے یا کی جائے گی
.
١. جماعت میں شامل ہر فرد کا قران و سنت سے تزکیہ کیا جائے اور اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے.
٢. جماعت سے وابستہ ہر فرد اسلام کو پہلے اپنی ذات اور پھر اپنے گهر پر نافذ کرے
٣. دوسرے مسلمانوں کو بلخصوص پڑھے لکھے اذہان کو بھی اسی نہج پر جوڑا جائے
٤. جب ایک بڑی تعداد انسانوں کی ایسی میسر ہو جائے جو اپنی ذات و خاندان پر دین کا نفاز کرچکے ہوں تو اب عملی میدان میں اترا جائے
٥. عملی میدان میں اترنے سے مراد ہتھیار اٹھانا نہیں بلکہ سڑکوں پر آنا ہے. اس میں لاٹھیاں پڑیں، جانیں جائیں یا جیلیں ہوں سب سہنا ہے مگر مقصد حاصل ہونے تک پیچھے نہیں ہٹنا
.
حزب التحریر
========
.
خلافت کے حوالے سے یہ دنیا بھر میں شائد سب سے پرانی، مضبوط اور مقبول تنظیم ہے. مغرب ہو، مشرق ہو یا عرب ممالک ہر جگہ ان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے. خلافت کے باریک سے بارک موضوعات پر بھی انکی کتب موجود ہیں. خلافت کیسے آئے گی؟ خلیفہ کیسے منتخب ہوگا؟ تفرقہ میں کسی سمجھ کو نافذ کرنا کیسے ممکن ہوگا؟ معاشی نظام کی باریکیاں کیسے حل ہونگی؟ کون سا فقہ نافذ ہوگا؟ غیر مسلم ممالک سے تعلقات کیسے ہونگے؟ اور ایسے ہی بیشمار سوالات کے شافی جوابات ان کی جانب سے پیش کئے جاتے ہیں. یہ علمی مکالمہ کرنا صرف پسند ہی نہیں کرتے بلکہ مقابل کو مکالمے کی دعوت دیتے ہیں. جتنا علمی کام اس موضوع پر ان کے ہاں ملتا ہے اسکی مثال موجود نہیں. آئین سمیت ہر شعبہ حکومت کا تفصیل سے بیان ان کے پاس موجود ہے. اس تنظیم کا قیام ایک بہت برے عالم شیخ تقی الدین نبہانی نے کیا. جن کی تحریریں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں. ان کا منہج تنظیم اسلامی کے منہج سے ملتا جلتا محسوس ہوتا ہے مگر کچھ ضمنی باتوں میں اختلاف بھی ہے. جیسے ان کے ہاں بیعت صرف خلیفہ کے ہاتھ پر ہی ہوسکتی ہے کسی تنظیم کے سربراہ کے ہاتھ پر نہیں، مغربی جمہوریت کو یہ کفریہ نظام کہہ کر اس کا حصہ نہیں بنتے اور اپنے کارکنان کو بھی ووٹ دینے سے منع کرتے ہیں وغیرہ راقم کی دانست میں ان کا سب سے بڑا اختلاف جو تنظیم اسلامی سے ہے وہ یہ کہ یہ 'نصرہ' کے اصول پر یقین رکھتے ہیں. یہ ثابت کرتے ہیں کہ مدینہ کی ریاست صرف تبلیغ و دعوت سے وجود میں نہیں آئی بلکہ رسول ص نے طائف، بنو عامر اور کئی دوسرے قبائل سے نصرہ طلب کی یعنی صاحبان اقتدار کو ریاست کا نظم حوالے کرنے کی ترغیب دی. جو باقی قبائل نے تو رد کی مگر مدینہ کے صاحب رسوخ افراد نے تسلیم کرلی. لہٰذا یہی وجہ ہے کہ آپ ص مدینہ میں رات کے اندھیرے میں داخل ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ عبدللہ بن ابئی کو حاصل ہونے والا اقتدار راتوں رات مسلمانوں کو منتقل ہوگیا. حزب التحریر کے بقول اب بھی یہی طریقہ کارگر ہوگا لہٰذا وہ ہر صاحب رسوخ چاہے وہ سیاستدان ہو یا فوجی جرنل اسلامی نظام کا قائل کرتے ہیں. ان کے نزدیک نظام کی تبدیلی تاریخی طور پر کبھی بھی تدرج سے نہیں آتی بلکہ انقلاب سے آتی ہے. 
.
شیخ عمران حسین کا فلسفہ 
=================
.
راقم کی رائے میں شیخ کو  'علم آخر الزماں' کا سب سے بڑا ماہر کہنا غلط نہ ہوگا.  شیخ عمران حسین خلافت کے پرزور مبلغ ہیں اور احادیث صحیحہ سے حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ حالات کی بھی پیشن گوئی کرتے ہیں. آپ ڈاکٹر اسرار احمد رح کی فکر سے بھی متاثر ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک ڈاکٹر صاحب کی قائم کردہ تنظیم اسلامی کی نارتھ امریکہ برانچ کے امیر رہے ہیں. اب آپ کچھ فکری اختلاف رکھتے ہیں. آپ خلافت کے قیام کی ہر ممکنہ اخلاقی و عقلی کوشش کے قائل تو ضرور ہیں مگر ساتھ ہی آپ کا تجزیہ یہ کہتا ہے کہ شاید خلافت کا حصول ظہور مہدی سے قبل نہ ہوسکے. اس قیام نہ ہونے کی وجہ صیہونی طاقتوں کا وہ جال ہے جو آج چاروں اطراف پھیلا ہوا ہے. مگر جیسا کہا کہ وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی سی کوشش کرتی جانی ہے تاکہ کل جب واقعی ظہور مہدی ہو تو ہمارا شمار موافق حالات پیدا کرنے والوں میں کیا جائے. فی الوقت وہ اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جہاں ممکن ہو سکے وہاں چھوٹے ماڈل ولیج (دارالاسلام) بنائیں جائیں. جدھر آپ حتی الامکان اسلام کا نفاذ کرکے زندگی گزاریں. یہاں ملحوظ رہے کہ وہ اس کوشش میں حکومتی نظم کو تباہ کرنے کے قائل نہیں صرف جتنا ممکن ہو کی شرط لگاتے ہیں. مثال کے طور پر کسی گاؤں میں سارے افراد مل کر اس گاؤں کی حد تک شریعت نافذ کرکے جیتے ہیں. اس وقت بارہ کے قریب ایسے علاقے بنائے جاچکے ہیں. ہر علاقہ کا ایک امیر ہوتا ہے. جب تک اصل خلافت کا قیام نہیں ہوتا تب تک شیخ کے نزدیک یہ زندگی گزارنے کا ایک بہتر طریق ہے. 
.
تبلیغی جماعت 
=========
.
اس طرز کی تمام جماعتیں خلافت کی شدید خواہش رکھتی ہیں مگر ساتھ میں ان کا نظریہ یہ ہے کہ فرد کی زندگی میں دین آئے گا تو وہ مختلف شعبہ زندگی میں جا کر دین کا ترجمان بنے گا اور یوں تدرج سے تبدیلی آتی جائے گی. یہ عملی طور پر نہیں تو نظریاتی طور پر دین قائم کرنے کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کے حامی ہیں. گو تمام تحریکیں ان کی خلافت کیلئے عملی کوشش نہ کرنے کی وجہ سے خفا ہیں. انہیں بھی ہم امام مہدی کے منتظر گروہ میں شمار کرسکتے ہیں 
.
علماء کے متفرق گروہ 
=============
بناء تفریق ہر مسلک کے علماء مختلف جہتوں سے خلافت کے حصول کی تمنا رکھتے ہیں. یہ اپنی تقریر و تحریر سے خلافت کیلئے متحرک گروہوں کی حمایت کرتے ہیں اور سننے والو کی ذہن سازی کرتے ہیں. اس پر سنی، شیعہ، سلفی، اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی، صوفی سب متفق ہیں. ہر گروہ اپنے اکابر علماء اور دین کی چودہ سو سال کی تاریخ کو بھی نظام خلافت کی تعبیر کے حق میں پاتا ہے اور پیش کرتا ہے 
.
فکر غامدی 
=======
.
جاوید احمد غامدی کو بجا طور پر برصغیر میں نظام خلافت کا سب سے بڑا مخالف تصور کیا جاتا ہے.  آپ اسلام کو ایک نظام تسلیم نہیں کرتے اور خلافت کے قیام کی کوششوں کو سیاسی تعبیر کہہ کر رد کردیتے ہیں. اس پر سہاگہ یہ ہے کہ آپ امام مہدی اور نزول مسیح کے بھی قائل نہیں. لہٰذا وہ موہوم سی تمنا جو خاموش گروہ خلافت کے ضمن میں رکھتے ہیں، ان کے یہاں وہ بھی مفقود ہے. مگر اس شدید تر مخالفت کے باوجود آپ اس کے قائل ہیں کہ ایک آئیڈیل مسلم معاشرہ وہی ہے جہاں معاشرتی بنیادیں اسلام پر قائم ہوں اور جہاں قانون سازی بھی قران و سنت سے کی گئی ہو. یہی وجہ ہے کہ وہ دیت کا قانون ہو یا اسلامی سزائیں. آپ ان کا انکار نہیں کرتے بلکہ جزیات میں تنقید و توثیق کرتے ہیں. لہٰذا آپ بھلے لفظ نظام کو تسلیم نہ کرتے ہوں مگر مسلمانوں کے موجود نظم اجتماعی کو دین سے قریب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ خلافت کے قیام کی جدوجہد کریں، اس کے برعکس ہم پر دعوت دین کی ذمہ داری ہے. معاشرہ چونکہ کوئی مجرد شے نہیں بلکہ فرد ہی سے تشکیل پاتا ہے. اسلئے فرد کا تزکیہ ہی اصل ہے. آپ جمہوریت ہی کو دین کا اصل طریق سمجھتے ہیں اور ایسی سیاسی کوششوں کے مخالف نہیں ہیں جو جمہوری طریق پر دینی اصلاحات کی خواہاں ہوں. گو یہاں بھی ایک طرف آپ ریاست کے اختیار کا تصور عام فکر سے مختلف پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف علماء کی کسی بھی سیاسی کوشش کو ان کی اصل ذمہ داری سے فرار قرار دیتے ہیں. مولانا وحید الدین اور آپ کی فکر اس ضمن میں قریب قریب ہے.
.
فکر پرویز 
======
.
غلام احمد پرویز سمیت جتنے بھی نمائندہ قرانسٹ گروہ ہوئے ہیں وہ خلافت کے قیام کے پرزور حامی ہیں اور اسے 'قرانی نظام' کا نام دیتے ہیں. احادیث کے کلی یا جزوی انکار کے باوجود خالص قرانی فکر اپنانے کا دعویٰ کرنے والے پرویز صاحب اپنی تعلیمات کا محور ہی ایک ایسے نظام کے حصول پر رکھے ہوئے ہیں جہاں قران میں درج ہر ہر حکم کو معاشرے کی سطح پر رائج کیا جائے. ان کے یہاں یہ خواہش اتنی شدید ہے کہ دین کی دیگر معروف عبادات یا اصطلاحوں کو بھی اکثر نظام سے جوڑے دیتے ہیں. چنانچہ صلات ہو یا حج ، لفظ امر ہو یا مشیت یہ ان سب کو قرانی نظام ہی سے منسلک کر دیتے ہیں 
.
اب میں اس مضمون کا خاتمہ کرتا ہوں. یہ راقم کا ناقص تجزیہ ہے جو اس نے موجود مختلف دینی جماعتوں کے بارے میں بناء تنقید و توثیق کے پیش کردیا ہے. قارئین سے امید ہے کہ وہ غلطیوں سے درگزر کریں گے اور اس تحریر سے کچھ خیر کو ڈھونڈھ پائیں گے. ان شاء اللہ 
.
====عظیم نامہ==== 

Wednesday, 1 June 2016

اداس


اداس 



جسے محبت نہ ہوسکی وہ انتظار کر کر کے اداس ہوا 
جسے محبت دغا دے گئی وہ آہیں بھر بھر کے اداس ہوا 
جسے محبت مل گئی وہ اس سے لڑ لڑ کے اداس ہوا 
.
تو میرے دوست کسی ذی نفس کے ملنے نہ ملنے کو اداسی کا سبب یا مداوہ نہ سمجھو. سکون و خوشی حالات و واقعات سے کہیں زیادہ آپ کی اپنی ذہنی کیفیت پر منحصر ہے. لوگ کروڑوں افراد سے زیادہ نعمتوں سے سرفراز ہوتے ہیں مگر پھر بھی اداسی کا کوئی نہ کوئی پہلو ایجاد کرلیتے ہیں. حقیقی سکون کے متلاشی ہو تو خواہشات نفس کی تکمیل سے اپر اٹھنا ہوگا. "صبر" ، "شکر" اور "توکل" کو اپنالینے والا نہ کبھی اداسی کے گرداب میں پھنستا ہے نہ مایوسی کی دلدل میں دفن ہوتا ہے. 
.
====عظیم نامہ====

عذاب قبر ایک سرکش کو زیادہ دوسرے کو کم؟



عذاب قبر ایک سرکش کو زیادہ دوسرے کو کم؟



سوال:
عظیم بھائی اگر اللہ پاک کا کوئی سرکش و نافرمان آج سے ہزاروں سال پہلے مرگیا تھا اور ٹھیک اتنا ہی سرکش و نافرمان آج مرجاتا ہے تو عقل کہتی ہے کہ پہلے سرکش کو روز قیامت آنے سے پہلے ہزاروں سال کی سزا عذاب قبر کی صورت مل چکی ہوگی. جب کے دوسرا سرکش پہلے کے مقابل بہت فائدے میں رہا کہ اس کی موت قرب قیامت کے دنوں میں ہوئی. اسے کیسے سمجھا جائے؟
.
جواب:
سب سے پہلے تو یہ جان لیجیئے کہ عذاب قبر ان امور غیب میں سے ہے جن کا کَماحَقُّہ جان لینا ہمارے بس میں نہیں ہے. البتہ قران و حدیث میں موجود اشاروں سے ہم اس کے ضمن میں کچھ اندازے ضرور قائم کرلیتے ہیں. جن کے بارے میں اہل علم علمی اختلاف بھی کرتے ہیں. کس کو عذاب ہوگا؟ کیسے عذاب ہوا؟ روح پر ہوگا یا جسم پر ہوگا؟ قبر میں ہوگا یا برزخ میں ہوگا؟ یہ تمام سوالات بہت تفصیل کے متقاضی ہیں. لہٰذا راقم اختصار کیلئے خود کو خاص آپ کے سوال تک ہی محدود رکھنے کی سعی کرے گا.
.
قران مجید میں کئی مقامات پر غور کرکے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ دیگر مخلوقات کی طرح 'وقت' بھی اللہ ہی کی ایک مخلوق ہے جسے وہ اپنے تصرف سے بدل سکتے ہیں اور بدلتے ہیں. چنانچہ سورہ البقرہ میں اللہ عزوجل نے اپنے ایک بندے کا واقعہ بیان کیا ہے جو کئی محققین کے نزدیک حضرت عزیر ع تھے. انہوں نے ایک بستی کے بوسیدہ کھنڈرات کو دیکھ کر اللہ پاک سے عرض کی کہ وہ کیسے ان مرے ہوئے افراد اور بستی میں دوبارہ زندگی ڈالے گا ؟ تو اللہ پاک نے سو سال کیلئے ان کی روح قبض کرلی. سو سال بعد جب وہ جاگے تو رب کریم نے پوچھا کہ کتنا عرصہ تمہارے خیال میں تم مردہ رہے یا سوتے رہے؟ ان کا جواب تھا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم. غور کیجیئے کہ سو سال مردہ رہنے کے بعد زندہ کئے جانے پر انہیں لگا کہ وہ کچھ گھنٹے ہی کو رخصت رہے ہیں. ان کے اس جواب پر اللہ پاک نے انہیں بتایا کہ تم سو سال مردہ رہے ہو لیکن دیکھو تمہارا کھانا جو تمھارے ساتھ تھا وہ ابھی بھی ویسا ہی تازہ ہے. جب کہ اپنی سواری کو دیکھو تو تمہارا گدھا سو سال سے مرا ہوا ہے اور اس کی بوسیدہ ہڈیاں زمین پر بکھری ہوئی ہیں. پھر اللہ پاک نے ان کے سامنے ان کے اسی گدھے کو ان ہی ہڈیوں کیساتھ دوبارہ تخلیق کر کے دکھایا . اسی طرح اصحاب کہف کے واقعے سے لے کر دیگر کئی واقعات میں قران مجید اسی حقیقت کو باور کرواتا ہے کہ قادر المطلق اسی دنیا میں ایک مخلوق یا شخحص پر وقت کو دراز کر دیتے ہیں اور دوسرے کیلئے نہایت مختصر.
.
اس ساری تمہید کو بیان کرنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ آپ جان لیں کہ آپ کا رب اس پر پوری طرح قادر ہے کہ وہ ہزاروں سال پہلے مرنے والے سرکش و نافرمان کو اور آج مرنے والے سرکش و نافرمان کو ٹھیک ایک جیسا عذاب دے سکے. مگر یہ صرف ایک زاویہ ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ جس کو عذاب قبر زیادہ ہوا اس کے عذاب جہنم میں کوئی تخفیف کردی جائے. یا پھر ایک مقررہ میعاد کے بعد کسی ایک کیلئے عذاب قبر کو ساقط کردیں اور دوسرے پر جاری رہنے دیں. فی الواقع کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں کوئی حتمی دعویٰ کرنا عبث ہے. جیسا بیان کا کہ یہ امور الغیب ہیں بلکہ کئی حوالوں سے امور المتشبھات ہیں جن کی مستقل کھوج کرنا درست نہیں. مومن کا یقین تو اس بات پر ہے کہ اس کا رب ظالم نہیں ہے اور ممکن ہی نہیں کہ وہ کچھ خلاف انصاف کرے. واللہ اعلم بلصواب.
.
====عظیم نامہ====