مولانا طارق جمیل کا خطاب
.
کچھ عرصہ قبل مولانا طارق جمیل انگلینڈ تشریف لائے. یوں تو آپ کا برطانیہ آنا کوئی پہلی بار نہ تھا مگر میرے لئے مولانا کا یہ دورہ اس بار زیادہ دلچسپی کا باعث تھا. وجہ یہ تھی کہ ان کا ارادہ میری مقامی مسسجد میں خطاب کا تھا. دیگر بہت سے احباب کی طرح میں بھی مولانا سے کئی فکری اختلافات رکھتا ہوں مگر ساتھ ہی میں آپ کی وسعت قلبی، جذبہ ایمانی اور پر اثر واعظانہ قابلیت کا تہہ دل سے مداح رہا ہوں. میں ہمیشہ ان کے لئے دل میں بے پناہ محبت اور عزت محسوس کرتا ہوں. شائد اسلئے کہ میں ان میں دوسروں کی طرح محقق یا مجدد تلاش نہیں کرتا بلکہ ایک واعظ اور داعی کو دیکھتا ہوں. میں ان میں ایک ایسا عظیم مبلغ پاتا ہوں جو شیخ عبدلقادر جیلانی رح کی طرح آپ کے روحانی وجود کو سادہ باتوں کے زریعے جھنجھوڑ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے. ان کے خطبات، میں علمی وسعت کیلئے نہیں سنتا بلکہ اسلئے سنتا ہوں کہ مجھے اپنی موت یاد آجائے اور میری آنکھیں ندامت سے بھیگ سکیں.
.
بہرکیف میں کہہ رہا تھا کہ مولانا اس بار ہماری مقامی مسجد میں تشریف لارہے تھے اور میرے لئے یہ خیال ہی باعث مسرت تھا. خطاب والے دن میں وقت سے کافی پہلے پہنچ گیا. ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہورہے تھے مگر میں سب سے آگے جگہ لینے میں کامیاب ہوگیا تھا اور یہ سوچ کر خوش تھا کہ اب مولانا میرے بلکل سامنے براجمان ہونگے. ابھی خطاب کے آغاز میں اور مولانا کے آنے میں کوئی آدھا گھنٹہ باقی تھا کہ میرے ایک پرانے دوست جو تبلیغ کے حوالے سے سرگرم رہتے ہیں ، میرے پاس بڑے جوش و محبت سے آئے. میں نے بھی اچھے سے معانقہ کیا. انہوں نے جوش سے کہا کہ عظیم بھائی آپ میرے ساتھ آئیں ، ہم نے بچوں کیلئے اسی مسجد کے سب سے آخری فلور پر مدرسہ قائم کیا ہے جو میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں. اب میں سٹپٹایا کہ اگر ان کے ساتھ جاتا ہوں تو مولانا کو بلکل سامنے سے سننے والی یہ بہترین جگہ چلی جائے گی اور اگر انکار کرتا ہوں تو میرے اس بھائی کی دل آزاری ہوگی جو نہایت محبت سے مجھے مدرسہ دکھانا چاہتا ہے. آخر دل پر پتھر رکھ کر میں نے ان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا. بجھے دل سے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ میں سب سے اپر فلور پر آگیا جو اس وقت خالی پڑا تھا. میرے وہ دوست مجھے مدرسہ کی تفصیل بیان کرنے لگے. جسے میں تندہی سے سنتا رہا. ابھی یہ کاروائی کو چند منٹ گزرے تھے کہ اچانک اس فلور کے دروازے پر کچھ ہلچل ہوئی اور مولانا طارق جمیل اندر داخل ہوئے. انہیں خطاب سے پہلے کسی دوسرے راستے سے یہاں لایا گیا تھا تاکہ نیچے ان کے گرد ہجوم جمع نہ ہوجائے. دروازہ بند کر دیا گیا. اب میں مولانا اور گنتی کے چند افراد کے ساتھ اس نو تشکیل شدہ چھوٹے سے مدرسہ میں موجود تھا. کہاں میں اس خیال سے پریشان تھا کہ اب مولانا کو سامنے سے سننے کا موقع نہ ملے گا اور کہاں اب وہ مجھ سے ہمکلام تھے. ساتھ نماز ادا کی ، باتیں کی اور پھر خطاب سنا.
.
ممکن ہے پڑھنے والو کیلئے یہ ایک معمولی سی بات ہو مگر واقعہ یہ ہے کہ میں جب بھی اس بات کو سوچتا ہوں تو بے ختیار مسکراتا ہوں. دل میں اطمینان ہے کہ میں اپنے وقت کے ایک ایسے عظیم مبلغ ایسے ولی سے ملاقات کرسکا جنہیں نسلیں یاد رکھیں گی. انشااللہ.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment